عہد نبوی کا نظامِ سیاست اور مسلم اقلیتوں کا سیاسی لائحہء عمل

مولانا محمد طاہر مدنی*

عہد نبوی کا نظامِ سیاست

اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق نہیں ہے، اور اسلامی نقطہء نظر سے عبادت کا دائرہ ہماری پوری زندگی کو محیط ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ”اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے“، تو اس کا ایک پہلو سیاست بھی ہے۔ سیاست اسلام کے دائرہء کار سے باہر نہیں ہو سکتی۔ جس طرح سے عقیدہ اور اس کاایک نظام ہے، عبادت کا نظام ہے، اسلام کا اپنا اخلاقی، معاشرتی، خاندانی، سماجی، معاشی نظام ہے، اسی طریقے سے اپنا ایک سیاسی نظام ہے۔ بلکہ ایک پہلو سے آپ دیکھیں تو سیاست اور حکومت کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، کیوں کہ ہر دور میں حکومت کے پاس غیر معمولی اختیارات ہوتے ہیں۔ اِن اختیارات کو اگر صحیح طور سے استعمال کیا جائے تو عوام کی خدمت ہوگی، اور غلط طور سے اِن کو استعمال کیا جائے تو زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ تو حکومت اور سلطنت بذاتِ خود نا پسندیدہ چیز نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ایک پسندیدہ اورمطلوب چیز ہے، چنانچہ نبی کوجو دعائیں سکھائی گئیں اُن میں سے ایک دعا یہ ہے:

وَاجعَل لِّی مِن لَّدُنکَ سُلطَانًا نَّصِیرًا [بنی اسرائیل: 80]

”اے اللہ! اپنی جانب سے ایسا اقتدار عطا فرما جو ہمارے کام میں ہمارا مددگار ہو۔ “

حکومت کے وسائل بہت ہوتے ہیں، اس لیے اگر حکومت کا نظام دعوت و تبلیغ اور اقامت قسط وعدل کے لیے معاون ہو جائے تو بڑے پیمانے پر کام ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آج ذرائعِ ابلاغ کی اہمیت بہت زیادہ ہے، ٹی وی چینلس اور ذرائعِ ابلاغ کی متعدد چیزوں پر حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے؛ اگر ان ذرائعِ ابلاغ کا استعمال مثبت انداز سے ہو تو عوام کا بہت فائدہ ہو گا اور بہتر انداز سے ان کی اخلاقی تعمیر ہو سکتی ہے؛ لیکن چونکہ ان کا استعمال غلط ہو رہا ہے اور ان کا رخ غلط ہے اس لیے یہ سماج کے اندر بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگران کا استعمال صحیح کرنا ہے تو حکومت اپنے ہاتھ میں لینی ہو گی، اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ اسی طرح نظامِ تعلیم پورا کا پورا حکومتیں طے کر تی ہیں، نصابِ تعلیم اور ایجوکیشن کا سسٹم حکومت طے کرتی ہے اور اسی کے تحت تمام وسائل کا استعمال ہوتا ہے۔ تو حکومت آج کے دور میں تو اور زيادہ اثر رکھنے والی چیز بن گئی ہے۔ لہٰذا اسلامی نقطئہ نظر سے سلطنت اور حکومت ایک مطلوب چیز ہے۔ البتہ یہ بات ہمارے ذہن میں بالکل صاف رہنی چاہیے کہ اسلام میں حکومت بذاتِ خود مطلوب و مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ مقصود کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور مقصود ہے: عدل کا قیام، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، لوگوں کی اخلاقی تعمیر۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور سے فرمایاہے کہ کتابوں کو نازل کرنے اور انبیاء کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ انسانی سماج میں انصاف قائم ہو جائے:

لَقَد اَرسَلنَا رُسُلَنَا بِالبَیِّنَاتِ وَاَنزَلنَا مَعَہُمُ الکِتَابَ وَالمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ  [الحدید: 25]

”ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب یعنی میزان اتارا تاکہ لوگ انصاف قائم کریں۔ “

کتاب کیا ہے؟ اللہ کی شریعت۔ اور اللہ کی شریعت کیا ہے؟ ترازو۔ اسی شریعت کی روشنی میں ہم جانتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، کیا خوب ہے اور کیا نا خوب ہے۔ تو شریعت میزان ہے، ایک ترازو ہے۔ اور اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ تاکہ ظلم و نا انصافی ختم ہو جائے اور انصاف قائم ہو جائے، لوگوں کو ان کا حق ملے۔ اسلامی نقطئہ نظر سے جن چیزوں کی حفاظت مقصود ہے اور احکامِ شریعت جن چیزوں کے تحفظ کے لیے آئے ہیں ان میں جان کی حفاظت، مال کی حفاظت، عزت و آبرو کی حفاظت، عقل اور شعور کی حفاظت ہے۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو اسلام میں انتہائی اہم مطلوب کی حیثیت رکھتی ہیں، اور ان چیزوں کے تحفظ کے لیے ضرورت ہوتی ہے اقتدار اور حکومت کی۔ اس طرح حکومت ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے، اس کے ذریعے سے مقصد لوگوں کی خدمت کرنا ہے، لوگوں کو انصاف دینا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ جب خلیفہ ہوئے تو انھوں نے پہلا خطبہ دیتے ہوئے کہا:

