غیر مسلم کا قرآن مجید سے استفادہ – مسائل اور طریقہ کار- قسط 2

عبدالبر اثری فلاحی

غیر مسلموں کے قرآن مجید سے استفادہ کی راہ کا سب سے بڑا مسئلہ زبان ہے۔ قرآن عربی زبان میں ہے اور بیشتر غیر مسلموں کی زبان عربی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں دو ہی شکل ممکن ہے یا تو ان کو عربی سکھانے کا نظم کیا جائے تاکہ وہ زبان سے آگاہ ہوکر قرآن پر غور وفکر کرسکیں اور ہدایت یاب ہوسکیں یا پھر قرآن کا ان کی مادری زبانوں میں ترجمہ کیا جائے اور پھر ان تراجم کو ان تک پہنچایا جائے تاکہ وہ قرآن کے پیغام کو سمجھ سکیں۔

جہاں تک غیر مسلموں کو عربی سکھانے کے نظام کا سوال ہے تو ایسی کوئی کوشش میرے علم میں نہیں اور نہ ہی ایسا نظام وضع کرنے کا کوئی منصوبہ کبھی سننے میں آیا ہے۔ ہاں انفرادی کوششوں کے سراغ ملتے ہیں اور جنہوں نے بھی کوشش کی انہیں کامرانیاں ہاتھ لگی ہیں جیسا کہ مشہور نو مسلم سائنس داں موریس بوکالئے کہ انٹرویو سے پتہ چلتا ہے ۔ انٹرویو کا متعلقہ اقتباس درج ذیل ہے :
سوال: قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتب کے مطالعہ کا اتنا گہرا داعیہ آپ کے اندر کیسے پیدا ہوا اور کیوں کر؟
جواب: فرانس کی زندگی میں عام شہریوں کی طرح میں نے بھی دین اسلام کے متعلق صرف اور صرف یہ جانا کہ دین اسلام محمد ﷺ نامی ایک عبقری اور ذہین ترین شخص کا گڑھا ہوا دین ہے۔ تقریباً پچاس سال تک دین اسلام کے متعلق میرا یہی تصور رہا، پھر اللہ رب ذوالجلال کے فضل و کرم سے میں سرجری کا ڈاکٹر بنا، مریض میرے پاس اتے تو میں ان کے سامنے دین اسلام کا مسیحیت سے موازنہ کرتا۔ اس گفتگو اور بحث و مباحثہ کے دوران بعض افراد نے مجھے یہ بتایا کہ دین اسلام سے متعلق میرے یہ خیالات بالکل غلط ہیں۔ ابتداءً تو میں نے ان کو ہی جھٹلایا،لیکن جب بعض افراد نے وقتاً فوقتاً مجھے قرآن مجید کے حقائق اور سنت نبویﷺ کے بارے میں بتایا اور بعض دستاویزات دکھائیں تو میں نے اس پر غور وفکر کیا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ افراد اپنے دعوؤں میں حق بجانب ہیں اور میں سراسر غلطی پر ہوں اور میری یہ اغلاط خود ساختہ تھیں۔ اس طرح میں نے اخبارات و رسائل، نشریاتی ادارے، ریڈیو، ٹی وی پروگراموں میں دین اسلام کے بارے میں جو کچھ پڑھا، دیکھا اور سنا ان پر قلم پھیر دیا۔ اس کے بعد بھی میں حیرت زدہ تھا کہ میں اسلام سے متعلق اپنے افکار، اپنے موقف اور اپنے رویوں میں اعتدال کہاں سے لاؤں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کیسے کروں؟
سوال: یہ کب کا ذکرہے ؟
جواب: ویٹیکن کی آٹھویں کانفرنس کے بعد 1926ء ؁ سے قبل جب کہ فرقہ وارانہ احساس شدت پر تھا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان براہِ راست کسی طرح کی گفتگو نہیں ہوتی تھی۔
سوال: اس کے بعد آپ کا کیا رد عمل رہا؟
جواب: اس کے بعد میرے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ میں قرآن مجید کی اصلی زبان کا مطالعہ کرنے کے لئے عربی زبان سیکھوں۔ الغرض میں نے عربی سیکھنے کی کوشش شروع کی اور تقریباً دو سال تک بڑی محنت اور شوق سے عربی زبان سیکھنے میں لگا رہا۔ بالآخر میں نے عربی زبان پر دسترس حاصل کرلی اور بالآخر باآسانی دینی و علمی دونوں حیثیت سے قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے قابل ہو گیا۔
