بابری مسجد کے مقدمے میں مصالحت سے شاید ہی کوئی قابلِ قبول نتیجہ برآمد ہو!

صفدر امام قادری

        بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کے سلسلے سے سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سے مصالحت اور فریقین کو تبادلۂ خیالات کے ذریعہ عدالت کے باہر گفت و شنید کے لیے ماحول قائم کیا ہے۔ اس سے پہلے جب چندر شیکھر وزیر اعظم تھے، اس وقت سلسلے وار گفتگو کا آغاز ہوا تھا اور اس معاملے میں آثار قدیمہ کے ماہرین، مورخین اور مختلف فریقین نے اپنی پیش کی اور اپنی دلیلوں سے اس تنازعے کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی مگر اس وقت بھی بات نہیں بنی تھی اور انجام سامنے ہے۔ ایک سازشی لمحے میں بابری مسجد کو ظالمانہ انداز میں شہید کردیا گیا اور پھر اس مقام پر ایک کام چلائو مندر بھی اسی لمحے بنادیا گیا۔ اس کے نتیجے میں آج عمارت کا کوئی معاملہ ہی نہ رہا اور اب یہ سوال زمین کے مالکانہ حق تک محدود رہ گیا ہے۔

        سپریم کورٹ نے اب کی بار تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے جسے فیض آباد میں فریقین سے تبادلۂ خیالات کرنا ہے۔ سنّی وقف بورڈ، رام جنم بھومی ٹرسٹ اور نرموہی اکھاڑا کے نمایندگان اور ان کے علاوہ دوسرے افراد کے نمایندے تبادلۂ خیالات کریں گے۔کورٹ نے چار ہفتے میں ابتدائی رپورٹ اور آٹھ ہفتے میں مکمل رپورٹ پیش کرنے کی واضح ہدایت دی ہے۔ جن تین افراد کو بات چیت کے لیے مصالحتی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے، ان میں جج اور وکیل کے سلسلے سے کسی طبقے میں چہ می گوئیاں نہیں ہوئیں مگر شری شری روی شنکر کے نام کی وجہ سے تھوڑے شبہات پیدا ہوئے۔ سوال ان کی نابستگی پہ شبہات قائم کرنے سے متعلق نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں وہ کئی بار اس موضوع سے اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں جس کے بارے میں پہلے بھی کسی حلقے سے اتفاق کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی آج تک اسے کسی مسلم کی حمایت حاصل ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی شبہ ہے کہ شری شری روی شنکر کے خیالات سوچے سمجھے ہیں اور وہ اس زمین پر مندر بنانے کے ہی خواہاں ہیں۔ ان کی دوسری تجویز بھی یہ ہے کہ بابری مسجد کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اب تو مختلف لوگوں سے خود بہ نفسِ نفیس انھیں معاملات رکھنے ہیں۔ اس لیے بجا طور پر ان کی لاتعلقی پہ شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ یہ بھی توقع ہے کہ وہ حقیقتاً ایک جماعت کے ترجمان بن کر سامنے آسکتے ہیں۔

