حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
محمد ر سول اللہ ﷺ کی اصل حیثیت تو اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول کی ہے۔ اور آپ کے طرز عمل میں سب سے گہرا رنگ وحی کی صورت میں اللہ سے رہنمائی لینے اور اس کوعمل میں لانے کا ہے ہر اہل ایمان کا یہ اعتقاد ہے کہ نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ مبار کہ آپ کی ہر حیثیت (حاکم،قاضی،سپہ سالار وغیرہ) میں مسلمانوں کے لیے راہ ہدایت ہے اور اسی میں نجات ہے۔بطور حاکم آپکی اطاعت بھی عین اللہ کی اطاعت ہے، قرآن کریم میں اللہ ورسول کی اطاعت کاحکم بہت سی جگہ موجود ہے:وَمَآ اَرْ سَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِا ذِْ نِ اللّٰہِ۔ ( القر آن،سورہ نسأء:4 ، آیت 64 )ترجمہ: ہم نے رسول کو صرف اسی لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی فر ماں برداری کی جائے۔ پھر اطا عت ا للہ کا ذکر کیا:مَنْ یُّطِعِ الرَّسُولَْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ: (القرآن،سورہ نسآء 4،آیت80) تر جمہ: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کاحکم مانا۔(کنزالایمان)نبی کریم ﷺ نے مدینہ منو ورہ میں آکررسا لت کے ساتھ حکمراں کی حیثیت سے مد نی زندگی کا آغاز کیا آپ نے اللہ کی ہدایت کی روشنی اپنے حسن تد بر اور حسن انتظام(GOVERNANCE) سے مدینہ میں مثالی سلطنت قائم فر مائی اور ایسا مثالی معاشرہ قائم فر مایا جس کی مثال آج تک دنیا میں نہ ہو سکی۔ آپ کی حکو مت میں دور اندیشی نمایا ں تھی آپ ﷺ مذہب کے ساتھ ریاست کے سر براہ بھی تھے اور پھر یہ دائرہ وسیع تر ہوتا گیا جس کی تفصیل کے لئے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ آپ کی حکومت میں دینی ودنیا وی ہر طرح کا اقتدار جمع تھا۔ لیکن نہ تو آپ ﷺ کو پوپ(POPE) عیسائیوں کا سب سے بڑا پادری یاچرچ کا سر براہ،پاپائے اعظم) کا ’’ایسا‘‘ غرور تھا اور نہ ہی،قیصر روم،کسرائے ایران،عزیز مصر،نجاشی شاہ حبش جیسا سلطان باد شاہِ اعظم کی طرح کوئی فوج آپ ﷺ کے پاس تھی۔ آپ کی مثالی حکو مت کاذکر تاریخ کی کتا بوں میں موجود ہے آپ کی حکومت اور آپ کے حاکم کی صورت میں دنیا کی مشہور تاریخی ومستند کتاب انسائیکلو پیڈیا میں ڈیٹیل کے ساتھ مو جود ہے اور مصنف نے آپ کے دور حکومت کو سب سے اچھا اور انصاف کا دور لکھاہے۔
خلافت راشدہ شو رائی نظامِ جمہوریت:
آپ ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ‘،حضرت عمر فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی،اورحضرت علی کرم ا للہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا عہد خلافت’’خلافت راشدہ کہلاتاہے‘‘ خلافت راشدہ کی مجمو عی مدت 30 تیس سال ہے جس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اول اور حضرت علی کر م اللہ وجہہ آخری خلیفہ ہیں۔ یاد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے بھی کچھ ماہ خلافت فرمائ, اس عہد(وقت،زمانہ،دور)PERIOD کی نمایا ں اور اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن وسنت کی بنیاد پر قائم نظامِ حکومت تھا۔ خلیفۃالمسلمین حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ‘ کی خلافت کاقیام656سے661ء چار سال آٹھ مہینہ نودن آپ نے امور خلافت کو انجام دیا اور ترسٹھ سال کی عمر میں21رمضان المبارک دن اتوار40ھ میں آپ کی شہادت(وفات) ہوئی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنّآاِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔خلافت راشدہ کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس کا انتظام ایک شورائی(مشورہ کرنے والی جماعت،کمیٹی) کا نظام تھا۔ مجلس شوریٰ کی بنیاد پر عام مسلمانوں سے رائے لی جاتی اور مشوروں پر عمل کیا جاتا۔ ہر مسلمان کو مشورہ،رائے دینے کا حق تھا اور خاص بات یہ تھی کہ حکومت پر نکتہ چینی کا بھی حق رکھتا تھا۔خلافت راشدہ میں لو گوں کے مشورے اور رائے کو بہت اہمیت حاصل تھی۔حضر ت ابو بکر سے حضرت علی تک کی خلافت کے لیے جمہوری(DEMOCRATIC) روح کار فر ماتھی۔ان میں کوئی بھی فیصلہ ایسا نہ تھا جس کو امیرالمومنین مقرر کرنے میں مسلمانوں پر زبر دستی کی گئی ہو۔ مسلمانوں کا حضرت ابو بکر صدیق کو خلیفۃ المسلمین نامزد کرنا،حضرت عمر فاروق اعظم کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تمام صحابہ کرام سے مشورہ لینا اور مسلمانوں کے ان کے لیے متفق ہونا۔حضرت عمر فاروق کی چھہ6صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ(COMMITEE) میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے متفق ہو نا اورحضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے مسلمانوں کے خلافت کا بار اُٹھانے پر اصرار کر نا،حضرت عمر فاروق اعظم ر ضی اللہ عنہ نے یہ تمام طریقے اسلامی سلطنت میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے کئے اور جمہوریت DEMOCRACYکی عمدہ اور واضح مثال پیش فرمائی۔آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد مسلما نوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہوئے،مصطفی جانِ رحمت ﷺ کے سَسُر اور تاریخ اسلام کے اہم ترین شخصیات میں سے آپ ایک ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں(خلیفہ راشدہ کے سبھی امیر المومنین عشرہ مبشرہ سے ہیں)آپ کا شمار علماوزاہدین صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں ہوتا ہے۔23اگست سنہ634ء بمطابق22جمادی الثانی سنہ13ھ کو مسند خلافت سبھالی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل(انصاف کر نے والا منصف) حکمراں مشہور ہیں،آپ کی عدالت میں مسلم وغیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کر تا تھا،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عدل وانصاف بہت مشہور ہے اور آپ کا لقب فاروق(حق وباطل میں فر ق کرنے والا) کی وجوہِ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔یوں تو ہر خلیفۃ المسلمین کی حاکمیت بے شمار ٖفضائل وخصائص سے بھر پور ہیں جن کے ذکر کے لیے کتاب لکھنے کی ضرورت ہے وہ بھی کم پڑ جائے گی،تاریخ میں سبھی کا ذکر صراحت سے مو جود ہے۔
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بحیثیت خلیفۃالمسلمین:
حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ (پیدائش:17مارچ، 599ء ۔ وفات:29جنوری661ء چوتھے خلیفہ راشد تھے جنھوں نے656ء سے661ء تک دنیا ئے اسلام پربحیثیت خلیفہ حکمرانی کی۔آپ رسول اللہ ﷺ کے داماد بھی ہیں،آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں آپ بچپن میں ہی رسول کریم کے گھر آگئے تھے،حضور کی زیر نگرانی آپ کی تر بیت ہوئی۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہلے بچے تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا،آپ کی عمر اس وقت تقریباً10یا11 سال تھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تین دن تک مسند خلافت خالی رہی، اسی عرصہ میں لو گوں نے حضرت علی کر م اللہ وجہہ سے اس منصب کے قبول کے لیے سخت اصرار کیا گیا،آپ نے پہلے اس بار گراں کے اٹھانے سے انکار کردیا،لیکن آخر میں مہاجرین و انصار کے اصرارپر خلافت قبول فر مائی،(طبرانی:3010)حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تیسرے دن21ذی الحجہ پیر کے دن مسجد نبوی ﷺ میں آپ کے دست اقدس پر بیعت ہوئیَ۔