اسی انٹرویومیں انہوں نے آگے مزید اظہار خیال کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ’’چند دن قبل مجھے چند اہم عیسائی شخصیتوں کے ساتھ ایک عصرانہ دیا گیا۔ جس میں انہوں نے اسلام سے متعلق میری تحریرات پر حیرت و استعجاب کا اظہار کیا۔ مزید برآں اسلام کے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنے کے لئے بعض تفاسیر قرآن کے نام بھی دریافت کئے ۔
سوال: آپ نے انہیں کن تفاسیر کا مشورہ دیا؟
جواب: افسوس کہ بات یہ ہے کہ فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کی ایسی تفاسیر بہت کم پائی جاتی ہیں جو ان کے حق میں اطمینان بخش ثابت ہوں اور جن سے ان کی مقصد برآوری ہوسکے۔
اس سلسلہ میں سب سے اہم تفسیر ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی ہے ، لیکن وہ کسی حد تک تشنہ ہے۔ اسی طرح سے حمزاہ ابوبکر کی تفسیر بھی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن اس میں بھی کچھ ترمیم و اضافہ کی ضرورت ہے۔ اس وقت کچھ تفاسیر قارئین کے حق میں تشویشناک ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تقاضوں کو ملحوظ خاصر رکھ کر قرآن مجید کی بہتر سے بہتر تفسیر کی جائے ۔ ویسے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ قرآن مجید جو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے سب سے پہلے عربی زبان سیکھنی چاہئے ۔ کیونکہ بہت سے مفسرین قرآن، قرآن مجید کے تمام مباحث میں مہارت تامہ نہیں رکھتے۔ اس لئے وہ ان مباحث میں لغزش کھا جاتے ہیں وہ قرآن مجید کی ان سو آیات کی تفسیر نہیں کرسکتے جن کا تعلق علم طبیعیات سے ہے۔ صاحب طراز ادیب ہونا بھی قرآن مجید کی تفسیر و توضیح کے لئے کافی نہیں۔
سوال: قرآن مجید کی غلط تفسیر کی کوئی مثال آپ کے ذہن میں ہے ؟
جواب: مثلاً ’’خلق الانسان من علق‘‘ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں بہت پیچ و تاپ کھایاہے، لیکن اس کی صحیح تفسیر ان سے نہ ہوسکی۔ ان مفسرین کے نزدیک ’’علق‘‘ سے مراد دم منجمد ہے۔ حالانکہ یہ تفسیر ’’علق یعلق‘‘ (یعنی خون دیوار رحم سے چپک جاتاہے ہے) کا صحیح مفہوم ادا نہیں کررہی ہے۔ اس لئے ’’علق ‘‘ کی تفسیر ’’دم منجمد‘‘ سے کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ انسان دم منجمد سے نہیں پیدا ہوا ۔ بعینہ عبداللہ یوسف علی سے بھی ان کی انگریزی تفسیر میں ہوئی ہے (عبداللہ یوسف علی کا ترجمہ قرآن سارے یورپ اور امریکہ کا سب سے مقبول ترجمہ و تفسیر ہے ) ‘‘(فرانسیسی سائنس داں موریس بوکالئے کا انٹرویو،ترجمہ از حافظ حقانی میاں قادری، ماہنامہ نقش کوکن، اگست 2011ء ؁ صفحہ25۔28)
