آہ میری بہن کی عصمت دری!

سید شہاب الدین

ہمارا ملک ساری  دنیا میں اجتما عی عصمت دری کے لیے بدنام ہے۔ اس کا سبب دو ادارے ہیں۔

ہما رے ملک میں بڑھتی ہوئی بے حیائیاں، ذہنوں کو خراب کرنے والے مناظر، لڑکوں اور لڑکیوں کا آوارہ پن،سوشل میڈیا پر چیٹ اور اِن کے ذریعے ہونے والی دوستیاں  یاریاں اور پھر بڑھتی ہوئی قربتیں ،ہوتی عصمت دریاں اس بات کی دلیل ہیں کہ گھر کا ادارہ جو بچوں کی دینی، اخلاقی اور روحانی تربیت کرنے کے لیے ذمہ دار، اپنے فرائض سے کو تاہی برت رہا ہے۔  اس وجہ سے لڑکے اور لڑکیوں کا اختلاط آئے دن بڑھتاجارہا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ والدین اپنے بچوں سے متعلق جواب دہ ہیں۔  اپنے بچوں پر نظر رکھنا اور ان کی تربیت کرنا ان کا فرض ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کی بچی بغیر محرم کے دور دراز کے علاقوں کا سفر اکیلی نہیں کرتی۔ اور اگر کرے بھی توکسی محرم کے ساتھ سفر کرے گی تاکہ اس کے عصمت کے موتی پر کوئی آنچ نہ آسکے۔

 دوسرا ادارہ وہ ہے جسے ہم قانون کہتے ہیں۔ جس کے لاء ان آرڈر کو قائم رکھنے کی ذمہ داری پولس کے محکمے کی ہے۔ ہمارے ملک عزیز کے ریلوے محکمہ کی پولس آر پی ایف کہلاتی ہے۔ یہ ریلوے  اور مسافروں سے متعلق جملہ مسائل کو دیکھتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ تمام مسا فروں کی حفاظت کے لیے بنا ئی گئی ہے کہ کہیں سفر میں مسافروں کے ساتھ کوئی واردات نہ ہوجائے۔  اس لیے وہ مظلوموں کی، بے کسوں کی، مجبوروں کی، بوڑھوں کی حفاظت کرتی ہیں ۔ اس آر پی ایف پولیس پر حکومت ہند کو ناز بھی ہے کہ وہ جنتا کی حفاظت کا بیڑہ اٹھائی ہوئی ہے۔

لیکن اگر اسی آر پی ایف کا کوئی جوان کسی مظلوم پر ہاتھ صاف کرلے ،بوڑھوں پر ظلم کرے تو یہ کھلی قانونی بغاوت ہوگی  جسے کسی بھی قیمت پر حکومت برداشت نہیں کرے گی۔  جوعہد آر پی ایف کے نوجوان نے لیا ہے یہ اس کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔  قانون کا نگہبان اگر قانون کی خلاف ورزی پر اتر آئے تو یہ دوہرا جرم ہوگا اور قانون کے تئیں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ اگر ایسا چلتا رہا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہر کوئی کھلے سانڈ کی طرح شہروں میں افراتفری مچا ئے گا اور کوئی انہیں روکنے والا نہ ہوگا۔ ہر سمت شہر جنگل راج نافذ ہوجا ئے گا۔

کچھ اسی طرح کے واقعات یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے ریاست اتر پردیش میں بڑھتے جارہے ہیں۔ یوگی جی کی پارٹی اور ان کی سرپرست آر ایس ایس ہمیشہ سے مسلم حکمرانوں  اور  مغلوں سے متعلق زہر افشانی کرتے آئے ہیں۔  ہوسکتا ہے کہ وہ ان کا طرز حکمرانی غلط رہا ہو۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوا کے ان کے دور حکومت میں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئی ہوں ،گائے کی حفاظت کی نام پر لوگوں کو مار دیا گیاہو،چلتی ٹرین میں باپردہ مسلم عورت کی بحالت روزہ عصمت دری قانون کے رکھوالوں نے کی ہو،  ایسا یقیناَ ہر گز نہیں ہوا۔

لیکن ببا نگ دہل کہنا ہوگا کہ یہ تمام واقعات مودی جی اور یوگی جی کی تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں۔ بجنور کی اس معصوم بچی کی عصمت دری آپ ہی کے قانون کے رکھوالے نے کی ہے۔ اسی شخص نے کی ہے جو حکومت ہند کا تصدیق شدہ لیبل اپنے سینے پر لگا کر گھومتا ہے اور آپ کی حکومت کے لوگ فخر سے اسے آر پی ایف کا جوان کہتے ہیں۔  یہ آپ کی سرپرست اور اس کے آلہ کار کے حکومت کی تاریخ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. صباحت خاں کہتے ہیں

    ایک زممہ دار ھندوستانی ہونے کی حیثیت سے ھم نہیں چاہتے کے عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لے. مجرم کو سخت سے سخت موت کی سزا کا ھم مطالبہ کرتے ہیں. یہ مقدمہ فاسٹ ٹریک کورٹ میں چلے اور جلد سے جلد سنوای ہو تا کہ آئندہ کوئی اسطرح کے جرم سے باز رہے.

  2. آصف علی کہتے ہیں

    زنا بالجبر کی پتھالوجیکل محرکات
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    جنسی شہوت یا رغبت ان ہارمونز کی مرہون منت ہوتی ہے جو کہ بلوغت کے بعد دونوں صنفوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کے اخراج کی ذمہ داری پچوٹری گلینڈ ، اووریز ، اور ٹیسٹیز پر ہوتی ہے ، اگرچہ پراسٹیٹ گلینڈ ، رحم ، تھائیرائیڈ اور کچھ دیگر خلیات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے ۔
    جب ان ہارمونر کی پیدائش بوجہ مختلف بیماریوں کے یا غیر معمولی حالتوں کے بڑھ جاتی ہے تو مرر اور عورت میں جنسی شہوت اپنے عروج کو پینچ جاتی ہے ۔
    سیکس ہارمونز کی زیادتی دماغی سیکس سنٹر پر عمل کرتی ہے تو بلاشبہ وہ شخص ہر قسم کی پابندیوں کر نظر انداز کرکے وہ سب کچھ کرگزرتا ہے جس سے اسکی جنون شہوت کو تسکین ملے۔

    عمروقاص

تبصرے بند ہیں۔