آسام کا شہریت رجسٹر: شاطرانہ شرکا تسلسل

سیدمنصورآغا

پیر، 30جولائی کوآسام میں شہریت کے رجسٹر(NRC)کا جو ڈرافٹ جاری ہوا، اس میں 40 لاکھ 0 7 ہزار 707 افراد کے شہریت کے دعووں کو مسترد کردیا گیا ہے۔ ان میں کئی معروف شخصیات اوران کے خاندانیوں والے بھی شامل ہیں۔ مثلاًسابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر فخرالدین علی احمد کے بھائی لیفٹنٹ اکرام الدین کے بیٹے کا پورا خاندان، سابق ڈپٹی اسپیکر، آسام اسمبلی دلیپ کمارپال کی اہلیہ، سابق ڈی جی پی کے اہل خاندان، سابق فوجی اجمل حق جو تیس سال کیملازمت کے بعد 2016 میں ریٹائر ہوئے، کئی مجاہدین آزادی کے خاندانوں، ریاستی اورمرکزی سرکاروں سے پنشن یافتہ افراداوران کے لواحقین کے نام بھی اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہیہ رجسٹر ناقص ہے اوراس کی تیاری کے جو پیمانے مقررکئے گئے ان میں خامیاں ہیں۔ دعوی یہ کیا جارہا ہے کہ یہ کام سپریم کورٹ کی راست نگرانی میں ہواہے۔

اس کاروائی کی زد میں ایک بہت بڑی تعداد غیرتعلیم یافتہ، مفلس اورسلم بستیوں میں رہنے والوں کی ہے۔ ان سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ 1971سے قبل سے ریاست میں رہنے کا دستاویزی ثبوت پیش کریں، انصاف کا خون ہے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں ہندستان کی آدھے سے زیادہ آبادی کوئی ایسی دستاویز پیش نہیں کرسکتی جس سے وہ 47سال قبل 1971میں اس ملک میں مقیم ہونا ثابت کرسکے۔ اب اگر کسی شخص پر غیرملکی دراندازہونے کا شک ہے، توثبوت سرکار دے۔ لیکن سرکار نے بعض معاملات میں یہ قطعی ظالمانہ ضابطہ مسلط کردیاہے کہ استغاثہ صرف الزام لگاتا ہے اور ملزم سے کہا جاتا ہے کہ وہ خود کو بے قصورثابت کرے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نئے رجسٹرمیں ایسے ایک لاکھ 15ہزار نام بھی شامل نہیں کئے گئے، جو دسمبر2017میں جاری جزوی رجسٹر میں موجود تھے۔

اگرچہ اس متنازعہ رجسٹر کی بنیاد پر کسی کے خلاف کاروائی سے فی الحال سپریم کورٹ نے روک دیا ہے، چیف الیکشن کمشنر نے بھی کہا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی کانام ووٹرلسٹ سے نہیں ہٹایاجائے گا، لیکن آخر 1985سے جاری اس مشقت کا منطقی انجام کیا ہوگااوراس کی زد کس پر پڑے گی؟ ظاہر ہے کہ زد اقلیتی باشندوں پر ہی پڑے گی، کیونکہ مودی سرکار نے 2014میں ایک قانون بناکر کر ہندو دراندزوں اورمہاجروں کی شہریت دینے کاراستہ صاف کردیا ہے۔ چنانچہ اس پر فرقہ ورانہ سیاست شروع ہوگئی ہے۔ منگل کوراجیہ سبھا میں مسٹرامت شاہ کا بیان اوران کی شادمانی سے ظاہر ہے کہ اس کا استعمال بھی 2019کے الیکشن میں کیا جائے گا۔ایک بھاجپائی لیڈرنے کہہ دیا، ہماری سرکارآئے گی توایسا ہی رجسٹرمغربی بنگال میں بھی بنے گا۔ ایک ایم ایل اے نے مشورہ دیا ہے ان سب کو بندوق کی نوک پر بنگلہ دیش دھکیل دیا جائے۔وغیرہ

چالیس لاکھ سترہزارسے زیادہ افراد کی شہریت کوتسلیم نہ کرنے کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ جس قانون کے تحت یہ رجسٹرتیارہوااس کی نظرمیں یہ سب افراددرانداز ہیں جو 24مارچ 1971 کے بعد آسام میں آکربس گئے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس دن مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کے قیام کیلئے مسلح جنگ چھڑی تھی۔ بیشک کچھ لوگ اپنی جان بچانے کیلئے وہاں سے نکل بھاگے ہونگے۔ لیکن کیا کوئی تصورکرسکتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں خاندان کے خاندان سرحد عبورکرکے آسام میں آبسے اوران کو روکا نہیں گیا، حالانکہ ہندستانی فوجی چپے چپے پرموجود تھے؟ دراندازی کے اس مبالغہ آمیز الزام کی جڑدراصل ایک سیاسی تحریک میں ہے جوبھاجپاکی ہم نوا ’آسام گن پریشد‘ اور طلباء تنظیم ’آسو‘کی زیرقیادت 1979 میں شروع ہوکر 1985تک جاری رہی اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب رہی۔

