ختم رمضان اورتقوی کی زندگی

 محمد عبد اللّٰہ جاوید

 رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ-  رمضان المبارک دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے جدا ہوگیا۔ پتا نہیں چلا کہ کس تیزی کے ساتھ ا س کے شب وروز گذر گئے۔لیکن یہ سوچ کر دل  کو اطمینان نصیب ہوتاہے کہ ‘ اللہ کی بے پایاں رحمتوں اور مغفرت کی وسعتوں سے عبارت یہ ماہ مبارک پھر ہمارے درمیان آئے گا۔اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم پھر سے استفادہ کے لئے کمر بستہ ہوجائیں گے۔جب ہم گذر ہوئے ماہ مبارک کی آمد کا تصور کرتے ہیں تو ایک خوشگوار ماحول کی یاد ذہنوں میں تازہ ہوجاتی ہے۔ایسا ماحول جو ہر طرف خیر ہی خیر کی فضا سے پر تھا ۔

اللہ کی یاد سے ہماری زبانیں مصروف تھیں ۔اللہ کی خوشنودی کے لئے ہمارے جسم مشقت اٹھا رہے تھے ۔مسجدیں آباد تھیں ۔کبھی رات کے پچھلے پہر تو کبھی پوری شب ہمارے جسم بستروں سے الگ ہوجاتے تھے۔ صدقات و خیرات کے لئے دل کشادہ تھے۔ برائیوں سے بچنا اور دوررہنا اختیاری معلوم ہوتا تھا۔اور جب اس کے گذر جانے کے بعد ماحول پر غور کرتے ہیں تو یو ں محسوس ہوتا ہے کہ اس ماہ مبارک کے شایان شان استقبال اور اہتمام کے لئے کوئی دوسری ہی مخلوق اس زمین پر اترآئی تھی۔ جیسے ہی رمضان رخصت ہوگیا‘ ساتھ ہی وہ تمام اچھی خصلتیں بھی جد ا ہوگئیں جو ہماری پہچان بنی ہوئی تھیں ۔جو ہمارے شوق عبادت اور جذبہ ایمانی کی عکاسی کیا کرتی تھیں ۔اب اللہ کی یاد سے زبانیں نسبتاً کم مصروف رہنے لگی ہیں ‘ مسجدوں میں وہی پرانے مصلیان ہیں ‘برائیوں سے بچنا بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔کچھ ایسی ہی عمومی صورت حال سے آج ہمارا معاشرہ جانا پہچانا جاتا ہے۔الا ماشاء اللہ

رمضان المبارک میں روزہ جیسی اہم عبادت کے اہتمام کے بعد بھی یہ صورت حال دعوت غور و فکر دیتی ہے۔جس طرز پر اس عظیم عبادت کا اہتمام ہوتا ہے‘ ویسی کوئی دوسری عبادت نہیں ۔دراصل روزہ ‘ اخلاص و للہیت کے ساتھ کی جانے والی یہ ایک نہایت ہی عمدہ عبادت ہے۔اس کا اہتمام اس قدر حساسیت کے ساتھ ہوتا ہے کہ ایک لمحے کے لئے بھی اللہ تبار ک وتعالیٰ کی نافرنی گوارہ نہیں کی جاتی۔ جب ایک روز ہ دار‘ وضو کے دوران پانی اپنے منہ میں لیتا ہے‘ تو پانی کی ایک بوندکو حلق سے نیچے جانے کے لئے پلک جھپکنے سے بھی کم وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن پانی کی اتنی کم مقداراور وقت کی اس قدر کم مدت کے لئے بھی کوئی بندہ اللہ کی نافرمانی کے لئے راضی نہیں ہوتا۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ عبادت کے ایسے احسن انداز سے اہتمام کے باوجود اس کے اثرات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پاتے؟

روزہ کو فرض قرار دینے کی وجہ یہی بتائی گئی کہ اس کے ذریعہ تقویٰ پیدا ہو۔اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ایک بندہ کی ساری زندگی ‘ تقوی کی زندگی ہو۔ ا س کاکوئی لمحہ بھی اللہ کی محبت‘ اس کی یاد اور اس کی نعمتوں کے چھن جانے کے خوف سے خالی نہ ہو۔ایسی مومنانہ زندگی کے لئے تقویٰ اسی طرح لازم ہے جیسے ایک فرض شناس سپاہی کے لئے نظم و ڈسپلن اور ذمہ داریوں کا شعور ضروری ہوتا ہے۔ان اعلیٰ صفات کے بغیر وہ دشمن سے تو کیا خود اپنے وجودہی سے زبردست نقصان پہچانے کا ذریعہ بنے گا۔تقویٰ وہ اعلیٰ صفت ہے جو ایک بندہ کو ہمیشہ راہ خدا میں مصروف اور شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھتی ہے۔جس دل میں تقوی ہو اس کا وجود سراپا رحمت بن جاتا ہے۔ روزوں کے ذریعہ اس بات کی ٹریننگ ملتی ہے کہ تقوی حاصل کرنے کے لئے نمازوں کی پابندی‘ قیام اللیل‘ برائیوں سے اجتناب اور نفس پر کنڑول‘ صلہ رحمی اور ہمدردی و غم خواری کا معاملہ روا رکھنا بڑا آسان ہے۔ اللہ رب العالمین نے اس ماہ مبارک کے اہتمام کے ذریعہ یہ یقین ہمارے اندر پیدا کرتا ہے کہ نیکیوں پر چلنا اور برائیوں سے بچناممکن ہے‘ اور یہ ہر ایک کے بس کی بات ہے۔ورنہ ایسا نہ ہوتا توکیاپھر رمضان کی طرح کا اہتمام ‘ ہر مہینہ کے لئے نہیں ہوتا؟ جو بندہ اس حقیقت کو پا گیا ‘اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید ونصرت سے اسے تقویٰ کی زندگی میسر آتی ہے۔

