آزادی کی آزاد کہانی

مبین احمدجامعی

 ہندوستان یا  Republic of India جنوبی ایشیا میں واقع ایک ملک ہے ۔ ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتی ہے۔ بھارت کے ایک ارب سے زائد باشندے ایک سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔ بھارت ایک کثیر اللسانی ،مذہبی ،ثقافتی اور نسلی معاشرہ ہے۔چار مشہور مذاہب ہندومت ،بدھ مت، جین مت اور سکھ مت نے اسی ملک میں جنم لیا ۔جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ ملک خطے کا ایک طاقتور ملک ہے۔ اس کی فوج بلحاظ تعداد دنیا کی تیسری بڑی قوت ہے اور دفاعی خرچ کے لحاظ سے یہ دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔بھارت ایک وفاقی جمہوریہ ہے جو پارلیمانی نظام کے تحت 29 ریاستوں اور 7 وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے۔

 قدیم ہندوستان  نے جدید ہندوستان کے لیے بے تحاشہ  اپنے تن ،من، دھن  کی قربانیاں دی ہیں ۔انہی قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں آزاد ہندوستان  نصیب ہوا۔ ہندوستان 15اگست 1947کو انگریزوں سے آزاد ہوا اور 26جنوری 1950کو ہندوستان ایک جمہوری ملک بنا۔اس کی بنیا د اور آغاز 1857 ء کی پہلی جنگ آزادی ہے۔

1600ءمیں تن کے گورے من کالے انگریزوں کوالزبتھ اول سے کمپنی کوہندوستان میں تجارت کا پروانہ ملا۔ چنانچہ پہلی بار ولیم باکنس ایک جہاز کے ذریعہ سورت کے بندرگاہ میں داخل ہوا اور ہندوستان پہنچا۔اس نے 1613ء میں سورت ہی میں اپنی پہلی کوٹھی قائم کی۔ پھر  سرتھامس راؤ (Sir Thomas Roe ) مغل بادشاہ جہاں گیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک درخواست کے ذریعہ اس نے شہنشاہ سے کاروباری مراعات حاصل کرلی۔مغلیہ سلطنت کے زوال میں مغل بادشاہوں، حکمرانوں اور شہزادوں کی باہمی رقابتیں  اس قدر گہری تھیں کہ عالمگیر اورنگ زیب کی وفات کے بعد عوام باہم دست و گریباں ہوگئی۔ انگریزوں نے اس اختلاف و انتشار کا خوب خوب فائدہ اٹھایا اور نواب سراج الدولہ کوشکست دے کر اولاََ بنگال پر قبضہ کیا، پھر کچھ دنوں میں مدراس اور کلکتہ پر بھی قبضہ جمالیا اوراس کے بعد حکومت کرنا شروع کردیا، بعد ازاں دھیرے دھیرے 1865ء میں پورے ہندوستان پر تسلط قائم کرلیا۔ اس کے بعد انگریزوں نے سرزمین ہندوستان پر اپنے پاؤں ایسے جمائے کہ تین سوسال تک وطن عزیز کی تمام بہاریں لوٹتے رہے اور جب یہاں سے رخصت ہوئے تو سارا ہندوستان خزاں کی زد میں تھا کہ پھر اس پر کبھی بہار نہ آئی۔

 سب سے پہلے فتح علی خان ٹیپوسلطان (1313 ھ 1799 ء)انگریزوں  کی چال بھانپ گئے اور جنگ کرتے کرتے شہید ہوگئے علامہ فضل حق خیر آبادی(سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف فتوی جہاد دینے والے) اور ان کے ساتھی مفتی صدر الدین خان آزردہ، سید کفایت علی کافی اور دیگر بہت سے علماء نے دہلی کی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا (علیھم الرحمۃ)۔جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے میدان میں اترپڑے۔