حضرت مو لیٰ علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنتے ہی آپ کو سخت مخالفت کا سامنا حضرت امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ گور نر شام،اور زبیر بن عوام مکہ اور دیگر افراد کی جانب سے ہوا۔اور نتیجتاً اسلام میں پہلی خانہ جنگی ہوئی۔ اسے پہلا فتنہ بھی کہا جاتاہے اس کے بعد اسلامی خلافت دو حصوں میں بٹ گئی آگے کے معاملات انتہائی اختلاف سے بھرے ہیں،بڑوں کی بڑی باتیں’’ہمارے لیے کسی کے خلاف لکھنا بدنصیبی ہوگی،توبہ، توبہ استغفر اللہ‘‘ ہم دونوں صحابۂ کرام رضو ان اللہ علیھم اجمعین کی دل سے عزت واحترام کر تے ہیں اور عوام کے ساتھ ساتھ علماءِ کرام سے بھی گزارش کرتے ہیں خدارا کسی ایک صحابہ کی حمایت میں دوسرے صحابہ کرام کی بے ادبی سے بچیں،اپنی عاقبت کا خیال رکھیں اختلافی باتوں ، تحریروں کا عوام پر غلط اثر ہوتا ہے اللہ ہم سب کو ہدایت بخشے آمین،صحابہ کرام کی فضیلت قر آن واحادیث میں موجود ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خلفائے ثلاثہ میں سے ہر ایک کی خلافت کو بخوشی منظور فر مایا اور کسی کی خلافت سے انکار نہیں کیا ہے جیسا کہ ابن عساکر نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے لکھا ہے۔
آپ کا علم آپ کے فیصلے:
حضرت علی کر م اللہ وجہہ علم کے اعتبار سے بھی علمائے صحابہ میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں آپ کے فتوے اور فیصلے اسلامی علوم کے جواہر پارے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی آپ سے کسی مسئلہ کودریافت کیا تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فر مایا کہ علی سے زیادہ مسائل شریعہ کا جاننے والا کوئی نہیں ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوئی مشکل مقد مہ پیش ہوتا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ موجود نہ ہوتے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کر تے تھے کہ مقد مہ کا فیصلہ کہیں غلط نہ ہو جائے۔(تا ریخ الخلفاء،خطبات محرم:ص204) مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک ایسی عورت پیش کی گئی جسے زنا کا حمل تھا۔ ثبوت شر عی کے بعد آپنے اسے سنگسار(ایک قسم کی شرعی سزا جس میںآدمی کو کمر تک زمین میں گاڑ کر پتھر مار،مار کر اسے ختم کر دیا جاتا تھا، یہ سزا زانی(RAPEST) اور زانیہ کو دی جاتی تھی) کا حکم فر ما یا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یاد دلا یا کہ حضور ﷺ کا فر مان ہے کہ حاملہ عورت کو بچہ پیدا ہونے کے بعد سنگسار کیا جائے ۔اس لیے کی زنا کرنے والی عورت اگر چہ گناہ گار ہوتی ہے مگر اس کے پیٹ کا بچہ بے قصور ہو تا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یاد دہانی کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلہ سے رجو ع کر لیا اور فر مایا:لَوْ لَا عَلِیٌّ عُمَرُیعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا علی کی موجود گی نے عمر کو ہلاکت سے بچالیا۔(رضی اللہ تعالیٰ عنہما)(خطبات محرم:ص،204سے205) حضرت علی کر م اللہ وجہہ ا لکریم کا علمی مقام و مرتبہ، ان کی قرآن فہمی، حقیقت شناسی اور فقہی صلاحیت تمام اولین وآخرین میں ممتاز ومنفرد تھی۔ اللہ رب العزت نے انھیں عقل وخرد کی بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ جو مسائل دوسرے حضرات کے نزدیک پیچیدہ اور لا ینحل سمجھے جاتے تھے، انہیں مسائل کو وہ آسانی سے حل کر دیتے تھے۔ اکا بر صحابۂ کرام رضوان اللہ تعا لیٰ علیہم اجمعین ایسے اوقات سے پناہ مانگتے تھے کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور اس کے حل کے لیے حضرت علی کر م اللہ وجہہ مو جود نہ ہوں۔