جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا؟

ریاض فردوسی

 ( اے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ فرما دیں،اگر تمہارے باپ(دادا) اور تمہارے بیٹے(بیٹیاں) اور تمہارے بھائی(بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے ( دیگر ) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ ( عذاب ) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ (سورہ۔ توبہ۔ آیت۔ 24)

اللہ کے کلام کی اس آیت مبارکہ نے واضح الفاظ میں فرمادیا کہ اللہ کے لئے حب اور بغض ہے۔ ماں باپ، بھائی بہن، بیوی، بچے، مال ودولت، گھر، جائیداد، تجارت اور کاروبار، ہر چیز اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے ؛ لیکن اسی وقت جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجالانے میں رکاوٹ نہ بنے، اگر رکاوٹ بن جائے تو یہی چیزیں انسان کے لئے عذاب بن جاتی ہیں، اعاذنا اللہ منہ۔ اور اس کے انجام میں تمہیں ہٹا کر سچی دینداری کی نعمت اور اس کی علمبرداری کا شرف اور رشد و ہدایت کی پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے۔ فتح و کامرانی ایسے نیک اور سعید لوگوں کو میسر ہوتی ہے جن کا نصب العین بلند اور جن کی کاوشوں اورہمتوں کے ساتھ تائید ایزدی بھی کارفرما ہوتی ہے۔ اگر ظالم کے خلاف جنگ نہ کی جائے، اس کی زیادتیوں کو نہ روکا جائے مظلوم کی حمایت نہ کی جائے،ظالم و جابر،اورمانند فرعون کو موقع دیاجائے کہ وہ جس طرح چاہے، اپنے ملوکیت پرستانہ اغراض پورے کرلے تو پھرعدل وانصاف کا قیام ناممکن ہوجائے گا، دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اللہ کی وسیع وعریض زمین پر کوئی عافیت کی جگہ باقی نہیں رہے گی۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاد کی حکمت بیان فرمائی ھے کہ اگر جہاد نہ ھو تو زمین پر فساد برپا ھو جائے اور عبادت گاھوں کو ڈھادیا جائے یعنی اگر جہاد کی وجہ سے ظلم اور سرکش لوگوں کو ختم نہ کیا جائے تو پھر یہ زمین فتنہ اور فساد کی لپیٹ میں آجائے گی کافر مسلمانوں کی عبادت گاھوں کو گرا دیں گے اور مسلمانوں کو ختم کردیں گے مگر جہاد کے زریعے سے تمام فتنے ختم ھوجاتے ہیں اور زمین پر امن و سکون اور عدل و انصاف عام ھوتا ھے اور اللہ کادین اور نظام بلند رہتا ھے۔ قتال اللہ کے راستے میں کلمے اور دین کی سربلندی کی خاطر دشمنوں سے لڑنے کو کہتے ہیں۔

جن ( مسلمانوں ) سے ( کافر ) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے۔ (سورہ۔ الحج۔ آیت۔ 39)

 جب حکم جہاد صادرہوا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقینا یہ تباہ ہوں گے۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر چاہے تو بےلڑے بھڑے انہیں غالب کردے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لئے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو.(تفسیر ابن کثیر)

مکہ مکرَّمہ میں تیرہ (13) سال تک صبر وضبط کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی گئی۔ اِس سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم کا کوئی جواب دینے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہر زیادتی پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اولین آیت ہے جو نازل ہوئی۔ تحقیق کے مطابق ذی الحجہ 1 ھ میں نازل ہوئی، اور حکم جنگ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان 2 ھ میں نازل ہوا۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی، مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے۔ اور اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے نہایت بر محل تھا۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ابھارا جا رہا تھا۔ اور کفار کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ۔ دراصل ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ۔(تفہیم القرآن۔ )

 ہم تمہیں یقینا آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہوجائیں۔ (سورہ۔ محمد:آیت۔ 31 )

مجھے حکم دیا گیا ھے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہان تک کہ وہ اقرار کر لیں کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں(محمد) صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا رسول ھوں، اقرار کیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا سوائے اسلامی حق کے،اور اس کا حساب اللہ تعالٰی کے زمے ھے۔(البخاري ومسلم)

اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کردیا۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لئے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقالبے میں ایک بمشکل بیٹھتا۔ چنانچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شبخون ماریں۔ لیکن آپ نے فرمایا مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی(80) سے کچھ اوپر تھے۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ کے قتل کرنے کے درپے ہوگئے آپ کو جلاوطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے۔ اسی طرح صحابہ کرام پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے۔ بیک بینی ودوگوش وطن مال اسباب، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کرچل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم  کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا۔ اہل مدینہ محمدی

جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہوگئی۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری۔ اس میں بیان فرمایا گیا کہ یہ مسلمان مظلوم ہیں، ان کے گھربار ان سے چھین لئے گئے ہیں، بےوجہ گھر سے بےگھر کردئیے گئے ہیں، مکے سے نکال دئیے گئے، مدینے میں بےسرو سامانی میں پہنچے۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے منصور بن معتمر نے بیان کیا مجاہد سے‘ انہوں نے طاؤس سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتح مکہ کے بعد اب ہجرت ( فرض ) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت بخیر کرنا اب بھی باقی ہیں اور جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہوا کرو۔ ““(صحیح بخاری)(کتاب الجہاد)

