علامہ اعجاز فرخ حیدرآبادی کے اعزاز میں ادبی نشست منعقد

 شاہدکمال

علامہ اعجاز فرخ صاحب کے اعزاز میں جمیل عسکری صاحب کے دولت کدے پر(ڈالی باغ  نزد ،وی آی پی گیسٹ ہاوس )ایک شعری نشست کا انعقاد کیا گیا ۔اس شعری نشست کی صدارت پروفیسر مجاور حسین نے کی ۔علامہ اعجاز فرخ حیدرآبادی نے اس ادبی نشست میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ،یہ کہا کہ اردوزبان و ادب کا ابتدائی مرکز حیدرآباد دکن ہی رہا ہے ۔لیکن جب ہماری اردوزبان نے اپنی ارتقائی مسافت کا آغاز کیا تو حیدرآباد سے نکل کر دہلی کا رخ کیا اور دہلی میں یہ زبان اپنے  خط وخال کے ایک الگ شناختی امتیاز کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی ۔لیکن جب یہ زبان دہلی سے لکھنؤ آئی تو یہاں کی آب ہوا نے اس کے نقش ونگار اور رنگ و روپ میں مزید نکھار پیدا کردیا ۔اس لیئے کہ یہ زبان میر انیس ، مرزا دبیر،خواجہ حیدرعلی آتش اور ناسخ جیسے بلند پایہ شعرا نے اس کے زلف گرہ کی بڑی حسن و خوبی کے ساتھ آرئش کی اور اسے ایک مقام عطا کیا ۔

انھوں نے اپنی گفتگو کے دوران یہ بھی کہا کہ اردوزبان ہمیشہ زندہ رہے گی اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس زبان نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب وثقافت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔لہذا یہ زبان اس وقت تک زوال پذیر نہیں ہوسکتی جب تک یہ اپنی مشترکہ تہذیب کی نمائندگی کرتی رہے گی۔علامہ نے اردوزبان پر مختلف جہات سے اپنے خیال کیا اظہار کیا جسے لوگوں نے کافی دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ سنا اور ان کے بیان کی خوش اسلوبی سے شرکائے محفل نے کافی حظ اٹھایا۔

علامہ اعجاز فرخ کے منثور خیالات کے اظہار کے بعد اس ادبی نشست میں مدعوکئے گئے شعرا نے اپنی غزلوں سے اس ادبی ماحول کو مزید خوشگوار بنادیا ،اس نشست میں موجود سبھی شعرا نے اپنے کلام کی حسن آفرینی اور اظہار بیان سے اس نشست کے ادبی وقار کو مزیدخوبصورت بنائے رکھا۔میں چاہتا ہوں اس نشست میں شریک ہونے والے شعرا نے جو غزلیں سنائی تھیں ان کے چندہ اشعار اپنے قارئین کے لئے پیش کردوں۔

لہروں میں کیا جگمگ جگمگ دریا کے کچھ دامن تک

جلتے بجھتے جگنو بھی ہیں اس کی خا ک کے خرمن میں

میرے روز وشب میں جانے کیا کیا رنگ زوال ہوئے

کوئی خبر دیتا ہے شاید آئینوں سے دشمن تک

ڈاکٹر ظفراکبرآبادی

کلام کیوں نہ کریں ہم پرائے ہونٹوں سے

ہمارے پاس ہماری زبان کوئی نہیں

ہمیں تھا اپنی حکومت کا جائزہ درکار

ہم اس لئے سرنوک سناں چلے آئے

 ہلال نقوی

راستہ روک رہی ہے اک یاد

یہ بھی دیوار گرانی ہے ابھی

ڈاکٹر طارق قمر

ہم نے خود یہ حال بنایا ہے اپنا

ہم سے بتائیں مت کرئے ہمدردی سے

منیش شکلا

میری تنہائی میں اک وجد کی کیفیت ہے

رقص کرتا ہوں میں اک عالم اسرار کے ساتھ

ملنے کی کچھ خوشی نہ بچھڑنے کا خوف ہے

اے میری جان تو بڑی تاخیر سے ملا

شاہد کمال

مجھے یہ شوق ہے کہ سانپ پالتا ہوں میں

تمام سانپ بھی خوش اور آستین بھی خوش

حیدر علوی

اک درس بن کے اک پرے پروانہ رہ گیا

اوراق جل گئے مگر افسانہ رہ گیا

قائم مہدی

کس سے کہتی میں ترے درد کے قصے آخر

خوب روئی ہوں میں آئینہ مقابل کرکے

ہجر کی دھوپ پریشان کئے تھی اس کو

دوگھڑی ٹھہر کے جانے کے لئے آیا تھا

تارا اقبال رائے بریلی

جھوٹی شہرت کے لئے یہ نہیں بہتر ہاشم

اپنے اجداد کی تہذیب بھلا دی جائے

آل ہاشم

نشست میں موجود شعرا کے منظوم کلام کے بعد اس ادبی نشست کے صدر پروفیسر مجاور حسین رضوی نے اس شعری نشست کے ادبی ماحول پر اپنے خیالات کا اظہار اردو شاعری کے عصری پس منظر پر بڑی مدلل گفتگو کے ساتھ کیا ،انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اردوزبان وادب کا واقعی کوئی فروغ کا بہترین ذریعہ ہے تو ،ہمارے دانشوروں کی موجودگی میں ہونے والی اس طرح کی ادبی نشستیں ہیں۔لہذا اردوزبان و ادب سے قلبی لگاو رکھنے والوں کو چاہئے کہ اس طرح کے ادبی ماحول کو بناے رکھنے کے لئے ،اس طرح کی ادبی نشستوں کا اہتمام و انصرام ضرور کریں ،ورنہ ہمارے یہاں اردوزبان کے فروغ کے نام پر بہت سی اکادمی اپنی کاغذی خانہ پوری میں مصروف ہیں ،اور اردو کے نام پر ہونے والے مشاعروں کے حال سے آپ مجھ سے بہتر واقف ہیں۔لہذا اردوزبان کے نام پرہونے والی دھاندلی بازی کو لگام لگانے کا وقت آچکا ہے،اور اس طرح کے فرضی اداروں اور اکادمیوں کے نام پر ہونے والی غیر ادبی کارناموں کا سد باب ہونا چاہئے۔

اس ادبی نشست کی نظامت کے فرائض شاہدکمال نے انجام دئے۔

تبصرے بند ہیں۔