آدھا اسلام

محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

میں تحریر کا آغاز اور انتہاء اس فقرہ پر کرنا چاہتا ہوں کہ آج:

’’آدھا اسلام یورپ کے پاس ہے، وہ بھی خسارے میں ہے اور آدھا اسلام ہمارے پاس ہے، ہم بھی خسارے میں ہیں‘‘۔

اسلام کے اولین مقاصد میں معاشرے کو پرامن رکھنا ہے۔ اسی لئے اسلام میں فقط مسلمانوں کے حقوق نہیں بلکہ تمام انسانوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ جہاں بھی معاشرے کا ذکر آتا ہے اسلام صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی بات کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: و لقد کرمنا بنی آدم۔ اور ہم نے بنی آدم کو تکریم بخشی۔ قارئین! اللہ کریم نے اس آیت کریمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے مسلمانوں کو تکریم دی۔ بلکہ فرمان باری تعالی یہ ہے کہ بنی آدم کو تکریم بخشی۔ اب بنی آدم میں تو صرف مسلمان نہیں آتے، بنی آدم کا ذکر ہو گا تو ان میں تمام مذاہب، تمام فرقے، تمام مسالک الغرض کل انسان، چاہے وہ اپنے ہوں یا غیر ہوں، مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہوں، دوست ہوں یا دشمن ہوں، بنی آدم میں تو سب شامل ہیں اور اللہ کریم فرما رہے ہیں کہ تکریم تمام بنی آدم کے لئے ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ کریم نے تعظیم نہیں فرمایا، تعظیم چھوٹا درجہ ہے جبکہ تکریم تعظیم سے بلند ہوتی ہے۔ لہذا تمام انسان چاہے وہ جو بھی ہوں، ان کی بطور انسانیت تکریم کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ لیکن افسوس آج کل مسلمان، مسلمانوں کے قائدین، انسانیت کی تکریم تو دور، اپنے ہی مسلمانوں کی تذلیل کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہم آپس میں اپنے فروعی اختلافات کو لے کر اس قدر تفرقہ بازی کا شکار ہیں کہ دوسرے فرقے کی بات کرتے وقت ان کی تذلیل، گالی گلوچ کرنا شریعت سمجھتے ہیں، بلکہ قرآن و حدیث سے اپنی گالیوں پر جواز ڈھونڈتے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم میں تو اللہ کریم نے واضح ارشاد فرمایا ہے؛ و لا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم۔ سورۃ الانعام، آیت نمبر: 108۔ اور تم ان(جھوٹے خداؤں، بتوں) کو گالی نہ دو جنہیں وہ لوگ اللہ کے علاوہ پوجتے ہیں، پس وہ گالی دیں گے اللہ کوبغیر علم کے ظلم کرتے ہوئے۔

قارئین! یہ آیت کریمہ بھی معاشرے کو پرامن رکھنے کی بنیاد فراہم کر رہی ہے۔ مسلمان توحید کے قائل ہیں۔ اسلام کے مطابق بتوں کی پوجا شرک ہے اور شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ فرمان ہے کہ ان الشرک لظلم عظیم۔ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اس کے باوجود اللہ کریم نے شرک کے بنیادی عنصر کوجو بت ہیں، ان کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے چہ جائیکہ کسی انسان کو گالی دی جائے بلکہ کسی مسلمان کو فقط فروعی اختلاف کی بنا پرانتہائی غلیظ گالیاں دے کر سرعام اسلام کی تعلیمات کا خلاف کیا جائے اور ظلم کی انتہاء کہ پھر اپنی اس من پسند، من گھڑت سوچ پر الٹی سیدھی تاویلات کر کے دلیل دینے کی کوشش کی جائے۔ حالانکہ رسول کریم ﷺ کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ سباب المسلم فسوق۔ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔اور اللہ کریم نے مسلمانوں کو شرک کی بنیاد بتّوں کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے کہ اس سے معاشرے کا امن خراب ہو گا، بتوں کو گالی دیں گے تو وہ لوگ اللہ کریم کی بارگاہ میں زبان درازی کریں گے۔ اب حیرت اور افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو اللہ کریم کے اس فرمان کے باوجود مسلمانوں کوہی کبھی سیاست کی بنیاد پر، کبھی مذہب کی بنیاد پر گالیاںدیتے اور تذلیل کرتے ہیں۔

