سوشلزم کے معاشیاتی نقائص

ڈاکٹر احید حسن

1:سوشلزم کا دعوی ہے کہ اس نظام میں عوام پہ کوئی لگان یا ٹیکس عائد نہیں ہوتا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سوشلزم میں لگان یا ٹیکس کی شرح سرمایادارانہ نظام سے بہت زیادہ ہے کیونکہ عوام کو چند مخصوص سہولیات دے کر ان سے سب چھین کر اسے سرکاری املاک قرار دے دیا جاتا ہے۔

2:سوشلزم میں آزاد بازار یا فری مارکیٹ کی نسبت معاشی ترقی کے امکانات کم ہیں کیونکہ سوشلزم میں مزدور کو ایک مخصوص تنخواہ اور سہولیات ملتی ہیں خواہ وہ جتنی بھی محنت کرلے۔لہذا محنت کے مقابلے کی فضا اور اس کی حوصلہ افزائی کم ہوتی ہے۔

3: اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک سیاسی جمہوریت کے ساتھ ایک سوشلسٹ معاشی نظام چل سکتا ہے لیکن یہ ناممکن ہے۔جدید علم معیشت یا اکنامکس کے بانی ملٹن فریڈمین نے کہا تھا

” ایک آزاد معاشرے میں ( جب کہ سوشلزم میں عوام کے وسائل مکمل طور پہ ایک حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں ) معاشی ترتیب ترقی کو فروغ دیتی ہے اور ایک آزاد معیشت سیاسی آزادی کی راہ ہموار کرتی ہے۔

4: ایک فرد کا حق انتخاب وہ آزادی ہے جو سوشلزم فرد سے چھین لیتا ہے۔رقم اور دولت کا اکثر حصہ ایک مرکزی سوشلسٹ حکومت کو دینا پڑتا ہے اور فرد اپنی رضامندی کی سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔جس سے فرد کئی صورتوں میں اپنی محنت اور صلاحیت کی مناسبت سے کم حصہ پاتا ہے۔

5: ایک سوشلسٹ نظام میں ایک مرکزی حکومت معیشت کو قبضے میں رکھتی ہے لہذا فرد کو نہ معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی سیاسی آزادی۔

6: سوشلسٹ نظام معیشت ایک ناکام ترین نظام معیشت ہے جس کی بدترین تباہی کی ایک سرکاری مثال خود سوشلزم کی تاریخ کے سب سے بڑے تجربے یعنی سابق سوویت یونین میں اس نظام کی طرف سے معاشی ترقی اور مزدور حقوق کے نام پہ اپنے ہی  کروڑوں انسانوں کے قید، مشقت اورقتل کے بعد 25 دسمبر 1991ء میں دیکھی گئی۔مرکزی سوویت حکومت عوام کا گزشتہ انہتر سال میں سب کچھ لوٹ چکی تھی اور عوام کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا لہذا جب سابق سوویت یونین میں یہ نظام 1991ء میں تباہ اور بدترین ناکام ہوا تو بدترین معاشی تباہی آئی جس سے کئی ملین افراد بھوک اور بدحالی کا شکار ہو گئے کیونکہ ان کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے کیونکہ یہ وسائل ان سے سوشلسٹ حکومت چھین چکی تھی۔

7:سوشلزم کے سوویت نمونے میں ریاست کے پاس پیدوار کے سب حقوق تھے جس میں ہر شخص دوسرے کے لیے سرکار کا ملازم تھا لیکن مجموعی طور پر براہ راست اپنے لیے نہیں۔ یہ ایک طرح کی جبری مشقت تھی اور اس کا اظہار وہ مشہور روسی طنزیہ جملہ تھا جس کے مطابق ہم کام کا بہانہ کرتے ہیں اور وہ ہمیں تنخواہ دینے کا بہانہ کرتے ہیں۔

8: 1950ء کے عشرے کے وسط میں  یوگوسلاو کے مخالف میلوون دیجیلاس(Djilas) نے اپنی مشہور کتاب The new class میں اس نے سوویت یونین میں ظاہر ہونے والی نئی سوشلسٹ بیوروکریسی کے بارے میں لکھا جو عام عوام کے مقابلے میں بہت امیر اور سیاسی طور پہ ناقابل گرفت تھی۔

9: سوشلسٹ نظام ایک آزاد نظام معیشت کے مقابلے میں کم تحریک پیدا کرتا ہے جس سے ترقی کی شرح کم اور سماجی اور سیاسی مضر اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔

10: آسٹریا کے ماہرین معاشیات یا اکنامکس فریڈرک ہیک( Fredrick Hayek) اور لڈوگ وان میسز( Ludwig von Mises) نے اس بات کی دلیل دی ہے کہ سوشلزم کی طرف سے نجی ملکیت اور شخصی کاروبار کا خاتمہ عام عوام کے لیے بہت بری تباہی لاتا ہے۔ان کے مطابق بازاری قیمت کا تعین کیے بغیر وسائل کی تقسیم ناممکن ہے۔

11: نجی ملکیت اور کاروبار ہر شخص کا اخلاقی حق ہے اور یہ اس کی آزادی کا حصہ ہے اور یہ فرد کی سیاسی اور سماجی آزادی کی بنیاد ہے جو کہ سوشلزم فرد سے چھین کر اسے محض ایک مزدور اور محنت کی خراد یعنی مشینری میں تبدیل کر دیتا ہے جس میں اس کے پاس کوئی مالی و سیاسی آزادی نہیں ہوتی اور صرف جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے۔

