تفہیم القرآن  ایک مطالعہ – قسط 3

مولانا محمد اسماعیل فلاحی

مستشرقین کا رَدّ

        صاحب تفہیم نے جس طرح اسرائیلیات کی قلعی کھولی ہے ، اسی طرح اپنی تفسیر میں مستشرقین کا بھی تعاقب کیا ہے ، نمونے ملاحظہ ہوں۔

        سورہ طٰہٰ آیت 85 میں سامری کا لفظ آیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاکر کس طرح اس نے بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی میں مبتلا کرکے گمراہ کردیا۔ لفظ سامری پر مصنف کا نوٹ دیکھئے۔

        ”یہ اس شخص کا نام نہیں ہے بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی نسبت ہی ہے ، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح السامری کہہ کر اس کا ذکر کررہاہے، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ اس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے ، لیکن یہ مقام ان اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیری کی حد کردی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ معاذ اللہ، قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے ، اس لیے کہ دولتِ اسرائیل کا دارالسلطنت ”سامریہ“ اس واقعہ کے کئی صدی بعد 935 ق م کے قریب زمانے میں تعمیر ہوا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے ’سامریوں ‘ کے نام سے شہرت پائی ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا اوریہودیوں کے ذریعہ سے محمدﷺ نے اس بات کی سُن گُن پالی ہوگی ، اس لیے انھوں نے لے جاکر اس کاتعلق حضرت موسیٰؑ کے عہد سے جوڑدیا اوریہ قصہ تصنیف کرڈالاکہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا ، اس طرح کی باتیں ان لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتاہے اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسوپرس(شاہ ایران) کے درباری امیر’ہامان‘ سے لے جاکر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے۔ شاید ان مدعیانِ علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلے یا مقام ہواکرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبلہ و مقام ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا۔ حالانکہ سمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم کے دورمیں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں چھائی ہوئی تھی اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰؑ کے عہد میں اس قوم کے یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصرمیں سامری کہلاتے ہوں۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے۔ بائبل کا بیان ہے کہ دولتِ اسرائیل کے فرماں روا عمیری نے ایک شخص ”سمیر“ نامی سے وہ پہاڑخریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دارالسلطنت تعمیرکیا اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمرتھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھاگیا، (سلاطین باب 16آیت 24) اس سے صاف ظاہرہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سے پہلے ”سمر“ نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پاکر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا۔“(تفہیم ج3حاشیہ 63 ص113-114)

        لفظ ہامان پر سورہ قصص آیت 6 میں صاحب تفہیم رقم طراز ہیں:

        ”مغربی مستشرقین نے اس بات پر بڑی لے دے کی ہے کہ ہامان تو ایران کے بادشاہ اخسویرس یعنی خشیارشا (Xerxes) کے دربار کا ایک امیرتھا اور اس بادشاہ کا زمانہ حضرت موسیٰؑ کے سینکڑوں برس بعد 486 اور 465 قبل مسیح گزرا ہے ، مگر قرآن نے اسے مصرلے جاکر فرعون کا وزیر بتا دیا۔ ان لوگوں کی عقل پر تعصب کا پردہ پڑا ہوانہ ہو تو یہ خودغورکریں کہ آخر ان کے پاس یہ یقین کرنے کے لیے کیا تاریخی ثبوت موجود ہے کہ اخسویرس کے درباری ہامان سے پہلے دنیا میں کوئی شخص کبھی اس نام کا نہیں گزرا ہے ۔ جس فرعون کا ذکر یہاں ہورہاہے اگر اس کے تمام وزراء اور امراء اور اہل دربار کی کوئی مکمل فہرست بالکل مستند ذریعے سے کسی مستشرق صاحب کو مل گئی ہے جس میں ہامان کا نام مفقود ہے تو وہ اسے چھپائے کیوں بیٹھے ہیں؟ انھیں اس کا فوٹو فوراً شائع کردینا چاہیے کیوں کہ قرآن کی تکذیب کے لیے اس سے زیادہ مؤثرہتھیار انہیں کوئی اور نہ ملے گا۔“(تفہیم ج3 سورہ قصص ، حاشیہ 8 ص615-616)

        بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے فتنہ کا اصل بانی قرآن سامری کو بتاتا ہے اور حضرت ہارونؑ کے سلسلہ میں اس کا بیان ہے کہ انھوں نے اس فتنہ سے بنی اسرائیل کو روکنے کی پوری کوشش کی ۔ سورہ طٰہٰ آیت 91 میں حضرت ہارون کی اس کوشش کا ذکر ہے ۔ اس سلسلہ میں سیدمودودی تحریرفرماتے ہیں:

        ”بائبل اس کے برعکس حضرت ہارون پر الزام رکھتی ہے کہ بچھڑا بنانے اور اسے معبود قرار دینے کا گناہِ عظیم انہی سے سرزد ہوا تھا۔“

        اس کے بعد جناب مودودی خروج باب 32 آیت 1-5 کا لمبا اقتباس نقل کرکے آگے لکھتے ہیں:

        ”بہت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ غلط روایت اس وجہ سے مشہور ہوئی ہوکہ سامری کا نام بھی ہارونؑ ہی ہو اور بعد کے لوگوں نے اس ہارون کو ہارون نبی علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ خلط ملط کردیا ہو، لیکن آج عیسائی مشنریوں اور مغربی مستشرقوں کو اصرار ہے کہ قرآن یہاں بھی ضرور غلطی پر ہے ، بچھڑے کو خدا ان کے مقدس نبی نے ہی بنایا تھا اور ان کے دامن سے اس داغ کو صاف کرکے قرآن نے ایک احسان نہیں بلکہ الٹا قصورکیا ہے۔ یہ ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا حال اور ان کو نظرنہیں آتاکہ اسی باب میں چند سطرآگے چل کر خودبائبل اپنی غلط بیانی کا راز کس طرح فاش کررہی ہے۔ اس باب کی آخری دس آیتوں میں بائبل یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے اس کے بعد بنی لاوى کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ جن لوگوں نے شرک کا یہ گناہ عظیم کیا ہے انھیں قتل کیا جائے اور ہر ایک مومن خود اپنے ہاتھ  سے اپنے اس بھائی اور ساتھی اور پڑوسی کو قتل کرے جو گوسالہ پرستی کا مرتکب ہوا تھا۔ چنانچہ اس روز تین ہزار آدمی قتل کیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ہارون کیوں چھوڑدیے گئے؟ اگر وہی اس جرم کے بانی مبانی تھے تو انہیں اس قتل عام سے کس طرح معاف کیا جاسکتا تھا؟ کیا بنی لاوی یہ نہ کہتے کہ موسیٰ ہم کو تو حکم دیتے ہو کہ ہم اپنے گناہ گار بھائیوں اور ساتھیوں اور پڑوسیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں مگر خود اپنے بھائی پر ہاتھ نہیں اٹھاتے حالانکہ اصل گناہ گار وہی تھا؟ آگے چل کر بیان کیا جاتا ہے کہ موسیٰؑ نے خداوند کے پاس جاکر عرض کیا کہ اب بنی اسرائیل کا گناہ معاف کردے، ورنہ میرا نام اپنی کتاب سے مٹادے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ”جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اسی کا نام اپنی کتاب سے مٹاؤں گا“ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ہارون کا نام نہ مٹایا گیا بلکہ اس کے برعکس ان کو اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل میں بزرگ ترین منصب یعنی بنی لاوی کی سرداری اور مقدس کی کہانت سے سرفراز کیا گیا(گنتی باب 18آیت 1-7) کیا بائبل کی یہ اندرونی شہادت خود اس کے اپنے سابق بیان کی تردید اور قرآن کے بیان کی تصدیق نہیں کررہی ہے۔“(تفہیم ج3 سورہ طٰہٰ حاشیہ 69ص117-118)

        انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ اس سلسلہ میں ایک بیان قرآن کا ہے اور ایک نقطہء نظر عصرحاضرکے سائنس دانوں کا ہے جو ڈارون کے نظرئے کے علم بردار ہیں۔ سید مودودی سورہ سجدہ آیت 9 حاشیہ 14 اور سورہ اعراف آیت 11حاشیہ 10 میں ڈارون کے نقطہء نظر کو دلائل سے رد کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم ج4 ص40 اور تفہیم ج2 ص10 -11)

تجدد پسند مفسرین کا تعاقب

        سیدمودودی نے اپنی تفسیر میں عصرجدید کے بعض تجدد پسند اور مغرب سے مرعوب مفسرین کا بھی تعاقب کیا ہے ۔ سورہ نمل میں حضرت سلیمان کے لشکروں کا ذکر ہے ۔ وحشر لسلیمٰن جنودہ من الجن والانس والطیر(۷۱) سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے۔ بعض متجددین کو جن اور طیر سے جنات او رپرندے مراد لینے سے انکار ہے۔ مولانا اس پر یہ تبصرہ کرتے ہیں۔

