اب ہمارے خون سے نہ ہو سودا گری!

ابراہیم جمال بٹ

’’جو قوم قربانیوں پر قربانیاں دینے سے نہ تھکتی ہو، ہمیشہ اپنے رہنمائوں کی رہنمائی پے یقین رکھتی ہو، اُن کی ہر آواز پر لبیک کہتی ہو، اُس قوم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کوئی نہیں روک سکتا، ہاں اگر اس قوم کو کوئی ’’کامیابی‘‘ سے ’’ناکامی‘‘ کی طرف موڑ سکتا ہے تو وہ انہی کا وہ لیڈر اور راہ نما ہو گا جس کے ایک ایک اشارے پر وہ جان دیتے ہیں ۔‘‘ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں قوموں کی کامیابی وناکامی کا دارومدار ہے۔ قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کا اگر ایک سرسری مطالعہ کیا جائے تو یہی بات مترشح ہوتی ہے کہ وقت کے دینی ومذہبی اور سیاسی راہنمائوں نے وقت وقت پر بے شمار ایسے کارنامے انجام دئیے ہیں جو آج بھی تاریخ کے سنہرے اوراق پر لکھے ہوئے ملتے ہیں ۔ جن کارناموں پر آج کا انسان اس قدر فخر محسوس کرتا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑ دیتا ہے۔ لیکن اسی دوران ایسے بھی اوراقِ تاریخ بھرے پڑے ہیں جن پر بات کرنا تو دور کی بات ان کا خیال بھی کرنا انسان کو گوارا نہیں ہوتا۔ انسان اپنے ہی چند مفاد پرست اور ’’دو نائو‘‘ پر چلنے والے لیڈروں کے کارنامے جاننے کے بعد شرم انگیز ذلت محسوس کرتے ہیں ۔ گویا یہ ایک ایسی مار ہے جس سے انسان کے جسم زخمی تو نہیں ہوتے ہیں البتہ انسان کا وہ حصہ جسے ہم ظاہر سے الگ کر کے ’’باطن‘‘ کا نام دیتے ہیں ، اس قدر زخموں سے چور چور ہوتا ہے کہ جیتے جی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری کائنات کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔

دراصل اقوام وملل کے یہ دونوں کردار تاریخ میں بار بار دہرائے جا چکے ہیں ۔ حق کے ساتھ ناحق بھی پایا جاتا ہے، امن کے خواہاں کے ساتھ ساتھ بدامنی پھیلانے والوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی، حلال وحرام میں تمیز کر کے صحیح کی ترجمانی اور غلط سے اجتناب کا پرچار کرنے والوں کی بھی اس دنیا میں ایک قطار پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی صحیح کا لبادہ اوڑھ کر، اپنی زبان کی چاپلوسی کا استعمال کر کے غلط کی ترجمانی کرنے والوں کا بھی کوئی شمار نہیں پایا جاتا۔ یہ وہ اوراقِ تاریخ ہیں جن پر کسی مخصوص وقت تک بے شمار پردوں کی تہہ لگی رہی لیکن وقت گزرتا گیا اور اسی تہہ کے نیچے پھیلی ہوئی برائی کے بے نقاب ہونے میں دیر نہیں لگی۔ بلکہ تاریخ میں بیشتر ایسے اوراق بھرے پڑے ہیں جنہیں ایک انسان اور قوم نے دیکھا کہ کس طرح کند ذہن رکھنے والے لوگوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے منہ پر سیاہی مل دی۔ لیکن ایسے بے شمار ’’کارنامے‘‘ بھی دیکھتے کو ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر موجودہ دور کا انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے، کیوں کہ ایک ایسے طبقے کی طرف سے انہیں دھوکا ملتا ہے جنہیں دھوکہ باز نہیں بلکہ ’’راہنمائی‘‘ کا منصب اس قوم کے ذی حس لوگوں نے دیا تھا۔یہ وہ مذہبی وسیاسی لیڈران کا طبقہ ہے جو وقت وقت پر اپنی نظریں پھیر کر، حیلہ اور بہانے تراش تراش کر، اپنے ہی قوم کے لوگوں کی آنکھوں میں ایک ایسی مسحور کن چیز ڈال دیتے ہیں کہ ’’دھوکہ‘‘ بھی ’’اچھی چیز معلوم ہوتی ہے، اور پھر جب اسی قوم کا نصیب کامرانی کے بجائے ناکامی قرار پاتا ہے تو عوام الناس دیکھتے ہی رہ جاتی ہے۔ ایسی ہی حالت کے بارے میں برصغیر کے مشہور عالم دین سید مودودیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’معمول کے حالات میں جب کہ زندگی کا دریا سکون کے ساتھ بہہ رہا ہو، انسان ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتا ہے، کیوں کہ اوپر کی صاف شفاف سطح ایک پردہ بن جاتی ہے جس کے نیچے تہ میں بیٹھی ہوئی گندگیاں اور غلاظتیں چھپی رہتی ہیں اور پردے کی اوپری صفائی آدمی کو اس بات کا تجسس کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہونے دیتی ہے کہ تہ میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اور کیوں چھپا ہوا ہے لیکن جب اس دریا میں طوفان برپا ہوتا ہے اور نیچے کی چھپی ہوئی ساری گندگیاں اور غلاظتیں اُبھر کر برسرِ عام سطحِ دریا پر بہنے لگتی ہیں اس وقت اندھوں کے سوا ہر وہ شخص جس کے دیددوں میں کچھ بھی بینائی کانور باقی ہے، ہر اشتباہ کے بغیر صاف صاف دیکھ لیتا ہے کہ زندگی کا دریا یہ کچھ اپنے اندر لیے ہوئے چل رہا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عام انسانوں میں اس ضرورت کا احساس پیدا ہو سکتا ہے کہ اس منبع کا سراغ لگائیں جہاں سے دریائے زندگی میں یہ گندگیاں آرہی ہیں اور اس تدابیر کی جستجو کریں جس سے اس دریا کو پاک کیا اور رکھا جا سکے۔ فی الواقع اگر ایسے وقت میں بھی لوگوں کے اندر اس ضرورت کا احساس بیدار نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ نوعِ انسانی اپنی غفلت کے نشے میں مدہوش ہو کر سودوزیاں سے بالکل ہی بے فکر ہو چکی ہے۔ ‘‘

