تفہیم القرآن ایک مطالعہ – قسط 2
مولانا محمد اسماعیل فلاحی
فقہی مسلک میں اعتدال
سید مودودی فروعی مسائل میں عام طور پر فقہ حنفی پر عمل کیاکرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے اندرتحزب اور تشدد نہیں، وہ قرآن کا مطالعہ مسلکی عینک سے نہیں کرتے ،پہلے سے طے کئے ہوئے طریقہ سے خالی الذہن ہوکر کسی جمود کا شکار ہوئے بغیر ذہن کے دریچوں کو واکرکے قرآن و سنت سے جس نتیجے پر پہنتے ہیں اسے بے کم و کاست بیان کردیتے ہیں۔ سورہ بقرہ میں طلاق کے سیاق میں ہے ولایحل لکم ان تأخذوا مما آتیتموھن شیئاً (بقرہ: 239) مولانا مودودی ترجمہ کرتے ہیں”اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو اس سے کچھ واپس لے لو۔“ اس پر حاشیہ 251 میں مولانا رقم طراز ہیں:
”یعنی مہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیزی بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے ۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکاہو واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے، مگرخصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لئے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خوددیاتھا، اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے، اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے جیساکہ آگے آیت 241 میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔“(تفہیم القرآن ج1ص175)
صاحب تفہیم کے اس دو ٹوک موقف کے برعکس فقہ حنفی میں مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ شوہر نے تحفے تحائف وغیرہ جو دئے ہیں انھیں واپس لے سکتاہے، البتہ مہر نہیں لے گا۔ اسی سیاق میں آگے ہے:”فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاًغیرہ (بقرہ: 23) مولانا اس کی ترجمانی یوں کرتے ہیں ”پھراگر(دوبار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار)طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لئے حلال نہ ہوگی ، الا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔“ اس پر حاشیہ 253 میں مولانا فرماتے ہیں :
”احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتاہے کہ اگرکوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لئے حلال کرنے کی خاطرکسی سے ساز ش کے طور پر اس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا تو یہ سراسر ایک ناجائز فعل ہے ، ایسانکاح، نکاح نہ ہوگا بلکہ محض ایک بدکاری ہوگی اور ایسے سازشی نکاح و طلاق سے عورت ہرگز اپنے سابق شوہر کے لئے حلال نہ ہوگی۔ حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ اور ابوہریرہؓ اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اس طریقہ سے حلالہ کرنے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔“
نکاح حلالہ کے معاملہ میں سید مودودیؒ کا یہ نقطہء نظرفقہ حنفی سے متصادم ہے ، احناف کے یہاں اگرچہ کہ یہ لعنتی فعل ہے لیکن نکاح منعقد ہوجائے گا۔
يہاں اس سے بحث نہیں ہے کہ سید مودودیؒ کایہ نقطہء نظرکتنا وزنی ہے، مقصود صرف یہ ہے کہ ان کے یہاں مسلکی تشدد نہیں ہے۔
سید مودودی اور روایات و آثار
سیدمودودی جس طرح مسلک کے معاملہ میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اسی طرح روایات کے باب میں بھی متوازن نظرآتے ہیں، روایات کو نظراندازکرتے ہیں اور نہ اس کی رعایت اور پاسداری میں اتنا غلوکرتے ہیں کہ کلام الٰہی پس پشت ہوجائے یا دوسرے شرعی اصولوں پر حرف آئے ۔ روایتوں کو قرآن اور دوسرے شرعی اصولوں کی میزان پر تولتے ہیں ، جوپوری اترتی ہیں انھیں لے لیتے ہیں ورنہ نظراندازکردیتے ہیں۔ اس لئے کہ کوئی بھی روایت کسی پہلو سے قرآن سے متعارض ہو تو وہ رسول کا قول کیسے ہوسکتی ہے ، قرآن پورا کا پورا قطعی ہے اور روایات ظنی ہیں، ولقد فتنا سلیمان وألقینا علی کرسیہ جسداً ثم اناب (سورہ ص:34) میں فتنہ سے کیامراد ہے ؟ اور ان کی کرسی پر جسد لاکرڈال دینے کا مطلب کیا ہے ، اس سلسلہ میں پہلے اسرائیلیات کی بنیاد پر دو طرح کی رایوں کا ذکرکرنے کے بعد ایک اور روایت ذکرکرتے ہیں، انہی کے الفاظ میں:
”تیسرا گروہ کہتاہے کہ حضرت سلیمانؑ نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی ستربیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہرایک سے ایک مجاہد فی سبیل اللہ پیداہوگا، مگریہ بات کہتے ہوئے انھوں نے ان شاءاللہ نہ کہا، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان سے بھی ایک ادھورا بچہ پیدا ہوا جسے دائی نے لاکر حضرت سلیمانؑ کی کرسی پر ڈال دیا۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہؓ نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے اور اسے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد روایتوں سے نقل کیاہے۔ خود بخاری میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقوں سے نقل کی گئی ہے ، ان میں کسی میں بیویوں کی تعداد 60 بیان کی گئی ہے ، کسی میں 70، کسی میں 99 اور کسی میں 100 ۔ جہاں تک اسناد کاتعلق ہے ان میں سے اکثرروایات کی سند قوی ہے اور باعتبار روایت اس کی صحت میں کلام نہیں کیاجاسکتا، لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکارپکار کر کہہ رہاہے کہ یہ بات نبی ﷺ نے اس طرح ہر گز نہ فرمائی ہوگی جس طرح وہ نقل ہوئی ہے ، بلکہ آپﷺ نے غالباً یہود کی یاوہ گوئیوں کا ذکرکرتے ہوئے کسی موقع پر اسے بطور مثال بیان فرمایا ہوگا اور سامع کو غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ اس بات کوحضورﷺ خود بطور واقعہ بیان فرمارہے ہیں۔ ایسی روایات کو محض صحتِ سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اتروانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بناناہے، ہرشخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتاہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشاء اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا، اگربیویوں کی کم سے کم تعداد 60 ہی مان لی جائے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ حضرت سلیمانؑ اس رات بغیردم لئے فی گھنٹہ 7 بیوی کے حساب سے مسلسل دس گھنٹے یا 11 گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے۔ کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟ اور کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حضورﷺ نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہوگی؟ پھر حدیث میں یہ بات کہیں نہیں بیان کی گئی کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمانؑ کی کرسی پر جس جسد کے ڈالے جانے کا ذکرآیاہے اس سے مراد یہی ادھورا بچہ ہے……..“ (تفہیم القرآن ج 4 حاشیہ 36 ص337)
اسی طرح قال بل فعلہ کبیرھم ھٰذا فسئلوھم إن کانوا ینطقون( انبیاء: 63) کا حاشیہ 60 میں مفہوم واضح کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آگئی ہے کہ حضرت ابراہیم اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں ایک ’جھوٹ‘ تو یہ ہے اور دوسرا’جھوٹ‘ سورہ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول إنی سقیم ہے اور تیسرا ’جھوٹ‘ان کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے ، جس کا ذکرقرآن میں نہیں بلکہ بائبل کی کتاب پیدائش میں آیا۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے، دوسرا گروہ اس ایک روایت کولے کر پورے ذخیرہء حدیث پر حملہ آور ہوجاتاہے اور کہتاہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیوں کہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں، حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابل اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطہء نظر سے کسی روایت کی سند کامضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کرکے صحیح مان لیاجائے، سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتاہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکاررہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی ﷺ کی فرمائی ہوئی نہیں ہوسکتی، اس لئے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور اگرمتن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھرخواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے ….“