        ”….موجودہ زمانہ کے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ جن اور طیر سے مراد جنات اور پرندے نہیں ہیں بلکہ انسان ہی ہیں جو حضرت سلیمانؑ کے لشکرمیں مختلف کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جن سے مراد پہاڑی قبائل کے وہ لوگ ہیں جنھیں حضرت سلیمان نے مسخرکیا تھا اور وہ ان کے ہاں حیرت انگیز طاقت اور محنت کے کام کرتے تھے اور طیر سے مراد گھوڑسواروں کے دستے ہیں جو پیدل دستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تیزی سے نقل و حرکت کرتے تھے، لیکن یہ قرآن مجید میں بےجا تاویل کی بدترین مثالیں ہیں۔ قرآن یہاں جن، انس اور طیر تین الگ الگ اقسام کے لشکر بیان کررہاہے اور تینوں پر الف لام تعریف جنس کے لیے لایاگیا ہے۔ اس لیے لامحالہ الجن اور الطیر، الانس میں شامل نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اس سے مختلف دو الگ اجناس ہی ہوسکتی ہیں۔ علاوہ بریں کوئی شخص جو عربی زبان سے ذرہ برابربھی واقفیت رکھتا ہو، یہ تصور نہیں کرسکتا کہ اس زبان میں محض لفظ الجن بول کر انسانوں کا کوئی گروہ یا محض الطیر بول کر سواروں کا رسالہ کبھی مراد لیاجاسکتا ہے اور کوئی عرب ان الفاظ کو سن کر ان کے یہ معنی سمجھ سکتاہے۔ محض محاورے میں کسی انسان کو اس کے فوق العادة کام کی وجہ سے جنّ یا کسی عورت کو اس کے حسن کی وجہ سے پری اور کسی تیز رفتار آدمی کو پرندہ کہہ دینا یہ معنیٰ نہیں رکھتا کہ اب جنّ کے معنیٰ طاقت ور آدمی اور پری کے معنیٰ حسین عورت اور پرندے کا معنی تیز رفتار انسان کے ہوجائیں۔ ان الفاظ کے یہ معنیٰ تو مجازی ہیں نہ کہ حقیقی اور کسی کلام میں کسی لفظ کو حقیقی معنیٰ چھوڑکر مجازی معنوں میں صرف اسی وقت استعمال کیاجاتاہے اور سننے والے بھی ان کو مجازی معنوں میں صرف اسی وقت لے سکتے ہیں جب کہ آس پاس کوئی واضح قرینہ ایسا موجود ہو جو اس کے مجاز ہونے پر دلالت کرتاہو، یہاں آخرکون سا قرینہ پایاجاتاہے جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ جن اور طیر کے الفاظ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال کیے گئے ہیں؟ بلکہ آگے ان دونوں گروہون کے ایک ایک فرد کا جو حال اور کام بیان کیاگیا ہے وہ تو اس تاویل کے بالکل خلاف معنیٰ پر صریح دلالت کررہا ہے۔ کسی شخص کا دل اگرقرآن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہتا ہو تو اسے صاف کہنا چاہیے کہ میں اس بات کو نہیں مانتا لیکن یہ بڑی اخلاقی بزدلی اور علمی خیانت ہے کہ آدمی قرآن کے صاف صاف الفاظ کو توڑمروڑکر اپنے من مانے معنیٰ پر ڈھالے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ قرآن کے بیان کو مانتاہے، حالانکہ دراصل قرآن نے جو کچھ بیان کیاہے وہ اسے نہیں بلکہ خود اپنے زبردستی گھڑے ہوئے مفہوم کو مانتاہے۔“ (تفہیم ج3 سورہ نمل حاشیہ 23ص562-563)

        اس سورہ نمل آیت 18 میں حضرت سلیمان کے چیونٹیوں کی وادی سے گزرنے اور ایک چیونٹی کے چیونٹیوںکو خبردار کرنے کا ذکر ہے اور اس کے آگے آیت 20 میں ہدہد کا ذکر آیاہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ شام کے علاقہ کی ایک وادی کا نام وادی نملہ ہے اور نملہ کے معنیٰ ایک چیونٹی کے نہیں بلکہ یہ ایک قبیلہ کا نام ہے اور ہدہد سے مراد وہ پرندہ نہیں ہے جو عربی اور اردو زبان میں اس نام سے معروف ہے بلکہ یہ ایک آدمی کا نام ہے جو حضرت سلیمانؑ کی فوج میں ایک افسر تھا۔ صاحب تفہیم نے اس بے بنیاد تاویل کا جس طرح تعاقب کیا ہے پڑھنے سے تعلق رکھتاہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم ج3 سورہ نمل حاشیہ 24،26و 28 ص563-568)

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