رمضان المبارک کے اہتمام کی بدولت کئی ایک عظیم نعمتیں میسر آئیں تھیں ۔ جن کے سبب نیکی کی راہ پر چلنا بڑا آسان محسوس ہوتا تھا۔ان نعمتوں اور برکتوں کی یاد پھر سے ذہنوں میں تازہ ہو ۔اور یہ چاہ و طلب بھی پیداہو کہ ساری زندگی‘ تقوی کی زندگی بن جائے۔ جس کاہر پل اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں اسی طرح بسر ہو جیسے رمضان کریم میں معاملہ تھا۔

(1)  صبر

 اس ماہ مبارک میں ہمارے اندرصبر کا مادہ بد رجہ اتم موجود تھا۔شب و روز کے بیشتر معاملات میں اس کا بھر پور مظاہرہ ہوتا تھا۔ سچ بات ہے کہ صبرکی توفیق اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ صفت روشنی کی مانندہے جس کاپابند ایک بندہ‘ کبھی گمراہی کے اندھیروں میں نہیں بھٹکتا۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ صبر جیسی عظیم صفت کے حاملین کو اللہ تبارک و تعالیٰ کس نگاہ سے دیکھتا ہے‘ یہ صفت کس طرح ان کے اندر دیگر اہم مومنانہ اوصاف کو نشوونما دینے کا ذریعہ بنتی ہے۔قرآن ہم پر واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بے حد پسند فرماتا ہے (آل عمران:146)‘ عز م و حوصلہ او راولوالعزمی صابروں کی پہچان ہوتی ہے(الاحقاف:35) ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ خود اللہ کی بابرکت ذات رہتی ہے(البقرہ:153)۔ ذرا غور کریں تو اس کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیسی بڑی دولت ہاتھ آئی ہے۔ کیا یہ دانشمندی ہوگی کہ اس کو غفلت اور لاپرواہی سے ضائع کیا جائے؟نہیں بلکہ دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس عظیم نعمت کو اخلاق و کردار کا ایک اٹوٹ حصہ بنانے کے لئے بھرپور توجہ دی جائے۔

  رمضان کے شب و روز کی عبادات کوذہنوں میں تازہ کرتے ہوئے اپنے دل کو یہ سمجھایا جائے کہ صبر کرنا آسان ہے‘ اور ہر حال میں کیا جاسکتا ہے۔

   ہر معاملہ میں صبر سے کام لینے کا مزاج بنے‘ اپنا بھی اور اپنے اہل وعیال کابھی۔دن بھر میں انجام دئیے گئے ایسے تمام کاموں کا رات میں احتساب کیا جائے جو جلد بازی میں کئے گئے ہوں ۔ آئندہ ان پر قابو پانے کا مصمم ارادہ کیا جائے۔ کسی کے غلط رویہ پر‘ کسی کی نامناسب بات پر‘ وقت پر کسی کام کے نہ ہونے پر‘ اپنے مزاج کے خلاف کوئی معاملہ ہونے پر- کیا صبر کا دامن ہاتھ سے جاتا رہتا ہے؟ اس کابھی باربار جائزہ لینے پر بھر پورتوجہ رہے۔ یہ بھی دیکھا جائے  کہ ایسی کتنی عبادتیں کی جاتی ہیں ‘ جو صبر نہ ہونے کی صورت میں بے جان محسوس ہوتی ہیں ۔جن کے اہتمام میں دل نہیں لگتا؟ ابتلا و آزمائش اور ناسازگار حالات کے باوجود کیاعبادات اور راہ خدا میں سرگرمی کی وہی کیفیت برقرار رہتی ہے؟یا تھکاوٹ اور کمزوری کا غلبہ رہتا ہے؟

 ان امور کے پیش نظر روز مرہ کے کاموں پر کڑی نظر ہو۔ بارگاہ رب العزت میں خصوصی دعا بھی ہو کہ تادم حیات کسی بھی معاملہ میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے:

….  رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًاوَّتَوَفَّـنَامُسْلِمِیْنَ  (الاعراف:126)

اے رب‘ ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیاسے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں

(2)  تعلق باللہ

 صبرکے علاوہ اس بابرکت مہینہ میں ایسی کئی ایک خوبیاں بیدار ہوئیں تھیں جن سے تعلق باللہ مضبوط تر ہوجاتاہے۔نماز وں کی پابندی‘ راتوں میں قیام ‘تلاوت کلام مجید‘توبہ واستغفار‘ ذکر واذکار اور دعائوں کا خصوصی اہتمام‘بندگان خدا سے محبت و شفقت کا معاملہ وغیرہ ۔قرآن مجید ہمیں ایسے بندوں سے متعارف کراتا ہے جن کا اللہ رب العالمین سے بڑا گہرا تعلق ہے‘ وہ فی الواقعی کن کن نعمتوں سے بہرہ ور ہوں گے۔ ان کے اندر کونسی کونسی اہم صفات پروان چڑھیں گی۔قرآن واضح کرتا ہے کہ ان کے واسطے اللہ کے اجر عظیم کی بشارت ہے (البقرہ:277)‘ عجزو انکساری اور خشوع و خضوع ان کا نمایاں وصف ہوتاہے (المائدہ:55) ‘ وہ ایمان میں سچے و پکے ہوتے ہیں (الاعراف:170) ‘ صبر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہنے والے ہوتے ہیں (الرعد:22)اور کامیابی اور کامرانی ان کا مقدر بن جاتی ہے(المومنون:1-2)۔اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنے والے ان اعمال کو انجام دینے کے لئے میسر آئی آمادگی اور جذبہ‘ اللہ کا بڑا فضل ہے‘ اس میں کسی قسم کی کمی کو گوارہ نہ کیا جائے۔