غیر مسلموں کو واقعی قرآن کے پیغام سے آشنا کرنے کے لئے انہیں عربی زبان سکھانے کا نظام وضع کرنا اور انہیں رو بعمل لانا وقت کی ترجیحی دعوتی ضرورت ہے جس پر قائدین امت اور تحریکات اسلامی کے اکابرین کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ نو مسلموں کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے کہ قبول اسلام میں سب سے زیادہ دخل قرآن کی تعلیمات کا ہے ، اور عموماً ترجموں کی مدد سے قرآن کو سمجھا گیا ہے۔ اگر براہِ راست قرآن سمجھنے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی راہ ہموار کردی جائے تو قبول اسلام کی رفتار اور تیز ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں اس عذر میں زیادہ وزن نہیں کہ عربی سیکھنے کی اہمیت انہیں کیسے سمجھائی جائے ؟ اصل چیز یہ ہے کہ قرآن کی انقلابی حیثیت قرآن کے تاریخی انقلاب اور نفع رسانی کی تناظر میں سمجھا ئی جائے تو یہ کوئی بہت مشکل امر نہیں ہے ۔ خلیجی دولت کے حصول کے لئے ہزاروں غیر مسلموں نے عربی سیکھی اور سیکھ سکتے ہیں تو قرآن کی نفع رسانی (جو دنیا و آخرت دونوں سے متعلق ہے) انہیں سمجھا دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ عربی سیکھنے کی طرف مائل نہ ہوں اور نہ سیکھ سکھیں۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے پاس ایسا سسٹم موجود ہو جہاں ان کی یہ حاجت پوری ہوسکے۔ ہمیں اس سسٹم کو ڈیولپ کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ خلیجی دولت کو حاصل کرنے کے لئے تجارتی اور عوامی عربی زبان سکھانے کا نظام بن سکتا ہے تو قرآن کا حیات آفریں پیغام پہنچانے کے لئے آخر ایسا نظام کیوں نہیں بن سکتا ہے؟ فنکشنل عربک کورس کی طرح ڈپلوما اور سر ٹیفکیٹ کے ایسے نصاب تیار کرکے مختصر وقت کے کورس چلائے جاسکتے ہیں اور اس سلسلے میں نو مسلموں کو عربی سکھانے کے مختلف شخصی تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ جو بہر حال مختلف جگہوں پر ہوتے رہے ہیں مثلاً جامعۃ الفلاح، درس گاہ اسلامی رامپور، جامعۃ دارالسلام عمرآباد، ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہر غیر مسلم عربی سیکھنے کا جوکھم نہیں لے سکتا ۔ لیکن جو لے گا وہ ہمارے لئے قیمتی سرمایہ بن سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں اس سمت میں پیش رفت کرنی چاہئے ۔ ’’خِیَارُکُمْ فِیْ الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُکُمْ فِیْ الْاِسْلاَمِ اِذَا فَقِھُوْا‘‘(کتاب الانبیاء ،حدیث نمبر3383،الجامع الصحیح للبخاری)
قرآن مجید سے استفادہ کے سلسلے میں غیر مسلموں کے عربی نہ جاننے کے مسئلہ کا جو دوسرا متبادل ہے وہ ترجمہ قرآن کی اشاعت اور ترسیل عوامی نقطہ نظر سے یہ انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ عوام اپنی مادری زبان نہیں سیکھ پاتے تو عربی بھلا کیسے سیکھ پائیں گی۔ لہٰذا انہیں ان کی مادری زبان میں مترجم قرآن پہنچانا ہی مسئلہ کا حل ہے۔ اس کی اہمیت کے اعتراف کے باوجود امت کا تاریخی ریکارڈ اس سلسلے میں اطمینان بخش نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں ہر زبان میں قرآن کا ترجمہ مہیا نہیں ہے۔ عالمی ریکارڈ تو ایک مشکل کام ہے حالانکہ وہ بھی تیار کیا جانا چاہئے ۔ میں سمجھنے کے لئے صرف ملک کی ریاستی زبانوں کی بات کرتا ہوں۔ ہزاروں سال سے ہم اس ملک میں رہ رہے ہیں لیکن ملک کی ہر ریاست کی زبان میں قرآن کا ترجمہ موجود نہیں ہے۔ ابھی صرف 18؍زبانوں میں ترجمہ ہوسکا ہے جبکہ4؍ریاستی زبانوں میں ترجمہ ابھی باقی ہے ۔ کیا خیر امت قرار پانے اور نفرت کو پاٹنے کے لئے اس محاذ پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت نہیں ہے ؟ نیز کیا یہ محاذ ایسے ہیں جن کے لئے وسائل مسدود ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اصل مسئلہ توجہ کا ہے ؟ ’’ادارہ علوم القرآن علی گڑھ ‘‘اور ’’ادارہ دعوت القرآن‘‘ ممبئی جیسے ادارے اگر اسے اپنی منصوبہ بندی اور سرگرمی کا لازمی جز بنالیں تو چند سالوں میں یہ کام ہوسکتا ہے ؟ اور بڑے نفع کا کام ہوگا ۔
یہاں اس حقیقت کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ غیر مسلموں کو سامنے رکھ کر ترجمہ و تفسیر کاکام کم ہوا ہے۔ مسلمانوں کو سامنے رکھ کر کام زیادہ ہوا ہے۔ اس لئے اس میں وہی رنگ غالب ہے اور غیر مسلموں کے لئے وہ چنداں مفید ثابت نہیں ہوتے بعض کوششیں کی گئیں لیکن یا تو ادھوری یا تشنہ جیسا کہ غیر مسلموں کو سامنے رکھ کر مولانا صدر الدین اصلاحی ؒ نے ’’تیسر القرآن ‘‘ لکھنا شروع کیا تھا لیکن ’’سورۃ البقرہ‘‘ تک ہی لکھی گئی تھی کہ یہ مبارک سلسلہ رک گیایا مولانا شمس پیرزادہ ؒ نے ’’دعوۃ القرآن‘‘ کے نام سے تفسیر لکھی لیکن تشنگی پھر بھی باقی ہے۔
یہاں اس المیہ کا تذکرہ شاید لوگوں کو کھٹکے لیکن آگاہی اور عبرت کے لئے جاننا ضروری ہے کہ انگریزی کا سب سے پہلا ترجمہ کسی مسلمان نے غیر مسلموں کے لئے نہیں کیا بلکہ ALEXANDER ROSSنامی ایک یہودی نے 1649 ؁ء میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے کیا جیسا کہ اس ترجمہ کے عنوان کی عبارت سے جھلکتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں:
"THE ALCORAN OF MAHOMET, TRANSLATED OUT OF ARABIC FOR THE SATISFACTION OF ALL THAT DESIRE TO LOOKING INTO TURKISH VANITES”
(مضمون : ’’حالیہ انگریزی تراجم قرآن مجید۔ایک تنقیدی جائزہ ‘‘ از عبدالرحیم قداوائی (ماہنامہ تہذیب الاخلاق جلد 31 شمارہ 8، اگست 2013ء  صفحہ 184)
غیر مسلموں کے قرآن مجید سے استفادہ کی راہ میں دوسرا سب سے اہم مسئلہ اصطلاحات دین کا ہے ۔ اہل ایمان کے لئے پس منظر سے آگاہی، اسلامی معاشرت و ماحول اور اہل حق کی صحبت کی وجہ سے اصطلاحات دین کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں رہتا لیکن جو اجنبی ہیں ان کے لئے بڑا مشکل ہے۔ غیر مسلموں میں بہت سی غلط فہمیاں انہیں اصطلاحات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں یا انہیں اصطلاحات کی آڑ میں پیدا کی جاتی ہیں مثلاً جہاد، کافر، جزیہ، نجس وغیرہ اصطلاحات کی آڑ میں نہ جانے کتنی غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں ۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ان اصطلاحات کی صحیح تشریحات ان کے سامنے لائی جائیں تاکہ ان کی غلط فہمیاں دور ہوں اور وہ حقیقت آشنا بن سکیں۔
