غیر مسلم کا قرآن مجید سے استفادہ – مسائل اور طریقہ کار- قسط 1

عبدالبر اثری فلاحی*

قرآن مجید ’’ھُدیً لِلنَّاسِ‘‘ ’’لوگوں کیلئے ہدایت نامہ‘‘(البقرۃ:2/185) ہے۔  ہر ایک کے لئے رہنما کتاب ہے۔ اسی لئے ہر ایک تک اسے پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے ’’وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْآنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ‘‘ (الانعام :6/19) اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے سب کو تنبیہ کردوں ۔
’’یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ‘‘ (المائدہ:5/67) اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے ۔ وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔
آپ ﷺ نے بھی خطبہ حجۃ الوداع کے موقع سے ہدایت دی تھی کہ ’’بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَ لَوْ آیَۃً‘‘ قرآن مجید میں تو یہاں تک ہدایت ہے کہ جنگی حالات میں بھی قرآن مجید سے استفادہ کا موقع فراہم کیا جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’وَ اِنْ اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہٗ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلاَمَ اﷲِ ثُمَّ اَبْلِغْہٗ مَأْ مَنَہٗ ذَالِکَ بِأَنَّھُمْ قَوْمٌ لاَ یَعْلَمُوْنَ‘‘ (التوبۃ:9/6) اور مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اسے اس کے مامن تک پہنچادو۔ یہ اس لئے کرنا چاہئے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔
یہی ہدایات تھیں جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرامؓ اور اسلاف کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ حق پہنچانے کے لئے قرآن سنانے کا اہتمام کرتے تھے اور جب ضرورت ہوتی تھی تو غیروں کو بھی آیات ، سورتیں اور مکمل مصحف لکھ کر بھی عنایت کرتے تھے۔
اس ضمن میں دو اشکالات کا ازالہ ضروری ہے جو بعض احادیث اور آیات کی وجہ سے ذھنوں میں راہ پاگئے ہیں۔ ایک اشکال یہ ہے کہ جب دشمن کے علاقے میں قرآن لے کر سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ متفق علیہ روایت ہے تو پھر انہیں قرآن دینا کیسے درست ہوسکتاہے ؟ روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں:’’عَنْ عَبْدِاﷲاِبْنِ عُمَرَاَنَّ النَّبِیَّ صَلّٰی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَھَیٰ اَنْ یُّسَافِرَ بِالْقُرْآنِ اِلیٰ اَرْضِ الْعَدُوِّ مَخَافَۃَ اَنْ یَّنَالَہٗ الْعَدُوُّ‘‘(صحیح بخاری ،کتاب الجہاد:حدیث نمبر2990/صحیح مسلم ، کتاب الامارہ:حدیث نمبر1869) حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ قرآن ساتھ لے کر دشمن کے ملک میں سفر کیا جائے ، اس خوف سے کہ کہیں دشمن اسے چھین نہ لے ۔
اس روایت کی تشریح میں محدثین نے صراحت کی ہے کہ اس ممانعت کی وجہ قرآن کی اہانت اور بے حرمتی کا خوف ہے۔ اگر یہ خوف نہ ہو تو دشمن ملک میں بھی قرآن لے کر سفر کیا جاسکتاہے۔ تفصیلات کے لئے دیکھئے فتح الباری لابن حجر۔