  یہ بات کبھی ذہن سے اوجھل نہ ہو کہ قرب الہیٰ کا بڑا ہی موثر ذریعہ نماز ہے۔نماز کے قیام کے ذریعہ ہی سے سچے ایمان کی پہچان ہوگی۔ اور اسی کے ذریعہ اللہ کے دین کے قیام کی راہیں ہموار ہوں گی۔  پابندیٔ جماعت اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ نمازوں کااہتمام بڑا آسان ہے۔مگر وہ جڑا ہے اخلاص و للہیت کے ساتھ۔لہذا اس کے لئے آمادگی اور ایک نماز کے بعد دوسری کا انتظار‘ مزاج کی پہچان بن جائے۔ بچوں میں نماز سے متعلق بیدار ہوئے شعور کو نہ صرف زندہ رکھا جائے بلکہ اس میں بتدریج بہتری لانے کی بھی کوشش ہو۔انہیں مسجد کو ساتھ لے جانے‘ نماز میں پڑھی جانے والی آیات کی تشریح سنانے اور گھر میں بھی نوافل کے اہتمام کی جانب توجہ دلائی جائے۔اگر بچے شعور کی عمر کو پہنچے ہوں تو انہیں نفل روزوں کی اہمیت بھی بتلائی جائے۔اور بچوں پراحسن طریقہ سے واضح کیا جائے کہ ان عبادات کے اہتمام سے شخصیت پر کیسے شاندار اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

 رات کے پچھلے پہر اٹھنے اور قیام اللیل کا اہتمام کرنے کی ایک اچھی عادت بن گئی تھی‘اسے باقی رکھا جائے۔حسب استطاعت تہجد اور دیگر نوافل کا اہتمام ہو۔ حضور اکرم ﷺ کے اس ارشاد مبارک کے پیش نظر ہر ایک کونمازوں کے ذریعہ اپنا گھر سجانے اور سنوارنے کی فکر ہو نی چاہئے:

اَمَّا صَلاَ ۃُ الرَّجُلِ فِیْ بَیْتِہِ فَنُوْرٌفَنَوِّرُوْا بُیُوْتَـکُمْ (ابن ماجہ)

آدمی جو نماز اپنے گھر میں ادا کرتا ہے وہ سراپا نور کی مانند ہے‘تو پھر اپنے گھروں کو خوب روشن کرو  اللہ رب العالمین سے تعلق کا اظہار ان کے علاوہ اور بھی کئی اعلیٰ صفات سے ہوتاہے۔جتنا ممکن ہوسکے انہیں پیدا کرنے کی کوشش اور اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعا کا اہتمام ہو:

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ نَفْسًا مُّطْمَئِنَّـۃً تُؤْمِنُ بِلِقَا ئِکَ وَتَرْضٰی بِقَضَائِکَ وَتَقْنَعُ بِعَطَائِکَ (طبرانی)

اے اللہ میں تجھ سے ایسا نفس مانگتا ہوں جسے تیری جانب سے اطمینان نصیب ہو۔جسے مرنے کے بعد تجھ سے ملاقات کا پورا پورا یقین ہو۔اور تیرے ہر فیصلہ پر وہ راضی و مطمئن ہو اور جو کچھ تیری جانب سے عطا ہو اس پر وہ قناعت پسندی اختیار کرتا ہو

(3)  قرآن کریم سے گہرا شغف

 رمضان میں روزوں کا اہتمام‘ صبح و شام قرآن مجید کی تلاوت اور تراویح میں قرآن مجید سننے کا نظم خاص معمولات میں سے رہا۔ یہ ماہ مبارک –   ماہ قرآن سے عبارت ہے۔ الحمد للہ اس کے دوران ہر ایک کی کوشش یہی رہی کہ وہ کم سے کم ایک مرتبہ قرآن مجید کی تلاوت مکمل کرلے۔ اور جو پڑھنا نہ جانتا ہو اس کا یہ جذبہ رہا کہ مکمل قرآن مجید کو سننے کا اہتمام کیاجائے۔یہ بڑی سعادت مندی کی بات ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے کوئی ہم کلام ہورہا ہے۔وہ قرآن مجید تو پڑھتا ہے لیکن حقیقت میں اپنے رحیم و کریم آقا سے سرگوشی کرتا ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرنا‘ اس کو سننا اور سنانااور اس کی تعلیم دینا بڑا افضل کام بتایا گیا۔اللہ تبارک و تعالیٰ کے خاص بندوں کی پہچان ہوتی ہے کہ ان کا قرآن مجید سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے‘ جوں ہی اسے سنتے ہیں ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے(الانفال:2  –  السجدہ:15)۔ یہ قرآن مجید کا حق ہے کہ اس کے ساتھ ایک بندہ مومن کا ایسا ہی تعلق ہو۔وہ اس پر غور و فکر کرے (النسائ82  –  محمد:24) جب پڑھا جائے تو اسے توجہ اور خاموشی سے سنے(الاعراف:204)ا س طرح جو شخص نیک روش اختیار کرے اس کے لئے کامیابی و کامرانی کی بشارت ہے (الاسرائ:9) ۔ قرآن کریم سے قائم ہوئے اس تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش ہونی چاہئے:

 ہر دن‘ دن کا کوئی حصہ تلاوت قرآن مجید کے لئے مخصوص ہو۔قرآن کریم سے اس قدر گہرا تعلق پیدا ہو جائے کہ جس دن اس کی تلاوت نہ ہو ‘ اس دن ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہونے لگے۔اگر اس کی آیتوں پر عمل نہ ہو تو دل بے قراری اور بے اطمینانی محسوس کرنے لگے۔  قرآن کریم کی آیات پر غور و فکراور انہیں یاد کرنے کا اہتمام اس کتاب ہدایت سے تعلق کو مضبوط کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔اس کے توسط سے ایک شخص نہ صرف قرآن کریم  سے بلکہ پوری کائنات سے اپناتعلق قائم کرلیتا ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے‘ جس کام میں مصروف رہتا ہے اورجس چیز پر نگاہ ڈالتا ہے ….غرض اس کا ہر معاملہ قرآنی فکر و مزاج کے مطابق بن جاتا ہے‘گویا وہ ایک چلتا پھرتا قرآن ہے۔  بچوں کا قرآن کریم سے گہرا لگائو پیدا کرنے کے لئے خصوصی تربیت کا نظم ہو۔جنت کے مناظر ‘ جہنم کی ہولناکیوں کو بہتر انداز سے سمجھا یا جائے۔جنت کی نعمتوں کی چاہت اورعذاب جہنم سے بچنے کی فکر پیدا کی جائے۔ان کے عادات واخلاق سے خدائی احکاموں اور قرآنی قصوں کا بڑا گہرا ربط و تعلق قائم ہو۔

 بچوں کوقرآن کریم کی تعلیم دینے کے لئے والدین کی جانب سے ایک خاص وقت مقرر ہو۔ انہیں زیادہ سے زیادہ قرآن کویاد کرنے اور اسے سینے میں محفوظ رکھنے کی تلقین ہو۔ دوران تعلیم بچوں کو قرآن مجید حفظ کرنے کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔ یاپھر ہائی اسکول کی تعلیم سے قبل 2سال تعلیم کو منقطع کرکے قرآن مجید حفظ کرایا جاسکتا ہے۔اس عرصہ کے بعد اسکولی تعلیم جاری رکھنے کی پوری گنجائش بھی باقی رہتی ہے۔لیکن یہ دونوں صورتیں حالات‘ بچے کی ذہانت اور آمادگی پر منحصر ہیں ۔ سماعت قرآن کی محفلیں بعد رمضان کے بھی منعقد ہوں ۔جن میں چند آیات کی تلاوت کے ساتھ اس کی تفسیر بیان کرنے کا نظم ہو۔جو خواتین سماعت قرآن سے استفادہ کی ہیں ‘  انہیں خصوصیت کے ساتھ مخاطب کیا جائے۔

 قرآن سیکھنا اور سیکھانا ہر ایک کا محبوب مشغلہ بن جائے۔خاص کر خواتین کو اپنے پڑو س کی بچیوں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی نظم کرنا چاہئے۔اگر ہر خاتون سالانہ صرف چار پانچ بچیوں ہی کی تعلیم وتربیت کی ذمہ دار ی لے تو انشاء اللہ یہ معاشرہ‘ اللہ اور اسکے رسولﷺ کا پسندیدہ معاشرہ بن جائے گا۔  قرآن کریم سے گہراشغف پیدا کرنا اور ساری زندگی اسی کے مطابق گذارنا ‘اللہ رب العالمین کی توفیق پر منحصر ہے  :

اَللّٰھُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِیْ لِذِکْرِکَ وَارْزُقْنِیْ طَاعَتَکَ وَطَاعَۃَ رَسُوْلِکَ وَعَمَلاً بِکِتَابِکَ (طبرانی)

اے اللہ تو اپنے ذکر کے لئے میرے دل کے کان کھول دے۔اور مجھے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کی او ر اپنی کتاب قرآن مجید پر عمل کی توفیق نصیب فرما

(4)  دعااور ذکر و اذکار

رمضان المبارک کی عبادتوں میں سے خاص مصروفیات ذکر و اذکار اور دعائوں سے متعلق رہیں ۔ ذکر اس شعور کے ساتھ کیا گیا کہ اس کا بے انتہا اجر ہے۔ اور دعا اس جذبہ کے ساتھ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ روزہ دار کی دعا قبول فرماتا ہے‘ رد نہیں کرتا۔یہ یقین بھی رہا کہ افطار سے قبل کی جانے والی دعائیں بڑی مقبول ہوتی ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں یہ بتایاہے کہ ذکر و اذکار اور دعائوں کا اہتمام ہر حال میں باعث خیر ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد سے جس بندے کے ہونٹ ہلتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہوجاتا ہے۔جب دعا کی جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے اور خالی ہاتھ لوٹانے سے اس کو شرم آتی ہے۔ پھر اس قرآن میں ہم نے سنا کہ فلاح و کامیابی کے لئے اللہ کی کثرت سے یاد ضروری ہے (الجمعہ:10)‘ اللہ کے نیک بندے ہر حال میں اس کا ذکر کرتے ہیں (آل عمران :191)  ۔سبحان اللہ‘ کیا فضیلت ہے ان اذکار کی‘ ہماری دن بھر کی سرگرمیاں ان کے بغیر ادھوری محسوس ہونی چاہئیں :

َ  اللہ کے ذکرکاکثرت سے اہتمام ہو۔ذہنی یکسوئی اور آمادگی پیدا کرنے کے لئے نمازوں کے اوقات کے علاوہ دن کے مناسب ا وقات کا تعین ہونا چاہئے۔

َ جب بھی اللہ تعالیٰ سے دعامانگی جائے‘ اسی یقین کی کیفیت سے مانگی جائے کہ میرا رب دعا ئوں کا سننے والا ہے۔

َ  اہل و عیال کو بھی ذکر واذکار اور دعائوں کا پابند بنانا چاہئے۔ گھر کا ماحول اس طرح کا ہو کہ بچے فطری انداز سے ان کی تربیت حاصل کرنے لگیں ۔ گھر میں داخل ہوتے وقت ‘