ہمارا المیہ فقط مذہبی فرقہ واریت نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں تو ہر اعتبار سے فرقہ واریت کا ناسور کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ سیاسی فرقہ واریت، مذہبی فرقہ واریت، معاشی، لسانی، صوبائی الغرض ہر اعتبار سے فرقہ واریت ہے۔ ہمارے سیاست دان مخالف کی تذلیل اورگالی کے بغیر سیاست کو مکمل نہیں سمجھتے۔ مذہبی قائدین کی تبلیغ بھی گالی سے شروع ہو کر کفر کفر کی رٹ پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ کہاں کا اسلام ہے؟ ہم کس اسلام کے پیروکار ہیں؟ جس اسلام کو ماننے کے دعویدار ہیں، اس میں تو غیرمسلم دشمن کی بھی تکریم فرض ہے، کسی غیر مسلم کی تذلیل بھی نہیں کر سکتے۔ میدان جہاد میں ہیں تو ایک وار سے دشمن قتل ہو جائے تو اس کی لاش کی تذلیل کرنا منع ہے۔ اس اسلام میں تو غیر مسلم کے بتوں کو بھی گالی دینا حرام ہے۔

اہل علم جانتے ہیں کہ حقوق اللہ، اللہ کریم چاہیں تو معاف ہو سکتے ہیں، جہنم کی مقررہ سزا کے بعد معاف ہو سکتے ہیں (اللہ کریم جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے، آمین) لیکن حقوق العباد تو اللہ کریم نے بھی معاف نہیں فرمانے جب تک کہ جس کا حق تلف ہوا، وہ خود معاف نہ کر دے یا راضی نہ ہو جائے اور حقوق العباد میں مسلمان یا غیر مسلم کا معاملہ بھی نہیں۔ بلکہ جو انسان ہے اس کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ اسی کو ذہن میں رکھ کر سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا مذہب، سیاست، مسلک، فرقہ، معاشی حالت، زبان، صوبہ، ملک، قوم، ذات الغرض کسی بھی اعتبار سے کسی بھی انسان کی تذلیل کرنا، کسی کو گالیاں دینا، الزام تراشی کرنا، بہتان لگانا حقوق العباد میں شامل نہیں؟؟ ہم جب کسی کی نسل کو، کسی کے آبائو اجداد کو گالیاں دیتے ہیں تو کیا یہ وفات پا جانے والوں یا آنے والی نسلوں کے حقوق العباد میں شامل نہیں؟ چلیں جو موجود ہیں، ان سے تو معافی مانگ لیں گے لیکن جو وفات پا چکے یا کسی کی آنے والی نسل کو گالی دی تو جو نسل دنیا میں ابھی آئی ہی نہیں تو ان سے معافی کیسے مانگیں گے؟ ہم بحیثیت قوم زبان کی حفاظت کیوں نہیں کرتے؟ جب کسی کی پوری نسل کو گالی دیتے ہیں تو کیا معلوم اس کی نسل آبائو اجداد سے ہوتی ہوئی کسی صحابی رسول ﷺ تک پہنچتی ہو، صحابی تک نہ بھی پہنچے تو بنی آدم سے تو انکار محال ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں تمام انسانیت کے حقوق کا علمبردار ہونا چاہئے تھا۔ ہمیں تمام انسانوں کی تکریم کا عملی نمونہ پیش کرناچاہئے تھا لیکن افسوس۔۔ پھر وہ ہی بات دہرانا چاہتا ہوں کہ آدھا اسلام یورپ کے پاس ہے، وہ بھی خسارے میں ہے اور آدھا اسلام ہمارے پاس ہے، ہم بھی خسارے میں ہیں۔

