اب اختر کس کےبلی چڑھ گئے؟

ابھی چند روز پہلے دادری کے ایک جانباز پولیس افسر محمد اختر کو جس بے دردی سے موت کی نیند سلادیاگیا تھا اور پولیس نے اس واقعہ کو بدمعاشوں کے ساتھ ٹکراؤ کا نتیجہ قراردیاتھا،ہمیں تو اسی وقت یہ شک ہوچلاتھا کہ اختر بھی کرکرے ضیاءالحق  اور تنزیل کی فہرست کاایک اضافہ ہیں،اور ہوناہو انہیں بھی ملک کے ساتھ وفاداری اور اپنے فرض کی ادائیگی کاتاوان اپنی جان دیکر اداکرناپڑا ہو،لیکن پولیس جس وثوق کےساتھ اس حادثہ پرstatement دےرہی تھی،اور زرخرید میڈیا بھی اسے محض تصادم قرار دیکر ٹال رہی تھی اس سےایسا لگ رہاتھاکہ ہوسکتا ہےاختر کے نصیب میں بدمعاشوں اور غنڈوں کے ہاتھ ہی مرنالکھ دیاگیا ہو،لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ آتے ہی شکوک و شبہات  سوالات کاروپ لیکر ایک مرتبہ پھر ہمارے پولیس فورس کے مسلم تعصب اور اسلام منافرت کو ثابت کررہے ہیں،اول وہلہ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اختر کے بہیمانہ قتل کےوقت ان کے ساتھ دیگر سات پولیس کے سپاہی انہیں موقع واردات پر بدمعاشوں کےساتھ تنہا چھوڑ کرفرار ہوگئےتھے،شاید تاریخ کایہ پہلاحادثہ تھا جس میں مڈبھیڑ کے دوران بجائے غنڈوں کے ایک دلیر پولیس آفیسرکو انکاؤنٹر کاشکار ہونا پڑاہو،پولیس نے اس پر طرح طرح کے واقعات گھڑے اورقتل کےواقعہ کو پوری طرح سے مڈبھیڑ اور تصادم قرار دینے کی کوشش کی،لیکن پوسٹ پارٹم رپورٹ میں جب یہ بات سامنے آئی کہ اختر کاقتل سرکاری پسٹل سے کیاگیا ہے،تو ایک مرتبہ پھر پورا ملک لرز کررہ گیا،کیونکہ جس طرح تنزیل کامرڈر ملٹری ریوالور سے ہوا تھا ٹھیک اسی طرح اخترکوکہیں انہیں کے ساتھیوں نے توراستہ سے نہیں ہٹادیا؟؟پولیس کی وردی میں کہیں ٹیریرسٹ تونہیں تھے جو اختر کی جان کے درپہ ہوگئے؟؟
اوراگرقاتل واقعی بدمعاش ہی تھے تو ان کے پاس سروس پسٹل کہاں سے آیا؟پولیس کے مطابق بدمعاش اختر کو جنگل سے ایک ویران کمرے میں گھسیٹ لےکرگئے،اور انہیں کے ریوالور سے انہیں گولیاں ماری،لیکن واقعات پولیس کے اس دعوی کوپوری طرح جھوٹ کاپلندہ  اور فرضی قرار دیتےہیں،
کیونکہ اختر کو لگنے والی گولیاں کافی دور سے ماری گئی ہیں جو کسی دوسرے پسٹل کاہی کارنامہ ہوسکتا ہے،ابھی تک تولیپاپوتی کرتی ہوئی پولیس فورس داروغہ شہید اختر کے مرڈر میں پوری طرح "انوالو”نظر آرہی ہے،کیونکہ اگریہ مان بھی لیاجائے کہ بدمعاش اختر کو گھسیٹ کرلےگئے اور پھر ان ہی کے پسٹل سے ان کو موت گھاٹ اتاردیا،تو سوال یہ پیدا ہوتا ھیکہ پولیس کے بقیہ نوجوان اس وقت کہاں چلےگئےتھے؟؟ جب ان کے سینئر افسر کو اس درندگی کےساتھ ماراجارہا تھا،کیونکہ اطلاعات کے مطابق نا توکسی بدمعاش کوکوئی چوٹ لگی ہےاورناہی پولیس کی جانب سے کوئی گولی چلی ہے،اختر کے قتل کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ اوران لوگوں کو ان سے کیا پرخاش تھی یہ تو اگلے چند سالوں میں تھکی ہوئی جانچ کےرپورٹ کےبعد سامنےآنےکی امید کی جاسکتی ہے،لیکن پھربھی ہندوستانی سسٹم اور خاص کر اکھلیش حکومت سے یہ سوال کرنےکاحق تو شاید ہر ہندوستانی کاہےکہ کیاان بھگوڑے  پولیس کارندوں کو معطل کرکےان کے خلاف اعلی سطحی جانچ کرواکر ان کے جرم کوثابت کیاجائے گا؟اور انہیں ایک جاں بازدلیر، بہادر وفادار اورہمت والے پولیس افسر اختر کےقتل میں برابر لاشریک مان کر سخت سے سخت سزا دلوائی جائےگی؟یا صرف لفظوں کے پہاڑوں اورجھوٹی تسلیوں  سے پسماندگان کادل بہلاکر کوئی نیاشوشہ چھوڑ کر اختر کی شہادت پربھی پردہ ڈال دیاجائےلگا؟