خیالوں میں تمہارا روز آنا بھی محبت ہے
شاداب رضا صدیقی
( لکھنؤ، یوپی الھند)
خیالوں میں تمہارا روز آنا بھی محبت ہے
ہمارا بے سبب یوں مسکرانا بھی محبت ہے
…
مرے دل کے دریچے کھول جانا بھی محبت ہے
تمہارا اس طرح نظریں ملانا بھی محبت ہے
…
تمہارا بے تحاشا یاد آنا بھی محبت ہے
تمہاری یاد پر قابو نہ پانا بھی محبت ہے
…
ہمارے ہونٹ کاہل ہیں سو بس خاموش رہتے ہیں
سنو آنکھوں ہی آنکھوں میں بتانا بھی محبت ہے
…
مرا دل روتا رہتا ہے تمہیں معلوم بھی ہے نا
کہ رونے والی چیزوں کو ہنسانا بھی محبت ہے
…
تمہارے سامنے آتے ہیں میری عقل میرے ہوش
گرے پڑتے ہیں،، گرتوں کو اٹھانا بھی محبت ہے
…
سمندر کے جگر سے لوٹ آنا میری ہمت ہے
تیری آنکھوں میں میرا ڈوب جانا بھی محبت ہے
…
تو میری بات کو ہممم/ہاں میں چاہے ٹال دے لیکن
میری غزلوں پہ تیرا مسکرانا بھی محبت ہے
…
وداع لیتے ہوئے اشکوں کی بارش نہ صحیح صاحب
مگر آنکھوں میں انکا جھلملانا بھی محبت ہے
…
ضروری تو نہیں ہر بات کا مطلب بھی سمجھاؤں
تمہیں یوں ہی مری باتیں سنانا بھی محبت ہے
…
چلو اب اتنا کہتے ہو تو ہم بھی مان لیتے ہیں
"محبت وصل ہے” پر دور جانا بھی محبت ہے
…
منانے کو اسے سو سو بہانے ڈھونڈتا ہے کیوں
ارے شاداب اس کا روٹھ جانا بھی محبت ہے
تبصرے بند ہیں۔