حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد احمد رضا ایڈووکیٹ
آج کے اس دورِ فتن میں جہاں قدم قدم پر بے شمار فتنے ہیں ، وہیں ایک فتنہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی اذوات مقدسہ پر کم علمی و کج فہمی کی وجہ سے کیچڑ اچھالنا ہے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات پر زبان کھولنا بہت آسان سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے مناسب سمجھا کہ کچھ آپ ؓ کے بارے میں لکھا جائے۔
آپ کا نام معاویہ، کنیت، ابو عبد الرحمان، والد کا نام ابو سفیان بن صخر بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی ہے۔ گویا آپ ؓ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں پیارے آقا کریم ﷺ سے مل جاتا ہے۔ آپ ؓ حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں ۔ آپؓ پیارے آقا کریم ﷺ کی بعثت سے تقریباً پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ ؓ کا شمار مکہ کے ان 17 افراد میں ہوتا تھا جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ آپ نے اسلام پہلے قبول کر لیا تھا لیکن اعلان فتح مکہ کے موقع پر فرمایا۔
قبولِ اسلام کا اعلان کرنے کے بعد آپ ؓ پیارے آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں رہنے لگے اور میرے آقا کریم ﷺ نے آپ کو اپنا کاتب بنا لیا۔ یعنی آپ ؓ رسول اللہ ﷺ کے لئے لکھا کرتے۔ بعض علماء نے آپ کو کاتبین وحی میں بھی شمار کیا ہے۔
آپ ؓ اسلامی لشکر کی جانب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دورِ مبارکہ میں شام کی طرف جانے والے لشکروں میں آپ ؓ صفِ اول کے دستوں میں شامل تھے۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ مبارک میں آپ ؓ نے شام کے گورنر کی حیثیت سے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور کئی شہر فتح کئے۔ خلیفہ ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے عموریہ تک اسلام کا پرچم لہراایا۔ آپ کے جہادی کارناموں میں سے ایک عظیم کا رنامہ قبرص کی فتح ہے۔ یہ علاقہ ملک شام کے قرب میں واقع ہے۔ قبرص بہت خوبصورت اور زرخیز زمین کا حامل تھا۔ آپ ؓ اسلامی تاریخ کی پہلی نیوی کے چیف ہیں ۔ حضرت عثمان غنی ؓ کے دور مبارک میں آپ نے پانچ سو بحری جنگی جہازوں کا بیڑہ تیار کروایا۔ محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ اس پہلے بحری بیڑے میں شامل تمام مجاہدین کے لئے ہی رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دی۔ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2924، باب ما قیل فی قتال الروم۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیارے آقا کریم ﷺ سے سنا، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اول جیش من امتی یغزون البحر قد اوجبوا۔ پہلا لشکر میری امت میں سے جو سمندر میں جہاد کرے گا، اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ یہ حدیث مبارکہ صحیح بخاری کے علاوہ، المستدرک، مسند اسحاق بن راھویہ، مسند الشامیین، معرفۃ الصحابہ، مسند الصحابہ، حلیۃ الاولیاء، شرح السنۃ البغوی میں بھی موجود ہے۔ اور اسی پہلے لشکر کو تیار کرنے والے اور اس کی سپہ سالار یعنی چیف آف نیول سٹاف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔
آپ ؓ 18ہجری سے لے کر 41 ہجری تک، تقریبا 22سال گورنر رہے۔ آپ ؓ نے تقریبا 19 سال تک 64لاکھ مربع میل کے علاقے پر حکومت کی۔ 41 ہجری میں حضرت سیدنا امام حسن مجتبی علیہ السلام و رضی اللہ عنہ کی خلافت کے منسب سے دستبرداری پر آپ ؓ خلیفہ بنے۔ امام حسن و حسین علیہا السلام سمیت تمام مسلمانوں نے آپ کے دست حق پر بیعت کی۔