حضرت سعید بن ا لمسیب رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں:کَانَ عُمَرُ یَتَعَوَّذُ بِا اللّٰہِ مِنْ مَعَصلہ لَیْس فِیْھا وفی روایۃ: لَیْسَ لَھَا اَبُوحَسن:’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پیچیدہ مسئلہ سے اللہ تعا لیٰ کی پناہ مانگتے تھے جسے حل کرنے کے لیے ابو الحسن علی ابن طالب نہ ہوں۔(فضائل الصحابہ،ج:2،ص:803،رقم (1100بعض اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شہادت دی کہ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ ظاہر وباطن دونوں کے امین تھے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اِنَّ عَلِیّاً بْنَ ابی طَالبٍ عِنْدَہ‘ عِلْمٌالظَا ہِرِ وَالْبَاطِنِ:بیشک علی ابن ابی طالب(رضی اللہ عنہ) کے پاس علم ظاہر بھی ہے اور علم باطن بھی ہے۔:(حلیۃ الا ولیاء،ج:1ص:105)
حضرت علی نے خوارج کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
اسلام میں پہلا فتنہ گر مذ ہبی فر قہ خوارج کا ہے جس نے شعائر اسلام سے ہٹ کر اپنا الگ گروہ بنایا۔ یہ گروہ جس کی اکثریت بدوی عراقیوں کی تھی،جنگ صفین کے موقع پر سب سے پہلے یہ نمودار ہوا۔ یہ خوارج حضرت علی کر م اللہ وجہہ کی فوج سے اس بات پر الگ ہوئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ کی ثالثی(صلح صفائی کر انے کا عمل) کی تجویز منظور کرلی تھی۔ خار جیوں کا نعرہ تھا کہ :(’’حاکمیت اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ ان لو گوں نے شعث بن راسبی کی سر کردگی میں مقام حرورا میں پڑاؤ ڈالا اور کوفہ، بصرہ ،مدائن وغیرہ میں اپنے عقائد کی تبلیغ شروع کر دی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ دینی معاملات میں انسان کو حاکم بنا ناکفر ہے اور جو لوگ ایسے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے وہ واجب القتل ہیں، خار جیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت علی ر ضی اللہ عنہ بر حق تھے، ان کی بیعت ہر مسلمان پر لازم ہے۔جن لو گوں نے اس کا انکار کیا وہ اللہ اور رسول ﷺ کے دشمن ہیں۔ اس لئے حضرت امیر معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کسی قسم کی صلح کر نا ازروئے قرآن کفر ہے۔( معاذ اللہ ،معاذ اللہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چو نکہ ان کے ساتھ مصالحت(باہمی صلح صفائی، میل ملاپ،آپس میں صلح کر نا) کی ہے لہذا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی مجرم ہیں ( معاذ اللہ، معاذ اللہ) لہذا حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ دو نوں کے خلاف جہاد ضروری ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خار جیوں کو جنگ نہر وان میں شکست فاش دی، (تفصیل آگے آرہی ہے) لیکن ان کی شورش(شوروغل،اودھم،چیخ وپکار) پھر بھی جاری رہی چنانچہ،اہلسنت کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کر م اللہ وجہ الکریم پرخارجی ابن ملجم نے 26 جنوری661ء بمطابق 19رمضان المبارک،40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آ لود خنجر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا،حضرت علی رضی اللہ عنہ سخت زخمی ہو گئے،اگلے دودن تک زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہوسکے اور 21رمضان 40ھ کو وفات پائی،(آپ تیسرے خلیفہ تھے جن کو خلافت کے دوران میں قتل کیا گیا، آپ سے پہلے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بھی قتل (شہید) کیا جا چکا تھا۔حضرت امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ کے عہد (زمانہ) میں بھی ان کی بغا وتیں جا ری رہیں، ان کا دائرہ عمل شمالی افریقہ تک پھیل گیا۔ کوفہ اور بصرہ ان کے دو بڑے مرکز تھے عباسی خلافت تک ان لو گوں کا اثر ورسوخ رہا اور حکومت کے خلاف جنگیں لڑتے رہے اور اسلام کے پیروکاروں کے لیے درد سر بنے رہے۔