    کھاتے وقت بلند آواز میں دعا پڑھنا‘ مختلف اوقات کی دعائوں کا اہتمام کرنا ‘ذکر و اذکاراوردعائوں کا چارٹ گھر کی دیواروں پر آویزاں کرنااورجو بچے زیادہ دعائیں یاد کریں

    انہیں خصوصی انعامات دینا-   افراد خاندان کی ذہن سازی کا موثر ذریعہ بن سکتے ہیں ۔

َ   اللہ رب العالمین سے التجا ہوکہ اسی کی توفیق وہدایت سے ذکر و اذکاراور دعائوں کا اہتمام ممکن ہے:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اُعَظِّمُ شُکْرَکَ وَاُکْثِرُ ذِکْرَکَ وَاتَّبِعُ نُصْحَکَ وَاَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ (ترمذی)

اے اللہ مجھے ایسا بنادے کہ میں تیری نعمتوں کی عظمت کو سمجھوں ‘ تیرا ذکر کثرت سے کیا کروں اور تیری نصیحتوں کی تابعداری کروں اور تیری وصیتوں کو خوب یاد رکھوں

(5)  یکسوئی کے ساتھ عبادت کا اہتمام

روزہ اور نماز کے علاوہ رمضان میں کی گئی دیگر عبادتوں میں یکسوئی اور دلجمعی کا بڑا خاص معاملہ رہا۔اس ماہ مبارک میں یکسوئی حاصل کرنے کی موثر ٹریننگ ملی۔مصروف سے مصروف ترین شخص بھی نمازاورافطار وغیرہ کے لئے اپنا وقت فارغ کرتا تھا۔اس کی مزید تربیت کے لئے اعتکاف کی بھی خصوصی ہدایت کی گئی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پوری یکسوئی کے ساتھ ایک بندہ اپنے رب کی جانب متوجہ رہے۔قرآن مجید کی تلاوت سے واضح ہوا کہ کسی شخص کا عبادت کے لئے یکسو ہونا‘ سیدنا ابراھیم  ؑکے اسوہ کی حقیقی معنوں میں پیروی کرنا ہے (البقرہ:135)‘ بندگی رب کے لئے یکسو ہوجانا حقیقت میں اپنی فطر ت پر قائم رہنا ہے (الروم:30)۔ دین کی اخلاص کے ساتھ پیروی یکسوئی کے بغیر ممکن نہیں (البینہ:5)۔اللہ کی بندگی کے شایان شان یہ بات ہوگی کہ ایک بندہ پوری طرح یکسوہوکر‘ حنیف بن کر اپنی زندگی بسر کرے :

َ  نماز کی ادائیگی اور قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ کے موقع پر توجہ کا کیا عالم رہتا ہے۔ اس کابے لاگ جائزہ اور بڑی بے دردی سے خود احتسابی ہو۔

َ  یکسوئی کا تعلق دل سے ہے۔ اگر دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت سے بڑھ کر کسی اور کی محبت ہو تو یکسوئی میں خلل پڑے گا۔اس لئے بار بار دل کا جائزہ لینا ‘دن بھر کی مصروفیات میں سے ایک اہم ترین مصروفیت بن جائے۔

َ   نماز‘ ذکر و اذکار ‘ دعا‘ قرآن کریم کی تلاوت کا شخصیت پر بڑا گہرا اثر اسی وقت پڑ سکتا ہے جب کہ ان کا توجہ اور یکسوئی سے اہتمام ہو۔اس کے لئے اوقات کا تعین بڑی اہمیت رکھتا  ہے۔ ایسا مزاج بنے کہ ان عبادتوں کا اہتمام ان کے متعینہ اوقات میں ہو‘دنیا کی کوئی مصروفیت او رکسی کی محبت اس کے لئے رکاوٹ نہ بنے۔

َ اس موقع پر دنیا سے بے رغبتی‘ قناعت پسندی‘ اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنے کا جو جذبہ بیدار ہوا ہے‘ اسے اسی طرح باقی رکھنے کی جی توڑ کوشش ہو۔یہ وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جن کے ذریعہ ایک بندہ قرب الہی کی منزلوں کو بڑی آسانی کے ساتھ طے کرتا چلاجاتا ہے۔اعلیٰ معیار زندگی کی بجائے کم سے کم سامان زندگی پر راضی ہونے کا مزاج بنایا جائے۔مختصر سامان زندگی سے مراد کیاہے کہ جس پر رضا مند رہنے کے لئے مکمل اطمینان نصیب ہو؟  رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں :

 مَنْ اَصْبَحَ مِنْکُمٰ امِناً فِیْ سِرْبِہْٖ  مُعَافاً فِیْ جَسَدِہٖ عِنْدَہٗ قُوْتُ یَوْم  فَکَانَّماَ حِیْزَتْ لَہُ الدُّنْیاَ بحَذَافِیْرِھَا  (ترمذی)

جو تم میں سے اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنی جان سے بے خوف ہو اس کا جسم ٹھیک ٹھاک ہواورایک روز کی خوراک اس کے پاس ہو تو گویا دنیا پورے ساز و سامان سمیت اس کے پاس جمع کردی گئی  دین اسلام پر یکسوئی سے عمل کا یہ عالم ہو کہ چلنا پھرنا ‘ اٹھنا اور بیٹھنا سب اسی کے مطابق ہو‘ اور لبوں پر رب العالمین سے یہ استدعا ۔

اَللّٰھُمَّ احْفَظْنِیْ بِالْاِسْلَامِ قَائِمًا واحْفَظْنِیْ بِالْاِسْلَامِ قَاعِدًا وَاحْفَظْنِیْ بِالْاِسْلَامِ رَاقِدًا…. (حاکم)