آپ ؓ انتہائی قابل منتظم تھے۔ آپ نے مسلمان آرمی کو دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ سردیوں کے موسم میں جہاد کرتا اور دوسرا گرمیوں کے موسم میں ۔ فوجیوں کے بچوں کے وظائف مقرر کئے۔ مردم شماری کے لئے باقاعدہ ادارہ قائم کیا۔ بیت اللہ شریف پر دیباج اور ریشم کا خوبصورت غلاف چڑھایا۔ نہری نظام کے ذریعے کئی سو میل کے علاقہ کو زراعت کے ذریعے آباد کیا۔ سب سے پہلے ایسا ہسپتال بنایا جس میں مریض کو داخل کرنے کا انتظام موجود تھا۔ آپ ؓ کے دور میں پہلی بار اسلامی افواج نے منجیق کا استعمال کیا۔ نیوی (بحری فوج) کا قیام آپ کا تجدیدی کارنامہ ہے۔ اسلامی سلطنت میں جہاز سازی کا پہلا کارخانہ قائم کیا۔
احادیث ِ صحیحہ سے آپؓ کے فضائل واضح ہیں ۔ صحیح بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فقیہ تسلیم کرتے ہیں ۔ سنن ترمذی کی حدیث کے مطابق پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ! (حضرت امیر معاویہ کے بارے میں ) اسے ہادی مہدی بنا دے (یعنی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو ہدایت دینے والا) اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔ یہ حدیث مبارکہ امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں بھی نقل کی ہے۔ اس کے علاوہ طبقات ابن سعد، مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خلفاء راشدین کے بعد میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی کومناسب نہیں دیکھا۔ گویا کہ اہل سنت کی بے شمار کتب میں آپ ؓ کے فضائل و مناقب موجود ہیں ۔
یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ محدثین کرام احادیث کی کتب میں کسی ایسے شخص سے روایت نقل نہیں کرتے جس پر جھوٹ، غیر اخلاقی افعال یا کسی بھی اعتبار سے اس کی عدالت پر کوئی حرف آتا ہو۔ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے احادیث و روایات کو نقل کرنا ہی ان کی صداقت و عدالت کی بہت بڑی دلیل ہے اور آپ ؓ کے فضائل میں سب سے اہم یہ ہے کہ محدثین نے کتبِ احادیث میں آپ ؓ سے مروی احادیث کو نقل فرمایا ہے، انہیں صحیح، مقبول اور معمول بہ جانا ہے۔ آپ ؓ سے مروی روایات اہل سنت کی کتب؛ سنن ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ، سنن ابی داؤد، امام بخاری کی الادب المفرد، المعجم الاوسط، مسند احمد بن حنبل، مستدرک للحاکم، السنۃ لابن ابی عاصم، المعجم الکبیر، صحیح ابن حبان، مسند الشامیین، السنن الکبری، سنن الترمذی، سنن دار قطنی، سنن الدارمی، مسند ابی عوانۃ، مسند ابی یعلی، مسند اسحاق بن راھویہ سمیت تمام کتبِ احادیث میں مروی ہیں ۔
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ آپ سے بعض صحابہ نے بھی حدیث روایت کی ہے جن میں جریر بن عبد اللہ، ابو سعید، نعمان بن بشیر، ابن زبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ ابن عباس، سعید بن مسیب، ھمام بن منبہ، محمد بن سیرین اور بے شمار محدثین نے آپ سے احادیث روایت کیں ۔
محدثین کا آپ سے حدیث روایت کرنا آپ کی صداقت و عدالت کی اس قدر واضح دلیل ہے جس پر مجالِ انکار کی جراء ت دنیا میں کسی کو نہیں ۔
آپ ؓ کی وفات 18 اپریل 680عیسوی ہے اور مزار اقدس دمشق میں مرجع خاص و عام ہے۔
اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولا کریم ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اصحابہ کرام علیہم الرضوان کے مقام کو سمجھنے، ان کا ادب کرنے، ان کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
jo waqat k khalifa k sath jang kare or dosrun ko bhi jang kelie tahij kare wo sab islami fiqah ki nazar mai kafir h ap k amir moawia ne sefain mai bilkul aisa hi kye
jo waqat k khalifa k sath jang kare or dosrun ko bhi jang kelie tahij kare wo sab islami fiqah ki nazar mai kafir h ap k amir moawia ne sefain mai bilkul aisa hi kye