تو اتنا خوش گماں کیوں ہے؟

ڈاکٹر ابو معاذ ترابی

آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے عربی ہونے اور حرمین شریفین کے عرب ملک میں ہونے کی وجہ سے ہم بر صغیر کے مسلمان اس خطے اور یہاں کے باشندوں کے تعلق سے، غیر شعوری و غیر ارادی طور پر نہ صرف اپنائیت محسوس کرتے ہیں،بلکہ والہانہ عقیدت بھی رکھتے ہیں۔ اس عقیدت و محبت کا ایک بین ثبوت حالیہ خلیجی بحران کے تعلق سے سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارموں پر ہماری فعال شرکت ہے۔ گذشتہ ایک ماہ میں ہمارے اسکالرس، علماء ِکرام اور مفکرین ِ عظام کی طرف سے صرف سوشل میڈیا پر لکھے گئے پوسٹ و کمینٹس کو صفحات میں یکجا کیا جائے، تو ہزاروں صفحات پر مشتمل ایک کتاب تیار ہوجا۔

  ہم ایک کی دفاع، دوسرے کو مجرم ثابت کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں اور قیمتی اوقات صرف کر رہے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے جم کر لڑ رہے ہیں، اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے اور منوانے کے لیے جھوٹے سچے ثبوت پیش کیے جارہے ہیں۔ بعض تو نازیبا کلمات تک استعمال کرنے سے خود کو نہیں روک پارہے ہیں۔ کسی کو اپنی اسلامی حمیت کا ثبوت دینا ہے تو کوئی اپنی عقیدت و وفاداری ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ کسی کو اپنے علم کا لوہا منوانا ہے، تو کوئی حق کا ساتھ دینے کی جد وجہد میں لگا ہواہے۔ کچھ قلمکاروں کی طرف سے متوازن تجزیے بھی آرہے ہیں۔

 میرا تعلق ہندوستان کے جس شہر (آعظم گڑھ) سے ہے، وہاں سے کثیر تعداد میں لوگ، معاش کی غرض سے ایک لمبے عرصے سے خلیجی ممالک میں رہتے آرہے ہیں۔میرے بہت سارے دوست ان ممالک کے سفارت خانوں میں کام کرتے ہیں، ملازمت کے لوازمات کی ادائیگی کے سلسلہ میں گذشتہ10 سالوں میں یہاں کے باشندوں سے رابطے کامیرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ اپنے شہر کے لوگوں، دوستوں اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر بہت ہی وثوق و ذمہ داری سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حالیہ بحران کے تناظر میں آپ کا مقصد اسلامی اخوت و حمیت کا اظہار، حق گوئی یا غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کرنے میں سے جوبھی ہو، جن کے لیے آپ کمر بستہ ہیں،ان کے نزدیک آپ کی محنت و کوشش کی نہ کوئی اہمیت ہے اورنہ ہی کوئی وقعت۔ آپ کی حیثیت بے گانے کی شادی میں عبداللہ کی دیوانگی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

 بعض استثنائات کو چھوڑ کر پورے سماج میں بر صغیر سے آ ہوئے ملازمین کے ساتھ، عدم ِمساوات، بدسلوکی، بد اخلاقی، بدتمیزی، غیر مہذبانہ سلوک کے واقعات عام ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں کم ہیں، تو کہیں زیادہ، لیکن مجموعی طور پر ان کی نگاہ میں ہماری حیثیت ایک نوکر،بلکہ حقیر یا اچھوت کہا جائے تو مبالغہ ہرگز نہ ہوگا، سے زیادہ نہیں ہے۔ ہاں مغرب سے ان کی مرعوبیت کا عالم یہ ہے کہ ملازمت ہی کے لیے آئے ہوئے مغربی ممالک کے شہریوں کی عزت و تکریم اپنے لیے مایہ افتخار سمجھتے ہیں۔

 دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے یہاں غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان نہ تعلیم یافتہ ہیں اور نہ محنت کش، نتیجتاً راہ گیروں سے پیسے اور موبائل چھین لینا، عورتوں کا مساجد کے باہر دستگیری کرنا، روزی روٹی کی غرض سے عمر رسیدہ افراد کا ٹیکسی تک چلانا یہاں کے سماج میں عام ہو رہا ہے۔

پیروی و سفارش کا خوب چلن ہے، حقدار اپنے حقوق سے محروم ہیں اور نا اہل مناصب پر فائز ہو رہے ہیں۔ ایسے نوجوان آسانی سے مل جائیں گے جو اپنی زبان میں صحیح املا بھی نہیں لکھ سکتے پھر بھی باشندہ ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی ملازمت پرقابض ہیںاور بڑی بڑی مراعات سے نوازے بھی جاتے ہیں، لیکن صلاحیت میں کورے ہیں اورمحنت سے بالکل نا آشنا ہیں۔ قوانین کے تحت ملٹی نیشنل کمپنیوں کو طے شدہ فیصد شہریوں کو نوکری دینے پر مجبور کیا جاتاہے۔ ان کی نا اہلی، صلاحیت سے معذوری اور پروفیشنلزم سے عاری ہونے کی وجہ سے کمپنیاں ان سے درخواست کرتی ہیں کہ آفس میں آکر ماحول خراب کرنے سے بہتر ہے کہ وہ گھر رہیں، تنخواہ ان کے اکاؤنٹ میں پہنچ جائے گی اور ان کوو ذرہ برابر احساس نہیں ہے کہ اس طرح تنخواہ لینا حرام خوری کے زمرے میں آسکتا ہے۔

