آہستہ آہستہ’ دَلدَل‘ سب کو نگلے جاتا ہے

عالم نقوی

یہ زمانہ اگر نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عہد نہ ہوتا اور اور خیرِ اُمّت قرار دی جانے والی آپﷺ کی اُمت کے کچھ لوگ آج بھی، فساد سے بھری ہوئی اس دنیامیں ’امر و نہی پر عامل امت وسط اور خیر امت ‘ کی کسوٹی پر پورے اترنے والے موجود نہ ہوتے، تو  مختلف سابقہ نافرمان قوموں پر نازل ہونے والے  ہر عذاب کی تاریخ  اب تک دہرائی جا چکی ہوتی۔

حضرات نوح، ہود، صالح، شعیب اور لوط  علی ٰ نبیّنا علیہم ُالسلام  کی قومیں عدوِّ مبین کے بہکانے میں آکر  عذاب الٰہی کو دعوت دینے والے  جن خبائث میں مبتلا ہوئی تھیں وہ سب  اس عہد نافرجام میں بہ یک وقت موجود ہیں ۔ بقول عزیزی ایم طاہر :

’’جو کھیل ادب اور فلم میں فحش نگاری سے شروع ہوا تھا وہی اب  فرد کی آزادی کے نام پر ہم جنسی کے  اس عذاب کی، یکے بعد دیگرے قانونی منظوری  تک آپہنچا ہے۔یہ وہ دَلدَل ہے جس سے نکلنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ افسوس تو اِس کا ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ  اس  کی مکمل بنچ اور  قانون سازیہ کی سطح پر کسی course correction   کسی ترمیم و تصحیح و تنسیخ کے بغیر باقی رہ گیا تو وہ بد بخت و بدکار لوگ جنہوں نے فرد کی نام نہاد آزادی کی دہائی دے کر سماج کے بدترین  و شرم ناک بگاڑ کی راہ ہموار کی ہےاور جو۶ ستمبر کو  سپریم کورٹ کے سامنے جشن منارہے تھے اور آج سوشل میڈیا وغیرہ میں بغلیں بجا رہے ہیں، وہ پچاس سو برس بعد اپنے کیے کا ناقابل تصورتباہ کن  نتیجہ دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہیں گے۔ اسے  محض اتفاق  کہہ کر نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا کہ ایک سو چھپن سال پرانے ہم جنسی مخالف قانون کی دفعہ ۳۷۷ کو کالعدم قرار دیے جانے والے سپریم کورٹ کے اس عبرت ناک فیصلے پر سب سے پہلی مبارکباد صہیونی مفادات کے نگراں عالمی ادارے ’اقوام متحدہ ‘ سے آئی ہے۔ ‘‘

مجاہد سید نے بہت پہلے  اپنی نظم ’صحرا کی بھی یہی کہانی ‘ میں کہا تھا کہ :

’’مٹی، پتھر، چونے، لکڑی اور چمڑے کے گھروں کے باسی۔ ۔آنکھ سے اندھے، قلب سے مردہ ہر سو پھرتے رہتے تھے۔ ۔میں بھی اسی بستی کا باسی۔ ۔میں بھی سڑتے جسموں پر۔ اور بدبو دار زمینوں میں۔۔ گرتا پڑتا رینگتا رہتا، پھر بھی چلتا رہتا ہوں۔ ۔آہستہ آہستہ دَلدَل سب کو نگلے جاتا ہے۔ ۔! ‘‘

جمعرت ۶ ستمبر کو دفعہ ۳۷۷ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس  دیپک مشرا کا یہ جملہ  کہ ’’اکثریت کے نظریات اقلیت پر نہیں تھوپے جا سکتے‘‘باطل  کی تائید کے لیے حق کے استعمال کا ایک نادر نمونہ تھا۔ پانچ رکنی بنچ کے دوسرے رکن جسٹس نریمن کا یہ بیان  فطرت اور قانون فطرت دونوں کے منافی تھا  کہ’’ ہم جنسی کو ئی دماغی مرض نہیں۔ اور، ہم جنسی کی  زندگی گزارنے والوں کو بھی عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہے۔ ‘‘