غیر مسلموں کے لئے اصطلاحات کی عام فہم وضاحت کی ضرورت کا احساس مولانا صدر الدین اصلاحی ؒ کو بھی تھا چنانچہ انہوں نے جب غیر مسلموں کو سامنے رکھ کر ترجمہ و تفسیر ’’تیسیرالقرآن ‘‘ لکھنا شروع کیا تو اس کے مقدمہ کے طور پر ایک مختصر کتاب تیار کی جو ’’قرآن مجید کا تعارف ‘‘ کے نام سے الگ سے مرکزی مکتبہ اسلامی نئی دہلی 25 سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں ایک باب انہوں نے اصطلاحات کے تعارف کے لئے بھی مختص کیا تھا۔ لیکن اس میں تمام اصطلاحات کا احاطہ نہیں ہے لہٰذا ضرورت ہے کہ غیر مسلموں کو سامنے رکھ کر اصطلاحات قرآن پر ایک جامع کتاب بھی تیار ہو اور اسے وسیع پیمانے پر غیر مسلموں تک پہنچایا جائے یا مختلف تراجم کے ساتھ قرآن کے شروع یا آخیر میں رموز و اوقاف کی طرح جوڑ کر شائع کیا جائے تاکہ حسب ضرورت قاری ان سے استفادہ کرتا رہے ۔
غیر مسلموں کے قرآن مجید سے استفادہ کی راہ میں تیسرا اہم مسئلہ وہ اشکالات و اعتراضات ہیں جو ان کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں (جیسے وحی و الہام کا اشکال ، جہنم میں درخت کی موجودگی اور جانداروں کی زندگی کا اشکال ، قتال عن المشرکین ، ترک موالات کفار، مکہ معظمہ میں کفار و مشرکین کے داخلہ پر پابندی) اس سلسلے میں مستشرقین و مشنریز نے سب سے زیادہ گل کھلائے ہیں لیکن ہمارے ملک کے متعصب غیر مسلموں کا رول بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ دیانند سرسوتی کی کتاب ’’ستیا رتھ پرکاش‘‘ کا چودھواں باب قرآن پر اعتراضات کے لئے ہی مخصوص ہے ۔ اسی طرح گنگا پرشاد اپادھیائے کی کتاب ’’مصابیح الاسلام ‘‘ میں بھی قرآن اور اس کی تعلیمات کو خاص نشانہ بنایا گیاہے۔ گرچہ اول الذکر کتاب کا جواب ’’حق پرکاش‘‘ کے نام سے مناظر اسلام مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری ؒ نے دیا ہے اور مؤخر الذکر کتاب کا جواب ’’انوارالاسلام ‘‘ کے نام سے ابومحمد امام الدین رام نگریؒ نے دیا ہے لیکن پھر بھی آئے دن نئے نئے اشکالات و اعتراضات سامنے آتے رہتے ہیں ۔ گرچہ اشکال برائے اشکال اور اعتراض برائے اعتراض کا جواب تو نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن جن اشکالات و اعتراضات کا جواب اتمام حجت کے لئے ضروری ہے ان کے جوابات کا مسلسل التزام و انتظام ہو نا چاہئے ۔ قرآنی اسلوب تو یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کے سوالات آئے فوراً جواب دیا گیا خواہ ’’یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْرُّوْحِ‘‘کی شکل میں ہو یا ’’یَسْئلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ‘‘کی شکل میں ۔
انفرادی سطح پر علماء و دانشوران تو کوشش کرتے ہیں اور کررہے ہیں لیکن اس طرح کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اجتماعی فورم کا فقدان ہے۔ حالانکہ مشترکہ طور پر جواب کی افادیت و تاثیر زیادہ ہوگی۔ لہٰذا اس کا نظم بھی قائم کیا جانا چاہئے ۔
