اب گیند پاکستان کے پالے میں ہے

حفیظ نعمانی

پاکستان کے ساتھ ہندوستان کا رویہ عوام کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔تقسیم کے بعد اور پاکستان بن جانے کے بعد حالات پر صرف حکومتوں کا کنٹرول ہوگیا تھا ۔ دونوں ملکوںمیں ایک دوسرے کے لاکھوں عزیز اور رشتہ دار ہیں ۔ کبھی حالات نرم ہو جاتے ہیں تو دھڑا دھڑ ویزے دینے شروع کردیتے ہیں ۔اور ذرا سی بات پر اگر حالات بگڑ گئے تو جو جہاں ہے وہیں مجبور ہو کر رہ جاتا ہے ۔ 1965تک کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا تھا ۔ہندوستان کے ہر گھر یا ہر محلہ میں کوئی نہ کوئی رشتہ دار پاکستان سے آیا ہواتھا ۔ ہم اگست 65 ؁ءمیں جیل میں تھے ۔وہیں جنگ کی خبر ملی۔ اور جیل میں دیکھا کہ وہ جو ایک بیرک نمبر7 ان لوگوں ۭکے لئے ہے جو مخالف پارٹی کی جیل بھرو تحریک چلا کر تفریح کرنے جیل آیا کرتے ہیں ۔ اس بیرک میں سو سے زیادہ پاکستانی آگئے ہیں ۔
جیل کی بیرک کی حیثیت تھانہ کی ہوتی ہے ہر بیرک کا تھانیدار الگ ہوتا ہے ۔ جمعہ کے دن ہم نے حوالاتی چار بیرکوں کے مسلمانوں کو جو نماز پڑھنا چاہے اپنی بیرک میں بلانے کی اجازت لے لی تھی۔ یہ پاکستانی تھے جیلر صاحب پانڈے جی ڈر رہے تھے ۔ ہم نے سپرنٹنڈنٹ بھٹنا گر صاحب سے ایک گھنٹہ کی اجازت لے لی۔ اور سب ساتھ نماز پڑھنے لگے ۔ جنگ کے خاتمہ تک وہ جس طرح روتے تھے اور قسم کھاتے تھے کہ اب ہندوستان کا نام نہیں لیں گے ۔لیکن جب روس نے صلح کرادی تو چند دن کے بعد سب کو رہا کر دیا کہ 24گھنٹے کے اندر شہر چھوڑ دیں ۔
تقسیم کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے دونوں ملکوں کے کرکٹ میچ بار بار ہوئے ہیں ۔غزل گانے والے بھی ہر سال بلائے جاتے رہے ہیں ۔ اور فلموں میں بھی کام کرنے والے یا کسی سیرئیل میں کام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں آتی رہی ہیں ۔ اس کے بعد ہمارے بد نصیب کانوں کو یہ بھی سننا پڑا ہے کہ پاکستان کی لڑکیا ں ننگے سین دینے میںبہت تعاون کرتی ہیں ۔
لیکن شیو سینا اور آر ایس ایس نے کبھی اسے پسند نہیں کیا کہ پاکستان کے اداکارہندوستان آئیں اور کروڑو ںروپے کما کر لیجائیں ۔یہی روپیہ ہندوستانی اداکار کو کیوں نہ ملے ۔یہ طبقہ وہ ہے جسے یہ بھی برداشت نہیں کہ شاہ رخ خاں ، عامر خاں اور سلماں خاںپوری فلم انڈسٹری پر چھائے ہوئے ہیں ۔ انکے کلیجے پر سانپ لوٹ جاتا ہے جب وہ سنتے ہیں کہ ایک فلم سو کروڑ ہفتہ کمارہی دوسری دو کروڑ فی ہفتہ اور تیسری تین کروڑ فی ہفتہ ۔ مگر سب مجبور ہیں اس لئے کہ وہ اپنی محنت سے کرتے ہیں اور ہندو ڈائرکٹر اور ادا کار یا ادا کارائیں انکے ساتھ ہوتے ہیں ۔
پاکستانی فلم ادا کاروں کو یہ سوچنا چاہئے کہ یہ بات ہندوئوں نے نہیں کہی تھی کہ تمہارے ساتھ رہ کر ہماری نسل برباد ہو جائے گی ۔ یہ پاکستان نے کہا تھا اور اس کا ہی نتیجہ تھا کہ ابتدا میں یو سف خاں کو دلیپ کمار نام رکھنا پڑا نورالدین کا نام جانی واکر رکھا گیا
