تفہیم القرآن  ایک مطالعہ – قسط 1

مولانا محمد اسماعیل فلاحی

        تفہیم القرآن کے عظیم مصنف سے بھلے ہی بعض جزئی مسائل میں لوگوں کواختلاف رہا ہو، لیکن دوست اور دشمن سب اس بات کے معترف ہیں کہ اس عظیم شخصیت اور اس کی اس تالیف نے دنیائے انسانیت کے ایک خاصے حصے کو متاثرکیاہے۔ نہ صرف جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بلکہ مدارس عربیہ کے فارغین کے ذہنوں کو بھی کھولا اور وسعت فکرو نظر سے روشناس کیاہے۔ مغرب اور مغربی تہذیب سے مرعوب اور مستشرقین کی دسیسہ کاریوں کے شکار لوگوں کی مرعوبیت کو نہ صرف ختم کیا اور اعداء کے مکرو فریب کا پردہ چاک کیا ہے بلکہ انھیں اقدامی اور اور ہجوی پوزیشن میں لاکھڑاکیاہے۔ وہ کتاب الٰہی جو صرف علماء کے ہاتھوں میں تھی اور جسے عوام محض تبرک اور ثواب کے لئے پڑھا کرتے تھے اور انھیں فرمان الٰہی ”ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر“ (ہم نے اس قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے نہایت سہل، موزوں اور مناسب بنایا ہے ، تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟“ کے برعکس ایک مدت سے یہی سبق سکھایا گیاتھا اور آج بھی سکھایا جارہاہے کہ اس کتاب کو سمجھنا علماء کے بس کی بات ہے۔ عوام کے لئے صرف تلاوت کرلینا کافی ہے اور تلاوت نام رہ گیا ہے بے سمجھے بوجھے الفاظ قرآنی دہرالینے کا۔ اس عظیم شخصیت نے سادہ اور سہل ممتنع زبان میں اس تفسیر کی تالیف کرکے اسے عوام کے ہاتھوں میں پہنچادیا اور انھیں اس قابل بنا دیا کہ اس کتاب کے مدعا اور مفہوم کو سمجھ سکیں۔

        کوئی بھی تفسیر ہو بہرکیف وہ تفسیر ہے ، کوئی الہامی کتاب نہیں۔ اس کے مباحث سے اختلاف کیاجاسکتا ہے اور کیاجاتا ہے۔ دنیا کے جدید و قدیم ہر مفسر اور اس کی تفسیر کی طرح اس تفسیر کے مباحث سے بھی اختلاف و اتفاق ممکن ہے ۔ تفسیر کی جس کتاب کو بھی اٹھائیے جہاں اس میں آپ کو کام کی باتیں بلکہ لعل و گہرملیں گے وہیں ایسی چیزیں بھی نظرآئیں گی جو آپ کی عقل اور آپ کے علمِ کتاب و سنت کی رو سے آپ کے ذہن کے چوکھٹے میں فٹ نہیں ہوںگی۔ ممکن ہے وہ باتیں ہی غلط ہوں، ممکن ہے آپ کے ذہن و فکر کا چوکھٹا ہی درست نہ ہو، لیکن انسان اس معاملہ میں مجبور ہے۔ وہ بہرکیف اپنے مبلغ علم و فکر اور اپنی عقل ہی سے فیصلہ کرسکتاہے۔ فیصلہ صحیح بھی ہوسکتاہے اور غلط بھی۔