دوسرا اشکال یہ پایا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ’’لَا یَمَسُّہٗ اِلاَّ الْمُطَّھَّرُوْنَ‘‘ (سورۃ الواقعہ:56/79) اسے نہیں چھوتے ہیں بجز پاک لوگوں کے ۔ اسی طرح بعض احادیث میں ہدایت ہے کہ قرآن کو باوضو آدمی ہی چھو سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں اگر کسی غیر مسلم کو قرآن دیا جائے تو نہ ہی وہ پاکی اور صفائی کا اہتمام کرتا ہے جیسا کہ ایک مسلمان کرتا ہے اور نہ ہی وہ باوضو ہوتا ہے ایسی صورت میں بھلا کسی غیر مسلم کو قرآن کیسے دیا جا سکتاہے ؟
یہ اشکال بھی غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ طہارت اور وضو کی شرط اہل ایمان کے لئے ۔ غیر مسلموں کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی جاسکتی۔ کیونکہ جب وہ اصل دین کو تسلیم نہیں کرتا تو فروع دین کا مکلف اسے کیسے بنایا جاسکتا ہے ؟ اس سلسلے میں تقریب فہم کے لئے ایک استفتاء نقل کرنا افادہ سے خالی نہ ہوگا ۔ ملاحظہ فرمائیں:
سوال: کیابرادرانِ وطن کو قرآ ن مجید مع ترجمہ دیاجاسکتا ہے؟
جواب: امام صاحبؒ سے منقول ہے کہ نصرانیوں کو قرآن اور فقہ کی تعلیم دینے میں کچھ حرج نہیں کہ شاید یہی اس کے لئے وسیلہ ہدایت بن جائے ’’أعلم النصرانی الفقہ و القرآن لعلہ یھتدی‘‘(الفتاوی الہندیۃ:5/323، کتاب الکراہیۃ)خاص کر موجودہ حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ جن غیر مسلموں سے اس بات کا اندیشہ نہ ہو کہ وہ لے کر اس کی اہانت کریں گے، تو ان کو قرآن اور اس کا ترجمہ دیا جائے ، تاکہ اسلام اور قرآن کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہو ں۔
سوال: بعض اخبارات میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک مولوی قسم کی شخصیت نے قرآن مجید وزیر اعظم کو پیش کیا، جبکہ قرآن مجید کو باوضو چھونے کا حکم ہے ، کیا یہ بے حرمتی نہیں ہے ؟
جواب: دعوتِ اسلام کے نقطہ نظر سے غیر مسلموں کو قرآن مجید یا اس کا ترجمہ دینا جائز ہے،  قرآن مجید چھونے کے لئے وضو کرنے کا حکم مسلمانوں کے لئے ہے، جو لوگ دائرہ ایمان میں داخل ہی نہیں ہوئے ، وہ اس حکم کے مخاطب نہیں ہیں، کیونکہ غیر مسلم حضرات جب تک ایمان نہ لائیں، شریعت کے فروعی احکام ان سے متعلق نہیں ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کو جو خطوط لکھے، ان خطوط میں بھی قرآن مجید کی آیات تھیں، حالانکہ وہ غیر مسلم تھے، البتہ اگر کسی غیر مسلم سے قرآن کی توہین کا اندیشہ ہو تو اسے قرآن نہ دینا چاہئے‘‘ (کتاب الفتاویٰ ،از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،جلد1 /صفحہ:460۔461 )
جو لوگ صرف ترجمہ کی اشاعت اور تبلیغ کو ناجائز کہتے ہیں ان کے دو خدشات ہیں ایک تو متن قرآن کا ضیاع دوسرے تحریف معنوی لیکن ان دونوں خدشات میں زیادہ وزن نہیں ہے جیسا کہ مولانا سید عروج احمد قادریؒ نے ان خدشات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے ’’اب میں ان لوگوں کے خیالات کا بھی جائزہ لینا چاہتا ہوں جو غیر مسلموں کے لئے بھی صرف ترجمے کی اشاعت کو ناجائز کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ اندیشہ ہے کہ اگر بلا متن ترجمے رائج ہوگئے تو دیگر کتب سماوی کی طرح قرآن کا متن بھی نعوذ باﷲ دنیا سے غائب ہو جائے گا اور صرف تراجم باقی رہ جائیں گے۔ قرآن کے بارے میں یہ اندیشہ میرے نزدیک وہم سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس اندیشے میں پہلی بات تو یہ نظر انداز ہوگئی ہے کہ صرف انگریزی یاصرف ہندی کے ترجمے اصلاً غیر مسلموں تک قرآن کی تعلیمات پہنچانے کے لئے شائع کئے جارہے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کے درمیان صرف تراجم کے رائج ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ دوسری بات جو پہلی بات سے زیادہ عجیب ہے وہ یہ کہ اس معاملے میں قرآن اور دیگر کتب سماوی کو ایک قرار دے دیا گیاہے۔ حالانکہ تمام انسان مل کر بھی قرآن کو دنیا سے غائب کرنا چاہیں تو ہرگز قادر نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ قرآن کو قیامت تک دنیا میں باقی رکھنے ، بلکہ امت مسلمہ میں سے ایک ایسے گروہ کو باقی رکھنے کی ذمہ داری لی ہے جو خود قرآن پر عمل کرتا رہے گا، دنیا کو اس کی طرف دعوت دیتا رہے گا اور تمام معنوی تحریفات کو باطل کرتا رہے گا۔
پریس کی اس ترقی کے زمانے میں قرآن دنیا بھر میں کروڑوں کی تعداد میں شائع ہو رہاہے اور ہوتا رہے گا۔ لاکھوں سینوں میں قرآن محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا۔ اس کے علاوہ دیگر سائنسی ذرائع اور وسائل ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو متن قرآن کی حفاظت کے لئے بھی استعمال کئے جارہے ہیں۔ اور کئے جائیں گے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ حفاظت قرآن کے تمام ذرائع و وسائل کی تفصیل مقصود نہیں ہے۔
دوسری دلیل جو دی جاتی ہے وہ یہ اندیشہ ہے کہ اگر متن سامنے نہ ہو تو تحریف معنوی کی بڑی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔
یہ عجیب اندیشہ ہے جو فہم سے بالا تر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا متن کی موجودگی میں تحریف معنوی نہیں کی جاسکتی اور کیا متن کے ساتھ ساتھ تحریف کی مثالیں آج بھی موجود نہیں ہیں؟ (احکام و مسائل :از سید احمد عروج قادری ، مرتب ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی ، جلد اول صفحہ:67،68(
ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ دعوت اسلام کے نقطہ نظر سے اگر قرآن غیر مسلموں کو دینا ضروری ہی ہے تو پھر صرف ترجمہ انہیں دیا جائے یا ترجمہ مع متن انہیں دیا جائے ۔ اسی طرح صرف ترجمہ چھاپا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں دونوں رائیں پائی جاتیں ہیں اور دونوں کے دلائل ہیں۔ لیکن زیادہ بہتر رائے یہی معلوم ہوتی ہے کہ حامل المتن ترجمہ چھاپا جائے اور وہی دیا جائے ۔ کیونکہ اصل متن سے جوڑنے ، رجوع کرنے اور استفادہ کرنے میں جو افادیت ہے وہ ترجمہ سے پیدا نہیں ہوسکتی۔
اول : ترجمہ میں معنی و مفہوم میں کمی زیادتی اور سہو کا امکان رہتاہے جس کی متعدد مثالیں اہل علم کے نالج میں ہیں ۔مشہور زمامہ شاہ بانو کیس میں مطلقہ کے نفقہ کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فاضل جج نے عبداللہ یوسف علی مرحوم کے انگریزی ترجمہ’’متاع‘‘ کے ترجمہ ’’مینٹینس‘‘سے ہی دھوکہ کھایا تھا  اور اتنی قانونی لڑائی کے بعد اس کی اصلاح ہوسکی تھی۔
