آئینِ ہند، ہندوستانی سماج کا تانا بانا اور اسلام  کے عائلی قوانین

عمیرکوٹی ندوی

اسلام  کے عائلی قوانین اور خاندانی نظام سے اس  وقت ملک کے اہل سیاست، فرقہ پرست نظریات کے حاملین اور میڈیا کو ایک خاص دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔تقریباہر روزاس سلسلہ میں کوئی نہ کوئی خبر میڈیا میں ضرور آجاتی ہے اور وہ بھی منفی انداز میں ۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستانی سماج تکثیری سماج ہے۔ ہمارا  ملک مذہب، تہذیب وثقافت، عادات واطوار اور رہن سہن میں کثرت اور تنوع  اور مذہبی غیرجانبداری کے سلسلہ میں پوری دنیا میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اسی بات کو  اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 34ویں اجلاس میں اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے اس طرح کہا ہے کہ” یہ ایک سیکولر ملک ہے جس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت اس کے سیاسی نظام کا ایک اہم عنصر ہے……ہندوستان کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لئے مختلف التزامات کئے گئے ہیں ……ہندوستان شہریوں کی ذات، نسل، رنگ یا مذہب میں کوئی امتیاز نہیں کرتا……ہندوستان کا آئین ہر شخص کو مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے…… اظہار خیال کی آزادی کاحق ہندوستانی آئین کے اہم حصے میں اپنا واجب مقام رکھتا ہے……دنیا کی سب سے بڑی کثیر سطحی جمہوریت کی وجہ سے ہم اظہار خیال کی آزادی کی قدر کرتے ہیں ۔ہمارے لوگ اپنی سیاسی آزادی کےسلسلہ میں آگاہ ہیں اور ہر موقع پر اپنی پسند کا استعمال کرتے ہیں "۔

ایک طرف ہمارے ملک کا مذکورہ امتیاز اور شناخت ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں اس امتیاز اور شناخت کو ختم کرنے اور ایک نئی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اس کی ہمارے ملک کا دستور اجازت نہیں دیتا ہے لہذا برسراقتدار طبقہ دستور ہند میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی کوشش کررہا ہے۔یہ کوشش ہرسطح پر کی جارہی ہے اور اس کام کےلئے  ملک  کے تمام ضروری شعبوں ، میدانوں اور وسائل کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ملک کا ہرشہری کھلی آنکھوں دیکھ رہا ہے۔فرقہ پرستوں ، اقتدار سے قربت رکھنے والی  حتی کہ  اقتدارمیں شامل شخصیات کے  تیزوتندبیانات اور عزائم کا برملا اظہار،انتظامیہ کے اقدامات اور اہل سیاست کی تگ ودو اس کا واضح ثبوت ہیں ۔ کھانے پینے، رہنے سہنے،بات چیت، تحریروتقریر پر قدغن، تاک جھانک ، زود کوب،مار دھاڑ، خون خرابہ اور قتل وغارت گری جس کا سلسلہ بہ دستور جاری ہے  سے بڑھ کر  معاملہ عائلی قوانین میں دراندازی تک پہنچ چکا ہے۔مسلم پرسنل لا کا معاملہ عدالت میں ہے۔ لیکن یہ خود نہیں پہنچا بلکہ دیدہ ودانستہ اسے پہنچایا گیا ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے بلکہ ملک گیر سطح پر ہنگامہ آرائی بھی کی جارہی ہے اور تیز وتند بیانات بھی دئے جارہے ہیں ۔ یہ اس ذہنیت کے حامل ہرطبقہ  کی طرف سےاور ہر سطح سے دئے جارہے ہیں ۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کونسل میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ "ہم امن، عدم تشدد اور انسانی وقار قائم رکھنے میں یقین رکھتے ہیں ۔ ہماری ثقافت میں تشدد مکمل طور پر نامعلوم چیز ہے اور قوم کی حکمرانی میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے”۔