اللہ رب العزت کے دین کی سربلندی اور مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کے لئے خوب محنت کے ساتھ کافروں سے مسلح جنگ کرنا یا جنگ کرنے والوں کی تمام ضروری امور میں بھرپور معاونت کرنا خواہ یہ جنگ ان کافروں سے ھو جن تک اسلامی دعوت پہنچ چکی ھو اور انہوں نے اس دعوت کو قبول نی کیا ھو یا ان کافروں سے ھو جو مسلمانوں پر حملہ آور ھوں(امیر کی اطاعت میں کافروں کے ساتھ جنگ کے کسی بھی شعبے میں کام کرنا جہاد ھوگا)(تعلیم الجہاد/صفحہ 3)

جو مظلوم اپنے گھروں سے بے قصور، محض اس جرم پر نکالے گئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے دفع نہ کرتا رہتا تو تمام خانقاہیں، گرجے، کنیسے اور مسجدیں – جس میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے – ڈھائے جاچکے ہوتے اور بیشک اللہ ان لوگوں کی مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کیلئے اٹھیں گے۔ بیشک اللہ قوی اور غالب ہے۔ (سورہ۔ الحج۔ آیت۔ 40)ترجمہ۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مدظلہ۔

حضرت صہیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مال دار ہو گئے ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا، کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ حضرت ام سلمہ اور ان کے شوہر ابو سلمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے۔ بنی مغیرہ ( ام سلمہ کے خاندان ) نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے پھرتے رہو، مگر ہماری لڑکی کو لے کر نہیں جا سکتے۔ مجبوراً بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ پھر بنی عبدالاسد ( ابو سلمہ کے خاندان والے ) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے، اسے ہمارے حوالے کرو۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال تک حضرت ام سلمہ بچے اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں، اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جارہی تھی جن سے مسلح قافلے بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ عیاش بن ربیعہ، ابو جہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا اور بات بنائی کہ اماں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ اس لیے تم بس چل کر انہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آ جانا۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ اے اہل مکہ۔ اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے۔ کافی مدت تک یہ بیچارے قید رہے ور آخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کو خیریت سے نہ نکلنے دیا۔ اصل میں سَوَأمِعُ اور بِیَعٌ اور سَلَواتٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب ور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیر رہتے ہوں۔ بیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صلوات سے مرد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ ( Salute )اسی سے نکل کر(Salutation)  لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کرتا رہتا ہے۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست، اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِا الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ، اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ ( آیت 251 )۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلق خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دین حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی و جہد کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے مدد گار ہیں، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور لڑے اللہ کی راہ میں وہ امیدوار ہیں اللہ کی رحمت کے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورہ۔ البقرہ۔ آیت۔ 218)

فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو اور شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورہ۔ البقرہ۔ آیت۔ 216)