”یا ایھا الناس! لقد وُلِّیتُ علیکم ولست بخیرکم۔“

”لوگو! میں تمہارا ذمہ دار بنادیا گیا ہوں حالانکہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ “

یہ ان کی خاکساری ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ نبی کے بعد افضل المومنین ہیں اور ان کے اوپر خلیفہ کی حیثیت سے اتفاق ہوا۔ پھر انھوں نے پہلے خطبے میں جو پالیسی بتائی اس میں آپ نے یہ کہا کہ

”الضعیفُ فیکم قوي عندي حتی آخذ لہ حقَّہ، والقوي ضعیف عندي  حتی آخذ منہ الحقَّ إن شاءاﷲ تعالی“۔۱

”تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک کہ میں اس کاحق نہ دلا دوں، اور جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے جب تک کہ میں دوسروں کا حق اس کے پاس سے لے نہ لوں، اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت شاملِ حال رہی۔ “

یہ ہے مقصد، یہ ہے پالیسی کہ کوئی طاقتور کسی کمزور کے ساتھ نا انصافی نہ کرنے پائے، جو ظالم ہے اس کا ہاتھ پکڑا جائے، مظلوم کو اس کا حق دیا جائے، انسانوں کے حقوق محفوظ ہوں، ظلم اور زےادتی کا خاتمہ ہو۔ اسلامی حکومت کا یہی مقصد ہے، اسی مقصد کے لیے حکومت مطلوب ہوتی ہے، بذاتِ خود وہ مطلوب نہیں ہے۔ قرآن میں ایک نعمت کی حیثیت سے اقتدار اور حکومت کا ذکر کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم ایمان اور عملِ صالح کا ثبوت دو گے تو زمین کی خلافت تم کو عطا کی جائے گی اور تم کو تمکّن بخشا جائے گا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوامِنکُم وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَستَخلِفَنَّہُم فِی الاَرضِ کَمَا اسَتخلَفَ الَّذِینَ مِن قَبلِہِم [النور: 55]

”اللہ نے وعدہ فرمایاہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔ “

اسی طریقے سے آلِ ابراہیم پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

فَقَدآتَینَا آلَ برَاہِیمَ الکِتَابَ وَالحِکمَةَ وَآتَینَاہُم مُّلکًا عَظِیمًا [النسائ:54]

”ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اورحکمت سے نوازا اور انہیں عظیم الشان حکومت عطا کی۔ “

اللہ تعالیٰ نے نعمت کے طور پر اس کا تذکرہ کیا کہ اس نے آلِ ابراہیم کو زبردست حکومت وسلطنت عطا کی۔

اسی طرح حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کو خطاب کر تے ہوئے اور انہیں اللہ کی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے کہا:

یَا قَومِ اذکُرُوا نِعمَةَ اللّٰہِ عَلَیکُم إذ جَعَلَ فِیکُم اَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکًا [المائدة: 20]

”اے میری قوم کے لوگو!اپنے اوپر کی گئی اللہ کی نعمت کو یاد کروجب کہ اس نے تم میں بہت سے انبیاء پیدا کیے اور تم کو فرماں روا بنایا۔ “

اسی طرح حضرت داود اور حضرت سلیمان زبردست سلطنت کے مالک تھے۔

نیزاللہ نے یہ اصول بھی بیان کیا ہے: وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ اَنَّ الاَرضَ یَرِثُہَا عِبَادِي الصَّالِحُونَ [الانبیاء: 105]

 ”اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ “

سر زمین کی وراثت وحکومت اور اس کے اصل حقدار اللہ کے نیک بندے ہیں، کیوں کہ اللہ کے نیک بندوں کے ہاتھ میں جب اقتدار آتا ہے تو وہ عدل وانصاف قائم کرتے ہیں:

اَلَّذِینَ إن مَّکَّنَّاہُم فِی الاَرضِ اَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَاَمَرُوا بِالمَعرُوفِ وَنَہَوا عَنِ المُنکَرِ [الحج: 41]