امن، عدم تشدد اور انسانی وقار یقیناً انسان دوست فرد، سماج اور ملک کی خوبی ہے۔ ہمارا ملک اور اس ملک کے سنجیدہ وانصاف پسند شہری اس پر ناز کرتے ہیں اور ہرقیمت پر اس کا تحفظ چاہتے ہیں ۔اس وقت ملک گیر سطح پر جو ماحول بنایا جارہا ہے اس پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے خود بھی آئین ہند کی بات کی ہے اور اس کے امتیاز کو بیان بھی کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ  اس ملک کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور نہ یہاں کوئی امتیاز ہے۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے ملک کے شہریوں سے زیادہ اہل سیاست، انتظامیہ،  ارباب حکومت،  اقتدار سےقربت رکھنے والے اداروں ، تنظیموں ،ان کے کیڈروں ، افراد، شخصیات کے ساتھ نفرت وتشدد ، ظلم واستحصال کا ذہن رکھنے والوں کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ اور بین الاقوامی سطح پر دنیا کے سامنے کہی گئی اٹارنی جنرل کی باتوں کا پاس ولحاظ رکھنا چاہئے۔

جہاں تک بات نفرت وتشدد سے بڑھ کر مسلمانوں کےعائلی قوانین میں دراندازی یا اس کے خاتمہ کی ہے تو  خود اس فکر کے حامل طبقہ کو اس پر سیاست اور موقع پرستانہ اقدام سے پہلے دو باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے ۔ ایک تو یہ کہ ہندوستانی سماج میں موجود تمام مذاہب  کے خاندانی نظام اور عائلی قوانین کااز سرنو غیر جانبدارنہ تقابلی مطالعہ کیا جائے اور خوبی وخامی کا تناسب کے ساتھ پتہ لگایا جائے۔ اس سے حقیقت حال سامنے آئے گی۔ اس سے معلوم ہوگا کہ اس وقت جو سماجی برائیاں پائی جارہی ہیں ، گھریلو تشدد اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں وہ کس مذہب کے پیروکاروں کی طرف سے ہورہے ہیں ۔ ان حقائق پر مشتمل غیرجانبدارانہ رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کو سچ معلوم ہوسکے۔یہ کام غیر سرکاری طور پر ملک کے انصاف پسند لوگوں اور اداروں کی طرف سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ  اس وقت ملک کی عدالتوں میں زیر التوا  ہر قسم کے مقدمات کا ڈھیر لگا ہوا ہے جن کی تعداد تیس ملین سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا میں زیر التوا  مقدمات کے سب سے بڑا ڈھیر والا ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اسے نظر انداز کرتے ہوئے صرف خاندانی تنازعہ سے جڑے زیرالتوا معاملات  کو دیکھا جائے تو یہ ایک ایک ریاست میں ہزاروں نہیں لاکھوں میں پہنچتے ہیں ۔ خاندانی تنازعہ سے جڑے معاملے حالیہ برسوں میں تیزی سے بڑھے ہیں ۔ ان کی حساسیت، پیچیدگی اور بوسیدگی کا عالم یہ ہے کہ نجانے کتنے مقدمات ایسے ہیں جن کے جج بدل گئے لیکن صورت حال بدستورابتربنی ہوئی ہے۔ باندہ اترپردیش کے سیشن کورٹ نے ابھی چند دن پہلے45 سال بعد ایک خاندانی تنازعہ کا فیصلہ سنایا ہے۔

اس مقدمہ کی طویل تر کارروائی کے دوران بہت سے وکیل ریٹائر ہو گئے تو بہت سے وکلاء  اور کئی مدعی کی اس اثناءمیں موت واقع ہوگئی۔ معمولی معمولی خاندانی تنازعات کے فیصلوں کے آنے میں پانچ تا تیس برس لگ جانا عام سی بات ہے۔ بارہا ایسے مقدمات کی خبریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں کہ محض چند دنوں کی رفاقت کے بعد طلاق کے مقدمات کے فیصلے بیس اور پچیس برس بعد دئے گئے۔ اتنے طویل وقفہ کے بعد حاصل ہونے والی طلاق کے بعد فریقین کے لئے اس کے کیا معنیٰ رہ جاتے ہیں اور آئندہ کی زندگی کو اس کے بعد وہ کس طرح خوشگوار بنا سکتے ہیں ، اس پر پورے ملک کو غور کرنا چاہئے۔

موجودہ صورت حال یہ ہے،اس پر فرقہ پرست ذہنیت کی طرف سےمزید مسلمانوں کے عائلی قوانین میں دراندازی کی کوشش کی جارہی ہے، ایسی صورت میں تصویر کتنی بھیانک ہوجائے گی اس پربھی  غورکرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے مسلمانوں کو بھی اس وقت عائلی قوانین پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے حالات کے تقاضہ کو سمجھتے ہوئے پورے ملک کے سامنے بہت ہی وضاحت کے ساتھ انہیں رکھنا چاہئے تاکہ ان کی خوبیاں لوگوں کے سامنے واضح ہوسکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