کیونکہ ماضی قریب کے واقعات یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں وفادار،اصول پسند  پولیس والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے،اور تحقیق کے مطابق اختر پولیس ڈپارٹمینٹ کےناصرف باہمت افسر تھے بلکہ نہایت اصول پسنداور ماتحتوں کی ڈیوٹی پرسختی سےکاربند رہنے والے انسان تھے،یہی وجہ تھی کہﺍﺧﺘﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻭﺣﯿﺪکےمطابق اختر شروع سے ہی ڈیوٹی کے لئے بہت ہی حساس واقع ہوئےتھے،۱۹۹۸ میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہونے والےاختر اپنافرض بخوبی نبھاتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کررہےتھے،
رفتہ رفتہ سب انسپیکٹرکے عہدہ پر فائز ہوگئے،۱۱،جون دوہزار 2014کو ان کی پوسٹنگ ہوئی،دیکھتے دیکھتے انہوں نے دادری کےآس پاس سےغنڈہ راج اورسنگھ وادکاخاتمہ ٹھان لیا،شاید انہیں اسی کا خمیازہ بھگتناپڑاہو،اب تو انتظار اس کا ہے اگلااختر کون بنتا ہےکیونکہ اب لاء اینڈ آرڈر کے پاسبانوں کی اپنی جانیں اپنے ہمراہیوں سےہی محفوظ نہیں ہے،کب انہیں ان کی وفاداری کاصلہ ان کےساتھ سایہ کی طرح منڈلانے والوں کے ہاتھوں ایک دردناک موت کی صورت مل جائے اس کااندازہ ان کے فرشتوں کو بھی نہیں ہوتا ہے،ایسے لرزہ خیز حالات میں ہم انصاف کےحوالے سے بہت زیادہ پرامید تونہیں ہےلیکن یوپی پولیس کے سربراہ ڈی.جی.پی جاوید احمد جن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ انصاف کا خون ہوتاہوانہیں دیکھ پاتے، انہیں چاہئے کہ وہ اس دردناک واقعہ کو ذاتی اور ترجیحی طور پرہینڈل کریں کیونکہ اخترکے قتل سے ان کاہی ڈپارٹمینٹ بدنام ہوا ہے،تو اس داغ سے وہ بھی محفوظ نہیں ہے،اکھلیش وملائم سے کوئی توقع رکھنایکسر نادانی اور حد سے زیادہ خود اعتمادی ہے،جو شاید اب مناسب نہیں ہے،کیونکہ فسادات فرضی انکاونٹر اور دوسرے دل سوز واقعات کے روپ میں کچھ  داغ مسیحا کالبادہ اوڑھ کران رہزنوں نے گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار اترپردیش  کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو ایسے دیئے ہیں جنہیں بھلاکر پھر ان کی چاپلوسی کرنا ضیاء الحق، تنزیل، اخترنیز دیگر شہداء کی روحوں کو ٹھوس پہونچانے اور ضمیر بیچ کر ان جاں بازوں کی آہوں اورلاشوں پراپنے حرص ومفاد کامحل تعمیرکرنے کےمترادف ہے،اس لئےکہ ابھی اختر کے پسماندگان کو معاوضہ کی چند کوڑیوں اور جھوٹی تسلیوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہے،بلکہ انہیں انصاف کی ضرورت ہے،اختر کے قاتلوں کوکیفر کردار تک پہونچاناہی سبھی باشندگان وطن کامطالبہ ہوناچاہئے،کیونکہ علی گڑھ کے رہنےوالے ﻣﺘﻮﻓﯽ ﺳﺐ ﺍﻧﺴﭙﮑﭩﺮاختر ﮐﮯ ﺍﮨﻞ ﺧﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ، ﺩﻭﺑﯿﭩﮯﺍﻭﺭﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ہیں،جو اب بیوگی اور یتیمی کی زندگی گزار رہی ہیں،انہیں سیکولر پارٹیوں کے نگہبان،اور نام نہاد مسلم پارٹیوں کے لیڈران  تو  دلاسہ تک دینےنہیں پہونچے،چہ جائیکہ انہیں انصاف دلانے کی جد وجہد کرتے،..تو آئیے زرد صحافت کے علمبرداروں اورزعفرانی میڈیا کےاہلکاروں کوچھوڑ کربےباک و بےلاگ انسان دوست میڈیائی نمائندوں اور سیکولر نوازوں  کو ساتھ لےکر قدم بقدم تال ملائیں اور انصاف کے لئے پارلیمینٹ و عدالت عظمی سے لےکرسڑکوں تک اتحاد کامظاہرہ کریں ورنہ آج وہ تو کل ہم بھی نشانہ  ہوسکتے ہیں کیونکہ بھگوادہشت گردوں کے لئے اس ملک میں صرف سیکولر اور جمہوری ہوناکافی ہے،پھر چاہے وہ  مسلمان ہوں یامعتدل مزاج جمہوریت کے عمبردار ہندو ہوں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