 ”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوة دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ “
اِس آیت کے اندر اسلامی حکومت کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے:
(وَلَیَنصُرَنَّ اللّٰہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ) ) (الحج: 40)
’’اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گاجو اُس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے۔ ‘‘
پھر ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ نے کہا ہے کہ اگر ہم نے ان کو زمین میں اقتدار دیا تو یہ لوگ نماز قائم کریں گے، اقامتِ صلوٰۃ کا انتظام کریں گے، ایتائے زکوٰۃ کا اہتمام کریں گے اور اس کا پورا نظام بنائیں گے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انتظام کریں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کا مقصد اور اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ عدل قائم ہو، بھلائیاں پروان چڑھیں اور برائیوں کو روکا جائے اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہو۔
نبیؐ نے کس طریقے سے سیاست کی اور اس نظام کو کس طریقے سے چلایا؟
نبی ؐ کی زندگی کے دو عہد ہیں:
ایک عہدِ مکی،
اور دوسرا عہدِ مدنی۔
عہدِ مکی میں آپؐ کے ہاتھ میں اقتدار نہیں تھا، آپؐ کے ساتھی کم تھے، بر سرِ اقتدار دوسرے لوگ تھے۔ وہاں آپؐ نے جو کام کیا وہ کام تھا دعوت اور تربیت کا۔ وہاں حکومت کی تشکیل کا مرحلہ نہیں تھا، اس لیے کہ حکومت کی تشکیل اس وقت ہوتی ہے جب کوئی آزاد سر زمین ومعاشرہ اور کھلی فضا ملتی ہے، تو وہاں نظام قائم ہوتا ہے۔ مکے میں اس کا موقع نہیں تھا، وہاں آپؐ نے دعوت و تربیت کا کام کیا اور سیاست تو دراصل حکمتِ عملی کا نام ہے کہ جن حالات میں ہم ہیں۔ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کس طریقے سے کرنا چاہیے؟ عہدِ مکی میں آپ دیکھیں کہ آپؐ نے جو حکمتِ عملی اختیار کی وہ یہ تھی کہ دعوت کے مواقع زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں اور جو لوگ دعوت کو قبول کریں ان کی تربیت مستحکم بنیادوں پر کی جائے۔ چنانچہ وہاں آپ کی جو حکمتِ عملی نظر آتی ہے وہ دعوتی حکمتِ عملی ہے۔ مکی دور میں ہمیں بہت سے نشاناتِ راہ ملیں گے جن سے ہر دور میں رہنمائی اور روشنی حاصل کرنی چاہیے۔ مکے میں قبائلی سسٹم تھا اور قبائلی سسٹم میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہمیں پشت پناہی حاصل ہو، پشت پناہی کے بغیر ہم اپنا کام انجام نہیں دے سکتے۔ نبیؐ کو اپنے چچا ابو طالب کی سرپرستی حاصل تھی، وہ آپؐ کی حمایت کرتے تھے، آپؐ کا ساتھ دیتے تھے، حالاں کہ بہت سی مشکلات بھی آئیں اور سردارانِ مکہ نے ابو طالب پر بہت دباؤ بھی ڈالا کہ وہ آپؐ سے دست بردار ہوجائیں، لیکن جب تک وہ زندہ رہے آپؐ کی سرپرستی کرتے رہے اور ان کی سرپرستی سے نبیؐ نے فائدہ اٹھایا کیوں کہ یہ دعوتی ضرورت تھی اور حکمتِ عملی کا تقاضہ تھا تاکہ اطمینان کے ساتھ دعوت کاکام انجام دیا جاسکے۔ اسی طرح سے دعوت کی حکمتِ عملی ہی تھی کہ آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا مشورہ دیا، تاکہ مکے میں ان کے ساتھ جو ظلم و زیادتی اور ناانصافی ہو رہی ہے۔ اس سے ان کا تحفظ ہوسکے اور ایک مرکز بن سکے جہاں مسلمان کھلی فضا میں سانس لے سکیں۔ وہاں کا بادشاہ چوں کہ عدل پسند تھا۔ اس لیے آپؐ نے مشورہ دیا اور آپؐ کے مشورے اور ہدایت کے مطابق لوگوں نے ہجرت کی۔ حبشہ کی جانب دو بار ہجرت ہوئی۔ حبشہ کی ہجرت مکی دور سے تعلق رکھتی ہے اور اِس میں آپؐ کی دعوتی حکمتِ عملی اور فراست دیکھنے کو ملتی ہے کہ کس طریقے سے مشکل حالات میں ہمیں کا م کرنا چاہیے۔ پھر جب ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور مکے کی سرزمین آپؐ کی شدید مخالف ہوگئی تو آپؐ نے ایک دوسرے مرکز کی تلاش میں طائف کا سفرکیا کہ ہوسکتاہے کہ وہاں کے لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں لیکن وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا۔ پھر آپؐ حج کے موسم میں آنے والے مختلف قبائل کے سرداران سے ملاقات کر تے اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتے۔ اس طرح پوری مکی زندگی اس پہلو سے نمونہ ہے کہ کارِ دعوت کو آگے بڑھانے کے لیے اس معاشرے میں جن چیزوں کی ضرورت تھی آپؐ نے ان کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور بہت ہی حکمت کے ساتھ اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے رہے۔ اسی طرح سے اس عہد میں آپؐ نے یہ کام بھی کیاکہ اپنی بات کو پہنچانے کے لیے جو ممکنہ ذرائع تھے ان تمام ذرائع کا استعمال کیا، چاہے وہ انفرادی ملاقات ہو، یا گھر گھر جاکر ملاقات ہو یا لوگوں کے اکٹھا ہونے کی جگہوں پر جانا ہو، یا صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اعلان کرنا ہو۔ آپؐ نے لوگوں کو صفا کی پہاڑی کے پاس اکٹھاکرکے دعوت دی، اپنے رشتہ داروں کو ایک خاص نشست میں اکٹھا کیا، ان کے سامنے اپنا پیغام رکھا۔ اس طرح تمام ممکنہ وسائل وذرائع کو آپ نے استعمال کیا۔ عہدِ مکی میں ہر دور کے دعاۃ کے لیے پیغام ہے کہ اپنے وقت کے لحاظ سے جتنے بھی مؤثرذرائع ہیں ان تمام ذرائع کو دعوت کے لیے اور اپنے مشن کو عام کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
پھر جب آپ ﷺ مدینہ منتقل ہوئے تب وہاں آپؐ کو ایک آزاد ماحول اور ایک کھلی فضا ملی۔ اب وہاں آپؐ کے لیے یہ موقع تھا کہ آپؐ اسلامی حکومت کی تشکیل کریں، چنانچہ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد آپؐ نے بالکل ابتدا میں جو کام کیے وہ ہیں:
میثاقِ مدینہ، مسجدِ نبوی کی تعمیر اور مواخاۃ۔
ظاہر ہے کہ مسجد ہمارے لیے روحانی مرکز ہے، عبادت کا مرکز ہے، تعلیم کا مرکز ہے، تربیت کا مرکز ہے، اس لیے بالکل ابتدائی ایام میں مسجدِ نبوی کی تعمیر ہوئی۔
اسی طرح مہاجرین اور انصار کے درمیان آپؐ نے مواخاۃ قائم کرکے ایک بڑا مسئلہ حل کیا۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنا وطن چھوڑکر آئے تھے، ان کی آبادکاری کا مسئلہ تھا، تو آپؐ نے مواخاۃ کے ذریعے سے ایک انصاری اور ایک مہاجر کو بھائی بھائی بناکر اس مسئلے کو حل کیا۔
اور جو تیسرا اہم کام بالکل شروع میں انجام دیا وہ ہے میثاقِ مدینہ۔ میثاقِ مدینہ بہت اہم دستاویز ہے اور ڈاکٹرحمیداللہ صاحب نے اس کا بہت ہی تحقیقی مطالعہ کیا ہے اور اس کے اندر جو بھی اسرار و رموز اور نکات ہیں ان کو واضح کیا ہے۔ بہت سے سیرت نگاروں نے اس پر خصوصی طور سے تحقیق کی ہے۔ میثاقِ مدینہ نبی ؐ کا بہت اہم اقدام تھا جو مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد آپؐ نے انجام دیا اور اس معاہدے کے تحت مدینہ میں رہنے والے جتنے لوگ اور جتنی قومیں تھیں ان سب کو آپؐ نےagreement میں جوڑدیا۔ آپؐ نے ایک ایسی حکومت بنائی جس کوہم confederation  کی حکومت کہتے ہیں۔ اس میں یہود بھی تھے، مشرکین بھی تھے اور مؤمنین بھی تھے۔ جتنے لوگ تھے ان سب لوگوں کو آپؐ نے اس میں شامل کرلیا۔ اور اس کے سربراہ آپؐ تھے اورآپؐ کی بصیرت وفراست تھی کہ جتنے لوگ تھے ان سب لوگوں نے آپؐ کی سربراہی کو قبول کیا اور اس میثاق کے تحت آپؐ نے سب کو جوڑلیا۔ اس کے اندر یہ بات بھی طے تھی کہ اگر مدینہ کے باہر سے کوئی حملہ کرے گا توسب مل کر مدینہ کا دفاع کریں گے۔ اس طرح دیکھا جائے تو میثاقِ مدینہ اسلامی ریاست کی تشکیل کی بنیاد اور پہلی اینٹ ہے، آپؐ کی سربراہی میں ایک اسلامی ریاست وہاں قائم ہوگئی۔ اسلامی ریاست وحکومت کی بنیاد دوچیزوں پر ہوتی ہے:
۱-  حاکمیتِ الٰہ۔ ’’إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلّٰہِ ‘‘ اقتدارِ اعلیٰ اللہ کا ہے، حاکمیت اللہ کے لیے ہے۔
۲-  خلافت یعنی اللہ کی شریعت کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کے لیے اہلِ ایمان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ نیابت کے طور پر شریعتِ اسلامی کے نفاذ کا کام کریں۔
تو حاکمیتِ الٰہ اور خلافت اس کی دو بنیاد ی چیزیں ہیں۔ رہا یہ سوال کہ حکمراں کیسے بنائے جائیں گے اورحکمراں کا انتخاب کیسے ہوگا؟ ان کا تعین کیسے ہوگا؟ اس کے لیے قرآن نے جو بنیادی اصول دیا ہے وہ ہے:
(وَأَمْرُھُمْ شُوْرَیٰ بَیْنَھُمْ) (الشوری: 38)
’’اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔ ‘‘
چنان چہ مشورے سے انتخاب ہوگا، اس کی شکل کچھ بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے، یہ آفاقی مذہب ہے۔ اشکال اور ہیئات بدلتی رہتی ہیں لیکن اصول اور کلیات اپنی جگہ مستحکم ہوتے ہیں۔ حاکمیتِ الٰہ، خلافت، شورائیت یہ بنیادی چیزیں ہیں، شکلیں الگ الگ ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ آپؐ کے انتقال کے بعد پہلے خلیفہ کا انتخاب مشورے سے ہوا، ثقیفہ بنی ساعدہ میں لوگ اکٹھاہوئے، وہاں بات چیت ہوئی، بڑی مجلس مسجدِ نبوی میں ہوئی اورحضرت ابوبکرؓ صدیق کا انتخاب مکمل ہوا۔ پھر حضرت عمرؓ کا انتخاب دوسرے طریقے سے ہوا، حضرت ابوبکرصدیقؓ نے مناسب سمجھا اور لوگوں سے مشورہ بھی کیا اور تمام چیزوں کی روشنی میں انھوں نے حضرت عمرؓبن خطاب کو نامزد کردیا۔ پھر حضرت عثمانؓ کا انتخاب تیسرے طریقے سے ہوا کہ حضرت عمرؓ نے اپنی حیات کے آخری حصہ میں ایک مجلس شوریٰ بنادی اور اس کے ذمے یہ کام کیا کہ یہ لوگ رائے عامہ کا جائزہ لے کر خلیفہ کا انتخاب کریں گے اور اس طریقے سے حضرت عثمان کا انتخاب ہوا۔ توآپ دیکھیے کہ شکلیں الگ الگ ہیں، لیکن بنیادی چیز شورائیت ہے، لوگوں کی رائے معلوم کرنا، لوگوں سے پوچھنا، رائے عامہ کا جائزہ لینا، اپنے سے کسی کو مسلط نہیں کرنا۔ آج کا سسٹم دوسرا ہے، نئے نئے طریقے ہیں جن کے ذریعے لوگوں کی رائے معلوم کی جاتی ہے، استصواب کیا جاتاہے، refrendom  کرایا جاتا ہے۔ کوئی بھی مناسب طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس طریقے سے حکمراں کا انتخاب کیاجاسکتاہے، لیکن بنیادی چیز حاکمیتِ الٰہ، خلافت اور شورائیت ہے۔
اسلامی نظامِ حکومت کی ایک بہت بڑی خصوصیت جو تمام نظام ہائے حیات سے اس کو ممتازکرتی ہے اور اس کی فوقیت اور اس کی برتری کو ثابت کر تی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام صرف قانون نہیں دیتاہے بلکہ اس قانون کے احترام کا جذبہ بھی دیتاہے، اور یہ چیز کسی اور سسٹم میں موجود نہیں ہے۔ دنیا کی جتنی حکومتیں اور سسٹم ہیں وہ اسی لیے ناکام ہیں، وہ قانون تو بناتے ہیں لیکن قانون کے احترام کا جذبہ پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے قوانین بنتے ہیں۔ ایک عورت کے ساتھ دلّی میں زیادتی ہوئی، پورے ملک میں ہنگامہ مچ گیا اوراس کے بعد ایک بہت سخت قانون بنا، اس لیے کہ لوگوں کے اندر ہر طرف برہمی تھی، اس لیے بڑا سخت قانون بنا۔ لیکن یہ بتائیے کہ اس قانون کے بننے کے بعد سے زناکاری اور بدکاری کے واقعات میں کوئی کمی ہوئی؟ کوئی کمی نہیں ہوئی۔ جہیز کا قانون موجود ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں جہیز کی وجہ سے عورتوں کو جلادیا جاتا ہے اور طرح طرح کی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے قانون موجود ہے، لیکن واقعات میں کوئی کمی نہیں ہورہی ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ قانون تو آپ دے سکتے ہیں لیکن قانون کے احترام کا جذبہ آپ نہیں دے سکتے۔ وہ جذبہ کب ہوگا؟ جب آپ کے اندر یہ ایمان ہوگا کہ یہ اللہ کا قانون ہے اور اس کی شریعت ہے۔
(وَالَّذِیْنَ إِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوْا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلاَّ اللّٰہُ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلَی مَا فَعَلُوْا وَهمْ یَعْلَمُونَ) (آل عمران: 135)
’’اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں، کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو، اور وہ دیدہ ودانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔‘‘
