اب نریندر مودی کو چیلنج کون کرے گا؟

تحریر: این اے کوچر

ترجمہ: مبین احمد اعظمی

سترہویں لوک سبھا میں حکومت کے سامنے سرکاری طور پر اپوزیشن قائد نہیں ہوگا۔ جہاں این ڈی اے نے لوک سبھا کی کل 353 سیٹوں پر قبضہ کیا، وہیں کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے 92 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گیا۔ کانگریس کو کافی کھینچ تان کے بعد محض 52 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔ ایسے میں ملک کی سیاست میں اپوزیشن کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔ اس دفعہ پارلیمنٹ میں حکومت کے سامنے کئی اپوزیشن پارٹیاں ہوں گی لیکن اپوزیشن کی قیادت کون کرے گا؟ اپوزیشن کا قائد کون ہوگا؟یہ بہت بڑا سوال ہے۔

سرکاری طور پر اْس پارٹی کو اپوزیشن کا قائد بنانے کا موقع ملتا ہے جس کے پاس کم از کم 10 فیصد سیٹیں ہوں۔ یعنی 543 سیٹوں والے لوک سبھا میں اپوزیشن کا قائد اس پارٹی کا ہوگا جس کے پاس کم سے کم 55 سیٹیں ہوں۔ مگر کانگریس تو اس آنکڑے کو پانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اس کے پاس صرف 52 ممبر آف پارلیمنٹ ہیں۔ بغیر اپوزیشن کے تو حکومت بے لگام ہوگی۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ایسے میں ہندوستانیجمہوریت کس طرف جائے گی؟

اگر حکومت سے جوابدہی اور اس پر تنقید کرنے کا حق ختم ہوجائے تو حکومت مطلق العنان بن جاتی ہے۔ کسی بھی جمہوریت کی کامیابی کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ اس میں کڑیں تنقیدیں اور جوابدہی کی گنجائش ہمیشہ برقرار رہے۔ پانچ سالہ دور حکومت کے بعد ایک بار پھر نریندر مودی کو ہی اقتدار سنبھالنے کا مینڈیٹ مل چکا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی زبردست شکست کی وجہ سے ایک بات تو طے ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر ان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہونے والی ہے۔ یہ چیز نہ تو نریندر مودی کے لئے اچھی ہے اور نہ ہی جمہوریت کے لئے۔ جمہوریت کے لئے کمزور اپوزیشن یا اپوزیشن قائد کی عدم موجودگی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے وقتوں میں یہ صورتحال مودی کے ڈکٹیٹرشپ رجحان کو طاقت دے گی۔ مودی کے اوور کانفیڈنس کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ اپوزیشن ندارد ہے۔