غیر مسلموں کے قرآن سے استفادے کی راہ کا چوتھا مسئلہ ان کے ذہن کے تحفظات ہیں۔ ہر ایک کو اپنی چیز محبوب اور پیاری لگتی ہے۔ اپنا مذہب اچھا اور بہتر لگتا ہے ۔ اس لئے وہ جلد اس سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں قرآنی تعلیمات کا ان کی مذہبی تعلیمات سے تقابلی موازنہ اور قرآنی تعلیمات کی فضیلت اور بہتری کا اثبات ہی ان کو ان کے ذہنی تحفظات کے خول سے باہر نکال سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ آسان کام نہیں ہے لیکن اس کے بغیر ذہنی تحفظات کا ازالہ ممکن بھی نہیں ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو کھلے ذہن سے سوچتے ہیں اکثر لوگ ’’اَلنَّاسُ عَلیٰ دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘کے مصداق ہوتے ہیں ۔ ایسے میں غیر مسلموں کے اذہان ، ان کے مذاہب اور ان کی تاریخ و روایات کو سامنے رکھ کر اور ان کا تجزیہ کرکے قرآنی تعلیمات کی برتری کا اثبات بڑے دوررس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ انسان چونکہ حال اور ترقیات سے زیادہ مانوس ہوتا ہے لہٰذا جدید سائنسی تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے اور عقل کو اپیل کرتے ہوئے اگر مباحث سامنے لائے جائیں تو وہ زیادہ مؤثر ہوں گے۔ بالخصوص ان دونوں پہلوؤں طبقاتی نظام اور تصور مساوات کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی تک کوئی دعوتی تفسیر نہیں لکھی گئی ۔ ضرورت ہے کہ اس محاذ پر بھی مردانِ کار سامنے آئیں اور اس فرض کفایہ کو پورا کرنے کا بیڑا اٹھائیں۔ ان دونوں پہلوؤں پر کام کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مثالوں پر غور کرنا افادیت سے خالی نہ ہوگا ۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’آج اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ علم جدید نے یہ بات منکشف کردی ہے کہ اگر انسان جل جائے اور اس کی جلد آگ سے بری طرح متاثر ہو جائے تو اس سے احساس الم جاتا رہے گا، کیونکہ مرکز احساس انسان کی اوپری جلد ہے جب جلد ہی جل گئی تو احساس بھی نہ رہے گا۔ لہٰذا جہنم میں کفار جب ایک بار آگ میں جھلس گئے اور ان کی کھال بالکل جل گئی تو اس کے بعد پھر جتنی بار بھی ان کو آگ سے جلایا جائے گا اور تکلیف پہونچائی جائے گی ، موضع احساس ختم ہونے کے بعد نہ انہیں الم ہوگا اور نہ کسی تکلیف کا احساس۔
قرآن پاک نے اس کا جواب 14سو سال قبل دیا ہے اور اس زعم باطل کا رد کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِأَیَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَاراً۔ کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنَا ھُمْ جُلُوْداً غَیْرَھَا لِیَذُقوْا الْعَذَابَ۔ اِنَّ اﷲَ کَانَ عَزِیْزاً حَکِیْماً‘‘ (النساء:56) جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب جب ان کے بدن کی کھال جل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت والا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتاہے۔