اے اللہ کھڑے ہونے کی حالت میں تو میری حفاظت اسلام کے ساتھ فرما۔بیٹھے رہنے کی حالت میں تو میری حفاظت اسلام کے ساتھ فرما۔ سوتے رہنے کی حالت میں تو میری حفاظت اسلام کے ساتھ فرما

(6)  نفس پر کنڑول

رمضان میں بڑے گناہ تو دور کی بات ایک بندہ‘ پل بھر کے لئے بھی خدا کی نافرمانی سے بچنے کا ملکہ اپنے اندر پیدا کیا تھا۔جیسے گناہوں سے وہ بچا‘ اس پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ برائیوں سے بچنا اور نفس پر مکمل کنڑول رکھنا نہایت آسان ہے۔اس دوران قرآن مجید نے بھی ہماری ذہن سازی اسی طرز پر کی کہ اللہ کے نیک بندوں کا اگر برائیوں پر سے گذر ہو تو وہ شریفانہ طریقہ سے گذرجاتے ہیں (الفرقان:72)اگر وہ بشری کمزوری سے کوئی برائی کربیٹھیں تو فوری اپنے رب کی طرف رجوع ہوجاتے ہیں (آل عمران :135)اور وہ کبھی باطل خیالات و افکار کی اتباع نہیں کرتے (الانعام:151)۔تقوی کی زندگی تقاضا کرتی ہے کہ فکر سازی کا کام اسی نہج پر ہوتا رہے:

َ  دل و دماغ ہمیشہ ا س بات پر مطمین رہیں کہ گناہوں سے بچنا نہایت آسان ہے۔ اس فکر کے سبب ایک ایسا آ ہنی عزم بیدار ہو جو حتی الامکان گناہوں سے دور رکھے۔

َ  جب کبھی کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فوری نیک کام کرنے کا مزاج بنے۔ گناہوں سے باز رہنے کا یہ ایک زرین اصول ہے جو ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ بتلاتے ہیں ۔

َ  رمضان میں روزوں کا اہتمام ‘ درحقیقت ایک شکر کا رویہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے اس ماہ مبارک میں قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کاملنا‘ ایک انتہائی مسرت و شادمانی کا موقع ہے‘ اس لئے دل کھول کر خوشیاں منائی جائیں (یونس57-58)‘اورساتھ ہی ساتھ جذبہ شکر سے سرشار ہوکر اللہ کی عبادت بھی کی جائے (البقرہ:185)۔یہی رمضان اور  روزوں کی حقیقت ہے ۔لہذا جب بھی کوئی خوشی میسر آئے‘ کامیابی ملے یا کوئی یادگار دن آجائے توبجائے غلط رسوم رواج میں پڑنے کے خوشی منانے کے اس الہی طریقے کو اپنا یا  جائے۔ خوشی منانے کا طریقہ ایسا ہو کہ ہر پل خوشی دینے والے رحیم و کریم آقاکو یاد رکھا جائے‘اس کی نافرمانی کی قطعاً گنجائش نہ رہے۔

َ  گناہوں سے بچنا ‘ اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ رب ذو الجلال والاکرام سے ہر وقت اسے طلب کرنے کا اہتمام ہو :

اَللّٰھُمَّ ….جَنِّبْـنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ….(طبرانی)

اے اللہ ہمیں کھلی اور چھپی ہر طرح کی بے حیائیوں سے محفوظ رکھ

(7)  مواساۃ و رحمت

بڑی خاص تاکید کی گئی تھی کہ اس ماہ مبارک میں ہمدردی اور غم خواری‘ مواساۃ ورحمت کا بھر پورمظاہرہ کیا جائے۔ غرباء کے دکھ درد کو محسوس کیا جائے۔ماتحتوں کے کام کے بوجھ کو ہلکا کیا جائے۔ اعزہ واقربا کی خبر گیری کی جائے۔الحمد للہ اس کا بڑی حد تک پاس و لحاظ رکھا گیا۔اس ماہ کی ٹریننگ ہی کچھ اس نوعیت کی تھی کہ ہر ایک کا دکھ درد محسوس ہونے لگا‘     بھوک اور پیاس کی شدت معلوم ہوئی‘ کمزوری کی حالت میں کام کرنے کی دشواری کا پتا چلا اور رزق کی کشادگی کی اہمیت معلوم ہوئی۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دوسرے پر رحم و کرم کا معاملہ ہی دین کے اصل میں سے ہے۔رمضان میں ہم نے سنا کے جگہ جگہ قرآن مجید ہمارے ذہنوں کو متوجہ کررہا تھا‘کہ اللہ کے سچے بندے رشتوں کو جوڑنے والے ہوتے ہیں (الرعد:21)‘ وہ قرابت داروں اور یتیموں سے حسن سلوک کرتے ہیں (البقرہ:177)‘ لوگوں کے قصوروں کو معاف کرتے ہیں (آل عمران:134)۔ اور یہ کہ عفو ودرگذر سے کام لینا‘ تقویٰ کی پہچان ہے(البقرہ:237)۔ لہذا ہر بندہ کی یہ پہچان بن جائے کہ و ہ جہاں رہے ‘سراپا رحمت بن کر رہے۔

َ  ہر حال میں اللہ کے فضل و کرم کا شعور تازہ رکھنا چاہئے۔ہمدردی و غمخواری وقتی معاملہ نہ رہے‘ بلکہ انہیں اپنا شعار بنانے کی حتی الوسع کوشش ہو۔افراد خاندان اور ایک مقصد کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے درمیان کے رشتوں کو ہمیشہ صحیح اور خوشگوار حالت میں قائم رکھنے پر توجہ ہو۔