مودی حکومت کی شبیہ اب ویسی نہیں رہی جیسی کہ 2014ء کے ابتداء میں تھی۔ 2014ء میں وہ ترقی پسند قائد کے طور پر ابھرے تھے، جبکہ اب وہ خود اعتمادی میں چور، مغرور اور جارحہندو قائد کے طور پر دیکھے جارہے ہیں۔ اْس وقت ہندو راشٹریہ، ہندتوا یا رام مندر جیسے سلگتے مسائل کو پیچھے رکھ کر ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ دیا گیا اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کا خواب دکھایا گیا تھا۔ اس وقت ایسا کرنا مودی اور ان کی پارٹی کی مجبوری تھی۔ انہیں پتا تھا کہ ملک کی ترقی، نوجوانوں کو روزگار اور تعلیم وغیرہ کے نام پر وہ جو منصوبے اور پالیسیاں پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں گے، اپوزیشن ان کی مخالفت نہیں کرسکے گا۔ لہٰذا انہوں نے ہتھیلی پر جنت سجا کر خوب سپنے دکھائے۔ عوام تو عوام‘ اپوزیشن نے بھی آنکھیں بند کرکے خواب دیکھنے شروع کردئیے۔ چونکہ اپوزیشن کے پاس کوئی ٹھوس پالیسی یا منصوبہ نہیں تھا، اس لئے کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ پانچ سال تک مودی نے اپوزیشن کو خوب جانچا پرکھا اور اس کی کمزوریوں کو اچھی طرح بھانپ لیا۔ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس سمیت جن دوسری پارٹیوں کو زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے ان کی رہی سہی ہمت اور طاقت بھی جواب دے چکی ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ کے اندر حکومت کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھے اپوزیشن قائدین کا حکومت کی غلط صحیح پالیسیوں اور اعلانات کے خلاف چوں تک کر پانا ممکن نہیں ہوگا۔ اور یہی بات جمہوریت کو دہلا رہی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ گذشتہ پانچ سالوں میں مودی حکومت کے تائیدی‘ نام نہاد قوم پرستی کے نام پر ملک بھر میں دلت اور اقلیت مخالف حرکتوں میں مبتلا رہے۔ موب لنچنگ میں سیکڑوں مسلمان‘ سرعام قتل کئے گئے۔ ملک بھر میں خوف کا ماحول بنا کر لوگوں کے ذہن تبدیل کئے گئے۔ ہندو مسلم رواداری میں غیر یقینی کیفیت پیدا کرکے نفرت کی دیوار کھڑی کی گئی۔ گئو رکھشا کے نام پر اقلیتوں کا قتل بھی ہوا اور ان کے روزگار بھی چھین لئے گئے۔ حکومت کی پالیسیاں مسلسل غریب مخالف اور مزدور مخالف ہی رہیں۔ نوٹ بندی ملکی معیشت کے لئے زہر ثابت ہوئی۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع گھٹتے چلے گئے۔ مزدوروں کی حالت قابل رحم ہوگئی۔ حکومت سرمایہ داروں کو خوش کرنے میں مصروف رہی۔ کالا دھن واپس لانے کا وعدہ کرکے اقتدار حاصل کرنے والی حکومت کی ناک کے نیچے سے لاکھوں کروڑوں روپے لے کر سرمایہ دار ملک سے فرار ہوگئے، لیکن مودی حکومت پر آنچ نہیں آئی، کیونکہ اپوزیشن کمزور تھا۔

مودی حکومت کی ناکامیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو اپنی ناکامیوں کا پورا پورا اندازہ نہیں تھا۔ نریندر مودی، ارون جیٹلی اور امت شاہ ایسے قائد نہیں ہیں جنہیں حقیقت حال کا اندازہ نہ ہو۔ اپنی ناکامیوں کا اندازہ ہونے کے باوجود اگر مودی کی خود اعتمادی کبھی کمزور نہیں پڑی تو اس کی ایک ہی وجہ اپوزیشن کی کمزوری رہی۔ بکھرے ہوئے اپوزیشن کے زیادہ تر قائدین 2019ء میں بی جے پی کو شکست خوردہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن وزیر اعظم کون بنے گا اس سوال پر وہ الگ الگ راگ الاپتے رہے۔

نریندر مودی کے سامنے اپوزیشن اپاہج کھڑا تھا، اس کے پاس مودی کی ٹکر کا کوئی قائد نہیں تھا۔ صدر کانگریس راہول گاندھی‘ وزیر اعظم مودی کے سامنے کمتر نظر آتے تھے۔ بکھرا ہوا اپوزیشن مودی کے سامنے چیلنج نہیں بن پایا اور نہ ہی اپنی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے مودی کے سامنے چیلنج پیش کرسکا۔ اور اپوزیشن کی یہ کمزوری مودی کی طاقت بنی۔ اپوزیشن کی اس کمزوری کو دیکھتے ہوئے مودی حکومت نے اپنے تقریباً سبھی منصوبوں کی تکمیل کا ہدف 2022ء رکھا۔ جبکہ کوئی بھی حکومت جو پانچ سال کے لئے منتخب ہوتی ہے، وہ پانچ سالوں کے دوران ہی اپنے ہدف کی تکمیل کرتی ہے، تاکہ پانچ سال بعد عوام کے سامنے یہ بتانے لائق رہے کہ جو وعدے اس نے کئے تھے انہیں پانچ سال میں پورا بھی کیا، مگر یہ پہلی حکومت ہے جس نے اپنے سارے ہدف 2022ء کے لئے متعین کئے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ بی جے پی اس بات سے بخوبی واقف تھی کہ ایسے کمزور اپوزیشن کے رہتے ہوئے 2019ء میں بھی اسی کی حکومت بنے گی، چاہے وہ عوام کو کتنا بھی پریشان کرے۔