        اس تفسیر سے متعلق یہ غلط فہمی بھی ہے کہ یہ تفسیر بالرائے ہے اور تفسیر بالرائے صحیح تفسیر نہیں ہوتی ۔ حالانکہ اہل علم اس بات سے واقف ہیں کہ تفسیر بالرائے کی دو قسمیں ہیں؛ایک جائز اور محمود و پسندیدہ۔ دوسری ناجائز اور مذموم۔ پورے قرآن و سنت کی روشنی میں ، عربی زبان و ادب اور اس کے اسالیب کی مدد سے ، تدبر اور غوروفکر کرکے رائے اور اجتہاد سے مفسر استنباط کرتا اور تفسیر کرتاہے ، جس سے اس کا مقصد پہلے سے طے کئے ہوئے اپنے کسی نظریہ کی تائید حاصل کرنا نہیں ہوتا تو اس کا یہ عمل پسندیدہ ہے۔ اگریہ عمل ناپسندیدہ قرار دیاجائے اور تفسیر ماثور ہی پر اصرار کیاجائے تو پھر شریعت کے بہت سارے احکام ہی کالعدم ہوجائیں گے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ نہ تو نبی ﷺ سے ساری آیتوں کی تفسیر منقول ہے اور نہ صحابہ کرام سے۔ غوروفکر اور اجتہاد کئے بغیر چارہ نہیں۔ مجتہد نے اگراپنے بس بھر کوشش کرڈالی اور اس کا مقصد حق و صواب تک پہنچنا ہے تو اللہ کے نزدیک وہ اجرو ثواب کا مستحق ہے ، اگرچہ اس سے اجتہاد میں غلطی ہوجائے۔

        قرآن باربار غوروفکر اور تدبر پر ابھارتاہے اور اہل علم کا کام قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا استنباط بتاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

        افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا(محمد-24)تو کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں؟

        کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا اٰیاتہ ولیتذکر اولو الالباب (صٓ-29)یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور عقل رکھنے والے نصیحت حاصل کریں۔

        نیز صراحت کرتاہے کہ یہ بلسانٍ عربیٍ مبین(واضح عربی زبان میں اتراہے تاکہ اہل زبان اسے سمجھ سکیں ) ہے اور انا انزلناہ قرآنا عربیاً لعلکم تعقلون ( ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر اتاراہے تاکہ تم سمجھو۔)

        جگہ جگہ لعلکم تعقلون تاکہ تم سمجھو ، لعلکم تتفکرون تاکہ تم غوروفکر کرو جیسے الفاظ استعمال کرتاہے۔ اس طرح وہ قرآن پر تدبر کرنے اور اس کی آیات سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جولوگ اس وصف سے عاری ہیں انھیں انعام سے تشبیہ دیتاہے۔ وہ اہل علم اور ارباب دانش و بینش کی ذمہ داری بتاتاہے کہ اسی تدبر کے ذریعہ استنباطِ مسائل کریں۔ یہ بات بھی پیش نظررہے کہ قرآن زندہ زبان میں نازل ہواہے۔ مرورِ ایام کے ساتھ یہ زبان مردہ نہیں ہوئی ہے۔ قرآن اسے پکڑکربیٹھ گیاہے۔ زبان میں اضافہ توہورہاہے لیکن زمانہ نزول قرآن کی زبان بالکل محفوظ ہے۔

        یہی وجہ ہے کہ ماثورتفاسیر میں بھی زبان و بیان اور اسالیب کلام کی روشنی میں تفسیر ملتی ہے۔ ابن جریر اٹھائیے، ابن کثیر اٹھائیے، یہ تفسیر ماثور کی نمائندہ تفسیریں ہیں، لیکن کوئی بھی تفسیر رائے اور اجتہاد کے ذریعہ کلام سے خالی نہیں ملے گی۔ اس تمہیدی گفتگو کے بعد اب ہم تفسیر پر آتے ہیں۔

سید مودودی کا تفسیر میں عام نہج

        مصنف دیباچہ تفسیر میں تحریرفرماتے ہیں:

        ”اس کام میں میرے پیش نظرعلماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جوعربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرناچاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لئے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے۔ میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتاہوں وہ اوسط درجہ کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لئے ممکن نہیں ہے۔ انہی کی ضروریات کو میں نے پیش نظررکھا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے ان تفسیری مباحث کو میں نے سرے سے ہاتھ ہی نہیں لگایا جو علم تفسیر میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں مگر اس طبقے کے لئے غیرضروری ہیں۔ پھرجومقصد میں نے اس کام میں اپنے سامنے رکھاہے وہ یہ ہے کہ ایک عام ناظر اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قرآن کا مفہوم و مدعا بالکل صاف صاف سمجھتا چلاجائے اور اس سے وہی اثرقبول کرے جو قرآن اس پر ڈالنا چاہتاہے۔ نیز دوران مطالعہ میں جہاں جہاں اسے الجھنیں پیش آسکتی ہوں وہ صاف کردی جائیں اور جہاں کچھ سوالات اس کے ذہن میں پیدا ہوں ان کا جواب اسے بروقت مل جائے….“

        آگے وہ لکھتے ہیں:

        ”میں نے اس کتاب میں ترجمہ کا طریقہ چھوڑکر آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا ہے ….اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جہاں تک ترجمہ قرآن کا تعلق ہے ، یہ خدمت اس سے پہلے متعدد بزرگ بہترین طریقہ پر انجام دے چکے ہیں لیکن کچھ ضرورتیں ایسی ہیں جو لفظی ترجمہ سے پوری نہیں ہوتیں اور نہیں ہوسکتیں، انہی کو میں نے ترجمانی کے ذریعہ سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے….میں نے اس میں قرآن کے الفاظ کو اردو کا جامہ پہنانے کے بجائے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کی ایک عبارت کو پڑھ کر جو مفہوم میری سمجھ میں آتا ہے اور جو اثرمیرے دل پر پڑتا ہے ، اسے حتی الامکان صحت کے ساتھ اپنی زبان میں منتقل کردوں….“

        ”پھر چونکہ قرآن کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ارشادات کا پس منظر بھی آدمی کے سامنے ہو اور یہ چیز ترجمانی میں پوری طرح نمایاں نہیں کی جاسکتی تھی، اس لئے میں نے ہر سورہ کے آغاز میں ایک دیباچہ لکھ دیا ہے جس میں اپنی حدتک پوری تحقیق کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ سورہ کس زمانے میں نازل ہوئی، اس وقت کیاحالات تھے، اسلام کی تحریک کس مرحلے میں تھی، کیا اس کی ضروریات تھیں اور کیا مسائل اس وقت درپیش تھے، نیز جہاں کہیں کسی خاص آیت یا مجموعہ آیات کی کوئی الگ شان نزول ہے وہاں میں نے اسے حاشیہ میں بیان کردیا ہے۔“

        چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل اس تفسیر کے سرسری مطالعہ سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمة اللہ علیہ قرآنی آیات، احادیث رسول اور اقوالِ صحابہ و تابعین کی روشنی میں تفسیر کرتے ہیں اور سیاق کلام اور نظم کی مدد سے ایک مفہوم متعین کرتے ہیں ۔ بسااوقات مختلف اقوال میں تطبیق بھی دیتے جاتے ہیں۔ نیز آیات سے اگرفقہی احکام مستنبط ہورہے ہوں تو اس پر تفصیل سے گفتگو کرتے اور صحابہ و تابعین اور ائمہ فقہ کے مسلک کا حوالہ دیتے اور کسی کے حق میں اپنا رجحان ظاہر کرتے ہیں۔ شروع کی سورتوں میں تفسیری حواشی کم ہیں لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ہیں مطالب کی تفصیل میں اضافہ ہوتاگی اہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