’’پروفسیر تگاتاتگاسون‘‘تھائی لینڈ کی یونیورسٹی آف شینگ مائی(University of Shaing Mai)میں علم الأجنۃ و التشریح کالج (Department of Anotomoy & Embrylogy)کے ہیڈ رہ چکے ہیں۔ فی الحال اس یونیورسٹی میں میڈیکل کالج کے ڈین ہیں۔ ان کے سامنے قرآن کی وہ آیات رکھی گئیں جو ان کے علمی تخصص و مہارت سے متعلق تھیں تو وہ حیرت زدہ رہ گئے انسانی جلد کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ اگر جلد بری طرح جل جائے تو الم و تکلیف کا احساس اس کے بعد مفقود ہو جائے گا۔ پروفیسر تگاسون بدھ مذہب کے ماننے والے تھے ان کی دلچسپی قرآن کریم سے بڑھی اور تقریباً تین سال کے گہرے مطالعے کے بعد ان کی شرکت ریاض میں منعقدآٹھویں سعودی میڈیکل کانفرنس میں ہوئی چار دن تک قرآن و حدیث کے علمی اعجاز پر مقالات و مبحث سننے کے بعد کانفرنس ہی میں اپنے اسلام کا اعلان کیا اور کلمہ شہادت پڑھا۔ تھائی لینڈ واپسی پر قرآنی علمی اعجاز پر انہوں نے چند لکچر دیئے جس کے نتیجے میں ان کے طلبہ میں سے پانچ طالب علموں نے بھی اسلام قبول کیا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’وَیَریَ الَّذِیْنَ أُوْتُوْالْعِلْمَ الَّذِیْ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ھُوَ الْحَقُّ وَ یَھْدِیٰ اِلیٰ صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ‘‘ (سورہ سبا:6) جو لوگ علم رکھتے ہیں خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے اور خدائے عزیز و حمید کا راستہ دکھاتا ہے ‘‘۔ (قرآن حکیم اور جدید سائنس مشاہدات کی روشنی میں ، از سید محمد انس ندوی ، ہدیٰ اسلامک ڈائجسٹ دسمبر 1998ء  فہم قرآن نمبر /صفحہ 225۔226)
غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد ان پڑھ ہے۔ ان تک قرآن کا پیغام پہنچانے اور ان کے لئے قرآن سے استفادہ کی راہ ہموار کرنے کے لئے دو محاذ پر مزیدکام ضروری ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سمعی و بصری مواد کی تیاری و ترسیل

اس ضمن میں تین کام کئے جاسکتے ہیں:
الف: غیر مسلم ذہن او ران کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے دروس قرآن کی تیاری اور ان کے سنانے کے لئے مجالس کا اہتمام
ب: روز مرہ کی زندگی میں پیش آمدہ مسائل کے قرآنی حل پر مبنی مختصر تقریروں کی سیریز
ج: اساسی موضوعات پر آیات قرآنی کے انتخاب اور جدید سائنسی انکشافات سے استفادے اور تفہیم پر مبنی کلپس کی تیاری و تشہیر
اس محاذ پر ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب اور ان کے ادارے ’’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن ،ممبئی ‘‘و "PEACE T.V.”.نے کچھ کام اور تجربات کئے ہیں ، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کچھ کام سید حامد محسن صاحب اپنے ادارے ’’سلام سنٹر بنگلور‘‘ کے ذریعہ انجام دے رہے ہیں۔ انہیں بھی سامنے رکھنا چاہئے ۔ ’’مدھر سندیش سنگم دہلی 6‘‘، اور’’ یونیورسل پیس فاؤنڈیشن نئی دہلی 25‘‘ کی کاوشوں سے بھی اس سلسلے میں مدد مل سکتی ہے۔
’’کَانَ خُلْقُہٗ الْقُرْآنَ‘‘کے مصداق دعاۃ و مبلغین کی تیاری جنہیں دیکھ کر ، جن کی بات سن کر اور جن سے مل کر قرآن کا عکس غیر مسلموں کے ذہن پر چھا جائے ۔ یقیناًیہ پتہ ماری کا کام ہے لیکن اس کے بغیر یہ میدان سر بھی نہیں کیا جاسکتا۔

*ناظم اعلیٰ فیروس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن،ممبئی

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