اسی طرح سورہ حج کی آیت وما أرسلنا من قبلک من رسول ولا نبی إلا إذا
اگرلفظ کذب مغالطہ اور توریہ کے معنی میں آتا ہے جیساکہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کہتے ہیں تو پھر اس روایت میں کوئی قباحت باقی نہیں رہتی۔
تمنی القی الشیطان فی امنیتہ (حج:52) حاشیہ 101 ص238 تا245 پر تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتنی لتمرتجیٰ والی روایت پر سخت تنقید کی ہے ۔(تفہیم القرآن ج3)
اسی طرح وشھد شاھد من أھلھا(یوسف: 26) حاشیہ 26میں شاہد سے مراد بعض رایات کی بناپر شیرخوار بچہ لیاگیا ہے ، اس سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ ”یہ روایت نہ تو کسی صحیح سند سے ثابت ہے اور نہ اس معاملہ میں خواہ مخواہ معجزے سے مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے….“(اس روایت کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے لیکن یہ روایت عبداللہ بن عباس سے عوفی کے واسطے سے ہے (مظہری) اور عوفی کو امام نسائی، امام احمد، یحییٰ بن سعید القطان، ہيشم، ابوحاتم، ابن عدی، جوزجانی، ابن حبان، امام ابوداود اور ساجی وغیرہ نے ضعیف قراردیاہے۔ علوم القرآن ص494 ، ویسے مظہری نے ابوہریرہؓ سے بھی یہ روایت ذکر کی ہے۔)
تفہیم- اسرائیلیات کی تردید
اسی طرح تفسیر کے دوران اسرائیلیات کی بھی تردید کرتے گئے ہیں ، مثال کے طور پر سورہ طٰہٰ :87 میں ولکنا حملنا أوزارا من زینة القوم [لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے] اس پر صاحب تفہیم کا درج ذیل نوٹ ہے۔
اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جوبھاری بھاری زیورات پہن رکھے تھے وہ اس صحرانوردی میں ہم پر بارہوگئے تھے اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کوکہاں تک لادے پھریں لیکن بائبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہراسرائیلی گھرانے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگ کر لے لیے تھے اور اس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ’ہجرت‘ کے لیے چل کھڑا ہوا تھا۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیاہو بلکہ یہ کارخیراللہ کے نبی حضرت موسیٰؑ نے ان کو سکھایا تھا اور نبی کو بھی اس کی ہدایت اللہ میاں نے دی تھی۔“
اس کے بعد بائبل کی کتاب خروج باب 3 آیت 14 تا 22 اور باب 11آیت 2-3 ، باب 12آیت 34-35 کا حوالہ دینے کے بعد لکھتے ہیں:
”افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کرکے نقل کردیا ہے اور ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اسی لوٹ کا بوجھ
تھا….“(تفہیم ج3 ص۵۱۱-116 حاشیہ 67،سورہ طٰہٰ)
اس سورہ میں واحلل عقدة من لسانی یفقھوا قولی(طٰہٰ:27-28) کا ترجمہ کرتے ہیں ”اور میری زبان کی گرہ سلجھادے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں“اس آیت پر ان کا یہ نوٹ ہے۔
بائبل میں اس کی جو تشریح بیان ہوئی ہے ، وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا: اے خداوند، میں فصیح نہیں ہوں، نہ پہلے تھا اور نہ جب سے تو نے اپنے بندے سے کلام کیا، بلکہ رک رک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے۔ (خروج 01-04) مگرتلمود میں اس کا ایک لمبا چوڑاقصہ بیان ہواہے، اس میں یہ ذکر ہے کہ بچپن میں حضرت موسیٰ فرعون کے گھرپر ورش پارہے تھے، ایک روز انھوں نے فرعون کے سرکاتاج اتارکراپنے سر پر رکھ لیا، اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بچے نے یہ کام بالارادہ کیا ہے یا یہ محض طفلانہ فعل ہے۔ آخرکار یہ تجویز کیا گیا کہ بچے کے سامنے سونا اور آگ دونوں ساتھ رکھے جائیں۔ چنانچہ دونوں چیزیں لاکر سامنے رکھی گئیں اور حضرت موسیٰ نے اٹھاکر آگ منھ میں رکھ لی۔ اس طرح ان کی جان تو بچ گئی مگر زبان میں ہمیشہ کے لیے لکنت پڑگئی۔