 پہلی جنگ آزادی کے محرک علامہ فیض احمد رسواؔ بدایونی،مولانا احمد اللہ مدراسی ،مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی ،مولانا ڈاکٹر وزیر علی خاں اکبرآبادی ،مولانا وہاج الدین مرادآبادی ،مولانا امام بخش صہبائی دہلوی  اورمولانا رضا علی خاں بریلوی  رحمۃ اللہ علیھم اجمعین وغیرہ تھے ۔اسی لیے انگریزوں  نےمسلمانوں کے زبان وتعلیم کو محدود کر نے کی ناپاک کوشش کرتے ہوئے،جوش انتقام میں 1864 تا 1847  علما کو ہلاک کرنا شروع کیا۔ ایک انگریزی فوجی افسر ہنری کوٹن(Henry Cotton) نے بیان کیا ہے کہ‘‘دہلی دروازہ سے پشاور تک گرینڈ ٹرنک روڈ کے دونوں ہی جانب شاید ہی کوئی خوش قسمت درخت ہوگا جس پر انقلاب 1857 کے رد عمل اور اسے کچلنے کے لیے ہم نے ایک یا دو عالم دین کو پھانسی پر نہ لٹکایا ہو۔ایک اندازے کے مطابق تقریبا بائیس ہزار علما کو پھانسی دی گئی۔’’ (جنگ آزادی 1857 ء  میں علما کا مجاہدانہ کردار،ص:28) یہ علما ء ( یعنی لیڈران) کی تعداد  ہے جبکہ لاکھوں  عام مسلمانوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔

 دراصل پہلی جنگ آزادی نےآزادی کا ایک سنگ میل عبور کر لیا  تھا ،نتیجۃََ  اگست 1858ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلانِ ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ  کے سپرد کر دیا، اور وطن عزیز کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے آزادی مل گئی۔

 1857 کی جنگ آزادی نے پورے ملک کو قومی جذبے سے بھر دیا  ۔اس لیے  بے ہنگم ہی سہی مگر تحریک آزادی کی آگ  پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی ،جو گاہے بگاہے بھڑکتی رہتی تھی ۔ Indian National Congress کا قیام دسمبر 1885ء ایلن اوکٹیوین ہیومAllan Octavian Hume)) اور ۱۹۰۶ ء میں مسلم لیگ کا قیام  آغا خان،نواب سلیم اللہ  ڈھاکہ اور محسن الملک کی قیادت میں عمل میں آیا۔دونوں قومی پارٹیوں نے الگ الگ نظریات کے باوجود آزادی کی تحریک کو زبردست فیصلہ کن اندز میں آگے بڑھایا۔

  ہندوستان نے ستیہ گرہ کی کی تحریک‘ عدم تشدد’ کے پرچم تلے اپریل 1917 ء چمپارن اور 1918 ء کھیڑا میں کسانوں پر ظلم کے خلاف  آواز بلند کی۔ 1919 ء میں رولٹ ایکٹ جو سیاسی جد جہد کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا، اسی کے خلاف ستیہ گرہ کی تیاریاں چل  ہی رہی تھیں  کہ انہی دنوں جلیان والا باغ کا قتل عام پیش آیا۔ جس نے  شمالی ہند   میں آزادی کے متوالوں میں اور جوش بھر دیا۔1920 ء میں تحریک خلافت اور(Non-Cooperation Movement)असहयोग आंदोलन کا قیام ہوا۔جس کے سبب  انگریز حکومت بوکھلا گئی۔ ہندوستان نے دسمبر1929 ء  میں(Complete independence) पूर्ण स्वराज کی مانگ کی۔با لآخر 8 اگست 1942 ء   کو بمبئی (گوالیہ ٹینک)سے (Movement Quit India)بھارت چھوڑو تحریک‘‘کرو یا مرو ’’ کے نعرہ  کے ساتھ  اِس جوش اور ولولے کے ساتھ  چلایا گیاکہ14 اور 15 اگست، 1947ء کو برطانوی ہندوستانی سلطنت نے آزادیٔ ہند ایکٹ پاس کر دیا۔

تحریک آزادی کے عظیم قائدین میں ،موہن داس کرمچند گاندھی جی،محمد علی جناح، جوہر علی ،شوکت علی،جواہر لعل نہرو ولبھ بھائی پٹیل ،راجندرہ پرساد، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر،خان عبدلاغفار خان، ابولاکلام آزاد اور مولانا حسرت موہانی وغیرہ تھے۔