َ  جن لوگوں کے ہم ذمہ دار بنائے گئے ہیں ‘ان کے ساتھ ہمیشہ رحم و کرم کامعاملہ ہونا چاہئے۔ ایک صحابیؓ کے عرض کرنے پر کہ ہم اپنے نوکروں کی غلطیوں کو کس حد تک معاف  کریں ۔آپﷺ نے فرمایا:

 اَعْفُوْ عَنْہٗ کُلَّ یَوْمٍ سَبَعِیْنَ مَرَّۃً (ابوداؤد و ترمذی)

دن میں ستر مرتبہ ان کی غلطیوں سے درگذر کرو

َ    جن کی پرورش کی ذمہ داری ہے‘ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں کسی قسم کی لاپرواہی نہ ہو۔ رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشادہمارے رویوں کو درست کرنے والا بن جائے۔

کَفٰی بِالرَّجُلِ اِثْمًا اَنْ یَّحْبِسَ عَمَّنْ یَّمْلِکُ قُوْتَـہٗ  (مسلم)

انسان کی تباہی و بربادی کے لئے یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی روزی اس کے ذمہ ہو اسے وہ روکے رکھے

َ   اعزہ و اقرباپر خرچ کرنے کے لئیاپنے مال و دولت کا ایک متعینہ حصہ ہو۔اس کی اتنی زبردست تاکید کی گئی ہے کہ اگر کوئی رشتہ دار سخت دشمنی بھی کرتا ہو تو اس کی بھی امداد کی جانی چاہئے۔ ایک صحابیؓ کے سوال پر رسول اکرم ﷺ نے بہترین صدقہ کے بارے میں فرمایا :

عَلیَ ذِیْ الرَّحِمِ الْکَاشِحْ  (ترغیب وترہیب)

آدمی کا ایسا صدقہ افضل ہے جو وہ اپنے ایک ایسے غریب رشتہ دار کو دے جو اس سے سخت دشمنی کرتا ہو

َ  اعمال صالح انجام دینے کے لئے ایک بندہ کو بس اللہ سے استعانت طلب کرنے ہی کی فکر دامن گیر رہنی چاہئے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ …..(موطا امام مالک)

اے اللہ میں تجھ سے اچھا عمل کرنے اور برے اعمال کو چھوڑ دینے کی توفیق مانگتا ہوں ۔اور اس بات کی بھی توفیق کا طلب گار ہوں کہ مجھے تیرے مسکین بندوں سے محبت ہو

(8)  رزق کی کشادگی

اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ بھی فضل رہا کہ اس ماہ مبارک میں رزق کشادہ کردیا گیا تھا۔ ہم نے خوب سیر ہوکر سحر ی بھی کھائی اور افطار بھی کیا۔ حالانکہ اس ماہ میں رزق کے حصول کی عام دنوں کی سی کوششیں نہیں ہوئیں تھیں ۔یہ بات اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ کشادگی رزق ہماری معاشی جدوجہد پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کے فضل پرمنحصر ہے۔اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے(البقرہ:212)۔جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے(القصص:82)۔ یہ محض اس کا فضل ہے ‘  اس سے اس کا فضل مانگنا ہی درست رویہ ہوسکتا ہے۔ جس کے لئے جتنی اہمیت اپنی نوکریوں اور دکانوں اور تلاش معاش پر وقت صرف کرنے کی ہے اس سے کہیں زیادہ اپنے رب کریم سے لو لگانے کی ہے۔قرآن کریم ہماری فکرکا ایک  رخ متعین کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ ہر ایک کے مقدر کی روزی متعین ہوچکی ہے (الزخرف:32)۔چنانچہ اسی حقیقت کے پیش نظر شب و روز گذرنے چاہئیں :

َ  ہر نماز کے وقت ‘ با لکل یکسو ہو کر قدم مسجد کی جانب بڑھیں ۔ایسا معمول نہ صرف ہمارا ہو بلکہ ان تمام کا بھی جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں ۔

َ  کوئی دنیوی مصروفیت ایسی نہ ہو جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد سے غافل کردے۔اللہ کی یاد اور اس کی قربت ہر شیئے سے زیادہ عزیز ہونی چاہئے۔

َ  یہ شعور پختہ سے پختہ تر ہوتا جائے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جس بندے کو جیسا رزق عطا فرماتا ہے‘ اس کے ساتھ اسی کے مطابق معاملہ بھی کرتا ہے۔ بنی اکرمﷺ فرماتے ہیں :

مَنْ رَضِیَ مِنَ اللّٰہِ بِالْیسَِرِمِنَ الْرِّزْقِ رَضِیَ اللّٰہُ مِنْہُ بِالْقَلِیْلِ مِنَ الْعَمَلِ (مشکوۃ)

جو اللہ کے عطا کردہ تھوڑے رزق پر راضی ہوا ‘ا للہ اسکے تھوڑے عمل سے راضی ہو جائے گا

َ  جس حال میں بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں ‘ اللہ کا یہ حق ہے کہ اس کی شایان شان بندگی کی جائے۔ رہی بات معاشی خوش حالی کی۔ اس کے لئے حتی الوسع کوشش ہو اور رب کریم سے دعابھی:

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُک مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ فَاِنَّہٗ لاَ یَمْلِکُھُمَا اِلَّا اَنْتَ  (بیھقی)

اے اللہ میں تجھ سے تیرا فضل اور تیری رحمت مانگتا ہوں ‘ بے شک تو ہی فصل اور رحمت کا مالک ہے