        سورہ ماعون میں یدعّ الیتیم کی تشریح میں قاضی ابوالحسن الماوَردی کی کتاب اَعلام النبوة سے ابوجہل کے متعلق جو ایک یتیم بچے کا وصی تھا،ایک عجیب واقعہ لکھا ہے کہ کس طرح سے وہ یتیم نبی ﷺ کے پاس آیا ۔آپ اس کا حق دلانے کے لئے ابوجہل کے پاس گئے ۔ ابوجہل نے آپ کی بات مان کر اس بچے کو اس کا حق دے دیا۔ آگے اطعام المسکین اور طعام المسکین کا فرق واضح کرنے کے بعد سورہ ذاریات آیت 19 وفی اموالھم حق للسائل والمحروم کا حوالہ دیاہے پھر لایحض کا مفہوم واضح کرتے ہوئے سورہ بلد و تواصوا بالمرحمة اور سورہ عصر وتواصوا بالحق کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد فی صلاتھم ساھون اور عن صلاتھم ساھون کا فرق واضح کرکے منافقین کی نماز کے سلسلہ میں سورہ توبہ آیت 54 ولا یأتون الصلوٰة الا وھم کسالیٰ ولا ینفقون الا وھم کارھون کے حوالہ کے ساتھ الذین ھم یراءون پرنساء142 واذاقاموا الی الصلوٰة قاموا کسالی یراءو ن الناس ولا یذکرون اللہ الا قلیلا کا حوالہ دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں بخاری، مسلم اور مسند احمد کی یہ روایت ذکرکرتے ہیں۔ تلک صلاة المنافق تلک صلوٰة المنافق تلک صلوٰة المنافق، یجلس یرقب الشمس حتی اذا کانت بین قرنی الشیطان قام فنقر اربعا لا یذکر اللہ فیھا الا قلیلا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد روایتیں نقل کرتے ہیں۔ آخرمیں ویمنعون الماعون میں لفظ ماعون کی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ حضرت علیؓ، ابن عمرؓ، سعید بن جبیرؓ، قتادةؓ، حسن بصریؒ، محمد حنفیہ، ضحاکؒ، ابن زیدؒ، عکرمہ، مجاہد، عطاءاور زہری کے نزدیک اس سے مراد زکوٰة ہے۔ ابن عباسؓ ، ابن مسعودؓ، ابراہیم نخعیؒ ، ابومالکؒ اور بہت سے دوسرے حضرات کے نزدیک اس سے مراد عام ضرورت کی اشیاء مثلاً ہنڈیا، ڈول، کلہاڑی، ترازو، نمک، پانی ، آگ، چقماق( جس کی جانشین اب دیاسلائی ہے) وغیرہ ہیں اور بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی آراء ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ

        ”اصل بات یہ ہے کہ ماعون چھوٹی اور قلیل چیز کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کے لئے کوئی منفعت یا فائدہ ہو، اس معنی کے لحاظ سے زکوٰة بھی ماعون ہے، کیونکہ وہ بہت مال میں سے تھوڑاسا مال ہے جو غریبوں کی مدد کے لئے دینا ہوتاہے اور وہ دوسری عام ضرورت کی اشیاء بھی ماعون ہیں جن کا ذکر حضرت عبداللہ ابن مسعود اور ان کے ہم خیال حضرات نے کیا ہے ۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ ماعون کا اطلاق ان تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوتاہے جو عادتاً ہمسائے ایک دوسرے سے مانگتے رہتے ہیں۔ ان کا مانگنا کوئی ذلت کی بات نہیں ہوتا۔ کیونکہ غریب اور امیر سب ہی کو کسی نہ کسی وقت ان کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے ۔ البتہ ایسی چیزوں کو دینے سے بخل برتنا اخلاقاً ایک ذلیل حرکت سمجھاجاتاہے۔“

        سورہ جمعہ میں جمعہ سے متعلق آیات کی تفسیر کے بعد حاشیہ (18) میں لکھتے ہیں:” مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب اربعہ میں قرآن، حدیث ، آثار صحابہ اور اسلام کے اصول عامہ سے جو احکامِ جمعہ مرتب کئے گئے ہیں ان کا خلاصہ دے دیاجائے“پھر اس کے بعد حنفیہ ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس سلسلہ کی جو تفصیلات ہیں، اس پر تقریباً 4 صفحات سیاہ کرتے ہیں۔

