عالمی ارض ڈے مناتے ہیں

 ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

جس زمیں پر سب آتے جاتے ہیں

داستاں اس کی ہم سناتے ہیں

سب زمیں پر ہی جنم لیتے ہیں

اور پس از مرگ اسی میں جاتے ہیں

کچہ نہ ہوگا اگر زمین نہ ہو

جو بھی اگتا ہے اس میں کھاتے ہیں ہے

زمیں قصر زیست کی بنیاد

ہم اسی پر ہی گھر بناتے ہیں

گھر کی تعمیر میں در و دیوار

لکڑی اور اینٹ سے بناتے ہیں

لکڑی ملتی ہے ہم کو جنگل سے

پیڑ پودے جسے سجاتے ہیں

گھر کی زینت ہے پیڑ پودوں سے

گھر کی رونق یھی بڑھاتے ہیں

ان سے ملتی ہے ہم کو صاف ہوا

 اس لۓ پیڑ ہم اگاتےہیں

صاف آب و ہوا ضروری ہے

لوگ کیوں اس کو بھول جاتے ہیں

تندرستی ہزار نعمت ہے

اس لئے لوگ پارک جاتے ہیں

۲۲اپریل کو سبھی ہر سال

عالمی ارض ڈے مناتے ہیں

آؤاس عھد کی کریں تجدید

وعدہ ہر حال میں نبھاتے ہیں

باز آجائیں اپنی حرکت سے

جوبھی آ لودگی بڑھاتے ہیں

چشمہ آب سوکھ جائے گا

پانی بیکار کیوں بہاتے ہیں

اس سے بڑہ کر نھیں کوئی دولت

مفت میں کیوں اسے لٹاتے ہیں

زندہ رہتا ہے صرف نام ان کا

دوسروں کے جوکام آتے ہیں ہے

یہی فرض عین ہم سب کا

جو صحیح بات ھے بتاتے ہیں

خواب غفلت سے ان کو اے برقی

آيۓ مل کے ہم جگاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