 اس سے پہلے کہ یہ دلدل سب کو نگل جائے، آئیے ہم اور آپ نبی کریم ﷺ کے امتی ہونے کے ناطے  حتی الامکان اپنا فرض منصبی ادا کر نے  کی کوشش کرتے رہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ سنگھ پریوار حصول اقتدار کی اپنی موجودہ کامیابیوں کو  اکثر ایک ہزار سالہ غلامی سے  نجات  کہا کرتا ہے ! انگریز سامراج کی ڈیڑھ دو سو سالہ حکومت تو ان کے قدرتی  حلیفوں کی حکومت تھی اس لیے نہ صرف یہ کہ انہوں نے کبھی اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ آزادی کی لڑائی لڑنے والے مجاہدین ہی کو آپس میں لڑانے اور نفرت پھیلانے کی مذموم پالیسی پر گامزن رہے۔ پچھلے پانچ سال سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی ابتدا وہ  بیسویں صدی کی دوسرے عشرے میں کر چکے تھے۔ رہی ایک ہزار سالہ غلامی سے

نجات تو حقیقت یہ ہے کہ بیشتر اخلاقی قدر وں اور تہذیبی اقدار  کی عمر بھارت  میں’ ایک ہزار سال‘ سے زائد نہیں کیونکہ اسلام کی آمد کے بعد ہی  وطن عزیز میں یہ روشناس   ہوئیں اور مسلمانوں سے ربط و ضبط بڑھنے  اور ان کے  بر سر اقتدار آنے، مسلم تاجروں سے متاثر ہونے اور صوفیائے کرام کے اثر و نفوذ کے بعد  ہی ان کی جڑیں ملک میں پیوست ہوئی ہیں۔ یہ اقدار ہیں :

(۱)مردوں اور با لخصوص عورتوں کی مناسب اور با عزت ستر پوشی۔ ورنہ بغیر سلی دھوتی لپیٹ لینے کے سوا، جس میں مردوں اور عورتوں کا اوپری بدن تقریباً  کھلا رہتا ہے، یہاں اور کیا تھا ؟ کپڑوں کو سی کر پورے بدن کو ڈھانپ سکنے والا لباس بنانا اور ’جامے میں رہنا ‘ تو مسلمانوں ہی نے بھارت واسیوں کو سکھایا ہے !

ہندستانی زبانوں میں سلے ہوئے کپڑے کے لیے آٹھ نو سو سال قبل تک کے  بھارتی بھاشاؤں کے کسی  ادب میں کوئی لفظ نہیں ملتا۔ مثلاً بنگالی زبان میں جو تمل اور ملیالم کے بعد (جدید ہندستانی زبانوں میں سب سے زیادہ زر خیز، Rich ) زبان ہے۔ ۔کپڑے کے لیے دو ہی لفظ ہیں : ’’کاپُڑ  اورجامہ‘‘۔بغیر سلا ہوا ہر کپڑا ’کاپُڑ ‘ ہے اور سلا ہوا ہر لباس ’جامہ ‘۔

(۲)عورت کو وراثت میں حصہ دینے اور باعزت طریقے سے بیاہ کر لانے کا طریقہ بھی ہم نے سکھایا ہے۔ ورنہ یہاں شادی کے لیے جس طرح کے  غیر اخلاقی طریقے رائج تھے، سماجیات (سوشیالوجی ) کی درسی کتابوں میں ان کا مطالعہ آج بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان طریقوں میں ’اغوا اور ڈکیتی ‘ بھی شامل ہیں۔ پُر شور باجے گاجے کے ساتھ بڑی باراتوں کا موجودہ طریقہ اُسی کے ’باقیات السئیات‘ میں سے ہے جب لاؤ لشکر کے ساتھ لڑکی کو اُٹھا لے جانے  کے لیے لڑکی والوں کے گھر پر دھاوا بولا جاتا تھا۔ ڈکیتی اور لوٹ مار نے اب ’جہیز اور تِلک ‘ کی صورت اختیار کر لی ہے۔

(۳)تجارت اور جنگ میں بھی جھوٹ نہ بولنے اور ظلم نہ کرنے کے  انسانی  اصول  اسلام نے سکھائے ورنہ یہاں تو بَنیوں کی اخلاقیات میں جھوٹ اور’ جُوا‘ دونوں ضروری ہیں کہ ان  کے بغیر ان کے یہاں تجارت ہو ہی نہیں سکتی۔ اور’ چانکیہ ‘کے اصول ِسیاست اور اصول ِجنگ دونوں میں’سب کچھ ‘ جائز ہے جس پر آج تک عمل جاری ہے۔ امبانی و اڈانی، مودی اور شاہ انہی قدیم چانکیائی   اصولوں کے جدید مظاہر  ہی تو ہیں !