خوارج کے با رے میں نبی کریم ﷺ کی پیشن گوئی۔:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ مال غنیمت تقسیم فر مارہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخو لیصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا:’’اے اللہ کے رسول! عدل سے کام لیجئے۔‘‘ آپ نے فر مایا:’’ تمھاری خرابی! اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا؟‘‘ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے ؑ عرض کیا:’’ مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں۔‘‘آپ نے فر مایا:’’ اسے چھوڑدو اس کے ایسے ساتھی ہیں کہ آپ میں سے کوئی شخص،ان کی نماز کے مقابلے میں اپنی نماز کو حقیر سمجھے گا،اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا۔ یہ لوگ دین سے ایسے دور نکل جائیں گے جیسے تیر شکارسے نکل جاتا ہے اور اس کے پروں کو دیکھا جائے تو کچھ معلوم نہیں ہو تا ہے۔ پھر اس ( تیر کے) پھل کو دیکھا جائے تو معلوم نہیں ہو تاہے( کہ یہ شکار کے اندر سے گزر اہے) حالانکہ وہ خون اور گوبر سے ہو کر گزرا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہو گی کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہو گا جس کا ایک ہاتھ یا ایک چھاتی، عورت کی طرح ہوگی۔ یا فر مایا کہ گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگی اور ہلتی ہو گی۔ یہ لو گوں میں خانہ جنگی کے وقت نکلیں گے۔’’ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں: ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لو گوں کا قتل کیا تو ان کے پاس تھا۔ اسوقت (ان کے سامنے) ایک شخص ا سی صورت کا لایا گیا جو نبی ﷺ نے بیان فر مایا تھا۔ انہیں کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ،تر جمہ: ’’ان میں سے بعض لوگ وہ ہیں جو آپ پر صدقات کے با رے میں طعنہ زنی کر تے ہیں ‘‘( بخاری۔کتاب استا بۃ المر تدین ۔حدیث6533,6534) ۔
خار جیوں کی خانہ جنگی :
خار جیوں نے خلافت راشدہ کے صحابۂ کرام سے دشمنی کی حد پار کر دی تھی۔ایک بار انہوں نے ایک صحابی رسول حضرت عبداللہ بن حباب رضی اللہ عنہ کو پکڑلیا اور ان سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ،حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں رائے طلب کی۔ انہوں نے ان سب کی تعریف کی تو انہیں شہید کر دیا ان کے ساتھ ایک خادمہ بھی تھی جو حاملہ تھی ،اسے شہید کر دیا ان خوارج کا زہدو تقویٰ کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ انسان کا قتل ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا ، لیکن بقیہ معا ملات میں یہ بڑے محتاط تھے۔ ایک جگہ ایک درخت سے کھجور گرا تو ایک خار جی نے اسے منھ میں ڈال لیا اسکے ساتھی نے اسے ٹو کا کہ یہ کھجور لینا تمھارے لئے حرام ہے۔اس نے منھ سے کھجور نکال کر پھینک دیا اور اپنا ہاتھ بھی کاٹ لیا۔ اس کردار کے لوگ اب بھی ہمارے سامنے نظرآتے ہیں جو ا نسانوں کے قتل کو بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے معاملات میں زہدو تقویٰ کا بڑا اہتمام کرتے ہیں شام و عرب میں داعش، تو افریقہ میں بو کو حرام، لادین گروپ وغیرہ وغیرہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے خوارج کو بہت سمجھا یا، لیکن حضرت عبداللہ بن حباب رضی اللہ عنہ کا سن کر ان خوارج کا مقابلہ کر نے کا فیصلہ کر لیا۔آپ نے حضرت قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنھم کی سربراہی میں ایک فوج خوارج کی طرف بھیجی۔ براہ راست حملہ کر نے کے بجائے پہلے خوارج کو دعوت دی کہ وہ قاتلین کو ان کے حوالے کریں اور توبہ کرکے مسلمانوں سے آکر مل جائیں لیکن خوارج نے انکار کر دیا اور اس کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت علی کر م اللہ وجہہ نے بھی انھیں سمجھا یا، لیکن یہ کسی طرح نہیں مانے۔ اس کے بعد حضرت علی کر م اللہ وجہہ نے ایک سفید جھنڈا کھڑا کر کے اعلان کیا کہ جو شخص جنگ کے بغیر اس جھنڈے کے نیچے آجائے،اسے امان حاصل ہو گی اور جو یہاں سے نکل کر کوفہ یا مدائن چلا جا ئے، اسے بھی امان حاصل ہو گی متعدد خوارج نے ا س آفر( پیشکش offfer) سے فائدہ اٹھا کر امان حاصل کی ۔ خوارج کی تعداد محض4000 تھی جن میں سے 2800آد می عبداللہ بن وہب الر اسبی کے ساتھ رہ گئے تھے ۔ انھوں نے جنگ کی لیکن حضرت علی کر م اللہ وجہہ اور ان کے لشکر کے ہا تھوں سب مارے گئے۔ جنگ کے بعد حضرت علی کر م اللہ وجہہ نے خوارج کے 400 زخمیوں کی مرہم پٹی کرائی اور انھیں ان کے قبائل میں بھیج دیا،آپ نے ان کا مال و اسباب بھی واپس کر دیا۔ اس سے زیادہ اور اچھا سلوک کسی نے با غیوں سے کیا کیا ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ۔ تفصیل کے لیے اسلامی تاریخ کا مطالعہ فر مائیں مضمون کی طوالت کا خوف بھی ستا رہا ہے اللہ اسی کو قبول فر مائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلا فت اور آپ کے اہم کار نامے:
35ھ میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب علی ابن طالب کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے پہلے انکار کیا، لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ ﷺ نے اس شرط کے ساتھ منظور کیا کہ میں بالکل قرآن اور سنت کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رو رعا یت سے کام نہ لوں گاَ اس شرط کو مسلمانوں نے منظور کر لیا اورآپ نے خلافت قبول فر مالی۔ لیکن زمانہ آپ کی خا لص مذ ہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ بغاوت کر نے لگے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اقتدار کے ختم ہونے کا خطرہ تھا، آپ نے سب کا مقا بلہ کیا،آپ کے خلافت میں بہت اہم اور بڑے ،بڑے کام ہوئے۔( اسلا می تاریخ کامطالعہ فر مائیں) آپ کی خلافت کا ایک بہت بڑا دینی،علمی اہم کام ہوا،کتاب جامعہ کہ بنا بر روایت ابو لبصیر،علی ابن طالب نے اس میں اسلامی احکام رسول کریم ﷺ کی زبان مبارک کہے ہوئے لکھے اور اس میں متعددمو ضو عات کے حلال و حرام کے مسا ئل جمع فر مائے یہ ایک ضخیم کتاب ہے اسے کتاب علی بھی کہا جاتا ہے ۔احادیث پاک جمع فر مائیں بے شمار احادیث نبوی آپ نے نقل فر مائی ہیں چونکہ آپ سب سے زیادہ رسول کریم ﷺ کے قریب اور ساتھ رہے تو سب سے زیادہ فرامین سنتے تھے۔
حضرت مولیٰ علی کی خلافت میں عر بی گرامر کی ابتدا:
حضرت علی کر م اللہ وجہہ کا علمی مقام بہت بلند تھا اور کیوں نہ ہو کہ ان کی شان میں نبی کریم ﷺ کا فر مان عالیشان ہے کہ’’میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔‘‘ پوری حدیث پاک انا مدینۃ العلم و ابو بکر اساسھا و عمر حیتانھا وعثمان شفقھا و علی بابھا۔(رواہ الحاکم،الطبرانی،1089-1090، الشوقانی ، 307-308،القول المجموعۃ ) ترجمہ: میں شہر علم ہوں ،ابوبکر اس کی بنیاد ہیں ،عمر اس کی دیواریں ہیں ،عثمان اس کی چھت ہیں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم عربی گرامر کے موجد ہیں (ایجاد کرنے والے ہیں) آپ ایسے علم کے موجد ہیں جس کے بغیر کوئی شخص عالم نہیں بن سکتا ۔آج اگر کوئی انسان عالم ہے اور قرآن و حدیث کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ صلاحیت صرف اسی علم کے بدولت ہے جس کے موجد باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں اور وہ علم عربی گرامر(Grammer)یعنی علم نحو ہے ۔