جہاد بقائے ملت کا بنیادی اصول دشمنان اسلام سے دین اسلام کے بچاؤ کے لئے جہاد کی فرضیت کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے زہری فرماتے ہیں جہاد ہر شخص پر فرض ہے، خواہ لڑائی میں نکلے خواہ بیٹھا رہے سب کا فرض ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں جب ان سے فریاد کی جائے یہ فریاد رسی کریں جب انہیں میدان میں بلایا جائے یہ نکل کھڑے ہوں صحیح حدیث شریف میں ہے جو شخص مر جائے اور اس نے نہ تو جہاد کیا ہو نہ اپنے دل میں جہاد کی بات چیت کی ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور حدیث میں ہے، فتح مکہ کے بعد ہجرت تو نہیں رہی لیکن جہاد اور نیت موجود ہے اور جب تم سے جہاد کے لئے نکلنے کو کہا جائے تو نکل کھڑے ہو یہ حکم آپ نے مکہ کی فتح کے دن فرمایا تھا۔ پھر فرمایا ہے حکم جہاد گو تم پر بھاری پڑے گا اور اس میں تمہیں مشقت اور تکلیف نظر آئے گی ممکن ہے قتل بھی کئے جاؤ ممکن ہے زخمی ہو جاؤ پھر سفر کی تکلیف دشمنوں کی یورش کا مقابلہ ہو لیکن سمجھو تو ممکن ہے تم برا جانو اور ہو تمہارے لئے اچھا کیونکہ اسی سے تمہارا غلبہ اور دشمن کی پامالی ہے ان کے مال ان کے ملک بلکہ ان کے بال بچے تک بھی تمہارے قدموں میں گر پڑیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لئے اچھا جانو اور وہ ہی تمہارے لئے برا ہو عموما ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک چیز کو چاہتا ہے لیکن فی الواقع نہ اس میں مصلحت ہوتی ہے نہ خیروبرکت اسی طرح گو تم جہاد نہ کرنے میں اچھائی سمجھو دراصل وہ تمہارے لئے زبردست برائی ہے کیونکہ اس سے دشمن تم پر غالب آجائے گا اور دنیا میں قدم ٹکانے کو بھی تمہیں جگہ نہ ملے گی، تمام کاموں کے انجام کا علم محض پروردگار عالم ہی کو ہے وہ جانتا ہے کہ کونسا کام تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے اچھا ہے اور کونسا برا ہے، وہ اسی کام کا حکم دیتا ہے جس میں تمہارے لئے دونوں جہان کی بہتری ہو تم اس کے احکام دل وجان سے قبول کر لیا کرو اور اس کے ہر ہر حکم کو کشادہ پیشانی سے مان لیا کرو اسی میں تمہاری بھلائی اور عمدگی ہے۔ جہاد کے معنی ہیں کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی انتہائی کوشش صرف کردینا۔ یہ محض جنگ کا ہم معنی نہیں ہے۔ جنگ کے لیے تو ”قِتَال“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جِھَاد اس سے وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور اس میں ہر قسم کی جدوجہد شامل ہے۔ مجاہد وہ شخص ہے، جو ہر وقت اپنے مقصد کی دھن میں لگا ہو، دماغ سے اس کے لیے تدبیریں سوچے، زبان و قلم سے اسی کی تبلیغ کرے، ہاتھ پاؤں سے اسی کے لیے دوڑ دھوپ اور محنت کرے، اپنے تمام امکانی وسائل اس کو فروغ دینے میں صرف کر دے، اور ہر اس مزاحمت کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرے جو اس راہ میں پیش آئے، حتّٰی کہ جب جان کی بازی لگانے کی ضرورت ہو تو اس میں بھی دریغ نہ کرے۔ اس کا نام ہے ”جہاد“۔ اور جہاد فی سبیل اللہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اس غرض کے لیے کیا جائے کہ اللہ کا دین اس کی زمین پر قائم ہو اور اللہ کا کلمہ سارے کلموں پر غالب ہو جائے۔ اس کے سوا اور کوئی غرض مجاہد کے پیش نظر نہ ہو۔ (تفہیم القرآن۔ ۔ )تاریخ شاہد ہے کہ

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بدر کے میدان میں اور کبھی احد پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہیں‘ کبھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے ارد گرد خندق کھودتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کے قتل کا حکم دیتے، خیبر اور مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرتے اور کبھی سینکڑوں میل دور تبوک کی طرف سفر کرتے نظر آتے ہیں۔

بے معجزہ دُنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

آنحضرتﷺ جب غزوہ بدر کے لیے نکلے تو کئی کم عمر بچے بھی شوق جہاد میں ساتھ ہوئے۔ جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی بھی تھے۔ آنحضرتﷺ نے مدینہ سے تھوڑی دور باہر آکر فوج کا جائزہ لیا تو بچوں کو واپسی کا حکم دیا۔ حضرت عمیر نے یہ حکم سنا تو لشکر میں ادھر ادھر چھپ گئے لیکن آنحضرتﷺ کو اس کی اطلاع ہوگئی۔ اور آپ نے واپسی کا ارشاد فرمایا۔ جسے سن کر آپ روپڑے۔ اس شوق اور تڑپ کو دیکھتے ہوئے آخر آپ نے اجازت دے دی۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

” تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا ہے۔ جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو-“ (متفق علیہ)

صحابہ  اکرام رضوان اللہ تعالی علیھم جہاد میں شرکت کے لیے کس قدر حریص ہوئے تھے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لئے یہ واقعہ کافی ہے کہ حضرت سعد بن خشبہ  رضی اللہ عنہ جنگ بدر کے وقت کم عمر تھے۔ تاہم شرکت کے لیے تیار ہوگئے۔ چونکہ آپ کے والد رضی اللہ عنہ  بھی میدان جنگ میں جارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک کو ضرور گھر پررہنا چاہیے اور بیٹے کو گھر رہنے کے لیے کہا۔ بیٹے نے جواب دیا کہ اگر حصول جنت کے علاوہ کوئی اور موقعہ ہوتا تو بسر وچشم آپ کے ارشاد کی تعمیل کرتا اور اپنے آپ پر آپ کو ترجیح دیتا لیکن اس معاملہ میں میں ایسا کرنے کے لیے نہیں ہوں۔ آخر فیصلہ اس بات پر ٹھہرا کہ قرعہ ڈال لیا جائے۔ چنانچہ قرعہ میں بیٹے کا نام نکلا۔ وہ شریک ہوئے اور شہادت پائی۔رضی اللہ عنہ ورضو عنہ

 حوالاجات:  تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ۔ تفسیر ابن کثیر۔ کاملین۔ تفہیم القرآن۔ فیوض الرحمان۔ بیان القرآن۔ ترجمہ۔ کنزالیمان۔ اصابہ ج4 ص603۔ سیرت خاتم النبیینؐ ص362سیر انصار ج2ص 34۔

تبصرے بند ہیں۔