ہم اگر بین المذاہب ہم آہنگی یا بین المسالک ہم آہنگی کی بات کریں تو اس کا طریقہ بھی قرآن نے خود تعلیم فرما دیا ہے۔ اللہ کریم نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 64میں ارشاد فرمایا: قل یااھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا اللہ و لا نشرک بہ شیئا و لا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون۔ اے اہل کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ رو گردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جائو ہم تو مسلمان ہیں۔ قارئین! یہ آیت کریمہ خود بین المذاہب ہم آہنگی کا درس دے رہی ہے۔ اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی، جن سے قرآن نے خود دوستی کرنے سے منع فرمایا لیکن معاشرے کو پر امن رکھنے کے لئے درس دیا کہ جو باتیں، جو قوانین یکساں ہیں ان کو ایک میز پر بیٹھ کر طے کر لیں۔

 مذکورہ آیات میں اللہ تعالی نے بتوں کو گالی دینے سے بھی منع فرمایا حالانکہ اسلام کا بتوں کے ساتھ کوئی فروعی اختلاف نہیں بلکہ اصل، شدید ترین اوردینی اعتبار سے بنیادی اختلاف ہے۔ بتوں کی پوجا اسلام میں شرک ہے۔ اس کے باوجود حکم دیا کہ اگرچہ رب کے ماننے اور عبادت پرشدید ترین دینی اختلاف ہے لیکن معاشرے کو پر امن رکھو۔ غیر مسلم کو دلائل سے سمجھائو لیکن گالم گلوچ نہ کرو، ورنہ وہ بھی کریں گے۔ پھر اللہ کریم نے خود اہل کتاب سے یکساں معاملات پر سمجھوتا کرنے کا حکم دیا۔ اہل کتاب کو دیکھیں تو ان کے ساتھ بھی اسلام کا اختلاف فروعی نہیں بلکہ اصل او ر بنیادی اختلاف ہے جو نبی علیہ السلام کی ذات پر ہے۔ وہ ہمارے نبی ﷺ کو مانتے تک نہیں لیکن پھر بھی حکم دیا کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر جو معاملات یکساں ہیں ان پر سمجھوتا کر و۔ یہ بھی درحقیقت معاشرے کو پر امن رکھنے کے لئے ہے۔ پھر ان آیات کے ساتھ وہ آیت بھی یاد رکھیں کہ جس میں اللہ کریم نے تمام بنی نوع انسان کو تکریم بخشی ہے۔

قارئین! اس مختصر تحریرکا مقصد معاشرے کو پرامن کرنے کے لئے اپنے حصہ کا چراغ روشن کرنا ہے۔ اگر اللہ کریم نے بتوں کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے تو مسلمان ہو کر ہم ایک دوسرے کی تذلیل اور گالی گلوچ کیوں کرتے ہیں؟ اگر اللہ کریم نے اہل کتاب کے ساتھ ٹیبل ٹاک کے ذریعے یکساں معاملات طے کرنے کا حکم دیا ہے تو ہم یہ اصول اپنے فرقوں پر کیوں لاگو نہیں کرتے؟ کیا ہمارے سیاسی و مذہبی فرقوں کا اختلاف اس قدر شدید ہے کہ جو اسلام کا بتوں کے ساتھ اختلاف اور اسلام کا اہل کتاب کے ساتھ اختلاف سے بھی بڑھ گیا ہے؟؟ ہم ایک میز پر بیٹھ کر یکساں معاملات کیوں طے نہیں کرتے؟ ہم نے قرآن کی ان تعلیمات پر عمل کیوں چھوڑ دیا ہے؟

اس فقرے {آدھا اسلام یورپ کے پاس ہے، وہ بھی خسارے میں ہے اور آدھا اسلام ہمارے پاس ہے، ہم بھی خسارے میں ہیں} کو ذہن میں رکھ کر سوچئے گا ضرور کہ جب ہم نے پورے اسلام پر عمل کیا تھا تو دنیا میں ہمارا مقام کیا تھا اورآج ہم نے آدھے اسلام پر عمل کرنا ہے یا پورے اسلام پر؟

تبصرے بند ہیں۔