حالات حاضرہ کے تناظر میں ایک فی البدیہہ طرحی غزل

احمد علی برقی اعظمی

خود سے ہم آج بناتے ہیں تماشا اپنا

آج دنیا میں نہیں کوئی شناسا اپنا

اپنی ڈفلی ہے الگ اور الگ اپنا ہے راگ

’’ ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا‘‘

تختۂ مشقِ ستم ہم کو بناتے ہیں سبھی

کوئی اپنا ہے یہاں اور نہ پرایا اپنا

اپنے ہمسائے سے وحشت زدہ ہمسایہ ہے

خود ڈراتا ہے ہمیں آج یہ سایہ اپنا

نئی تہذیب کے ہے زیرِ اثر کُہنہ نظام

اپنے کچھ کام نہیں آتا ہے جایا اپنا

اپنا رہبر تھا جو نکلا وہی ایمان فروش

نہیں کوئی جو بنے آج سہارا اپنا

چارہ گر چارہ گری بھول گیا ہو جیسے

دشمنِ جاں ہے مرا آج مسیحا اپنا

اپنی تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھو

ناخدا پہلے ہوا کرتا تھا دریا اپنا

ہم میں کوئی بھی نہیں ایسا بچالے جو اسے

موجِ طوفاں میں گِھرا ہے جو سفینہ اپنا

خانہ جنگی میں ہیں مشغول عرب اور عجم

آج گردش میں ہے ہر سمت ستارہ اپنا

منتشر آج ہے شیرازۂ ہستی برقی

پہلے دنیا میں بجا کرتا تھا ڈنکا اپنا

تبصرے بند ہیں۔