        اس طرز تفسیر کے مزید چند حوالے پیش خدمت ہیں۔ آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں: سورہ بقرہ آیت 89حاشیہ95 ، آیت 144حاشیہ 146، آیت 172حاشیہ 170، آیت 185حاشیہ 186، آیت 187 حاشیہ 196، آیت 188حاشیہ 197، آیت 196حاشیہ 211، آیات  224تا 237 حاشیہ  243 تا 260 ، آیت 238 حاشیہ 263، آیت 258حاشیہ 292، آیت  279حاشیہ 323۔

        سورہ ہود آیت 90حاشیہ 101

        سورہ بنی اسرائیل آیت  46حاشیہ  51و52، آیت  61حاشیہ 74، آیت 78حاشیہ 95، آیت 80حاشیہ 100، آیت  82 حاشیہ 102، آیت 85حاشیہ 103، آیت  88حاشیہ 105، آیت 101حاشیہ 114

        سورہ کہف آیت 28 حاشیہ 28 ، آیت  47حاشیہ  42و43، آیت 50حاشیہ 48، آیت 52 حاشیہ 50، آیت 65حاشیہ 59۔

        سورہ طٰہٰ آیت 71حاشیہ 45، آیات  77تا 79حاشیہ  52تا 54، آیت 103حاشیہ 91، آیت125حاشیہ 107، آیت 130حاشیہ 112۔

        سورہ لقمان آیت 14حاشیہ 23

        سورہ توبہ، سورہ نور، سورہ احزاب، سورہ حجرات ، سورہ جمعہ ، سورہ طلاق کی تفسیر پر نگاہ ڈالئے تو محسوس ہوگاکہ ان سورتوں میں تفسیر کے ضمن میں آیات قرآنی کے ساتھ احادیث رسول، اقوال صحابہ وتابعین کے حوالے قد م قدم پر ہیں۔ نیز ان کے ضمن میں جو فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں ان میں بہ کثرت صحابہ ، تابعین اور ائمہ فقہ کے حوالوں کے ساتھ  احکام و مسائل کی وضاحت ہے۔ بطورخاص سورہ احزاب کے ضمیہ میں ختم نبوت پر لغت، احادیث اور صحابہ کرام کے آثار کی روشنی میں جومعرکه آراء بحث ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

        اسی طرح قرآن میں آئے ہوئے سینکڑوں الفاظ کی لغوی وضاحت آپ کو اس تفسیر میں ملے گی اور کہیں کہیں کلام عرب سے استشہاد بھی نظرآئے گا۔ بطور مثال ہمس، نزّل ، نذیر، ملک، تبارک، فرقان ، تصعیرخد، فردوس، تبرج، جاہلیة، آلائ، صمد، مرضعة، انفاض، استفزاز، فجر، غسق اللیل، دلوک الشمس، تہجد، جہاد، طاغوت، ربوا، توبہ، ظالم، ابلیس، خلیفہ، ملک، ازواج، شیطان ، رب، صبر، منّ و سلوی وغیرہ ۔

        یہ چند سورتوں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ تفسیر بالرائے کہہ کر اس کی اہمیت کم کرنے کی جوکوشش کی جاتی ہے اس کی حقیقت کیاہے؟ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مؤلف نے اپنی عقل اور رائے کا استعمال نہیں کیاہے۔ قرآن کے اسراروحکم اور دقائق و معارف پر غور وفکر کا دروازہ قیامت تک کھلا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہردور کے مفسرین نے اپنی عقل اور علم کے مطابق اس باب میں اضافہ کیاہے، اسی فہم و فراست اور تفقہ کے لئے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے لئے دعافرمائی تھی۔

        اللھم علمہ التاویل وفقھہ فی الدین (اے اللہ اسے تاویل کا علم دے اور دین میں بصیرت عطاکر)،لیکن اس سلسلہ میں یہ ضروری ہے کہ عقل و رائے کا استعمال اس طرح نہ ہوکہ دوسرے شرعی اصولوں سے متصادم ہوجائے۔ سیدمودودیؒ نے بھی ان شرعی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے اپنی عقل اور رائے کا استعمال کیاہے۔

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