پانچ سال تک مودی کے سامنے چیلنج پیش کرنے میں ناکام اپوزیشن کی حالت تو اس انتخاب کے بعد اتنی پتلی ہوگئی ہے کہ اب عوام سے جڑے مسائل پارلیمنٹ کے اندر پُرزور انداز میں اٹھائے جاسکیں گے، ایسا سوچنا بھی خام خیالی ہوگی۔ سیاست کی بساط پر اب روزی روٹی کے مہرے پٹ چکے ہیں اور دھرم کے مہرے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس بار این ڈی اے سرکار میں مندر اور ہندوتوا کی باتیں آگے بڑھیں گی، اس میں دو رائے نہیں ہے۔ مودی کے ہاتھ اقتدار سونپنے کے بعد عام آدمی کو اب ان کی طرف سے جو بھی خیرات ملے ملے یا نہ ملے، اس پر صبر ہی کرنا ہوگا۔ بھوکے پیٹ بھجن کرنے کی مجبوری بھی سامنے ہوگی، مگراس کی آواز اب اقتدار کے کانوں تک نہیں پہنچے گی، کیونکہ اپوزیشن ندارد ہے۔ اپوزیشن کا کوئی چہرہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی شکست یہ ہے کہ بھلے ہی اس میں تمام پارٹیاں ہوں مگر اپوزیشن کے طور پر کسی ایک پارٹی کی پہچان نہیں ہے۔ آج شبیہ اور شخصیت کی سیاست ہے۔ آپ آنکھ بند کرکے بی جے پی کے بارے میں سوچیں تو اس پارٹی کا جھنڈا تک آپ کے ذہن میں نہیں آئے گا، اگر کچھ دکھائی دے گا تو صرف نریندر مودی کا چہرہ۔ لیکن اگر اپوزیشن کے بارے میں سوچیں تو سب دھندلا نظر آئے گا، کوئی ایک چہرہ نہیں۔ کبھی راہول گاندھی نظر آتے ہیں ، کبھی ممتا بنرجی، کبھی مایاوتی، کبھی کجریوال، کبھی کوئی دوسرا۔ مگر سب ڈرے سہمے، کمزور اور لاچار۔ اپوزیشن کا مطلب ہوتا ہے متبادل۔ مضبوط متبادل۔ اپوزیشن کی تعریف ہی متبادل سے شروع ہوتی ہے۔ جمہوریت کی بقاء  کے لئے ضروری ہے کہ اپوزیشن مضبوط ہو، جس کا ایک مضبوط چہرہ ہو، ایک مضبوط قیادت ہو۔

افسوس کہ پارلیمنٹ میں کوئی مضبوط اپوزیشن ہی نہیں ہے۔ ملکی سیاست کی سب سے بڑی کمزوری اگر کچھ ہے تو یہی ہے۔ جمہوریت کو بچائے رکھنے کے لئے ایک بااثر اپوزیشن اور اس کے ایک بااعتماد قائد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ آج نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ نریندر مودی یقینا اندرا گاندھی کے بعد ملک کے سب سے طاقتور وزیر اعظم بن کر ابھرے ہیں۔ اپنی پارٹی اور حکومت پر کنٹرول کے معاملے میں صرف اندرا گاندھی اور جواہر لال نہرو سے ہی ان کی برابری ہوسکتی ہے، لیکن جہاں نہرو اور اندراگاندھی کو بڑے اپوزیشن قائدین کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جوابدہ بننا پڑا تھا، وہیں نریندر مودی کے سامنے فی الحال کوئی ایسا قائد نہیں ہے۔

