غوّاصِ قرآن

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

علمی، دینی اور تحریکی حلقوں میں یہ خبر بہت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ عظیم ماہرِ قرآنیات اور فکرِ فراہی کے امین مولانا امانت اللہ اصلاحی آج نمازِ عصر سے کچھ دیر قبل اللہ تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں پہنچ گئے۔

حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سویا ہوں پاؤں پھیلا کر

میں ستمبر 2011 میں علی گڑھ سے دہلی آگیا۔ یہاں مرکز جماعت اسلامی ہند کی مسجد اشاعتِ اسلام میں ایک بزرگ کو دیکھا، جو صفِ اوّل میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ چلنے پھرنے سے معذور، دھیرے دھیرے واکر کے سہارے آتے اور پہلی صف میں ٹھیک امام کے پیچھے بیٹھتے۔ فرض نماز میں کرسی ہٹادیتے۔ سنن و نوافل کرسی پر بیٹھ کر ادا کرتے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مولانا امانت اللہ اصلاحی ہیں۔

مولانا اصلاحی نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کافی عرصہ نائجیریا میں گزارا اور وہاں دعوتی و تبلیغی خدمات انجام دیں۔ کسی زمانے میں وہیں ان کا بھیانک ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ کافی دنوں تک کوما میں رہنے کے بعد ہوش آیا اور طبیعت بحال ہوئی، لیکن چلنے پھرنے سے تقریباً معذور ہوگئے تھے۔ مرکز جماعت سے متصل اپنے بھانجے اور داماد جناب شارق انصار اللہ صاحب کے یہاں رہتے تھے۔

مسجد اشاعتِ اسلام کے نمازیوں میں میں نے ان سے زیادہ پابندِ نماز کسی کو نہیں دیکھا۔ عموماً وہ عصر کی نماز میں آجاتے اور عشاء کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے۔ مغرب اور عشاء کی اذان بھی دیتے۔ یہ وقت وہ قرآن مجید کی تلاوت، نوافل کی ادائی، قرآن میں غور و فکر اور مطالعہ میں گزارتے۔ یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ ان کو دیکھ کر اس حدیث کا عملی پیکر نگاہوں میں آجاتا تھا کہ کسی شخص کا دل مسجد میں کیسے اٹکا رہتا ہے؟ میدانِ حشر میں سات قسم کے لوگ عرشِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے، جب کہ اس کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہو (وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ۔ بخاری :660، مسلم :1031) مولانا اس کی زندہ مثال تھے۔ کبھی مسجد میں نظر نہ آئیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت شدید خراب ہے۔ کل تک وہ مسجد آتے رہے۔ رات میں طبیعت زیادہ خراب ہوئی۔ اسپتال میں داخل کیے گئے۔ سہ پہر میں، اس سے قبل کہ آکسیجن اور وینٹیلیٹر وغیرہ کے استعمال کی نوبت آتی، اچانک روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔

قرآن مجید سے مسلسل ربط و تعلق اور پیہم تلاوتِ قرآن کے اہتمام کی وجہ سے ان کا حافظۂ قرآن بڑا غضب کا تھا۔ اس کا مظاہرہ آئے دن ہوتا رہتا تھا۔ امام کہیں بھول جائے، کچھ غلط پڑھ دے، یا متشابہ آیات کی وجہ سے ایک جگہ پڑھتے ہوئے دوسری جگہ پہنچ جائے تو مولانا فوراً ٹوک دیتے تھے۔ رمضان المبارک میں خاص طور پر تراویح سنانے والے مولانا کا نشانہ بنتے تھے۔ وہ امام کو اس کا موقع بھی نہیں دیتے تھے کہ خود سے سنبھل جائے اور آیات دہرا کر درست کرلے، فوراً ٹوکتے تھے اور اس وقت تک آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے جب تک کہ آیات کی صحیح تلاوت نہ کرے۔

مسجد اشاعتِ اسلام میں عصر کی نماز کے بعد مختصر تذکیر ہوتی ہے۔ تذکیر کرنے والوں کی باریاں مقرّر ہیں۔ کوئی صاحب حدیث کی عبارت پڑھنے میں معمولی سی بھی غلطی کرتے تو مولانا فوراً ٹوک دیتے تھے اور درست اعراب کی نشان دہی کردیتے تھے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی قرآن مجید میں غوّاصی کرتے تھے۔ وہ حقیقی معنیٰ میں ‘الرجل القرآنی’ (ماہرِ قرآنیات) تھے۔ ان کی مہارتِ فن کی وجہ سے ہی جب علی گڑھ میں بعض فارغینِ مدرسۃ الإصلاح نے ‘ادارہ علوم القرآن’ قائم کیا اور اس کے ترجمان کے طور پر شش ماہی مجلہ علوم القرآن کا اجرا کیا تو مولانا کو اس کی مجلسِ مشاورت میں شامل کیا۔

فہمِ قرآن میں مولانا کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ اس سلسلۂ مضامین سے کیا جا سکتا ہے جسے برادر مکرم ڈاکٹر محی الدین غازی نے ‘ اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر ( مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں)’ کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔ ماہ نامہ حیاتِ نو، فروری 2019 میں اس کی 38 ویں قسط شائع ہوئی ہے۔ یہی مضمون بعد میں پاکستان کے ماہ نامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں شائع ہونا شروع ہوا۔ غالباً اس میں مختصر قسطیں شائع کی گئیں، چنانچہ اس کے مارچ 2019 کے شمارے میں 51 ویں قسط طبع ہوئی ہے۔ مولانا نے اردو کے معروف تراجمِ قرآن پر تنقیدی نظر ڈالی ہے اور ان کا محاکمہ کرتے ہوئے ان کے محاسن و معایب کا تجزیہ کیا ہے۔ اس مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ ترجمۂ قرآن کی باریکیوں پر مولانا کی بڑی دقیق نظر تھی۔

مولانا اصلاحی موجودہ دور میں فکرِ فراہی کے امین تھے۔ ماضی قریب میں مولانا فراہی کی جو غیر مطبوعہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی ہیں ان کی ایڈیٹنگ میں مولانا امانت اللہ نے بھر پور حصہ لیا ہے۔

اللہ تعالٰی مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، انھیں اعلٰی العلیین میں جگہ دے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