فرقہ پرستی کا مقابلہ سیاسی اور سماجی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے!

عبد العزیز

حکومت اور حکمرانی کا اصل مقصد ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں امن و سکون رہے۔ ہر ایک کو انصاف ملے کسی سے کسی بنیاد پر بھید بھاؤ کی سیاست نہ کی جائے لیکن اگر کوئی سیاسی جماعت بنائی ہی اسلئے گئی ہو کہ وہ ہر قیمت پر بھید بھاؤ کریگی اور ظلم زیادتی کے ایجنڈ کو نافذ العمل بنائے گی تو ایسی صورت میں اپسی پارٹی سے کوئی اچھی امید رکھنا اپنے آپ کو فریب اور دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آر ایس ایس او راسکی ذیلی تنظمین بشمول بی جے پی کا قیام ہی فرقہ پرستی، ظلم وزیادتی، بدامنی او انارکی پیدا کرنے کیلئے کیا گیا ہے ۔ اسلئے نریندرمودی کے وزیر اعظم بننے پر یا یوگی ادتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانے پر یا امیت شاہ جیسے آدمی کو بی جے پی کی کمان سنبھالنے پر نہ کسی کو حیرت ہونی چاہئے اور نہ ھی تعجت کیونکہ اس پر یوار کے بزرگوں کی تحریریں ، تقریریں اور بیانات سب کی سب زہرآلود ہیں انہیں کی گودوں میں مذکورہ افراد یا ا ن جیسے لوگوں کی پرورش اور پرداخت ہوئی ہے انہیں مہاتما گاندھی کو قتل کرنے یا عام آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتاردینے میں کوئی عارمحسوس نہیں ہوتا ۔

 بابری مسجد کو دن دھاڑے ڈھا دینے میں بھی کسی قسم کی شرمندگی یا ندامت نہیں ہوتی بلکہ ایسے کاموں پر فخر جتانے اور تاریخ میں جگہ پانے کی بات ان کی طرف سے کی جاتی ہے۔

 یوگی ادتیہ ناتھ پیدا تو ہوئے اتر کھنڈ میں جو کبھی اتر پردیش کا حصہ تھا ۔ مگر ان کی ذہنی پرداخت اور تربیت گورکھپور کے ایک مٹھ میں ہوئی ۔ ادتیہ ناتھ جو رامندر کی تحریک میں پیش پیش تھے وہ یوگی کے گرو تھے۔ گورکھپور حلقہ سے ایک دوبار ایم پی بھی ہوئے انہوں نے اپنی موت سے پہلے یوگی کو اپنا جانشیں بنایا ۔ سیاسی اور مذہبی دونوں کاموں کو اپنے شاگرد کے سپر د کیا ۔ یوگی مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی میں اپنے گروسے بہت آگے نکل گئے جیسے نریندرمودی اپنے گرو ایل کے ایڈوانی کو فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی میں بہت پیچھے چھوڑ دئے۔ یوگی پہلے ہند ومہاسبھا کے ممبر تھے ۔ ہند و مہاسبھا آریس ایس سے کسی زمانے میں بڑی بہن تھی اور اس کا ایجینڈا آریس ایس سے بھی زیادہ خطرناک تھا ساور کر ہند و مہاسبھا کے لیڈر تھے ۔ ناتھورام گوڈ سے ساور کر کے ہی چیلے تھے یوگی نے ایک عدد تنظیم ہند و یوبا باہنی کے نام سے تشکیل کی جسکا انداز وبشو ہند و پریشد اور بجرنگ دل سے بھی  خطرناک ہے۔

  یوگی کی باہنی کا نعرہ ہے کہ جس کو گورکھپور میں رہنا ہے "یوگی "یوگی” کہنا ہے 2017 میں فسادبھڑکانے کی وجہ سے جب یوگی گرفتار ہوئے تو باہنی نے بمبئی گورکھپور گوڈان ایکسپریس کو نذر آتش کر دیا ۔ اس سے پہلے 1999 سماج وادی پارٹی کی ایک ممبر بیگم طلعت عزیز کے جلسہ عام میں باہنی کے لوگوں نے فائرنگ کی جس سے بہت ساے لوگ زخمی ہوئے بیگم طلعت عزیزکی جان کسی طرح بچ گئی ، یوگی اپنے استاد اویدھ ناتھ کی طرح رام جنم بھومی کی تحریک میں پیش پیش تھے ۔ کیرانہ میں ہندوؤں کی نقل مکانی کی مہم میں وہ آگے آگے تھے۔ 2017 میں شاہ رخ خان کے ایک بیان کی وجہ سے یوگی نے انہیں حافظ سعید کہا تھا اور پاکستان بھیج دینے کی تجویز دی تھی ۔

