کیا انکاؤنٹر جرائم کو ختم کرنے کا طریقہ ہے؟

راحت علی صدیقی قاسمی

 اترپردیش جرائم کی دنیا میں شہرت یافتہ ہے، قتل و غارت گری چوری و زناکاری کے مستقل واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں،  جرائم کرنے والے قانونی گلیاروں اور رشوت کی کالابازاری سے بخوبی ہیں،  مختلف حربوں اور تدبیروں سے وہ سفرِ جرم کو جاری رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ گذشتہ چھ ماہ میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں، حرمتِ انساں پامال ہوئی ہے، عورتوں کی آبرو سے کھیلا گیا ہے، جہیز کی حرص و طمع میں خون سے ہاتھ رنگین کئے گئے ہیں،  این ڈی ٹی وی کی پیش کردہ چند خبروں کے ذریعہ آپ کو اس صورت حال سے روبرو کراتے ہیں،  جن کا تعلق گذشتہ ایک ہفتہ سے ہے، اس سے اترپردیش کی صورت حال دو دو چار کی طرح واضح ہوجائے گی اور اندازہ ہوجائے گاکہ اسے جرائم سے خالی کرنے کا دعویٰ کرنے والے، بدمعاشوں کی صفائی کا اعلان کرنے والے حقائق سے کتنے قریب ہیں ؟ پولس کس حدتک کامیاب رہی ہے۔گذشتہ اتوار کو شاملی کے گاؤں بھورا میں 4 لوگوں نے ایک عورت کی عزت لوٹنے کی کوشش کی، مخالفت کرنے پر ان لوگوں نے اس عورت کو قتل کرڈالا، پولیس ابھی تک کسی قاتل کو گرفتار نہیں کرپائی ہے۔

29اکتوبر نوئیڈا جیسے ترقی یافتہ شہر میں جہیز کی خاطر ایک عورت کو قتل کردیا گیا۔ اناؤ میں ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ قرض طلب کرنے گئی ایک عورت کے سامنے اس کی نابالغ دوشیزہ کو ہوس کا شکار بنایا گیا، اس کی عصمت کا کو ریزہ ریزہ کردیا گیا، ستم زدہ ماں نے جب انصاف کی دہائی دی اورپولیس اسٹیشن میں فریاد کی تو اسے لین دین کا اختلاف قرار دے کر پولس نے جانچ کی بات کہی اور دامن جھاڑ لیا، بچی پر جو شدید تکلیف گذری قانون کے محافظوں نے اس کی اہمیت نہیں سمجھی۔ میرٹھ میں شرمناک واقعہ پیش آیا، جہاں میرٹھ میں ایک نشہ خور نے 100سال کی ضعیف، نحیف و نزار عورت کے ساتھ زنا کیا، اس عورت کی موت ہوگئی، زانی گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ان واقعات کو پیش کرنے کا مقصد اتر پردیش کی فضا کیسی ہے، اس جانب اشارہ کرنا تھا، ان میں اکثر واقعات میں پولیس ابھی تک ملزم کو پکڑنے میں ناکام ہے، کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جہاں پولیس نے کامیابی حاصل کی ہے اور کہیں پر ایسا بھی ہوا کہ پولیس نے ستم زدہ ہی کو یرغمال بنانے کی کوشش کی، اسی طرح قتل کے واقعات اور ان کی کہانیاں بھی ہیں،  اِن میں ایسے اشخاص بھی شامل تھے، جو جرائم میں مہارت رکھتے ہیں اور ایسے بھی جن کے سر بھوت سوار ہوا، جرم کے مرتکب ہوگئے، پھر پشیماں ہیں،  ایسی صورت حال کے باوجود کتنے لوگ گرفتار کئے گئے،  یہ بہت بڑا سوال ہے، ان میں کتنوں کو سزا ہوئی؟ پھر جرائم کی صفائی کا دعویٰ چہ معنی دارد؟ کیا انکاؤنٹر کی کثرت کو جرائم کی صفائی سے تعبیر کیا جانا درست ہے؟ انکاؤنٹر خود انسانی ہمدردی کی دعویدار تنظیموں کے نزدیک مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، کئی واقعات ہیں جن کی وجہ سے انکاؤٹرس مشکوک ہی نہیں مشتبہ خیال کئے جانے لگے۔

ہاشم پورہ، رام پور تراہا کانڈ، عشرت جہاں،  یہ سب اس دعویٰ کی دلیل میں پیش کی جاسکتی ہیں،  خاص طور پر ہمارے ملک ہندوستان میں جہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے، چاہے سوگناہ گار بچ جائیں،  عدلیہ حتی الامکان اس کی کوشش کرتا ہے، ثبوت و شواہد کی تلاش میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا جاتا ہے، چنانچہ شکوک و شبہات کی بناء پر کوئی سزا نہیں دی جاتی، اس پس منظر میں غور کیجئے، موقعہ واردات پر کسی شخص کا ڈھیر کردینا کس حد تک درست ہے، کیا عدلیہ کی ضرورت نہیں ہے، گواہ ثبوت کی حیثیت نہیں ہے، یقیناً پولیس بسا اوقات ملزم کو پوری طرح مجرم گردانتی ہو، اسے قابل گردن زدن سمجھتی ہو، اس کے باوجود اسے عدالت میں پیش کرنا ہی راست طریقہ ہوتا ہے، لیکن گذشتہ چھ ماہ سے یوپی کی صورت حال بدلی ہوئی ہے۔