جواہر لال نہرو کو تو 1947ء اور 1950ء کے دوران اپنی پارٹی اور حکومت میں ایک متوازی طاقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ولبھ بھائی پٹیل کے سامنے کانگریس صدر یا صدر جمہوریہ کے انتخاب جیسے اہم معاملے پر نہرو کو جھکنا پڑا تھا۔ جب سردار پٹیل کی دسمبر 1950ء میں موت ہوگئی تو نہرو کے لئے پارٹی اور سرکار میں کوئی چیلنج نہیں رہا۔ لیکن پارلیمنٹ میں ان کی پالیسیوں پر پْرزور مخالفت کرنے والے کئی قائدین تھے۔ دایاں بازو شیام پرساد مکھرجی سے لے کر بایاں بازو ہیرن مکھرجی اور اے کے گوپال تک کئی لوگ تھے۔ ان کے سب سے اہم اور پرزور مخالف سابق کانگریسی قائدین بھی تھے۔ ان میں جے بی کرپلانی، سماجوادی رام منوہر لوہیا اور آزاد پارٹی کے قائد سی راج گوپال چاری شامل تھے۔ نہرو انہیں بہت سنجیدگی سے لیتے تھے، کیونکہ ان کے نیشنلسٹ رجحان نہرو جتنے ہی بااثر تھے۔ جے بی کرپلانی گاندھی جی کے ساتھ چمپارن میں ان کے آندولن کے ساتھی تھے۔ راج گوپال چاری کو گاندھی جی کا کمانڈر کہا جاتا تھا اور گاندھی جی انہیں اپنی شناخت کا رکھوالا بتاتے تھے۔ لوہیا ’’بھارت چھوڑو آندولن‘‘ کے بڑے قائد تھے۔ یہ تینوں بہت شفاف اور ایماندار قائد تھے۔ یہ وزیر اعظم جواہر لال نہرو پر کڑی تنقید کرتے تھے اس سے وزیر اعظم کے عہدے کے گھمنڈ پر لگام لگتی تھی اور جمہوریت کو تقویت ملتی تھی۔

اندراگاندھی بھی ایک طاقتور وزیر اعظم تھیں ، لیکن پھر بھی ان کا دور چیلنجز سے بھرا ہوا تھا۔ جن سنگھ کے اٹل بہاری واجپائی اور سی پی آئی (ایم) کے رام مورتی اور جیوتی باسو پارلیمنٹ میں اتنے ہی بااثر شخصیت تھے جتنے شیام پرساد مکھرجی یا گوپالن تھے۔ پورے ملک بھر میں مرارجی دیسائی اور کے کامراج اپنی ایمانداری، قابلیت اور کانگریس کے پرانے اصولوں کے تئیں وفادار مانے جاتے تھے۔ ان سب کے علاوہ جئے پرکاش نارائن تھے، جن سے اندرا گاندھی کی روح کانپتی تھی۔ وہ چاہتے تو نہرو کے بعد وزیر اعظم بن سکتے تھے، لیکن انہوں نے کشمیر اور ناگالینڈ کے سرحدی علاقوں اور وسط بھارت کے متاثرہ علاقوں میں بے لوث خدمات انجام دینا پسند کیا۔ جئے پرکاش نارائن نے ہی اندرا گاندھی کے خلاف سن 1974-75ء میں قومی تحریک کی قیادت کی تھی۔ اس سے تلملا کر اندرا گاندھی نے انہیں جیل میں ڈال دیا تھا اور کئی دوسرے تنقید کرنے والوں کو بھی جیل کی ہوا کھلائی تھی۔ مگر اس کی وجہ سے اندرا گاندھی کی شخصیت بے حد مجروح ہوگئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ سن 1977ء کے انتخاب میں کانگریس بری طرح شکست کھا گئی۔

نریندر مودی خود کو بڑا سمجھنے کے معاملے میں جواہر لال نہرو کی طرح ہیں اور جمہوری اداروں کی خودمختاری نظر انداز کرنے کا رویہ بالکل اندراگاندھی جیسا ہے۔ جمہوری طور پر منتخب کئے گئے قائد میں ایسے رجحانات کا پایا جانا خطرناک ہے۔یہ ان کے لئے ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار کرتا ہے، جمہوریت کے لئے خطرے پیدا کرتا ہے۔ اسے روکنے کے لئے بااثر اور مضبوط اپوزیشن چاہیے۔ نہرو کو کرپلانی اور راج گوپال چاری نے، تو اندرا گاندھی کو جئے پرکاش نارائن نے چیلنج کیا، لیکن آج نریندر مودی کو بھرپور چیلنج دینے کی طاقت رکھنے والا پارلیمنٹ کے اندر کون ہے؟

٭٭٭

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