یہ قصہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہوکر ہمارے يہاں کی تفسیروں میں بھی رواج پاگیا، لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے ۔ اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا بھی ہو تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اٹھا کر منھ میں لے جاسکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسوس کرتے ہی ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ منھ میں لے جانے کی نوبت ہی کہاں آسکتی ہے؟ قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہیں پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی (جس کا انھیں اس وقت تک اتفاق نہ ہواتھا) تو ان کی طبیعت کی جھجھک مانع ہوجائے گی۔ اس لیے انھوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھا سکوں۔“
اس کے بعد قرآن کی بعض آیات کے حوالہ سے اپنی بات مزید واضح کرنے کے بعد آگے لکھتے ہیں:
”یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ہکلے یا توتلے آدمی کو اپنا رسول مقررفرمائے۔ رسول ہمیشہ شکل و صورت، شخصیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوئے ہیں، جن کے ظاہرو باطن کا ہر پہلو دلوں اور نگاہوں کو متاثر کرنے والا ہوتاتھا۔ کوئی رسول ایسے عیب کے ساتھ نہیں بھیجاگیا اور نہیں بھیجا جاسکتا تھا جس کی بناپر وہ لوگوں میں مضحکہ بن جائے یا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔“(تفہیم ج3ص92-93 سورہ طٰہٰ حاشیہ 15)
سورہ انبیاء: 83-84 میں حضرت ایوب عليه الصلاة والسلام کا ذکرہے: وایوب اذ نادی ربہ انی مسنی الضر وانت ارحم الراحمین….وذکریٰ للعابدین. ترجمہ یوں کیا ہے”اور یہی (ہوش مندی اور حکم وعلم کی نعمت) ہم نے ایوب کو دی تھی ، یاد کرو جب کہ اس نے اپنے رب کوپکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے ، ہم نے اس کی دعاقبول کی اور جو تکلیف اسے تھی اس کو دور کردیا اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے اپنی خاص رحمت کے طور پر اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے“ ان آیات پر نوٹ ہے ، اس کا کچھ حصہ درج ذیل ہے۔
”دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے، مختصرترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ”توارحم الراحمین ہے“ آگے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں، کوئی عرض مدعا نہیں، کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرزدعا میں کچھ ایسی شان نظرآتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابروقانع اور شریف و خوددار آدمی پے در پے فاقوں سے بے تاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ ”میں بھوکاہوں اور آپ فیاض ہیں“ آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے۔“
آگے لکھتے ہیں:
”اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوبؑ کواس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبرکی تصویرنظرآتے ہیں اور پھر کہتاہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے نمونہ ہے ، لیکن دوسری طرف بائبل کے پیغمبرایوبؑ پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویرنظرآئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے….وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے….پے درپے خدا پر الزام رکھے چلاجاتا ہے…. وہ ایک ایک کرکے اپنی نیکیاں گناتاہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں اور پھر کہتاہے کہ خدا کے پاس اگرکوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیاگیا ہے….پھر ان کے (اللہ کے)اور ایوبؑ کے درمیان خوب دوبدوبحث ہوتی ہے ۔ اس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اس صبرمجسم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بناکر قرآن نے پیش کی ہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصہ کچھ کہہ رہا ہے، بیچ کا حصہ کچھ اور آخرمیں نتیجہ کچھ اور نکل آتاہے، تینوں حصوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے ….یہ کتاب خود اپنے منھ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہے نہ خود حضرت ایوبؑ کا۔ بلکہ یہ حضرت ایوبؑ کے زمانے کا بھی نہیں ہے ، ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصہ ایوب کو بنیاد بناکر ”یوسف زلیخا“ کی طرح ایک داستان لکھی ہے….“(تفہیم ج3 سورہ انبیاء حاشیہ 77 و79 ص 179-181)