  یوگی اتر پردیش میں ” گھر واپسی”،لوجہاد ،سوریہ نمسکار، گائے محافظوں کی بر بریت کے سب سے بڑے سر پرست تھے۔ اگرہ میں 500عیسائیوں کی گھر واپسی کی تقریب میں یوگی ہی کرسئی صدارت پر برجمان تھے یوگی پر دیگر مذاہب کی عبادتوں پر حملے کرنے اور دوسروں کی زندگیوں کے درپے ہونے کی وجہ سے کئی مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔ بعض ایسے مقدمات ہیں جس میں ان پر قاتلانہ حملے تک کا الزام ہے ۔ ایک ایسے شخص کو ہندستان کی سب سے بڑی ریاست کے نظم ونسق کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ترقی اور فلاح کے کاموں کیلے قابلیت صفر کے برابر ے مگر ادھم مچانے اور فتنہ و فساد بر پا کرنے کی بیحد قابلیت پائی جاتی ہے جسکا مظاہرہ یوگی اتر پردیش میں بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے رفقا ء میں ان کی منشا اور مرضی کے مطابق انار کی اور بدامنی پورے اتر پردیش میں پھیلا رہے ہیں ۔

یوگی یا ان کی پارٹی کو اتر پر دیش میں 40فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ اپوزیشن کو 60فیصد ووٹ ملے ہیں ۔ کانگریس سپا اور بی ایس پی کو 50فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں اگر اکھلیش اور راہل کے اتحاد میں مایاوتی شامل ہو جاتیں تو یوگی آج وزیر اعلیٰ نہیں ہوتے۔ اس نکتہ پر اب ہر ایک اپوزیشن پارٹی کو توجہ دینے کی ضروت ہے۔ اپوزیشن کے اتحاد کے بغیر مودی، یوگی اور شاہ کی پارٹی کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکا نہیں جاسکتا۔ نتیش کمار، ممتا بنرجی ،اکھلیش نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اکھلیش نے کہا ہے کہ جب اگلا اتحاد وجود میں آئیگا تو اس میں مایاوتی اور ان کی پارٹی شامل ہوگی۔

 اس کام کو آگے بڑھکر کسی سیاسی یا غیر سیاسی لیڈر کو کرنا ہوگا جب ہی سیاسی میدان میں فرقہ پرستی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ جتنی سماجی اور غیر سیاسی تنظیمین ہیں انہیں بھی زہر آلود ماحول کو بولنے کی حتی الامکان کوشش کرنی ہوگی ان تمام سیاسی، غیر سیاسی، اور مذہبی کوششوں میں مسلمانوں کو بڑھ چڑھکر حصہ لینا ہے۔ مسلمانوں میں جو لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ان کو ہوش میں آجانا چاہئے کیونکہ فرقہ پرستی کا سیلاب یا طوفان کسی کو نہیں بخشتا ۔ پورے ملک میں سنگھ پر یوار فرقہ پرستی کی آگ لگانے میں کامیاب ہے اسے پوری مستعیدی کے ساتھ بجھانے کی ضرورت ہے ورنہ ملک کی سا  لمیت اور یکجہتی کو زبردست خطرہ لاحق ہو سکتاہے مسلمانوں میں جو تنظمین ہیں ان کے لئے یہ قیام کا وقت ہے سجدہ کا نہیں ، انہیں حالات کو بہتر بنانے میں لگ جانا چاہیئے۔ مسلم پرسنل بورڈ کو حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے میر اخیال ہے اس تنظیم میں جو لوگ اوپر آگئے ہیں انکا انداز سیاسی ہے جسکی وجہ سے بورڈ وہ کام بہتر پیمانے پر نہیں ہو رہا ہے۔

 مسلمانوں کا دوسرا بڑا پلیٹ فارم مسلم مجلس مشاورت ہے اسے بھی مسلم تنظمین اور چند افراد مظبوط بنانے میں بہت سست روی اور غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ مسلم افراد یا جماعتیں حالات سے غافل رہیں اور اسے بہتر بنانے کا کام رسمی طور پر یا روٹنگ ورک کے طور پر کرتی رھیں جسکی وجہ سے دشمنوں کی ترقی ہوئی اور آ ج ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ اگر اس وقت مسلمان بیدارنہیں ہوتے ہیں تو حالات بدسے بدتر ہو سکتے ہیں اور سب سے بڑانقصان اورتباہ کاری مسلمانوں کی ہوگی۔

 مسلمانوں کے علاوہ ملک کے ان دیگر طبقوں کا بھی نقصان ہوگا جو سمجھ رہے ہیں کہ سنگھ پریوار والے صرف مسلمانوں یا عیسایئوں کی دشمن ہیں ۔ ظالم ظالم ہوتا ہے وہ ظلم کرتے وقت سب کچھ بھول جاتا ہے اسے صر ف ظلم یاد ہوتا ہے ۔ حالانکہ ظالم اپنا بھی دشمن ہوتا ہے ،کیونکہ اسکی تباہی وبربادی کا دن مقرر ہوتا ہے کسی شاعر نے سچ کہا ہے ۔ ” ؎ظلم ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔”

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