دوم: اصل متن اور ترجمہ دونوں موجود ہو تو حسب ضرورت اور حسب توفیق موازانہ کیا جاسکتا ہے اور صحیح نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ بعض سائنس دانو ں کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے۔(موریس بوکالئے کے اعترافات(
سوم : اصل متن کی اپنی تاثیر ہے جو بہر حال ترجمہ میں نہیں پائی جاتی ہے۔ خواہ کوئی عربی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو وہ کلام اللہ کو پڑھ کر اور سن کر اثر ضرور لیتا ہے چنانچہ اس ضمن میں تجربات بھی کئے گئے ۔اور مستند واقعات بھی ملتے ہیں۔
’’بعض مسلمان ڈاکٹروں نے کوشش کی کہ قرآن کی تاثیر معلوم کریں۔ انہوں نے ایک مسلمان کے سامنے قرآن مجید کی کیسٹ بجانا شروع کیا اور اس کے دل پر آلہ رکھ دیا تاکہ دل کی حالت کا اندازہ کیا جائے ۔ اس سے ان کو اندازہ ہوا کہ تلاوت کے دوران ان کی نبض کی کیفیت تلاوت سے پہلے کی کیفیت سے مختلف تھی۔ پھر اسی قسم کا تجربہ چند عیسائیوں پر کیا گیا اس لئے کہ ان کو معلوم تھا کہ مسلمان متاثر ہوتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ وہ جو چیز سن رہاہے وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہی تجربہ غیر مسلموں پر کیا گیا۔ نتیجہ وہی نکلا جبکہ نصاریٰ نہ قرآن کو سمجھتے ہیں اور نہ عربی زبان سے واقف ہیں، نہ ان کا قرآن پر ایمان ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسان چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم جب قرآن سنتا ہے تو اس کا دل متاثر ضرور ہوتا ہے ‘‘۔(سہ ماہی السلام نئی دہلی جلد 5، شمارہ جنوری تا مارچ 2001ء ؁ صفحہ18(
’’معروف پیر طریقت مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی نے اپنی کتاب ’’قرآن عظیم الشان ‘‘ میں صفحہ 78 تا 81 پر قاری عبدالباسط صاحب کے دورہ روس کاایک واقعہ نقل کیا ہے اس سے بھی اس حقیقت پہ روشنی پڑتی ہے : ’’ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا، قاری صاحب! آپ اتنا مزے کا قرآن مجید پڑھتے ہیں، آپ نے بھی کبھی قرآن مجید کا کوئی معجزہ دیکھاہے ؟ وہ کہنے لگے، قرآن کا ایک معجزہ؟ معلوم نہیں کہ میں نے قرآن کے سینکڑوں معجزے آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ انہوں نے کہا ، کوئی ایک تو سنا دیجئے ۔ تو یہ واقعہ انہوں نے خود سنایا۔
قاری صاحب فرمانے لگے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب جمال عبدالناصر مصر کا صدر تھا ۔ اس نے رشیا(روس) کا سرکاری دورہ کیا۔ وہاں پر کمیونسٹ حکومت تھی۔ اس وقت کمیونزم کا طوطی بولتا تھا۔ دنیا اس سرخ انقلاب سے گھبراتی تھی۔ دنیا میں اس کو ریچھ سمجھا جاتا تھا۔ آج تو اس سپرپاور کو اللہ تعالیٰ نے جہاد کی برکت سے صفر پاور بنا دیا ہے ، ۔۔۔جمال عبدالناصر ماسکو پہنچا۔ اس نے وہاں جاکر اپنے ملکی امور کے بارے میں کچھ ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں کے بعد انہوں نے تھوڑا سا وقت تبادلہ خیالات کے لئے رکھا ہوا تھا۔ اس وقت وہ آپس میں گپیں مارنے کے لئے بیٹھ گئے ۔ جب آپس میں گپیں مارنے لگے تو ان کیمونسٹوں نے کہا ،جمال عبدالناصر!