        پہلا سوال ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس مقدمے میں مصالحتی ٹیم بنانے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ وکیل اور سابق جج کی شمولیت اگر اس ٹیم میں ہے تو اسی کے ساتھ ایک کسی مخصوص مذہب کے پیشوا کو شامل کرنا کہاں تک قرین انصاف ہے؟مذ ہبی رہنما یا مذہبی عالم کو شامل کرنا تھا تو دونوں فریق کی طرف سے نمایندوں کو بلایا جانا چاہیے تھا۔ عدالت ایک مخصوص زمین کے مالکانہ حق کو متعین کرنے کے لیے مقدمہ سن رہی ہے۔ اگر اس کے سیاسی اور مذہبی معاملات درکنار کردیے جائیں تو کون سی ایسی پیچیدگی پیدا ہوگئی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت مشورہ دہندگان کو کھڑا کرکے آئوٹ آف کورٹ فیصلہ لینے کی ہدایت کرے۔ یہ روٹین مقدمہ تھا اور اسے اسی لاتعلقی سے قابلِ غور رہنا چاہیے تھا۔ ہمارے ملک میں کس حکومت یا کس عدالت کو اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ زیرِ سماعت مقدمات کی طویل فہرست ہے اور معمولی سوالوں کے جواب کی تلاش میں ہزاروں مہینے صرف ہوجاتے ہیں۔ معمولی معاملے یا غلط فہمی کی بنیاد پر جنھیں حکومت کے اشارے سے پولیس نے ماخوذ کیا، ان کے بارے میں رہ رہ کر یہ خبر آتی ہے کہ بارہ اور پندرہ برس جیل کاٹنے کے بعد وہ اس طرح سے بری کیے گئے جیسے ان پر کوئی مقدمہ ہی نہیں ہوسکتا تھا مگر ان کی قسمت کہ عدالت میں وقت برباد کردینے کے انداز نے ان کی معصوم زندگی کے بارہ پندرہ برس چھین لیے۔ کسی ملزم کی موت ہوگئی اور بعد میں عدالت نے یہ ثابت کیاکہ اس پر کوئی مقدمہ قائم ہی نہیں ہوتا تھا۔ پولیس نے اس کے ساتھ زیادتی کی اور غلط طور پر مقدمے کا حصہ بنایا۔ دہشت گردی کے نام پر گذشتہ دو تین دہائیوں میں ایسے مقدمات کی ایک طویل فہرست تیار ہوگئی ہے۔

        لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ عدالت اپنے عام انداز سے اس مقدمے کو سننے اور اس پر فیصلہ دینے سے گریز کی راہ کیوں اپنا رہی ہے؟ ہمیں رام جنم بھومی آندولن کے دورِ شباب کے نعرے یاد ہیں۔ اٹل بہاری باجپئی سے لے کر لال کرشن اڈوانی تک یک زبان ہوکر دو باتیں کہتے آئے ہیں۔ اول : آستھا کا سوال ہے۔ دوم: مندر وہیں بنائیں گے۔ اب تک عدالتوں نے اس سلسلے سے جو کاروائی کی ہے، اس سے گذشتہ ستّر برسوں میں مزید پیچیدگیاں قائم ہوئیں۔ مسجد میں تالا لگوانا، اندھیری رات میں دروازہ کھول دینا اور وہاں بتوں کو داخل کردینا پھر تالا بند کردینے کا واقعہ ؛ ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی عدالتی فیصلہ کام کرتا رہا۔ یہ بھی لوگ بھول نہیں سکے ہیں کہ حکومتِ اتر پردیش اور حکومتِ ہند سے سپریم کورٹ نے وعدہ لیا اور دن کی روشنی میں بابری مسجد توڑ دی گئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کی موجودگی میں بھی فرقہ پرستانہ اور کم از کم غیر مصلحانہ اور غاصبانہ کام اس دوران ہوئے۔ اس کی ذمے داری صرف ہندووادی جماعت کے سر لاد دی جائے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ حکومت اور عدالت کو بھی اندیشوں کے مطابق کام کرنے کی ذمے داری ہے۔ آخر جج صاحبان اینٹی سیپیٹری ضمانت جس فراست سے دیتے ہیں، اسی فراست سے اگر ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء سے پہلے عدالت کوئی موثر کام کردیتی تو ہندستانی جمہوریت کی تاریخ کا سب سے سیاہ دن نہیں آتا۔