یہ ایمان ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوجائے، گناہ کا ارتکاب ہوجائے تو یاد آتی ہے کہ ہم نے کس کا قانون توڑدیاہے اور فوراًاستغفار کرتے ہیں، نادم ہوتے ہیں، شرمندہ ہوتے ہیں اورجان بوجھ کر وہ گناہ میں لت پت نہیں رہتے۔ اسلامی شریعت کا یہ سب سے بڑا امتیاز ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیے کہ عہدِنبوی میں آپ نے جو سسٹم قائم کیا اس میں ہر آدمی اپنی ذمے داری محسوس کرتا تھا۔ اخلاقی اور ایمانی ذمے داری محسوس کرتاتھا کہ وہ قانون کا احترام کرے۔ بعض جرائم ایسے ہیں جن میں سخت سزائیں ہیں، ان میں ایسا ہوا کہ لوگوں نے خود آکر اعتراف کیا ہے اور اصرار کیا ہے کہ میرے اوپر حد جاری کردی جائے، سزانافذ کردی جائے۔ یہ بنیادی چیز ہے جسے ہمیں لوگوں کے سامنے رکھنا چاہیے کہ اسلام کا اور اسلامی حکومت کا امتیاز یہ ہے کہ قانون کے ساتھ ساتھ قانون کے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ جذبہ ایمان سے پیدا ہوتاہے، اللہ کے سامنے جو اب دہی کے احساس سے پیدا ہوتاہے، تقویٰ اور خداترسی سے پیدا ہوتاہے، آخرت کے احوال کی واقفیت سے پیدا ہوتاہے۔ یہ ایک بہت امتیازی چیز ہے، جسے ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
آج کل جو حکومتیں بنتی ہیں ان میں الگ الگ شعبے ہوتے ہیں:
ایک شعبہ انتظامیہ کہلاتاہے جو انتظامی امور کی دیکھ ریکھ کے لیے ہوتا ہے۔
دوسرا شعبہ قانون سازی کا ہے جس کو آج کل ہم اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ذریعے سے انجام دیتے ہیں۔
تیسرا شعبہ عدالت کا ہوتاہے۔
اور چوتھا شعبہ وہ ہے جس کا تعلق علوم وفنون، تہذیب و تمدن اور ثقافت سے ہوتاہے۔
نبیﷺ نے انتہائی مہارت کے ساتھ انتظامی امور کے لیے اہل افراد کا انتخاب کیا، جب کبھی آپؐ مدینہ سے باہر جاتے تومدینہ میں انتظامی امور کے لیے آپؐ کسی نہ کسی کو نامزد کرکے جاتے، کسی کو نائب منتخب کرکے جاتے اورہربار کسی نہ کسی الگ آدمی کو منتخب کرتے۔ بہت سے لوگوں کے اندر بہت سی صلاحیتیں ہوتی ہیں، ان کو اجاگر کرتے تھے۔ ایک بار توایک نابینا صحابی کو اپنا جانشین مقرر کرکے آپؐ مدینہ سے باہر گئے۔ اسی طرح دعاۃ کو مقرر کرتے تھے، تعلیم وتربیت کے لیے مختلف جگہوں پر وفود بھیجتے تھے اور زکوٰۃ کے محصّلین، جن کوعاملینِ زکوٰۃ کہاجاتا ہے، ان کا تعیّن فرماتے تھے، انتظامی امور کے لیے جو جوضرورت تھی آپ ان کا انتظام کرتے۔ بازار کی دیکھ ریکھ کا بھی آپ اہتمام وانتظام کرتے تھے۔ اس طرح آپؐ نے اپنی انتظامیہ کو بہت ہی بہترین انداز سے تشکیل دیا تھا اور اس کے لیے اہل افراد کو منتخب کیا تھا۔ اس میں قرابت داری یا کسی اور چیز کا لحاظ نہیں کیا گیا۔ صرف اہلیت اور تقویٰ کو معیار بنایا گیا اور کام اس کے سپرد کیا گیا جو اس کو ٹھیک طور سے انجام دے سکتا ہو۔ اگرکسی لشکر کو بھیجا ہے تو اس کا سپہ سالار اہلیت کی بنیاد پر نامزد کیا۔ کبھی کبھی تو ایسا ہواکسی نوجوان صحابی کا آپ نے انتخاب کردیا، کیوں کہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ حضرت اسامہؓ کے والد شہید ہوئے تو آپؐ نے ان کا بدلہ لینے کے لیے جو لشکر بھیجا اس کا سپہ سالار حضرت اسامہؓ کو نامزد کیا اور لشکر کے جانے سے پہلے آپؐ کا انتقال ہوگیا تو حضرت ابوبکرؓ نے زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد اس لشکرکو روانہ کیا۔ کسی نے کہاکہ یہ نوجوان ہیں، کسی تجربہ کار کو سپہ سالار بنادیجیے، تو حضرت ابوبکرؓ نے کہاکہ اللہ کے رسولؐ نے جو عہدہ کسی کو دیا میں اسے لے نہیں سکتا۔ تو انتظامی امور کوانجام دینے کے لیے صلاحیت اور صالحیت کی بنیاد پر آپؐ نے بہترین افراد کا انتخاب کیاتھا۔
اور جہاں تک قانون سازی کا معاملہ ہے تویہ بات بالکل عیاں ہے کہ اسلام کی نگاہ میں قانون ساز صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، قانون دینے والا اور قانون بنانے والا وہ ہے اور قانون چلانے والے ہم ہیں، ہم قانون سازنہیں ہیں۔ البتہ انتظامی امور وغیرہ سے متعلق جو چیزیں مباحات کے قبیل سے ہیں ان کے سلسلے میں جو ضمنی قوانین ہوتے ہیں وہ حالات کے لحاظ سے اربابِ حل و عقد مشورے سے بناتے ہیں اور بناتے رہیں گے، اس میں اسلام نے آزادی دی ہے، وہ حلال اور حرام کا مسئلہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کہیں ٹریفک دائیں طرف سے ہے اورکہیں بائیں طرف سے ہے، اس کا تعلق انتظامی امور سے ہے، تو اس طرح کی بہت سی ذیلی چیزوں میں ہم مصلحت کو سامنے رکھ کرقانون سازی کرسکتے ہیں، لیکن جو بنیادی چیزیں ہیں وہ علی حالہ باقی رہیں گی، جوحلال ہیں وہ حلال رہیں گی اورجو حرام ہیں وہ حرام رہیں گی۔ یہاں تک کہ نبی ؐ سے خطاب کرکے کہاگیا:
(یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ) (التحریم: ۱)
’’اے نبی! تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ ‘‘
ایک مباح چیز تھی، آپؐ نے کسی مصلحت کی وجہ سے اسے چھوڑاتھا، لیکن اندیشہ تھا کہ کہیں لوگ اسے حرام نہ سمجھ بیٹھیں، کیونکہ آپؐ کی ذات اسوہ اور نمونہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فوراً متنبہ کیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تحلیل اور تحریم کا اختیار صرف اللہ کو ہے اور رسول جو کچھ کہتاہے اللہ کی جانب سے کہتاہے، وہ خود شریعت سازی نہیں کرتا ہے، بلکہ اللہ کا جو حکم ہے اسے لوگوں تک پہنچاتاہے۔  قانون سازی کے سلسلے میں اللہ کے رسول کی ذات مرجع تھی، وحی کے ذریعے سے قرآن نازل ہورہاتھا اور پیش آمدہ مسائل کے سلسلے میں آپؐ کی رہنمائی ہوتی تھی، کوئی بھی مسئلہ پیش آتا لوگ آکر پوچھتے تھے اور سب کا مسئلہ حل ہوجاتاتھا۔ عہدِ نبوی کے بعد پھر اس میں اور چیزوں کا اضافہ ہوا، اجماع عہدِ نبوی کے بعد کی چیز ہے، اجتہاد کی ضرورت عہدِ نبوی کے بعد ہوئی، اس لیے کہ نبیؐ کے زمانہ میں اجتہاد کی ضرورت نہیں تھی، صاحبِ وحی موجود تھے، جو مسئلہ ہوتا لوگ جاکر آپؐ سے پوچھ لیتے تھے۔
تیسرا شعبہ جو حکومت کے سلسلے میں بہت اہم ہوتاہے وہ عدالت کا سسٹم ہے، اور عدالت کے سلسلے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں، امیراور غریب کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں ہوسکتا، قانون کا نفاذ یکساں طور پر سب کے اوپر ہوگا، چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ فتحِ مکہ کے موقع پر قبیلۂ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، معاملہ آپؐ کے پاس آیا، لوگ ڈرے کہ اس کے اوپر حد جاری ہوگی، اس لیے کسی سے سفارش کرانی چاہیے، چنانچہ حضرت اسامہؓ کو سفارش کے لیے بھیجاگیا کیونکہ وہ اللہ کے رسولؐ کے بڑے چہیتے تھے۔ جب انھوں نے جاکر آپؐ سے بات کی تو آپؐ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپؐ نے کہا:
’’أَتشفع في حد من حدود اﷲ؟ !‘‘ ثم قام فاختطب ثم قال: ’’إنّما أھلک الذین قبلکم، أنّھم کانوا إذا سرق فیھم الشریف ترکوہ، وإذا سرق فیھم الضعیف أقاموا علیہ الحدَّ‘‘۔
’’حدودِ الٰہی کے سلسلے میں سفارش لے کر آئے ہو؟ !‘‘ پھر آپؐ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب اُن میں کوئی شریف آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑدیتے تھے، اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتاتھا تو اس پر حد نافذ کرتے تھے۔ ‘‘
پھر آپؐ نے ایک تاریخی بات کہی کہ
’’وایم اﷲ لو أنّ فاطمۃ بنت محمد سرقت لقَطَعْتُ یدَھا‘‘۔۱؂
’’بخدا! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔ ‘‘
تو عدالتی سسٹم کے لحاظ سے آپؐ نے یہ نمونہ قائم کیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں اور اس میں کوئی تفریق امیر یا غریب، طاقتور یا کمزور کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی۔
اور جو چوتھا شعبہ تھا وہ بڑا اہم ہے، وہ ہے تعلیم وتربیت اور ثقافت وتہذیب کا۔ اور نبیﷺ نے ابتداہی سے اس کا اہتمام فرمایا، صفہ کی درس گاہ تھی، معلمین تھے، قراء تھے، دعاۃ تھے، مبلغین تھے جوقرآن اور حدیث کی تبلیغ کرتے تھے اور لوگوں کی اخلاقی تعمیر کرتے تھے۔ مسجدِ نبوی صرف نمازہی کا مرکز نہیں تھی، بلکہ تعلیم اور تربیت کا بھی مرکز تھی، وہاں سے لوگ علم حاصل کرکے اپنے اپنے علاقوں میں جاتے تھے۔ اور نبی ﷺ بہت شفقت کے ساتھ لوگوں کو تعلیم دیتے تھے اور اس کے بعد جب بھیجتے تھے تو کہتے تھے کہ جاکر یہ بات اپنے قوم کے لوگوں میں پہنچا دینا۔ نوجوان صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ایسا معلم ہم نے نہیں دیکھا، اتنی شفقت اور اتنی محبت ا ور اتنا پیار ہمیں کسی سے نہیں ملا جتنا کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ملا۔ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں اللہ کے رسول نے جو اسوہ چھوڑا ہے وہ ایک بہت ہی بے مثال اسوہ ہے۔ حکومتی سطح پر آپؐ نے اخلاقیات کے فروغ اور تعلیم وتربیت کا بہترین انتظام فرمایا۔
