آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

خان عرشیہ شکیل

قل ان صلاتی و نسکی و معیای و مماتی للہ رب العالمین۔

ابراہیم علیہ اسلام کی پیدائش عیسی علیہ اسلام کی پیدائش سے 2000سال پہلے عراق کے شہر”ار” میں ہوئی تھی۔ آپ نے پروہیت گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔جہاں مورتی پوجا عام تھی۔اللّٰہ تعالی نے آپ کو رشد عطا کیاتھا۔اور آپ توحید کے علمبردار تھے۔

آپ کا شمار اولوالعزم پیغمبروں میں ہوتا ہے۔قران کریم میں آپ کی کئی گوناگوں صفات کا تذکرہ ملتا ہے۔جس میں بہت ہی اہم صفت آپ کا اللّٰہ پر ایمان لانا، اور اس کی خاطر آنے والی آزمائشیں میں پورا اترناہے۔اس لئے اللّٰہ نے آپ کوحنیف یعنی یکسو مسلم(اللّٰہ کی اطاعت کرنے والا) کے لقب سے نوازا اور اپنا دوست بنایا۔اور سب لوگوں کا امام بنایا۔اللّٰہ اکبر اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے۔

ہم آپ کی بے مثال زندگی پر  نظر ڈالتےہیں تو آپ کی پوری زندگی آزمائشیوں سے بھری ملتی ہے۔

آپ جب اپنے والد کو مورتیاں تراشتے اور انھیں پوجتے دیکھتے تو بہت غور و فکر کرتےتھےکہ ہمارا رب کون ہے؟

زمین و آسمان اور اس کے درمیان جتنی اشیاء موجود ہےوہ سب محتاج ہے۔ میرا رب تو وہی ہوسکتا ہے جس سے دنیا کی تمام چیزوں کو بنایا ہے۔ اور سب کو وجود بخشا ہے۔ تب آپ نے لوگوں سے کہا۔میں سب کی طرف سے منہ پھیر کر اس اللّٰہ کی بندگی اور غلامی کرتا ہوں جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔

اس اعلانیہ دعوت کے ساتھ آپ پر آزمائشیوں کا دور شروع ہو گیاتھا۔

پہلی آزمائش

سورہ مریم کی آیت نمبر 42میں اللّٰہ کا ارشاد ہے۔انھیں ذرا اس موقع کی یاد دلاور جب کہ ابراہیم علیہ سلام نے کہا تھاکہ ابا جان آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہے۔ابا جان میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہےجو آپ کے پاس نہیں ہے۔آپ میرے پیچھے چلیں تو میں آپ کو سیدھا راستہ بتاوں گا۔

باپ نے کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سےپھر گیا ہے اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دونگا۔پس تو مجھ سے ہمشیہ کے لئے الگ ہو جا۔اور جب نمرود نے ابراہیم علیہ السلام کوسزا کے طور  آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا، اورآگ دہکائی گئی جس کی لپیٹے آسمان سے باتیں کر رہی تھی لیکن اس منظر نے بھی آپ کے پایہ استقلال میں کمزوری نہ آئی تھی۔

اللّہ نے اپنے اس اولوالعزم بندے پر آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔ یہ واقعہ اللّٰہ اور بندے کے درمیان محبت کا بے مثال نمونہ پیش کرتا ہے۔

دوسری آزمائش

اللّہ کے حکم پر اپنی بیوی اور کمسن بچے کو صحرا میں اکیلا چھوڑ دینا جہاں اللّہ کے سوا کوئی اور نہ تھا

اس کا ذکر قرآن کریم کے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 37 میں ملتا ہے۔

پروردگار میں نےایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔پروردگار میں نے یہ اس لئے کیا کہ لوگ یہاں نماز قائم کریں لہذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انھیں کھانے کو پھل دےشاید کہ یہ شگر گزار بنے۔

تیسری آزمائش

ابراہیم علیہ سلام نے مسلسل تین دن تک ایک ہی خواب دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے فرزند کو قربان کر رہے ہے۔ اور جب انہوں نے اپنے بیٹے سے اس بات کا تذکرہ کیا تب فرمابردار بیٹے نے کہا۔ابا جان آپ اپنے رب  کے حکم کی تعمیل کیجیے،آپ یقینا مجھے صابروں میں پائیں گے۔

حضرت ابراہیم علیہ سلام نےاپنے بیٹے اسمعیل علیہ سلام کو لیکر ایک میدان میں پہنچے اور اپنے آنکھوں پر پٹی باندھی۔ اور  بیٹے کے گردن پر چھری پھیری اور جب آنکھوں سےپٹی ہٹائی تو دیکھا بیٹا کھڑا مسکرا رہا ہے اور بیٹے کی جگہ مینڈھا قربان ہو چکا ہے۔

سورہ الصافات آیت نمبر 104 سے 108تک قربانی کا ذکر آیا ہے” اور ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیم تو نے خواب  سچ کر دکھایا۔ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی اور ہم نےایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑالیا اسکی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔

سورہ البقرہ میں اللّہ تعالی فرماتا ہیں:

’’اور یاد کرو ابراہیم علیہ سلام اور اسمعیل علیہ سلام جب کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے۔”اے ہمارے رب، ہم سے  یہ خدمات قبول فرمائے،تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔اے رب، ہم دونوں کو اپنا  مسلم بنا،ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا،جو تیری مسلم ہو،ہمیں اپنی عبادت کےطریقے سیکھا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما،تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔اور اے ہمارے رب، ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے  ایک ایسا رسول اٹھائیو،جو انھیں تیری آیات سنائے،ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوار دے‘‘۔

 حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ میں امت مسلمہ کے لیے بڑا سبق ہے۔

 دعا یہ ھیکہ اللہ ہم سب کو اپنے رب کی کبریائی بیان کرنے والا، اور اللّٰہ کی راہ میں ہر طرح کی قربانی پیش کرنا والا بنا اور اللّٰہ کی اطاعت کرنے والا بنا۔

تبصرے بند ہیں۔