چمن میں اختلافِ رنگ و بو سے بات بنتی ہے

ڈاکٹر سلیم خان

دین اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس کی بنیاد میں کوئی شک ،شبہ، تضاد یا اختلاف نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ فروعات میں اختلاف کی گنجائش بھی ہے۔ معروف حدیث ہے کہ ’’میری امت کا اختلاف نعمت ہے‘‘۔ فروعی اختلافات کو دبانے کے لیے جولوگ اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں ’’ اورآپس میں نزاع نہ کروکیونکہ کہیں ایسانہ ہو کہ تم شکست کھاجاؤ اورتمہاری ہوااکھڑجائے‘‘، وہ فروعی اور بنیادی امور میں فرق نہیں کرتے نیز اختلاف ، نزاع اور انتشار کے درمیان خلط مبحث کا شکار ہوتے ہیں ۔ان کی یہ دلیل قابلِ التفات نہیں ہےکہ اگر اختلاف نعمت ہے تو اس کی ضد اتفاق و اتحاد زحمت یا عذاب قرار پائے گی۔

اللہ تبارک و تعالیٰ تو اپنی کتاب میں دن اور رات دونوں رحمت و سکون قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن ضرورت اور حالت کا فرق انہیں رحمت بنادیتا ہے۔ کائناتِ ہستی میں حالات کے ساتھ ساتھ ضروریات میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ نت نئے مسائل اور مواقع رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ ان مسائل کو حل کرنے اور مواقع کا فائدہ اٹھانے کے معاملے میں علماء اور دانشوروں کے درمیان فروعی نوعیت کا اختلاف ہوسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس اختلاف کےانکار سے اجتہاد کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے اور جمود کا بول بالا ہوجاتا ہے۔

علمی تحقیق کی ابتداء بہت سارے اختلافات کو جنم دیتی ہے لیکن جب بحث و استدلال کے سہارے بات آگے بڑھتی ہے تو اختلافات کم ہوتے جاتے ہیں۔ فروعی معاملات میں اختلافات کا پوری طرح ختم ہوجانا ضروری نہیں ہے۔ اس لیے اپنی رائے سے اختلاف کا احترام کرنے کی کشادہ دلی تحقیق و ارتقاء کا جزو لاینفک ہے ورنہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و اشتراک تو دور استفادہ تک ممکن نہیں ہوگا۔ اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ خودپسندی ہے جو ایک حد کے بعدرعونت ونفرت میں بدل جاتی ہے۔ اس معاملے میں تابعین و سلف صالحین کا اسوہ سامنے رہے تو دشواری پیش نہیں آتی ۔ فروعی مسائل میں اختلاف کی بابت معروف تابعی قاسم بن محمد ؒ فرماتے ہیں’’رسول اللہؐ کے اصحاب کا اختلاف لوگوں کیلئے رحمت ہے‘‘۔

امام مالک ؒسے جب ہارون رشید نے اجازت چاہی کہ کیوں نہ اسلامی سلطنت میں موطا امام مالک نافذ کردی جائے توانہوں نے فرمایا ’’اے امیر المومنین علماء کا اختلاف اس امت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ ہرایک اپنے نزدیک صحیح ثابت شدہ امر کی پیروی کرتاہے اورہرایک ہدایت پر ہے اورہرایک کا مقصد اللہ تعالی(کی رضا)ہے‘‘۔

عام طوراس موقف کو مسترد کرنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اگلے وقتوں کی بات عصر حاضر میں نا ممکن ہے حالانکہ صرف ۳۱ سال قبل ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۷ ؁ کو رابطہ عالم اسلامی کی منظور کردہ قرارداد میں لکھا ہوا ہے ’’دوسری بات جو فقہی مسالک کے بعض مسائل میں اختلاف کے بارے میں تواس کے کچھ علمی اسباب ہیں اوراللہ جل شانہ کی حکمت بالغہ اس میں کارفرماہے جس میں سے ایک یہ اس کی اپنے بندوں پر رحمت اورمہربانی ہےاورنصوص سے احکام کے استنباط کے دائرہ کو وسیع کرنا ہے۔ اس سب کے علاوہ یہ ایک نعمت ہے اورفقہی دولت وذخیرہ ہے جس کے ذریعہ امت اسلامیہ اپنے دین کے تعلق سے وسعت اورفراخی میں ہے کہ اسے ایک ہی شرعی حل پر منحصر نہیں رہناہے کہ اس سے دوسرے کی جانب جایاہی نہ جاسکے ۔ بلکہ امت پر جب بھی کسی امام کے مسلک میں کوئی تنگی اوردشواری ہوتی ہے خواہ وہ کسی قبیل سے ہو تودوسرے امام کے مسلک میں نرمی اورگنجاش اورسہولت ہوتی ہے‘‘۔

امام احمد بن حنبل کے زمانے میں کسی نے فقہی وعلمی اختلافات پر ایک کتاب لکھی توانہوں نے کہا اس کو اختلاف کی کتاب نہیں بلکہ وسعت اورگنجائش کی کتاب کہو۔ تحقیق و اجتہاد کے میدان میں قدم رکھنے والوں کے لیےیہ وسعت قلبی ناگزیر ہے کیونکہ؎

اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