  تحریک آزادئی ہند میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہ فطری تھا ،اس لیے کہ انگریزوں نے دھوکہ دے کر حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی ۔ مگر کیا کیجیے! ہماری غفلتوں اور حکومتوں کے تعصب کے سبب جو مسلم لیگ اور کانگریس میں شامل ہو کر جد جہد کر رہے تھے ،ان کا تو  نام  کہیں کسی تحریر وتقریر میں دیکھنے کو ملتا ہی نہیں،مسلم لیگ اور کانگریس کے علاوہ جو  مسلمان جنگ آزادی میں شریک تھے اُن کا  تذکر ہ بھلا کیونکر ممکن ہےمثلا مولانا حسرت موہانی ،اور وہ مسلمان جو سبھاس چندر  بوس کے ساتھ ‘‘ آزاد فوج ہند ’’ میں شریک تھے وغیرہ ۔واضح رہےتمام   مسلم لیڈران اور مسلمانوں نے نہ تو مسلم لیگ کی حمایت نہیں کی تھی اور نہ تقسیم ہند کو قبول کیا تھا ۔شاید یہی سبب ہے کہ آج بھی آل انڈیا یونین مسلم لیگ پارٹی  ہے اور کیرالہ حکومت سازی میں برابر کی شریک رہ چکی ہے۔تین فروری 2017 کو  اسی پارٹی کے لوک سبھا ممبر ای احمد کا بجٹ سیشن کے دوران طبیعت بگڑنے کے سبب اسپتال میں انتقال ہو گیا تھا۔مسلمانوں کو  چاہیے کہ اپنے آبا ء و اجداد کو تاریخ ہند کے تناظر میں ضرور پڑھیں اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی  اس جانب راغب کریں ۔ورنہ ہم تاریخ بھلا کر  خود کوتاریخی  تباہی سے نہیں بچا سکیں گے۔

 آج ہم 70 واں یوم آزادی منا رہے ہیں ۔ یہ ہندوستان کے لیے خود احتسابی کا دن  ہے کہ آزادی کے70 سال بعد بھی ہم نیشنلزم پہ بحث کر رہے ہیں۔ ملک میں انارکی پھیلتی جا رہی ہے ۔ فی الحال ہندوستان کی معیشت عمومی GDP (گھریلو پیداوار)کے لحاظ سے ساتویں بڑی اور قوت خرید یعنیPurchasing power parity (PPP)) کے لحاظ سے تیسری بڑی معیشت ہے۔1991 کے معاشی اصلاحات  نے اسے دنیا کی تیزی سے ابھرتی معیشتوں میں لا کھڑا کیا ہے اور یہ تقریباً صنعتی ملک کا درجہ حاصل کرنے والا ہے۔بہر حال اس کے باوجود یہ ملک غربت ،کرپشن،خوراک ، صحت، لو جہاد ،گئو رکشا ،طلاق ثلاثہ،کشمیر اور آج کل بنگال میں اقلیتی لڑکیوں کو منظم طور پر پھنسا کر شدھی کرن نیز فرقہ وارانہ فساد جیسے زہر آلودمسائل کا شکار ہے۔ کہیں بھی سینا کے نام پر اکٹھا بھیڑ گئو رکشا کے بہانے اقلیتوں کو موت کے گھاٹ اتار تی جا رہی ہے  اسی لیے ہر طرف ملک میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ملک  سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتاجا رہا ہے ۔ مگر موجودہ حکومت اپنے وعدوں  سےمنھ چرا  رہی ہے اور  نا ن ایشو کو ایشو بنا نے میں لگی ہوئی ہے۔ایسے میں مسلمانوں کو جوش سے کم ،ہوش سے زیادہ کام لینے کی ضرورت ہے۔مسلم دانشوران اورعلما ء  کو مل کر قیادت کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے۔ ورنہ مسائل گھٹنے کے بجائے بڑھتے ہی رہیں گے۔‘اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا’سیاسی،سماجی ،معاشی اور تمام مسائل کا حل تعلیم ہی ہے۔ اس لیےحکومتوں سے ہمارا مطالبہ یقینی تحفظ کے ساتھ ساتھ اقلیتی تعلیمی اداروں کا قیام ہونا  چاہیے۔۔۔ع

آدھی روٹی کھائیے ،بچوں کو پڑھائیے

تبصرے بند ہیں۔