سرسید شناسی کے چند اہم زاویے

فیضان بٹ

(سرینگر)

انگریزی کی ایک مشہور کوٹیشن ہے’’جو کام ہم اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں وہ ہمارے انتقال کے بعد ہی ختم ہوجاتاہے مگر جو کام ہم دوسروں یا دنیا کے لوگوں کے لئے کرتے ہیں وہ کام تا دنیا قائم رہتا ہے‘‘۔ مسلمانوں اور خاص کر اردو ادب کے لئے سرسید کی شخصیت بھی تب تک زندہ رہے گی جب تک دنیا قائم و دائم ہے۔ سرسید سے اگر آپ کو لاکھ اختلافات ہوں لیکن کو ئی سرسید کی علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی خدمات سے انکار نہیں کرسکتا۔ سرسید جس دور میں پیدا ہوئے وہ دور مسلمانوں کے لئے پر آشوب دور تھا، کیونکہ ۱۸۵۷ ء کی ناکام بغاوت کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو جبرو تشدد کا نشانہ بنایا اور ۱۸۵۷ کی ناکام بغاوت کا سارا نزلہ مسلمانوں پر گرایا۔ اس دور میں سرسید ہی وہ شخصیت تھی جس نے ــنہ صرف’’ اسباب بغاوت ہند ‘‘ نامی کتاب لکھ کر انگریزوں کے غم و غصے کو دور کرنے کی کوشش کی بلکہ ایک اسٹریٹجی بنا کر  مسلمانانِ ہند پر زور دیا کہ  وہ اپنی ساری توجہ تعلیم کی طرف مرکوز کریں۔ اس دور پرآشوب میں بقول سرسید ’’ میر ی تمنا ہے کہ میری ملت کے ہر شخص کے ایک ہاتھ میں ادب و فلسفہ ہو تو دوسرے ہاتھ میں سائنس و ٹیکنالوجی اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سر پر کلمہ طیبہ کا تاج ہو۔ ‘‘

   زیر تبصرہ کتاب ’’سرسید شناسی کے چند اہم زاوایے‘‘ میں سرسید شناسی پر مفصل اور مدلل بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو ’’کتاب محل سرینگر ‘‘ نے دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی شخصیت پربراہ راست سو سے زیادہ کتابیں لکھی گئی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ سرسید شناسی ایک اہم موضوع بن کر ابھرا ہے۔ اس کتاب کے مصنف نسیم عباس احمر جو کہ یونیورسٹی آف سرگودھا میں شعبہ اردو میں استاد کی حثیت سے کام کرتے ہیں، کتاب کی ابتدا میں ’’ چند سطریں مزید‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’ سوچ، فکر اور تصور کو احساس، جذبے اور مادے سے علیٰحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ سوچ ہی احساس اور جذبے کی صورت میں ڈھل جاتی ہے۔ مادیت کے ارتقا کی طر ح سوچ اور فکر کا ارتقا بھی تصادم اور کشمکش کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کے پس منظر میں خارجی عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ذہنی ترقی بھی تصورات کے تصادم سے ہی جنم لیتی ہے۔ سرسید کے افکار کا جائزہ بھی ایک جدلی عمل ہے جس کی مخالفت، مداحی اور معرو ضی رویہ، تاریخ کا حصہ رہا ہے اور انہی رویوں اور زاویوں کا مطالعہ اس کتاب کا موضوع ہے۔‘‘

کتاب کے پہلے باب میں اردو میں سرسید شناسی کی روایت کے مختلف رجحانات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ باقی چار ابواب میں  پروفیسر عمرالدین، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر ظفر حسن اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی جیسے سرسید شناسوں کے کام کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان کے خصا ئص، لغزشوں اور انفرادیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ چھٹا باب سرسید شناسی کی روایت میں ان چار سرسید شناسوں کا مقام متعین کرنے اور ان کے اثرات سے مخصوص ہے۔ ضمیہ جات (الف )میں سرسید کا سوانحی خاکہ(ب)تصانیف سرسید احمد خاں (ج) سرسید کے بارے میں تنقیدی کتب کا اشاریہ (د)چار سرسید شاناسوں کے سوانحی خاکے شامل ہیں۔

کتاب کے پہلے باب میں مصنف نسیم احمد احمر آخر پہ سرسید کے حوالے سے ایک اہم بات لکھتے ہیں کہ ’’ آج برصغیر میں مسلمان جس فکری بے چارگی اور پسماندگی کا حامل ہے ایسے لمحے میں فکر ِسرسید کی نئی توضیح اور اس میں اضافے کی ضرورت سرسید کے اپنے زمانے سے زیادہ بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ یوں سرسید شناسی کی روایت ہمارے زمانے میں اس لیے بھی اہمیت اختیار کر لیتی ہے کہ ہمارے زمانے کے فکری انتشار میں فکر کی یہ روشن روایت ہمیں اپنے وجود کے مثبت زاویوں سے آشنائی عطا کرتی اور اجتہاد کی ضرورت پر زیادہ سے زیادہ زور دیتی نظر آتی ہے۔ آج مغرب میں تہذیبوں کے ٹکراؤ کے مصنوعی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں، سرسید کی فکر ہمیں اپنی تہذیب کا زیادہ سے زیادہ شعور عطا کر رہی ہے۔ ‘‘

باقی چار ابواب جن میں سرسید شناسوں کو زیرِ بحث لایا گیا ہے ان میں ڈاکٹر سید عبداللہ سرسید اور تصورِ سیاست کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ سرسید کی نظر میں دین اور سیاست دو جدا شعبے نہ تھے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے سیاسی مسائل کو حل کرتے وقت دین سے مدد لی اور سیاسی مغائرتوں کو دور کرنے کے معاملے میں بھی مذہب کی سند لی۔ اس معاملے میں اُن کا نقطہ نظر سرتاپا مذہبی معلوم ہوتا ہے۔ سیاست کی بحثوں میں غالباََ انھوں نے تمدنی، جغرافیائی، اقتصادی، اور عقلی، معیاروں کو بہت کم مدنظر رکھا ہے۔ حالات زمانہ کے ماتحت اُن کا مطمح نظر ملکی اور جغرافیائی کم تھا، دینی اور مذہبی زیادہ تھا۔ ‘‘

 غرض یہ کتاب سرسید شناسی کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے اور ہر اُس شخص کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے جس نے سرسید کے حوالے سے بہت کم پڑھاہو، کیونکہ یہ کتاب ایک ساتھ سرسید کی سیاسی، سماجی، ادبی اور مذہبی شخصیت پر روشنی ڈالتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