تفہیم القرآن  ایک مطالعہ – قسط 4

مولانا محمد اسماعیل فلاحی

تفہیم اور منکرین حدیث

        سید مودودی نے جس طرح اپنی تفسیر میں تجدد پسندوں پرتنقید کی ہے اسی طرح منکرین حدیث کوبھی نہیں چھوڑاہے۔ سورہ روم آیت 17-18  فسبحان اللہ حین تمسون….وحین تظہرون کا ترجمہ کرتے ہیں”پس تسبیح کرو اللہ کی جب کہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو، آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے حمد ہے اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے پہر اور جب کہ تم پر ظہر کا وقت آتاہے “۔ بنی اسرائیل 78، ہود 114، اور طٰہٰ 130 کی روشنی میں اس آیت کی تشریح کرنے کے بعد ان کا قلم یوں چلتا ہے۔

        ”….یہاں ذرا تھوڑی دیر ٹھیرکر منکرین حدیث کی اس جسارت پر غورکیجئے کہ وہ ”نمازپڑھنے“کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے ۔ ان کا ارشاد ہے کہ قرآن تو اقامت صلوٰة کا حکم دیتاہے اور اس سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ ”نظام ربوبیت “قائم کرنا ہے ۔ اب ذرا ان سے پوچھئے کہ وہ کون سا نرالا نظامِ ربوبیت ہے جسے یا تو طلوع آفتاب سے پہلے قائم کیاجاسکتا ہے یا پھر زوال آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟ اور وہ کونسا نظامِ ربوبیت ہے جو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانا مطلوب ہے؟ (اذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللہ) اور نظامِ ربوبیت کی آخروہ کون سی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیے جب آدمی کھڑا ہو تو پہلے منھ اور کہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھولے اور سرپر مسح کرلے ورنہ وہ اسے قائم نہیں کرسکتا؟ (اذا قمتم الی الصلوٰة فاغسلوا وجوھکم وأیدیکم الی المرافق) اور نظامِ ربوبیت کے اندر آخریہ کیا خصوصیت ہے کہ اگر آدمی حالت جنابت میں ہو تو جب تک وہ غسل نہ کرلے اسے قائم نہیں کرسکتا؟ (لاتقربوا الصلوٰة….ولا جنباًالاعابرسبیل حتی تغتسلوا) اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگر آدمی عورت کو چھوبیٹھا ہو اور پانی نہ ملے تو اس عجیب و غریب نظامِ ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسے پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہرے اور منھ پر ملنا ہوگا؟ (او لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیداًطیباً فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) اور یہ کیساعجیب نظامِ ربوبیت ہے کہ اگرسفرپیش آجائے تو آدمی اسے پورا قائم کرنے کے بجائے آدھا ہی قائم کرے؟(واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰة) پھر یہ کیا لطیفہ ہے کہ اگر جنگ کی حالت ہو تو فوج کے آدھے سپاہی ہتھیار لیے ہوئے امام کے پیچھے ”نظام ربوبیت“ قائم کرتے رہیں اور آدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں، اس کے بعد جب پہلا گروہ امام کے پیچھے ”نظامِ ربوبیت“ قائم کرتے ہوئے ایک سجدہ کرلے تو وہ اٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے چلاجائے اور دوسرا گروہ اس کی جگہ آکر امام کے پیچھے اس ”نظام ربوبیت“ کو قائم کرنا شروع کردے (واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طائفة منھم معک ولیأخذوا أسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم ولتات طائفة أخری لم یصلوا فلیصلوا معک) قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتارہی ہیں کہ اقامت صلوٰة سے مراد وہی نماز قائم کرنا ہے جو مسلمان دنیا بھر میں پڑھ رہے ہیں، لیکن منکرین حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کو بدلنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہوجائے وہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کرسکتا جو یہ حضرات کررہے ہیں یا پھر قرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جو اپنے دل میں اسے اللہ کا کلام نہ سمجھتا ہو اور محض دھوکا دینے کے لیے قرآن قرآن پکار کر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتاہو۔(اس سلسلہ میں آگے حاشیہ 50بھی ملاحظہ ہو۔)“(تفہیم ج3سورہ روم حاشیہ 24، ص740-742)

تفہیم اور دورِ جدید کا علمی معیار

        زندگی اور کائنات کے تعلق سے آج انسانی معلومات جہاں تک پہنچی ہیں اور علم و تحقیق کا جو معیار آج قائم ہے اور دنیا جس زبان کو سمجھتی اور جس اسلوب سے آشنا ہے ، سید مودودی اسی معیار ، اسی زبان اور اسی اسلوب میں اپنی بات رکھتے ہیں، ان کی یہ خصوصیت ان کی تفسیر میں نمایاں ہے۔

        سورہ ق آیت 6 أفلم ینظروا الی السماء فوقھم کیف بنیناھا وزیناھا ومالھا من فروج کا ترجمہ کرتے ہیں ”اچھا تو کیا انھوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا اوراس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے“۔ اس آیت پرپھر مولانا علم کے موتی کس طرح بکھیرتے ہیں ملاحظہ کیجئے۔

        ”یہاں آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جسے انسان شب وروز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے ، جس میں دن کو سورج چمکتاہے اور رات کو چاند اور بے حدو حساب تارے روشن نظرآتے ہیں جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہوجاتی ہے لیکن اگردور بین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو ناپید کنار ہے ، کہیں سے شروع ہوکر کہیں ختم ہوتی نظرنہیں آتی۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں۔ ہمارایہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں(Galaxy) کے ایک کونے میں پڑا ہے ، تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم ازکم تین ارب دوسرے تارے(کواکب) موجود ہیں اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہاہے۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصہ کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آتی ہے ۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کرسکتے۔ ہوسکتاہے کہ انسان کی معلوم کائنات اس پوری کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے۔ اس عظیم کارگاہِ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے، اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق جس کا نام انسان ہے اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے ۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہوجائے گی۔؟“

        ”…. اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جاکر ٹوٹ نہیں جاتا۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع 3ج395(Source 3c,295) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ 4 ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہوں گی۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخرکیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہواہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑاہواہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرکے دراصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتاہے کہ میری اس کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشاندہی بھی نہیں کرسکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصورکہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہوجانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کرکے اپنے سامنے حاضر کرناچاہوں تو نہ کرسکوں گا۔

        یہ صرف امکانِ آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے ۔ 4 ارب سال نوری (Light years) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا اور یہاں انسان کے بنائے ہوئے آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتاہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے۔ ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کارفرماہیں اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کررہی ہیں۔ اگرایسا نہ ہوتاتو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جوانسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کرکے بنائے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور حاکم و مدبرہے۔“(تفہیم ج5سورہ قٓ حاشیہ 7-8، ص112-111)

        صاحب تفہیم کا یہ رنگ سورہ نمل حاشیہ 74 ص591- 590 حاشیہ 80 ص594-593 ج3، سورہ روم حاشیہ 25-37ص742تا749  ج3۔ لقمان حاشیہ 13ص13-11ج 4 میں دیکھا جاسکتا ہے۔

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