۔ مدھو بالا اور مینا کماری دونوں مسلمان ماں باپ کی بیٹی تھیں ۔ابتدا میں تو حالت یہ تھی کہ اگر کام کرنے والے مسلمان ہوں گے تو ہندو دیکھے گا کیسے ؟ لیکن حالات اب وہاں آگئے کہ برسوں سے پاکستانی لڑکے لڑکیاں ہندوستان میں پڑے ہیں اور فلموں میں کام کر رہے ہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ پاکستان کے بے غیرت ماں باپ کو زیادہ ننگی ہونے کی خبروں سے خوشی ہوتی ہے کہ ہرایا تو، چاہے ننگا ہو کر ہی ہرایا۔ یا وہ بھی ہماری طرح شرمندہ ہوتے ہیں کہ جب انہیں موقع مل گیا تھا تو دین کے سانچے میں کیوں نہ ڈھال لیا۔؟
گذرے ہوئے ایک مہینے سے تعلقات جو ہیں اس کے بعد مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ جان بچائو اور واپس جائو ۔ روپیہ قسمت میں ہوگا توہر جگہ مل سکتا ہے ۔لیکن اب جبکہ نواز شریف کی اس آواز کو کہ پاکستان ہندوستان سے بات کرنے کے لئے تیار ہے کوئی ہندوستانی سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہے ۔ اور اب پوری دنیا سے وہ ایک ہی مطالبہ کر رہا ہے کہ پاکستان میں جب تک حافظ سعید اظہر مسعود اور صلاح الدین موجود ہیں اور انہیں بدلنے اور ہر معاملے میں دخل دینے کی آزادی ہے ۔ اسوقت تک کسی طرح کی کوئی بات نہیں ہوگی ۔ اور جب تک پاکستان کشمیرکو شہ رگ کہنا بند نہیں کر یگا اس وقت تک بھی کوئی بات نہیں ہوگی۔اور جو لڑکے اور جو لڑکیا ں بالی ووڈ میں آگئے ہیں وہ خیریت منائیں اور واپس چلے جائیں ۔یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ اب حکومت آر ایس ایس کی ہے ۔ جسکے لئے پاکستان کا وجود ہی ناقابل برداشت ہے ۔ وہ جب ہندوستان کے مسلمانوں کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہیں تو نیم چڑھے کریلے کو کیا برداشت کریں گے۔؟
ابھی دو روز پہلے نواز شریف نے کہا کہ ہم بات کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بات سب جانتے ہیں وزیر خارجہ کی سطح کی گفتگو میں صرف تین دن باقی تھے کہ اظہر مسعود نے پٹھان کوٹ میں وہ کرادیا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ اور دونوں کے تعلقات پوری طرح سنبھلنے والے تھے کہ اڑی کے کیمپ میں 20 سوتے ہوئے فوجیوں کو 4دہشت گردوں نے گولیوں سے بھو ن دیا ۔یہ بات تو ہندوستان کے بجائے پاکستان کے عالموں ،ادیبوں، شاعروں ،دانش وروں اور سیاسی لیڈروں اور فلموں میں کام کرنے والے اور دوسرے فنکاروں جن میں پہلوان بھی ہیں اور غزل کے گانے والے بھی کہ وہ اپنے وزیر اعظم سے کہیں کہ حکومت یا تو آپ کر لیجئے یا حافظ سعید اور اظہر مسعود کو دیدیجئے، تاکہ روز روز کا یہ قصہ ہی ختم ہو جائے ۔ یا پاکستان آدھا چوتھائی رہ جائے یا ہندوستان کے دو چار شہر تاریخ کا باب بن جائیں ۔ لیکن جب تک یہ پوری طاقت سے بر سر کار ہیں یہ مذاکرات ہونے ہی نہیں دیں گے اور تلخی بڑھتی ہی رہے گی ۔
ہندوستان نے سارک کو ایسے وقت میں ختم کردیا جب وہ پاکستان میں ہونے والی تھی مودی جی تو گوا میں چین اور روس کے صدر سے بہت آگے کی بات کہلوانا چاہ رہے تھے لیکن چین کی اپنی ضرورت کا م آگئی۔لیکن دنیا بہت بڑی ہے ۔اور نواز
شریف حافظ سعید اور اظہر مسعود کے دبائو میں جو کچھ برداشت کر رہے ہیں وہ دنیا میں اور زیادہ بے حقیقت کر دیگا ان کی سرگرمیاں ہندوستان کے لئے کم پاکستان کے لئے زیادہ نقصان دہ ہیں ۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