سورہ القصص میں فوکزہ موسیٰ فقضیٰ علیہ قال ھٰذا من عمل الشیطان انہ عدومضل مبین قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفرلہ انہ ھو الغفور الرحیم(قصص:15-16)
اس آیت کی تشریح کے بعد لکھتے ہیں”اس معاملے میں بائبل کا بیان قرآن سے مختلف ہے، وہ حضرت موسیٰ کو قتل عمد کا مجرم ٹھیراتی ہے ۔ اس کی روایت یہ ہے کہ مصری اور اسرائیلی کو لڑتے دیکھ کر حضرت موسیٰؑ نے ’ادھرادھر نگاہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا‘(خروج2:12) یہی بات تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے ۔ اب یہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ بنی اسرائیل اپنے اکابرکی سیرتوں کو خود کس طرح داغدار کرتے ہیں اور قرآن کس طرح ان کی پوزیشن صاف کرتاہے، عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ایک حکیم و دانا آدمی جسے آگے چل کر ایک اولوالعزم پیغمبرہونا تھا اور جسے انسان کو عدل و انصاف کا ایک عظیم الشان قانون دینا تھا، ایسا اندھا قوم پرست نہیں ہوسکتا کہ اپنی قوم کے ایک فرد سے دوسری قوم کے کسی شخص کو لڑتے دیکھ کر آپے سے باہر ہوجائے اور جان بوجھ کر اسے قتل کرڈالے….“(سورہ قصص حاشیہ 22تفہیم ج3 ص 622)
سورہ صٓ فظنّ داؤد انما فتنا….فغفرنا لہ ذلک آیت 24-25 حاشیہ 27-28 میں اہل کتاب نے حضرت داؤدؑ پر زنا کا جو الزام لگایا ہے، اس کی دلائل سے تردید کرتے ہیں۔ (تفہیم ج4 ص324-331سورہ صٓ حاشیہ 27-28)
سورہ یوسف وشروہ بثمن بخش دراھم معدودة….(سورہ یوسف: 21) حضرت یوسف کو کنویں سے قافلہ والوں کے نکالنے کے بعد کس نے بیچا؟ شروا کا فاعل کون ہے ؟ مسلمانوں میں یہ روایت مشہور ہے کہ برادران یوسف نے حضرت یوسف کو قافلہ والوں کے ہاتھوں فروخت کیا تھا، پھرقافلہ والوں نے مصرلے جاکر بیچا۔ قرآن سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ بائبل کتاب پیدائش باب 37آیت 25 تا28 و36 اور تلمود سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔ صاحب تفہیم اس پر اچھی گفتگو کرتے اور کہتے ہیں کہ شروا کا فاعل اہل قافلہ ہیں ، برادران یوسف نہیں۔(تفہیم ج2 ص390)
سورہ یوسف 23 تا 29 میں امرأة العزیز کے ڈورے ڈالنے اور یوسفؑ کی پاک دامنی کا جس انداز سے ذکر ہے اس کا بیان بائبل میں جس بھونڈے طریقہ سے کیاگیا ہے اس کی دھجی صاحب تفہیم نے بکھیردی ہے، ملاحظہ ہو تفہیم ج2 سورہ یوسف حاشیہ 25 ص395-396)
سورہ یوسف آیت 50 میں ذکر ہے کہ شاہی فرستادہ جب یوسف کے پاس پہنچا تو انھوں نے پہلے اپنی پوزیشن صاف کرائی، معاملہ کی تحقیق ہوئی، مجرمین نے اپنے جرم کا اقرار کیا، اس کے بعد حضرت یوسفؑ بادشاہ سے ملنے آئے۔ بائبل بادشاہ کی طلبی پر جس انداز سے حضرت یوسفؑ کے آنے کا ذکر کرتی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو کتنا گراکر پیش کیا ہے اور قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان سے پیش کرتاہے۔ (تفہیم ج2 سورہ یوسف حاشیہ 42 ص407-408)
سورہ طٰہٰ آیات 115-124 میں آدم و حوا کی تخلیق، فرشتوں کے سجدہ، ابلیس کے انکار اور آدم و حوا کو بہکانے اور شجرممنوعہ سے کھانے پھر توبہ اور قبولیت توبہ اور دنیا میں آنے کا ذکر ہے ، لیکن بائبل میں اس واقعہ کو جس انداز سے پیش کیاگیاہے ، وہ قرآن کے بیان سے مطابقت نہیں رکھتا، اس میں کئی قابل اعتراض چیزیں ہیں، صاحب تفہیم ان پر گفتگو کے بعد آخرمیں لکھتے ہیں”بائبل کے اس بیان اور قرآن کے بیان کو ذرا وہ لوگ بالمقابل رکھ کر دیکھیں جو یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کرلیے گئے ہیں۔“(تفہیم ج3 سورہ طٰہٰ حاشیہ 106 ص134-136)
(مضامین ڈیسک)
تبصرے بند ہیں۔