تم کیا مسلمان بنے پھرتے ہو، تم ہماری سرخ کتاب کو سنبھالو، جو کیمونزم کا بنیادی ماخذ تھا، تم بھی کمیونسٹ بن جاؤ، ہم تمہارے ملک میں ٹیکنالوجی کو روشناس کرادیں گے، تمہارے ملک میں سائنسی ترقی بہت زیادہ ہو جائے گی اور تم دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہو جاؤ گے، اسلام کو چھوڑو اور کیمونزم اپنالو، جمال عبدالناصر نے انہیں اس کا جواب دیا تو سہی مگر دل کو تسلی نہ ہوئی ۔ اتنے میں وقت ختم ہوگیا اور واپس آگیا۔ مگردل میں کسک باقی رہ گئی کہ نہیں مجھے اسلام کی حقانیت کو اور بھی زیادہ واضح کرنا چاہئے تھا، جتنا مجھ پر حق بنتا تھا میں اتنا نہیں کرسکا ۔دو سال کے بعدجمال عبدالناصر کو ایک مرتبہ پھر رشیا جانے کا موقع ملا۔ قاری صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے صدر کی طرف سے لیٹر ملا کہ آپ کو تیاری کرنی ہے اور میرے ساتھ ماسکوجانا ہے۔ کہنے لگے کہ میں بڑا حیران ہوا کہ قاری عبدالباسط کی تو ضرورت پڑے سعودی عرب میں، عرب امارات میں، پاکستان میں ، جہاں مسلمان بستے ہیں۔ ماسکو اور رشیا جہاں خدا بے زار لوگ موجود ہیں، دین بے زار لوگ موجود ہیں وہاں قاری عبدالباسط کی کیا ضرورت پڑ گئی ۔ خیر تیاری کی اور میں صدر صاحب کے ہمراہ وہاں پہنچا۔
وہاں انہوں نے اپنی میٹنگ مکمل کی ۔ اس کے بعد تھوڑا سا وقت تبادلہ خیالات کے لئے رکھا ہوا تھا۔ فرمانے لگے کہ اس مرتبہ جمال عبدالناصر نے ہمت سے کام لیا اور ان سے کہا کہ یہ میرے ساتھی ہیں جو آپ کے سامنے کچھ پڑھیں گے، آپ سنئے گا۔ وہ سمجھ نہ پائے کہ یہ کیاپڑھے گا ۔ وہ پوچھنے لگے کہ یہ کیا پڑھے گا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ قرآن پڑھے گا۔ انہوں نے کہا ، اچھا پڑھے۔ فرمانے لگے کہ مجھے اشارہ ملا اور میں نے پڑھناشروع کیا ۔ سورۃ طہٰ کا وہ رکوع پڑھنا شروع کردیا جسے سن کر کسی دور میں حضرت عمر بن الخطابؓ بھی ایمان لے آئے تھے ’’طٰہٰ مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ اَلْقُرْآنَ لِتَشْقیٰ اِلاَّ تَذْکِرَۃً لِّمَنْ یَّخْشیٰ۔۔۔۔۔۔اِنَّنِیْ اَنَا اﷲُ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاعْبُدُوْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ‘‘فرماتے ہیں کہ میں نے جب دو رکوع تلاوت کرکے آنکھ کھولی تو میں نے قرآن کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے کمیونسٹوں میں سے چار یا پانچ آدمی آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ جمال عبدالناصر نے پوچھا ، جناب !آپ رو کیوں رہے ہیں؟ وہ کہنے لگے ہم تو کچھ نہیں سمجھے کہ آپ کے ساتھی نہ کیا پڑھا ہے مگر پتہ نہیں کہ اس کلام میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ ہمارے دل موم ہوگئے ، آنکھو ں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ گئیں، اور ہم کچھ بتا نہیں سکتے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔۔۔؟ سبحان اﷲ، جو قرآن کو مانتے نہیں ، قرآن کو جانتے نہیں اگر وہ بھی قرآن سنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں بھی تاثیر پیدا کردیا کرتے ہیں‘‘۔
*ناظم اعلیٰ فیروس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن،ممبئی

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