(۴)قدیم بھارتیہ ’سبھیتا ‘تو پروہتوں، چودھریوں اور حکمرانوں کی ہوس پوری کرنے کے لیے عورت کو ’’دیو داسی ‘‘، ’’نگر ودھو ‘‘اور ’’دروپدی‘‘ بنانا  رہی ہے !

ہمارے ایک دوست،قریب پچیس یا تیس سال قبل، جب اپنی سرکاری ملازمت کے سلسلے میں انٹرویو کے لیے گئے تو اتفاق سے انٹرویو بورڈ کے بیشتر اراکین برہمن تھے۔ بورڈ کے صدر نشین کو ہمارے دوست کی چھوٹی سے ڈاڑھی دیکھ کر مذاق سوجھا۔ انہوں نے فرمایا :

’’یہ بتائیے کہ کہ بیوی اور پتنی میں کیا فرق ہے ؟‘‘

ہمارے دوست نے نہایت نرمی اور انکساری سے جواب دیا :

’’سر ! آپ مجھے آٹھ روپئے کلوبڑے کا گوشت کھانے والا کوئی  عام مسلمان نہ سمجھیں۔ مجھے آپ کے اس طرح کے سوال پر غصہ بالکل نہیں آئے گا لیکن میرا جواب ضرور آپ کی برداشت سے باہر ہوسکتا ہے کیونکہ میں نے سنسکرت کا بیشتر مذہبی ادب پڑھ رکھا ہے۔ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ :’’بیوی کے ایک شوہر ہوتا ہے اور پتنی کے پانچ ‘‘ ظاہر ہے ان کا اشارہ  ’مہا بھارت ‘ کی ’دروپدی‘ کی طرف تھا  جو پانچ عدد پتیوں (شوہروں ) کی پتنی تھی !

کثیر شوئی نظام یعنی ایک سے زیادہ شوہروں یا کئی بھائیوں کی ایک ہی  پتنی ہونے کا مذہبی اور قانونی طور  جائز سمجھا جانے والا  یہ ’مہا بھارتی نظام ‘ آج بھی  اتراکھنڈ کے  پہاڑی علاقوں  اور مغربی یو پی کے بعض دیہی قبائل میں آج بھی  رائج ہے۔

(۵)بھارت کی اصل اخلاقیات کا مطالعہ کرنا ہے تو رشی واتسیا ین کی کتاب ’کام سوتر‘ پڑھیے  اور ’کونارک ‘(اڑیسہ ) اور’ کھجوراہو‘(مدھیہ پردیش )  کے  قدیم مَنادِر  دیکھیے۔ کونارک اور کھجوراہو میں تو جنسی بے راہ روی کو مذہبی تقدس کا درجہ حاصل ہے جہاں ہر طرح کی غیر فطری بد فعلی،ہم جنسی  اور جنسی کجروی  کی تمام اقسام کے نمونے پتھروں کے مجسموں کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

بھارتیہ ادب کا معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ صرف کالی داس کے سنسکرت ڈراموں کا مطالعہ کریں تو عصمت چغتائی کے افسانے ’لحاف‘ منٹو کے’ٹھنڈا گوشت ‘راج کمل چودھری کےہندی ناول ’مری ہوئی مچھلی ‘ ڈی ایچ لارنس کےناول ’لیڈی چیٹرلیز لَوَراور قاضی عبد الستار کے اس سے بھی زیادہ بیہودہ ناول  ’حضرت جان ‘ وغیرہ   سب  کوبھول جائیں گے !