ہر اہل علم اس بات کو جانتا ہے کہ کسی زبان کو سمجھنے کے لیے اس کی لغت کی معرفت کتنا ضروری ہے پھر عربی لغت کی اہمیت تو اور بڑھ جاتی ہے قرآن وحدیث کو پڑھنا ،سمجھنا،علم نحو اور صرف یعنی عربی گرامر کے بغیر ممکن نہیں ،اسی لیے عربی گرامر کے متعلق کہا گیاہے’’ اَلصَّرْفُ اُمُّ الْعُلُوْمِ وَالنَّحَوْ اَبُوْھَا‘‘علم صرف تمام علوم کی ماں ہے اور علم نحو ان سب کا باپ ہے‘‘ اور ان دونوں علوم کے موجد و مؤسس (بانی)(Founder)حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں سب سے پہلے آپ ہی نے ان دونوں علوم کے بنیادی قوانین املا کرائے اور اسم ،فعل اور حرف کی پہچان بتائی ۔پھر ان کے بتائے ہوئے علم کو بغرض سہولت دوحصوں میں تقسیم کرکے ایک کو ’’صرف‘‘ کا نام دیا گیا اور دوسرے کو’’نحو‘‘ کا ۔ حقیقت میں ’’صرف‘‘ نحو ہی کا ایک حصہ ہے اور اس کے موجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔حضرت امیر المومنین نے بہت سے ایسے کاموں کی ابتدا فرمائی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی زبان اور اس کے قواعد نحو و صرف باقی ہیں حضرت علی کا کارنامہ زندہ و جاوید رہے گا ۔
ابولقاسم الزجاجی کی کتاب ’’مالی‘‘ میں لکھا ہے کہ (ابوالاسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ )میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو دیکھا کہ سر جھکائے متفکربیٹھے ہیں میں نے عرض کیا : امیر المومنین ! کس معاملے میں فکر مند ہیں؟ فرمایا :تمہارے شہر میں عربی غلط طریقے پر بولتے ہوئے سنتا ہوں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زبان کے اصول وقواعد میں ایک یاد داشت تیار کردوں۔ میں نے عرض کیا: انْ فعلتَ ھٰذا حییْتنا و بقیت فینا ھٰذہٖ اللغۃ ۔اگر آپ ایسا کردیں تو ہمیں آپ کے ذریعہ زندگی مل جائے گی اور ہمارے یہاں عربی باقی رہ جائے گی ۔ اس گفتگو کے تین روز بعد میں پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا توآپ نے ایک کاغذ مرحمت فرمایا اس میں علم نحو کے ابتدائی مسائل درج تھے‘‘(تاریخ الاسلام لذہبی ملخصاً، ج:2، ص:479)۔
حضرت علی کے دور خلافت میں بہت سے کام ہوئے جن کے لکھنے کے لیے کتاب کی ضرورت ہوگی چھوٹے سے مضمون میں ممکن نہیں، آپ کی شان علمی بہت اعلیٰ ہے ،بدنصیب لوگ ہیں جو آپ کی شان و عظمت سے انکار کرتے ہیں ۔آپ کے بے شمار خصائص و صفات ہیں چند ملاحظہ فرمائیں ۔ایک مرتبہ حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سورہ التوبہ کے ساتھ بھیجا اور حضرت علی کو بھی ساتھ میں بھیجا توفرمایا:لایذھبُ بھا الا رجل ہو منی وانا منہ۔: اس اعلان برات کے ساتھ فقط وہ شخص جائے گا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔‘‘ 2۔رسول کریم ﷺ سیدنا حسنین،فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان پر چادر پھیلائی پھر دعا فرمائی :اَللّٰہُمَّ ھٰؤُلَاءِ اَہْلُ بَیْتِیْ، فَاذْھِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَھِّرْہُمْ تَطْھِیْراً ۔اے اللہ ! یہ ہیں میرے اہل بیت، ان سے ہر طرح کی پلیدی دور فرمادے اور انہیں خوب پاک فرمادے۔ 3 ۔آپ بچوں میں سب سے اول شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد اسلام لائے آپ کے بے شمار فضائل و کمالات بے پناہ شجاعت سے دین اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے آپ انتہائی بہادر اور شجاع تھے آپ نے اسلام کی سب سے پہلی جنگ غزوہ بدر میں 72مشرکین میں سے 36کو آپ ہی نے واصل جہنم کیا تھا ،حضور کے زمانے کے بعد بھی اسلامی جنگوں میں آپ بنفس نفیس شریک رہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو آپ کا اور تمام اہل بیت کا و تمام صحابہ کرام کا سچا عاشق بنائے اور سب کا احترام کرنے کے توفیق رفیق عطا فرمائے آمین
تبصرے بند ہیں۔