یہاں موقعۂ واردات پر ہی ملزم کو ڈھیر کرنے کی روایت جاری ہے، اور اسے مشن کلین گردانا جارہا ہے، حالانکہ جرائم کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، رات کی تاریکی میں انسان حیوان خونخوار جانوروں کا قلب میں نہیں رکھتا، بلکہ اپنے ہی جیسے انسان سے خوف زدہ ہیں،  حالانکہ اس مدت میں 420 انکاؤٹرس ہو چکے ہیں،  17لوگوں کو مارا جا چکا ہے، ایک ہزار سے زیادہ زخمی حالت میں گرفتار کئے گئے ہیں،  88 پولیس والے بھی زخمی ہوئے، دو پولیس والے شہید ہوئے، یقیناً اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے، اس محکمہ نے انتہائی محنت جفاکشی دلیری کا ثبوت پیش کیا، جان کی پرواہ نہیں کی، جرائم کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی، ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی شدت کے ساتھ قلب پر دستک دیتا ہے، کیا انہیں زندہ پکڑا جانا تھا؟ کیا عدلیہ میں پیش کرنا ممکن تھا؟ ہم تنہا تنہا17 لوگوں کے مارے  جانے پر ان چند سطروں میں گفتگو کرنے سے قاصر ہیں،  البتہ اس پس منظر میں غور کیجئے ماہر ترین ٹیم اسلحہ سے لیس ہو کر نکلتی ہے تو کیا وہ کسی شخص کو زندہ پکڑنے پر قادر نہیں رہتے؟ یا انہیں اس طرح کی ٹریننگ نہیں دی جاتی کہ وہ ملزم کو زندہ گرفتار کر سکیں اور حقائق کو واضح کر سکیں ؟ بڑا سوال یہ ہے کہ بہت سے بدمعاش تصادم کے درمیان جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،  یہ بھی ایک بڑا سوال ہے اور بسا اوقات موصولہ خبروں کی بنا پر عام انسان اپنی ناقص سوچ کی بناء پر یہ خیال کرتا ہے کہ ملزم کو زندہ گرفتار کیا جاسکتا تھا، اس کے باوجود اسے مناسب نہیں سمجھا گیا۔

مثال کے طور پر ماضی میں ہوئے فرضی انکاؤٹر اس خیال کو تقویت بخشتے ہیں،  مثال کے طور پر پیلی بھیت میں 10 سکھوں کا انکاؤنٹر اور47 سپاہیوں کو اس میں سزا ہونا، اس طرح کے اور بھی واقعات اس روئے زمین پر ہوئے یا اس سے بھی بڑھ کر جہاں پولیس والوں نے اپنے ہی ساتھی کو مار ڈالا اور اسے انکاؤنٹر ثابت کرنے میں چند معصوموں کو ابدی نیند سلا دیا، اس صورت حال میں کیا پولیس والوں کو انکاؤنٹر کرنے اور کسی شخص کو سزائے موت دینے کا حق ہونا چاہئے یا نہیں ؟ آپ غور کیجئے آپ کا ذہن جواب یقیناً پیش کرے گا، کیا ہر انکاؤنٹر کی جانچ ہونی چاہئے؟ اترپردیش میں ہوئے 420انکاؤٹر چونکاتے ہیں یا نہیں ؟

ان سوالات کے جوابات پر غور کیجیے، اور پھر ہماری پولس کا حال دیکھیے، رشوت لینا، دونوں فریق کو طریقوں روشناس کرانا، پیسے کمانا اس طرح کے بہت پولس اہلکاروں سے وابستہ ہیں،  جو شبہات کو جنم دیتے ہیں،  اتر پردیش ہی نہیں حکومت کو ملک میں ہونے والے ہر انکاؤنٹر میں حقائق پر نظر ثانی کرنی چاہئے، مجرموں کو سزا اور بے قصوروں کو انعام دیا جانا چاہیے، البتہ انکاؤنٹر میں حتی الامکان پولیس کی زندہ گرفتاری کی ہدایت دی جانی چاہئے، تاکہ اس حربہ کو استعمال نہ کیا جاسکے، یقیناً ان انکاؤنٹر میں مرنے والوں میں ایسے قوم کے لئے ناسور تھے، ان کا ختم ہونا ضروری تھا، لیکن یہ عمل عدلیہ کرتا تو زیادہ بہتر ہوتا اور ان حالات سے جرائم ختم ہوجاتے یا جرائم کا ارتکاب کرنے والے ناپید ہوجاتے تو کسی حد تک اس عمل کی اجازت دی جاسکتی تھی، حالانکہ صورت حال اس کے بالکل خلاف ہے تو کیوں کر اس طرز عمل کودرست قرار دیا سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