خارجہ پالیسی:
نبی ﷺ نے آس پاس کے حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھے او ر ان تمام علاقوں میں اسلام کوپھیلانے کی منظم انداز سے کوشش کی۔ صلح اور جنگ کے جو قوانین تھے وہ بھی انتہائی عادلانہ اور انسانیت نوازی پر مبنی تھے، مثال کے طور پر کسی بوڑھے، بچے یا عورت کے اوپر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، جو جنگ نہ کرے اس کے اوپر ہاتھ نہ اٹھایاجائے، اگر لوگ صلح کے لیے مائل ہوں تو ان کے ساتھ صلح کرلی جائے، کسی کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔ اس طرح جنگ کے میدان میں بھی عدل اور انصاف اور لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن وحدیث میں جنگ وصلح کے سلسلے میں جو ہدایات ہیں وہ انتہائی اہم اور مثالی ہیں، اور نبی ﷺ کا نظامِ حکومت اور نظامِ سیاست ہر پہلو سے مثالی ہے، اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے اور ہر عہد میں ہمیں اسے اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنا چاہیے۔
ہرعہد میں ہمیں کس طریقے سے آپؐ کے اسوے سے استفادہ کرنا ہے؟
اس بات کوہمیں اپنے دھیان میں رکھنا ہے کہ حالات ومسائل اور صورتحال الگ الگ ہوتی ہیں، اس لیے یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات میں ہمیں کس طریقے سے کام کرنا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن اور اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت اور فقہائے کرام کے مقرر کردہ قواعد کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیے۔
جہاں مسلم اقلیتیں ہیں ان کے سلسلے میں نبی ﷺ کی سیاسی رہنمائی کیا ہے؟
اس سلسلے میں ہمیں جو سب سے زیادہ رہنمائی ملتی ہے وہ ہجرتِ حبشہ سے ملتی ہے کہ وہاں ایک عیسائی حکمراں تھے جو انصاف پسند تھے، تو نبیؐ نے مسلمانوں کو وہاں جانے کا مشورہ دیا۔ مسلمان وہیں گئے، وہاں ان کو پناہ بھی ملی، تعاون بھی ملا اور وہ وہاں کافی مدت تک رہے، بہت سے لوگ تو فتحِ خیبر کے بعد وہاں سے واپس آئے۔ ان لوگوں نے مکے سے وہاں ہجرت کی، اور وہاں کے حکمراں کا تعاون حاصل کیا، وہاں کے قوانین کی پابندی کی، ایک اچھے شہری کی حیثیت سے وہاں اپنی زندگی گزاری اور سب سے بڑا کام یہ کیاکہ اپنے اخلاق وکردار سے اسلام کا تعارف کرایا۔ حضرت جعفرؓ نے نجاشی کے دربار میں جو تقریر کی اس میں انتہائی جامعیت کے ساتھ مختصر الفاظ میں اسلامی دعوت کا تعارف کرادیا۔ وہاں ان لوگوں کو جو تحفظ حاصل تھا اس سے فائدہ اٹھایا، وہاں کے نظام کی پابندی کی، وہاں دعوت کو پھیلانے کا کام کیا اور نبیؐ کی کوشش اور دعوت کے نتیجے میں نجاشی بھی مسلمان ہوا۔
تو مسلم اقلیتیں جہاں ہیں وہاں ہماری حکمتِ عملی یہی ہونی چاہیے کہ  ہم ترجیحی بنیاد پر اپنی ملت کی تعلیم اور ان کی ایمانی اور اخلاقی تربیت پر توجہ دیں، دینی لحاظ سے ان کو مستحکم بنائیں، ان کے ایمان اور عقیدے کو محفوظ رکھنے کے لیے تدابیر اختیار کریں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی کوشش کریں، اپنے اخلاق وکردار کے ذریعے دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیں۔
تیسری چیز یہ کہ جس ملک میں بھی ہم رہتے ہیں اس کے سسٹم کے اندر رہتے ہوئے دعوت وتبلیغ کی آزادی حاصل کرنے کے لیے جو مواقع ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ حاصل کریں اور ان کے اندر مزید وسعت پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اپنا بنیادی فریضہ انجام دے سکیں۔

*مولانا راشٹریہ علماء کونسل کے جنرل سیکرٹری ہیں.

(مضامین ڈیسک)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