 (9)  اصلاح امت

مسلمانوں میں محبت و یگانگت ا ور باہمی اتفاق کی ایک بڑی خوشگوار فضا اس ماہ میں بنی رہی۔ مختلف مقامات پر سحر‘افطار اور دیگر کاموں کے موقع پر تمام مسلمان ایک ہوکر نظم میں جڑ جاتے تھے۔ مسلکی اختلافات اور گروہی تعصبات کا پتا ہی نہیں تھا۔ اس کیفیت کو برقرار رکھنا چاہئے۔یہ ملت ‘ ملت واحدہ ہے۔ اس لئے جب اتحاد ملت کی بات کی جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی پانی کے اجزا ہیڈروجن اور آکسیجن کو ایک ساتھ رہنے کی زور دارتاکیدکررہا ہو۔ جیسے پانی کے وجود سے ان دو اجزا کی جدا ئی کا تصور ممکن نہیں اسی طرح امت کے عدم اتحاد کا تصوربھی ممکن نہیں ۔اس لئے جب اتحاد ملت کہا جائے تو اس کا مطلب یہی لینا چاہئے کہ افرادِ ملت کو ایک مقصد کے تحت اسلامی اجتماعیت سے وابستہ کیا جائے۔

َ   مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش ‘ متعینہ مقصد کے ساتھ ہو۔ مقصد کے بغیر نہ اجتماعیت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔

َ   جن مساجد اور مدارس اور اداروں سے تعلقات بنے ہیں ‘ انہیں باقی رکھنے کی ایسی کوششیں ہوں کہ مل جل کرایک مقصد کے تحت کام کرنے اور مختلف مسائل کو حل کرنے کا ذہن بنے۔

َ   مقامی سطح کے ایسے مسائل کی نشاندہی کرلی جائے جن کے حل کے لئے ملت کے افراد اور اداروں کا تعاون لیا جاسکتا ہو۔جیسے تعلیمی بیداری‘ نادار اور یتیموں کی خبر گیری وغیرہ

َ   یہ بات تمام کے ذہنوں میں بیدار رہے کہ ملت کا وجوداللہ کی بندگی اور غلامی کرتے ہوئے اس کے بندوں کو راہ راست پر لانے کے لئے ہے۔ا س ضمن میں ایسی کوششیں ہوں کہ افرادِ ملت انفرادی او راجتماعی ‘ دونوں حیثیتوں میں اسلامی احکامات کی مکمل پابندی کرنے والے بن جائیں ۔اوربرادران وطن میں دعوت دین کا شعوراورجذبہ بھی ان کےاندربیدار ہو۔انہیں اچھی طرح احساس ہو کہ وہ ایک داعی گروہ ہیں ۔

َ   ملت کے اداروں کو صحت مند خطوط پر چلانے کی صورتوں پر تبادلہ خیال کا ماحول بنانا چاہئے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاشرہ میں ان کا وجود مثبت اور تعمیری ہو۔

َ  اصلاح معاشرہ کے لئے مساجد کے کردار کو بہتر بنانے‘رمضان کے مہینے میں سحری اور افطارکے لئے آواز دینے کا ایک ضابطہ بنانے‘ مسجدوں اور محلوں میں بچوں کے  کردارکوبہتر بنانے‘ مستحق لوگو ں کی امداد کرنے‘ غیر ضروری امور پر خرچ کرنے کی بجائے واقعی ضرورتوں پر پیسہ خرچ کرنے جیسے کاموں کے لئے ایک متفقہ لائحہ عمل تیارہو۔

َ  رب کریم سے خصوصی دعا کا اہتمام ہوکہ وہ اس ملت پر رحم فرمائے۔ہمارے درمیان الفت و محبت ہو‘ اور ہم ہر طرح کی آفات و بلیات سے محفوظ رہیں :

اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ ذَاتَ بَیْـنِنَا وَ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْ بِنَا وَاِھْدِنَا سُبُلَ السَّلاَمِ وَ نَجِّنَا مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ….(طبرانی)

اے اللہ ہمارے آپس کے تعلقات درست فرمادے۔اور ہمارے دلوں کو جوڑ دے ان میں محبت پیدا فرما۔اور ہمیں سلامتی کے راستوں پر چلا۔اور ہمیں ہر طرح کی گمراہیوں سے نکال کر کھلی روشنی میں لے آ۔

….لَـعَلَّکُمْ تَـتَّـقُوْن-   شاید کہ تم میں متقی و پرہیز گار بنو

رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے متعلق واضح کئے گئے ان چند امو رکے پیش نظر‘ انفرادی و اجتماعی کام کا ایک خاکہ بنے۔ جس پر عمل آوری کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل کرنے کی طلب بیداررہے۔صبر واستقامت‘ ایثار و قربانی اور مکمل یکسوئی کے ساتھ کاموں کو انجام دینے کا عزم وحوصلہ پیداکیا جائے ۔ایسے ہی طرز عمل سے ممکن ہے کہ ہمارے اندر تقوی کی وہ مطلوبہ مقدار برقرار رہے گی جس سے ایک کامیاب زندگی گذاری جاسکتی ہے‘جو روزہ کے الہی منشاء  لعلکم تتقون  کے شایان شان بھی ہوگی۔

اَللّٰھُمَّ ٰاتِ نُفُوْسَنَا تَقْوٰھَا وَ زَکِّھَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰھَا اَنْتَ وَلِیُّھَا وَ مَوْلَاھَا  (مسلم)

اے للہ ہمارے نفس کو تقویٰ عطا فرمااور اس کو پاک و صاف کردے اور اسکی نشوونما فرما‘ تو ہی سب سے اچھا تزکیہ فرمانے والا ہے‘ تو ہی اس کا نگہبان اور مالک و مولیٰ ہے۔

2 تبصرے
  1. Azam Khan کہتے ہیں

    ماشا اللہ بصیرت آموز. اللہ تعالٰی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے.
    جزاک اللہ خیرا برادر محترم عبداللہ جاوید بھائی

  2. ندیم کہتے ہیں

    ماشااللہ و بارک اللہ فیک

تبصرے بند ہیں۔