اس تحریک کے دوران ریاست میں جو فرقہ ورانہ شورش برپارہی اس نے ریاست کی چولوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ ہرطرف لاقانونیت اورہجومی تشدد کا دوردورہ تھا۔ اس کی زد ان غیرآسامیوں پر پڑی جو ہند کے مختلف ریاستوں سے آکر وہاں کاروبارکرتے تھے۔ جگہ جگہ بنگالی بولنے والے غریب جھگی نشین، ناخواندہ، کھیتی مزدورافراد کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں اکثران افراد کی نسلیں ہیں جن کو انگریزوں نے دیگرریاستوں خصوصاً بنگال اوربہار سے لاکر کھیتی باڑی کیلئے آسام میں بسایاتھا۔ ان کی بولی، رہن سہن اور کھانا پینا سب بنگالی ہے۔ اس شورش کے دوران 1983 میں 18 فروری کوہندستان میں ہجومی تشدد کا سب سے بھیانک واقعہ پیش آیا جب باقاعدہ تیاری کے ساتھ دس ہزارسے زیادہ مسلح افراد نے وسطی آسام کے ’نیلّی ‘ اورقریبی 13مسلم اکثریتی کچی بستیوں پر حملہ کیا۔ یہ حملہ صبح 8بجے سے شام 3بجے تک جاری رہا جس میں سرکار کے مطابق 2191افراد اور غیرسرکاری ذرائع کے مطابق تین ہزارسے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ اگرچہ مقامی تھانے سے ایک دن پہلے ہی وائرلیس سے اعلیٰ حکام کواس اندیشے سے مطلع کردیا تھا مگران بے بس انسانوں کے قتل عام کوروکنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔یہ اس وقت ہوا جب مرکز اور ریاست دونوں جگہ ’’سیکولر‘‘ سرکاریں تھیں۔

ان فرقہ پرستوں کازور دیکھئے، جب6دسمبر1980کو ریاست کی پہلی خاتون وزیراعلی انورہ تیمورکی حلف برداری ہوئی تو آسوکی اپیل پر ایساریاست گیر بند ہواکہ پانی کی سپلائی تک بند رہی۔ ان کی سرکارکو چلنے نہیں دیا گیا اورسال بھرمیں ہی استعفیٰ دینا پڑا۔1983میں معاملہ یہاں تک پہنچا کہ آسو اورگن پریشد نے اسمبلی چناؤ کے بائی کاٹ کا اعلان کردیا۔ ان کا خوف عوام پراس قدر طاری تھا کہ صرف دوفیصد پولنگ ہوئی۔ تاہم جب تک محترمہ اندراگاندھی رہیں، اس شورش کا مقابلہ سیاسی اورانتظامی سطح پرہوتا رہا،لیکن ان کے قتل کے بعد اکتوبر 1984میں سیاسی اورانتظامی تجربہ سے محروم راجیوگاندھی وزیراعظم بنے تونہ جانے کس کے مشورے پر ’آسام گن پریشد ‘ اور ’آسو‘کے ساتھ سمجھوتہ پرآمادہ ہوگئے۔ اس کا اعلان خودوزیراعظم نے 15اگست 1985 کو لال قلعہ سے کیا۔اوراسے امن کی فتح قراردیا۔ حالانکہ یہ ایک شاطرانہ شرکا آغاز تھا۔ اس معاہدے کے نتیجہ میں اگرچہ احتجاج رک گیا اور کچھ ہی دنوں میں اقتدار بھی احتجاجیوں کے ہاتھ میں چلاگیا مگر بنگالی بولنے والے خصوصاً مسلم آسامیوں کے سروں پرجوتلوارلٹک گئی تھی وہ بدستور لٹکی ہوئی ہے۔ ایک حد تک یہ سمجھا جاسکتا ہے اگرمعاہدے کے فوراً بعد ’غیرقانونی‘ باشندگان کی نشاندہی کا کام ہو جاتا تو زیادہ سے زیادہ چند سویا چندہزارافراد کی نشاندہی ہوجاتی۔ لیکن اس کو لٹکائے رکھا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق ’غیرملکیوں ‘ کی شناخت کیلئے 2005میں اس وقت کے مرکزی وزیرداخلہ مسٹرشیوراج پاٹل کی سربراہی میں ایک اورسہ فریقی مفاہمت ہوئی۔ یہ رجسٹراسی کا انجام ہے۔اس کام میں جو 33سال کی مدت لگی اس نے پیچیدگیوں کو بڑھادیا اوراب ایک نہیں، دو نئی نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں۔