12: سوشلزم کے معاشیاتی نظام میں وہ جغرافیاتی علاقے جو وسائل میں برتری رکھتے ہیں اپنے وسائل پہ اپنا پورا حق کھو بیٹھتے ہیں۔ لہذا ان کو وہ ترقی نہیں ملتی جو ان کے وسائل کے مطابق ان کا حق تھا۔

13: معاشرے میں موجود سب افراد کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں برابر نہیں ہوتی اس لیے ہر شخص کو اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کا حق حاصل ہے لیکن سوشلسٹ نظام معیشت میں فرد کو ایک مخصوص تنخواہ کا حقدار بنا کر اس سے اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی وہ قیمت چھین لی جاتی ہے جس کا وہ حامل ہوتا ہے جس سے معاشرے میں کام کے حوالے سے حوصلہ شکنی کا خطرہ پیدا ہوتا ہے اور نتیجے میں سوشلسٹ نظام معیشت کو زبردستی اور جبر سے کام لینا پڑتا ہے اور مزاحمت میں کروڑوں انسان مارے جاتے ہیں جیسا کہ ماضی میں سابق سوویت یونین کے دور میں سٹالن اور لینن نے کیا۔

14:ایک سوشلسٹ نظام معیشت میں سب وسائل حکومت چھین چکی ہوتی ہے۔لہذا ملک کے ہنگامی حالات کی صورت  میں عوام کے پاس اپنے بچاؤ اور بقا کے لیے کوئی وسائل محفوظ نہیں ہوتے جیسا کہ وینزویلا میں سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد ہوا۔بھوکی عوام کے جتھوں نے پیٹ کی جہنم بھرنے کے لیے مارکیٹوں پہ یلغار کردی اور پورا ملک غذائی بحران کا شکار ہوگیا۔یہ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد ہوا اور یہ اس ملک میں سوشلسٹ نظام معیشت کے ساٹھ سالہ اقتدار کا انعام تھا۔صرف ایک ماہ میں بھوکی عوام نے خوراک کے حصول کے لیے 641 مظاہرے کیے اور یہ سوشلزم نظام کی وہ بدترین ناکامی اور تباہی تھی جو آج تک کسی نظام معیشت میں نہیں دیکھی گئی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    انیسوں صدی میں مغرب میں سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی معاشرتی و معاشی محرومیوں کے خلاف رد عمل میں بھرپور لٹریچر لکھا گیا جس کے نتیجے میں بہت سی تحریکیں وجود میں آئیں. سرمایہ داری کے مدمقابل بہت سے متبادل نظام پیش کے گئے. ان متبادل میں سے ایک نظام "سوشلزم” بھی تھا.
    سرمایہ داری کے مدمقابل تمام مکاتب فکر نے سوشلزم کی اصطلاح کو اپنے نظریات کے حق میں استعمال کیا. مگر کوئی بھی فلسفی یا مکتبہ فکر سوشلزم کو مکمّل طور پر بیان نہ کر سکا. اسی لئے آج بھی سوشلزم کے اندر لاتعداد سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظریات پائے جاتے ہیں.
    کارل مارکس نے بھی اپنے نظریات میں سوشلزم کو استعمال کیا. اس کے مطابق سرمایہ دارانہ معاشرے کو یک لخت کمیونسٹ معاشرے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا. اس کے لئے پہلے اس معاشرے کو سرمایہ داری سے نکال کر سوشلسٹ بنانا پڑے گا جہاں وسائل کو نجی ملکیت سے نکال کر ریاست کی ملکیت میں دیا جاۓ گا. اسی لئے روس کے سابقہ نام (USSR) یونائیٹڈ سوویت سوشلسٹ ریپبلک میں لفظ "سوشلسٹ” آتا ہے نہ کہ "کمیونسٹ”. مگر سابق سوویت یونین کبھی بھی سوشلسٹ ریاست سے کمیونسٹ ریاست نہ بن سکا کیوں کہ کمیونسٹ ریاست میں خود ریاست کا تصور بھی ختم ہو جاتا ہے. اسی طرح وسائل کا کنٹرول جو کہ سوشلزم میں ریاست کی عمل داری میں آتا ہے، کمیونزم میں وہ کنٹرول ریاست سے نکل کر براہ راست لوگوں کے اختیار میں آ جاتا ہے. سوشلزم ایک طرح کا عبوری دور (Transitional Period) ہوتا ہے جس کا مقصد کمیونزم کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے. لیکن سوویت یونین کبھی بھی اس فلسفے کو نافذ نہ کر سکا اور پہلے لینن اور پھر سٹالن نے پورے ملک میں ایک مضبوط آمرانہ افسر شاہی نظام قائم کر کے کمیونزم کو نافذ کرنے کے خواب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مخدوش کر دیا.
    لیکن لینن نے انقلاب روس کے بعد جو اصل دھوکہ اپنی عوام اور باقی دنیا کو دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اس جابر آمرانہ آفسر شاہی نظام کو بطور کمیونزم کے پیش کیا جو در حقیقت کمیونزم تو دور….. سوشلزم بھی نہیں تھ

تبصرے بند ہیں۔