  اللہ کی کتاب تو ان کی مادری زبان میں تھی ہی، اللہ نے ان کو خوب دولت سے بھی نوازا ہے،ان کا اگر وہ صحیح استعمال کرتے، تو آج بہت سارے میدان میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لیے مرجع ہوتے، لیکن اس کا بر عکس ثابت ہو رہے ہیں۔

  سماجی، معاشی، تعلیمی اور فکری سارے نظام پسماندہ ہیں، یہاں کوئی ایسا نظام نہیں ہے ،جو رول ماڈل کا درجہ رکھتا ہو۔مہذب و ترقی یافتہ قوم ہونے کی  ایک بھی صفت اس سماج میں موجود نہیں ہے۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے جو ہمارے لیے قابل فخر، لائق اقتدا و باعث عقیدت ہو۔ ہماری حالت بالکل’’ ضعف الطالب و المطلوب‘‘ (مانگنے اور دینے والے دونوں کنگال ہیں) کی جیسی ہے۔خیرات و زکات کے علاوہ یہ کسی کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیںاورہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما، ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ، علماء کرام اور مفکرین اپنی پوری توانائی اور اپنے قیمتی اوقات غلط سمت میں صرف کرتے ہیں۔ دوسروں کے جھوٹے وعدے اور خیرات کے سہارے جینے کے عادی بن چکے ہیں۔ گذشتہ ایک مہینہ میں حالیہ خلیجی بحران کے تعلق سے ہم جتنے فعال رہے ہیں، اس کی نصف محنت بھی اگر اپنی بستی، سماج اور اداروں کی اصلاح پر کرنا شروع کردیں تو بہت کم عرصہ میں ہماری پہچان بدل سکتی ہے۔

 ہم کب اس واضح حقیقت کو سمجھیں گے کہ ہم جن سماجی، معاشی، تعلیمی، و فکری پسماندگی سے دوچار ہیں اس کو ہماری پیہم محنت اور اللہ کی نصرت کے علاوہ کوئی دور نہیں کرسکتا۔خودی کو بلند کرنے سے ہی ہماری تقدیر درخشاں ہو سکتی ہے۔دنیاکی تاریخ میں کسی ایسی قوم کی مثال نہیں ملتی جو خوش فہمی و خوش گمانی اوردوسروں کی مددوعطیات کی بنیاد پر ترقی یافتہ ہوئی ہو۔

  ہم اتنے غافل ہیں کہ نہ اپنی غلطیوں سے سیکھ رہے ہیں اور نہ تاریخ سے سبق حاصل کررہے ہیں۔جاپان اور کوریا اپنی محنت و خود اعتمادی کی بدولت نصف صدی کے اندر دنیا کے مہذب ترین اور ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکتے ہیں، تو ہماری جدوجہد کیوں بار آور نہیں ہو سکتی۔

 ہمارے پاس تو اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ٔحسنہ موجود ہے جن پر عمل پیرا ہوکر دنیا میں سربلندی اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کی ضمانت ملی ہے، پھر بھی ہم یکے بعد دیگرے ہر اسوہ کو اپنانے،آزمانے اور ناکام ہونے کے باوجود اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو مشعل راہ بنانے سے گریزاں ہیں۔

ہم یہ بھول رہے ہیں کہ اللہ کی کتاب اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آج بھی وہ طاقت ہے اور تا قیامت رہے گی، جس کی بدولت ریگستان میں بسنے والی ایک پسماندہ و قبائلی نظام کی پابند، بت پرستی و اوہام پرستی میں لت پت، جنگ و جدال میں ملوث، آباء و اجداد کی اندھی تقلید کی عادی، انسانیت ناسوز رسومات کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی قوم اپنے عقائد و کردار میں غیر معمولی تبدیلی لا سکتی ہے، اور وسائل کی قلت کے باوجود بہت کم عرصہ میں ایک ترقی یافتہ و مہذب امت بن کر کامیابی و کامرانی کی اوج ثریا پر فائز ہو سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. محمد عاطف فلاحی کہتے ہیں

    بہت عمدہ، ہم مصنف کی رائے سے متفق ہیں، وجہ سعودی میں پندرہ، سولہ سال رہتے ہوئے اپنا ذاتی تجربہ یہی کہتا ہے.

تبصرے بند ہیں۔