اب دیکھو کیا دکھائے نشیب و فراز دہر

حفیظ نعمانی

اتنے بڑے ملک میں نہ جانے کتنے لوگ اس بات پر حیران ہوں گے کہ دس برس ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیراعظم بن کر ملک پر حکومت کرکے چلے گئے اور ایک بار بھی نہ ان کا مسئلہ سپریم کورٹ میں آیا نہ الیکشن کمیشن سے کوئی غلط کام کرانے کا ان پر الزام لگا۔ یہ تو گول گول اور بند بند الفاظ میں مخالفوں نے کہا کہ حکومت سی بی آئی سے غلط کام لے رہی ہے لیکن یہ الزام نہیں لگا کہ کسی کو جال میں پھانس کر جیل بھیج دیا ہو یا کسی کی بیوی بیٹی پر جھوٹے الزام لگوائے ہوں یا ذلیل کرنے کی نیت سے تلاشی کے چھاپے ڈلوائے ہوں۔ اور دس برس میں حکومت اور ریزرو بینک کے درمیان تناتنی تو کسی نے سنی بھی نہیں۔
اور پانچ سال بھی پورے نہیں ہوئے نریندر بھائی مودی نام کے لیڈر کو وزیراعظم بنے اور لگتا ہے۔ گویا دبستاں کھل گیا۔ ہر وہ محکمہ اور اس کا افسر جس کا تعلق عوام سے اور حکومت سے ہے پوری طاقت سے رسّے کی طرح کھینچا جارہا ہے اور افسوس ہے کہ وزیراعظم کی حمایت کرنے والے کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔

دوسرے حضرات کیا سوچتے ہوں گے یہ تو وہ جانیں لیکن ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر بھائی مودی اپنے اور سردارجی کے درمیان بنیادی فرق یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو وزیراعظم کی کرسی ایسے ہی ملی جیسے جواہر لعل نہرو کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن گورنر جنرل نے یہ کہہ کر دی تھی کہ لیجئے نہرو صاحب اب آپ ملک کے وزیراعظم بن جایئے۔ اور انہوں نے خوش ہوکر کہا تھا کہ اور آپ ہندوستان کے گورنر جنرل بدستور بنے رہئے۔ اور سردار منموہن سنگھ سے سونیا گاندھی نے کہا کہ وزیراعظم آپ بن جائیے اور وہ بن گئے۔ لیکن نریندر مودی نے بابر کی طرح ملک کو لڑکر جیتا تھا وہ اپنے کو وزیر اعظم نہیں بادشاہ سمجھتے ہیں اسی لئے اپنے کو کبھی چوکیدار کبھی سیوادار جیسے القاب سے یاد کراتے تھے۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ بھی کسی کے سامنے جواب دہ ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ جو کرنا چاہیں کریں۔ جیسے انہوں نے اعلان کردیا کہ آج رات 12 بجے کے بعد سے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ صرف بینک میں بدلے جائیں گے۔ اور یہ نہیں سوچا کہ چار گھنٹے اور اگر کوئی قانون شکنی کرے تو رات بھر میں آدھے ملک کی دولت اِدھر سے اُدھر ہوجائے گی اور یہی ہوا کہ جن کے پاس ضرورت سے بہت زیادہ تھا وہ سوٹ کیسوں میں بھرکر سونے چاندی کی دُکانوں پر گئے اور اس طرح سودا ہوا کہ یہ لو چار سوٹ کیس اور الماری کے چارخانوں کا زیور ہمارا ہوگیا دوسرے نے کہا کہ یہ لو 6 سوٹ کیس اور بڑے شو کیس کا سارا زیور میرا، اور اس طرح چار گھنٹے میں ساری دُکانیں خالی ہوگئیں اور روپیہ دوسرے دن بینکوں میں جمع ہوگیا سونے چاندی کا کام کرنے والے تاجروں کے کرنٹ اکاؤنٹ میں روپئے جمع کرنے اور نکالنے کی حد مقرر نہیں ہے انہوں نے ٹکڑوں ٹکڑوں میں بل کاٹ کر سارا روپیہ جمع کردیا۔

وزیراعظم یعنی بادشاہ نے سی بی آئی سے جو کرایا وہ سامنے ہے اور الیکشن کمیشن سے جو کرایا اس کے زخمی زخم چاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے ریزرو بینک کے گورنر سے کہا کہ مابدولت کے خرچ کیلئے روپیہ لاؤ اس نے جواب دیا کہ روپیہ ملک کے عوام کا ہے بادشاہ سلامت نے تلوار نکال لی ہے اور گورنر نے سر جھکانے سے انکار کردیا ہے۔ ہندوستان کا بادشاہ سیر و سیاحت کے لئے پیرس گھومنے گیا وہاں رافیل جہاز پسند آگیا تین درجن وہ خرید لیا۔ یہ دو بادشاہوں کے درمیان سودا تھا اس میں راہل گاندھی کو کیا لینا دینا لیکن انہوں نے ٹانگ اَڑا دی اب ان کی تائید کرنے کیلئے بادشاہ کے باقی سابق ساتھی یشونت سنہا، بہاری بابو، ارون شوری سب آگئے۔ اور سپریم کورٹ میں چار گھنٹہ بحث چلی کہ یہ سودا کرنے کا حق تھا کہ نہیں؟ اور بادشاہ صدمہ سے چپ ہوگئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ میں نے جھوٹ کے بل پر جو بادشاہت حاصل کی تھی وہ جمہوریت کیسے ہوگئی؟

2002ء کا وہ خونی واقعہ جسے بادشاہ اپنا کارنامہ مانتے ہیں اس کی ستائی ہوئی ایک محترم خاتون ذکیہ جعفری کی فریاد بھی سولہ سال کے بعد سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے قبول کرلی گئی۔ مرحوم احسان جعفری جو گلبرگہ سوسائٹی میں رہتے تھے ان کو بڑا سہارا سمجھتے ہوئے درجنوں مسلمان ان کی پناہ میں آگئے انہوں نے بڑے اور چھوٹے تمام افسروں کو مدد کے لئے پکارا مگر کہا جاتا ہیکہ وزیراعلیٰ کا حکم تھا کہ کوئی مسلمان کی فریاد پر دوڑا ہوا نہ جائے اور گلبرگہ سوسائٹی میں جمع جعفری صاحب کے ساتھ 68 مسلمانوں کو شہید کیا اور آگ لگادی۔

گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کے پرملال کے بعد تحقیقات کے لئے ایس آئی ٹی بنائی تھی جس نے 9 گھنٹے نریندر مودی سے سوال جواب کئے اس ایس آئی ٹی کی قیادت وہ سردار جی کررہے تھے جو برسوں سی بی آئی کے سربراہ رہ کر ریٹائر ہوئے تھے حاصل یہ نکلا کہ مودی کو کلین چٹ دے دی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ چند روز کے بعد ہی خبر آئی کہ ایس آئی ٹی کے چیف سردار جی یورپ کے ملکوں میں تفریح کرنے گئے ہیں ہر ملک میں ہوٹل اور تفریح کا سامان ان کی خدمت کیلئے سجا سجایا ملتا ہے۔ سردار جی نے ایمان کی قیمت عیاشی میں وصول کرلی۔ لیکن قدرت کو ذکیہ جعفری کے چہرہ پر بھی روشنی لانا تھی سو وہ اب اس کی سماعت سپریم کورٹ میں کرائیں گی۔ بہرحال بادشاہ کو بادشاہت راس نہیں آرہی دیکھئے وہ اب کیا کرتے ہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