آج سے بیس سال قبل بننے والی، دیپا مہتہ کی بدنام  فلم ’فائر ‘کا مرکزی خیال ’عورتوں کی ہم جنسی عصمت کے افسانے ’لحاف ‘ہی سے ماخوذ تھا جو ۱۹۴۱ میں پہلی بار شایع ہوا تھا اور فحاشی کے لیے عدالت میں اس پر مقدمہ چلا تھا۔ راج کمل چودھری کا ناول ’مری ہوئی مچھلی‘ ۱۹۶۵۔۶۶میں شایع ہوا تھا۔ ہندی میں خواتین کی ہم جنسی پر لکھا گیا یہ پہلا ناول تھا لیکن اس کے خلاف کسی نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ ڈی ایچ لارنس  کے ناول پر عرصہ دراز تک ہندستان میں پابندی رہی اور مہاراشٹر میں تو ایک شخص پر صرف اس لیے مقدمہ چلا  تھا کہ اس کے پاس سے یہ ناول برآمد ہواتھا۔ لیکن حضرت جان کے خلاف کسی نے کہیں ہنگامہ نہیں مچایا جبکہ اردو میں اس سے زیادہ بیہودہ ناول شاید لکھا ہی نہیں گیا۔ یہ ناول تو’ لیڈی چَیٹَرلیز لَوَر ‘سے  کہیں زیادہ فحاشی سے لت پت  تھا۔ جس کے ۹۸ فی صد حصے میں ’وہؔی وہانوی ‘ ٹائپ ’اَن تَشیعَ الفاحشۃ ‘،خالص فحاشی کے فروغ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

(۶)ایک ہزار سال پہلے بھارتی سبھیتا تو ’ستی پرتھا ‘ کی سبھیتا تھی جس میں بیوہ کی دوسری شادی کو کون کہے،پتی مرنے کے بعد  اسے زندہ رہنے  کا بھی حق نہیں تھا اور پتی کی چتا میں زندہ جل جانا ہی اس کا دھرم تھا۔

(۷)پھر چھوا چھوت اور ’وَرن وِیوَ ستھا ‘کی  تہذیب تو بھارتی اسٹائل ’نسل پرستی‘ کی  ’سبھیتا ‘ ہے جس میں ’’اِنّ اکرمکم عند اللہ اتقٰکم ‘‘  کے برخلاف پیدائشی  بلندی و پستی کے غیر انسانی تصور کو، کھجوراہو اور کونارک کی جنسی انارکی کی طرح، مذہبی تقدس کا درجہ حاصل ہے !

قدیم بھارتی تہذیب، فی الواقع یہی ’آریائی برہمنی ‘ تہذیب ہے جس کے چند نمونے اوپر بطور مثال پیش کیے گئے ہیں ورنہ ’’بلند اخلاقی قدروں والی ہندستانی تہذیب‘‘تو اہل وطن کو  اسلام اور مسلمانوں کی  دین  ہے جن کا احسان ماننے، جن کی عزت کرنے اور جن کو سر آنکھوں پر بٹھانے کے بجائے جن سے نفرت اور دشمنی کو سنگھ پریوار اور اس کے محکوم اداروں نے اپنا اوٹھنا بچھونا بنا لیا ہے۔

ہم جنسی کی لعنت کے فروغ کا یہ قانونی اقدام بھی اسی ایک ہزار سال قبل کی بھارتی تہذیب کوزندہ کرنے کا ایک شرمناک منصوبہ ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. انس بدام کہتے ہیں

    بہترین مضمون۔ادب و لٹریچر کے حوالہ سے مودودی صاحب کا ایک جامع اور معنی خیز جملہ یاد آگیا، وہ یہ کہ "لٹریچر پیش قدمی کرتا ہے، اور رائے عامہ اس کے پیچھے پیچھے آتی ہے۔”اب آپ سوچیے۔۔۔ہم جنسیت پر پہلے مغربی ادب اور بعد میں اس کی نقل میں مشرقی ادب میں اتنا لکھا گیا کہ ایسے لوگوں کو ایک "مظلوم ” پیدائشی اور نسلی طور پر غیر معمولی(جینیٹک ایبنارمل )گروہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔اور اب اس کو شخصی آزادی اور انسانی حقوق کے زمرے میں لاکر یہ سارا فراڈ کیا گیا۔

تبصرے بند ہیں۔