خیالوں میں تمہارا روز آنا بھی محبت ہے 

شاداب رضا صدیقی

( لکھنؤ، یوپی الھند)

خیالوں میں تمہارا روز آنا بھی محبت ہے

ہمارا بے سبب یوں مسکرانا بھی محبت ہے

مرے دل کے دریچے کھول جانا بھی محبت ہے

تمہارا اس طرح نظریں ملانا بھی محبت ہے

تمہارا بے تحاشا یاد آنا بھی محبت ہے

تمہاری یاد پر قابو نہ پانا بھی محبت ہے

ہمارے ہونٹ کاہل ہیں سو بس خاموش رہتے ہیں

سنو آنکھوں ہی آنکھوں میں بتانا بھی محبت ہے

مرا دل روتا رہتا ہے تمہیں معلوم بھی ہے نا

کہ رونے والی چیزوں کو ہنسانا بھی محبت ہے

تمہارے سامنے آتے ہیں میری عقل میرے ہوش

گرے پڑتے ہیں،، گرتوں کو اٹھانا بھی محبت ہے

سمندر کے جگر سے لوٹ آنا میری ہمت ہے

تیری آنکھوں میں میرا ڈوب جانا بھی محبت ہے

تو میری بات کو ہممم/ہاں میں چاہے ٹال دے لیکن

میری غزلوں پہ تیرا مسکرانا بھی محبت ہے

وداع لیتے ہوئے اشکوں کی بارش نہ صحیح صاحب

مگر آنکھوں میں انکا جھلملانا بھی محبت ہے

ضروری تو نہیں ہر بات کا مطلب بھی سمجھاؤں

تمہیں یوں ہی مری باتیں سنانا بھی محبت ہے

چلو اب اتنا کہتے ہو تو ہم بھی مان لیتے ہیں

"محبت وصل ہے” پر دور جانا بھی محبت ہے

منانے کو اسے سو سو بہانے ڈھونڈتا ہے کیوں

ارے شاداب اس کا روٹھ جانا بھی محبت ہے

تبصرے بند ہیں۔