آئے ہمیں نہ اشکوں کو نایاب دیکھنا
احمد نثار
میری کتابِ زیست کے ابواب دیکھنا
کتنے ہوئے ہیں چور مِرے خواب دیکھنا
…
پاگل، جنون، آگ، تماشہ، شکستِ دل
کیا کیا ملے ہیں عشق کو القاب دیکھنا
…
پوری کتاب چیخ کے کہتی ہے داستاں
دشوار ہوگیا تمہیں اک باب دیکھنا
…
اپنی خطائے الفتِ دل کے ثبوت پر
کیا کیا ستم اٹھاتے ہیں ارباب دیکھنا
…
پامال یوں ہی کرتے ہیں، غربت یہی تو ہے
آئے ہمیں نہ اشکوں کو نایاب دیکھنا
…
ہنستا ہوا وہ خوبرو چہرہ نگاہ میں
جیسے کسی گلاب میں مہتاب دیکھنا
…
خشک آنکھ میں نمی کی مثال ایسی ہے نثارؔ
جیسے سرابِ دشت میں ہے آب دیکھنا
تبصرے بند ہیں۔