بہرحال کہانی لمبی ہے۔ مگراب جو یہ رجسٹرتیار ہورہا ہے، اس کی تیاری کے دوران ان غریبوں پر کیا بیتی، جن کو اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے محنت مزدوری چھوڑ کرٹربیونل کے چکرلگانے پڑے اور وکیلوں، کلرکوں، پیش کاروں وغیرہ کے مطالبے پورے کرتے کرتے ادھ مرے ہوگئے۔ فلاحی مملکت میں ’سیکولر ‘سرکار کے اس ظلم کو کیاکہا جائے؟اب جن تقریباً41لاکھ افراد کو شہریت کے حق سے محروم رکھا گیا ہے ان کو ایک مرتبہ پھرمصائب کے مختلف مراحل سے گزرنا ہوگا۔فارموں کااجراء 8اگست سے ہوگا اور اپیل30اگست تک داخل کرنی ہوگی۔ اس دوران کیسی آپا دھاپی اورلوٹ مچے گی تصورسے باہر ہے۔ دوبارہ درخواستیں گزارنے کیلئے وکیلوں کی فیس بھرنی ہوگی۔ اورنہ جانے کیا کیا ہوگا۔ اس دوران ان لاکھوں افراد کو اپنے ہی وطن میں رہتے ہوئے ملک بدرکئے جانے کا خوف ستاتا رہے گا، ان کے لئے نہ سفرکرنا محفوظ ہوگا اورنہ روزگارکے لئے کہیں اورجانا۔

گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو
حادثے چہرے کی پہچان مٹا دیتے ہیں

مرکزی حکومت اورریاستی سرکار نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جن کے نام رجسٹر میں نہیں آئے، نہ توان کو ملک بدری کیلئے مخصوص کمپوں میں قیدی بناکر نہیں رکھا جائے گااورنہ دیش نکالاہوگا۔لیکن یہ کوئی مہربانی نہیں، مجبوری ہے۔ چالیس لاکھ سترہزار افراد کیلئے مخصوص کمپوں کا قیام، ان کا انتظام اوران میں قید افراد کی جملہ ذمہ داریوں، کھانا، کپڑا، علاج معالجہ، تعلیم، صفائی اور ستھرائی وغیرہ پر بھاری بھرکم خرچ کابوجھ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہوگا۔ بین اقوامی قوانین کے تحت سرکار کی جوابدہی ہوگی اور ملک بدنام ہوگا۔ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد کوئی نوے ہزارجنگی قیدیوں کو رکھنے کا تلخ تجربہ ہماری سرکار کو ہے۔ موجودہ سرکار توایسی ہے کہ اس نے خود گایوں کیلئے جو شیڈ قائم کئے ہیں، ان میں چند ہزار’گؤ ماتاؤں ‘ کی دیکھ ریکھ نہیں ہورہی۔ اس لئے کنسنٹریشن کمپوں کا قیام عملی وجوہ سے ممکن نہیں۔

رہا ملک بدری کا خیال تو بنگلہ دیش کابینہ کے وزیرثقافت اسعدالزماں نوری نے دوٹوک کہہ دیا ہے کہ شہری رجسٹر بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ہمارااس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی بنیاد پر کسی کو بنگلہ دیش میں لینے کاسوال ہی نہیں۔ ‘ بھلے ہی شیخ حسینہ واجد کی سرکار بھات نواز ہو،لیکن اتنی بڑی تعداد کو تووہ بھی چاہے تب قبول نہیں کرسکتی۔ضابطہ کے مطابق ہندسرکارکو ہرایک فرد کے بارے میں یہ ثبوت فراہم کرانا ہوگا کہ وہبنگلہ دیشی ہے اورغیرقانونی طورسے یہاں رہ رہا ہے۔کوئی شخص اگر یہ ثبوت فراہم نہیں کرسکا کہ وہ یا اس کے آباواجداد 1971سے پہلے سے آسام میں آباد نہیں تھے تواس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ غیرقانونی بنگلہ دیشی دراندازہے۔ معروف قانون داں پروفیسر فیضان مصطفی اور چند دیگراہم شخصیات نے اس مسئلہ کو انسانی نقطہ نظرسے پیش کیا ہے، جس کا جواز بہرحال ہے، لیکن ان ہندوؤں کوکوئی خطرہ نہیں جن کے نام رجسٹرمیں نہیں آئے کیونکہ بھاجپا سرکار ہندوتارکین وطن کو شہریت دینے کیلئے فراخ دل ہے۔وہ انسانیت کو نہیں پہچانتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