        کرکٹ کنٹرول بورڈ اور سہارا انڈیا کے سلسلے سے گذشتہ برسوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کی حکمتِ عملی کی ہر چہار جانب ستایشیں ہوئی ہیں مگر نہ جانے کیوں بابری مسجد کے تعلق سے عدالتوں کے فیصلے سیاست اور مذہب کے بیچ پنڈولم کی طرح لٹکتے نظر آتے ہیں۔ گذشتہ پانچ چھے دہائیوں میں اس سلسلے سے عجیب و غریب کام ہوئے۔ الہٰ آباد ہائی کورٹ نے زمین کی کھدائی کرائی۔ نقطۂ نظر یہ تھا کہ ہم آثارِ قدیمہ کی تلاش کرکے کسی نتیجے تک پہنچیں گے۔ اس سے مقدمے میں الگ بگاڑ پیدا ہوا۔ سپریم کورٹ کو ٹھیک الیکشن کے بیچ میں اگر اس کی سماعت کرنی تھی تو طریقۂ کار اور بھی ممکن تھا۔ دو مہینے اس کی سماعت نہیں ہوتی تو کیا بگڑ جاتا؟ اشتعال کا موقع تھا، سیاست دانوں کو دوسرے موضوعات پہ سر کھپانے دینا چاہیے تھا۔ پریشانی اس سبب پیدا ہورہی ہے کہ کورٹ نے مصالحت کی کوششوں کواخبار اور ٹی۔وی۔ پر پیش کیے جانے سے روک دیا ہے۔ اب جب کہ پارلیامنٹ کی لائیو ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے، ایک ایک پل کی خبر باہر دی جاتی ہے، ایسے میں آخر مصالحت کے نام پر کون سی ایسی بات ہوگی جسے عوام کے سامنے لانے سے گریز کا راستہ چنا گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ رازداری کے نام پر حقیقت کو چھپانے کا کام بھی مختلف سرکاری ادارے کرتے رہے ہیں۔ شبہات اس لیے بھی پیدا ہورہے ہیں کہ شری شری روی شنکر کے ارشادات ہمیں پہلے ہی سے معلوم ہیں اور مسلم جماعت سے بھی آر۔ایس۔ایس۔ کے پسندیدہ لوگ میدان میں اتر آئے ہیں او روہ بھی کہنے لگے ہیں کہ مسجد کی جگہ کو منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے تو یہ فیصلہ آہی گیا کہ وہاں رام جنم بھومی مندر بنادیں اور بدلے میں کہیں اور مسجد بھی بنوا دی جائے گی۔ اگر ایک مندر اور مسجد کا سوال ہوتا تو یہ جھگڑا مختلف عدالتوں اور سرکاروں کی طرف داریوں اور ہزاروں کے خون بہنے کے باوجود اب تک قائم نہیں رہتا۔

        بابری مسجد کے سلسلے سے اب بھی چند بنیادی نوعیت کے سوال ہیں جنھیں مصالحت کے راستے حل کیا جائے یا عدالت کے راستے مگر ان سوالوں کے جواب سامنے آنے چاہیے:

الف۔   بابری مسجد اراضی کا مالکانہ حق بہرطور طے کیا جائے اور زمین اس کے ہی قبضے میں دی جائے۔

ب۔     بابری مسجد کی عمارت جن لوگوں نے توڑی، ان کے لیے کون سی سزا مقرر ہوئی؟

ج۔      کیا کسی جمہوری نظام میں یہ ممکن ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے سخت دبائو کے باوجود بابری مسجد کو مسمار کیا جاسکتا تھا۔ اگر کیا گیا تو جن کی خاموش منظوریاں تھیں، انھیں مقدمے کے دائرے میں لاکر اسپیڈی ٹرائل کرکے کیوں نہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا؟

د۔      عدالت کو جمہوری ملک کے قانون اور اس کے مثالی کردار کو سمجھتے ہوئے مذہبی بھیڑ کے دبائو میں آکر غیر ضروری سرگرمیوں میں نہیں الجھنا چاہیے۔

ہ۔      سپریم کورٹ کو سیاسی جماعتوں کے فریق کی طرح سے میدان میں نہیں آنا چاہیے۔

        ہمارا اندازہ ہے کہ بابری مسجد کے سلسلے سے مصالحت کی کوشش میں آنے والے وقتوں میں اعتدال اور انصاف کا دامن چھوٹے گا جس کے نتیجے میں مذہبی نفاق کا اضافہ ہوگا اور ہماری مشکلیں کسی طور پر بھی کم نہیں ہوں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت مصالحت کی رپورٹوں کے بعد بھی نئے سرے سے پیشی کے لیے لوگوں کو بلائے گی اور اپنے فطری انداز میں زمین کے مالکانہ حق کا فیصلہ کرے گی۔ خدا کرے کہ آیندہ پارلیمانی انتخاب بہ سلامت گزر جائے اور بابری مسجد کا معاملہ ابھی مئی میں حکومت بننے تک ٹھنڈے بستے میں ہی رہے ورنہ اس کی آگ میں ہم پھر سے جھلسنے کے لیے ایک بار تیار رہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