قوموں کے سیاسی ومذہبی راہنمائوں اور لیڈروں کا قدم اگر صحیح نہج پر گامزن ہے تو قوم کا فرض بنتا ہے کہ وہ ظاہر کو دیکھ کر ہی اس کے پیچھے چلے لیکن ’’ظاہریت‘‘ پر ہی انحصار کر کے پوری طرح آنکھوں پر پٹی لگائے رکھنا عقل مندی نہیں بلکہ ہمیشہ راہنمائوں اور لیڈروں پر باریک بینی سے نظر رکھنا بھی ضروری ہے، کیوں کہ بہت سارے ایسے مراہل آتے ہیں کہ جب ایک عام انسان کے بھٹکنے کی نوبت آجاتی ہے کجا کہ راہنمائوں اور لیڈروں کی، وہ ہمیشہ باطل پرستوں کی سوچ میں رہتے ہیں ، انہیں ہمیشہ اس خیال میں رہنا پڑتا ہے کہ کس طرح ان راہنمائوں اور لیڈروں کو اپنے چنگل میں لایا جا سکے تاکہ ہمیں حقیر مفادات حاصل ہو جائیں ۔ اس صورت حال میں اگر ایک عام انسان بھی اپنی آنکھیں بند کر ’’ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘ جیسے نعرے لگا کر ان راہنمائوں اور لیڈروں کی ہاں میں ہاں ملائے پھرتے رہیں تو اس قوم کا ستیاناس ہونا طے شدہ بات ہے۔ یہ قوم تب تک اسی تباہی اور مشکلات کا شکار ہوتی رہے گی جب تک اس سوچ کا ازالہ نہ ہو جائے۔

گویا انسان کو چند چیزوں کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے ایک یہ کہ صحیح راہنمائوں اور لیڈروں کی ہاں میں ہاں اور ان کی اتباع، غلط اور مفاد پرست لوگ جو واضح طور سے دشمنی کی راہ پر ہوں کا کھل کر اعلان اور ان کے متعلق سیدھے سادھے عوام کو باخبر کرنا، ان لیڈروں اور راہنمائوں پر کڑی نگاہ رکھنی جو اگرچہ صحیح راہ پر گامزن ہوں لیکن جن پر صد فیصد بھروسا کرنا مشکل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات قابل غور اور قابل عمل ہے کہ ان لیڈروں اور راہنمائوں پر بھی ایک عام انسان خاص کر ذی حس لوگوں کی نظریں رہنی چاہئیں جو قوموں کے ’’امام‘‘ یا ’’من پسند لیڈرو راہنما‘‘ کہلاتے ہوں ۔ کیوں کہ دشمن کی نظریں ان پر زیادہ رہتی ہیں ۔ ان کے پاس اپنے کارندے ڈال کر ان کو پھسلانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔ دشمن کی ایک کوشش ناکام ہوتی ہے تو یہی مفاد پرست اور دشمن لوگ ہزاروں حربے استعمال کر کے اس گروہ کو مزید مشکلات کا شکار کر کے پھسلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے تاآنکہ کسی بھی طرح یہ شکار ہو جائیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ جس پر ان دشمنوں کی نظریں ہوں اسی کا شکار کیا جائے، البتہ اس کے کارندوں کو پھسلا کر کسی حد تک شکار کیا جا سکتا ہے۔

یہ چند گزارشات ہیں جن کو تحریر میں لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگ ہر وقت باخبر رہیں ، انہیں آج تک بے شماردھوکہ بازو کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن کی وجہ سے آج ہم اس دردناک شکنجہ میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ کبھی ’’سبز رومال ، سورہ یاسین اور پاکستانی نمک کی ایک چھوٹی سی ٹکیا ‘‘ دکھا کر قوم کو دھوکہ دیا گیا، تو کبھی مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر اس طرح دھوکہ دیا گیا کہ جیسے کوئی عملی تبدیلی ہوئی ہی نہیں ۔ حالیہ 28؍ برسوں میں بھی ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے جنہیں یاد کر کے قوم کو خون کے آنسو رونا پڑرہا ہے۔ کئی ایسے لیڈران آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن کے پیچھے کبھی ہم دیوانہ وار چلا کرتے تھے لیکن وقت نے فیصلہ کر دیا اور وہ اپنے ہی نہیں بلکہ اپنوں کے بھی دشمن نکل کر ’’نامنہاد قومی دھارے‘‘ میں آکر لوگوں کو سمجھانے لگے، اب وہی چہرے جموں وکشمیر کی مخلوط سرکار کے حصے بن چکے ہیں ۔ جو وہی پرانی تاریخ کا اعادہ کر کے، قرآن پر ہاتھ رکھ رکھ کر قسمیں کھاتے رہے ،لیکن آخر کار قرآن پر ہاتھ رکھا ہوا قسم بھی بھول گئے اور لوگوں کی قربانیوں کا بھی سودا کر دیا۔ آج بھی ایسے بے شمار بہانے تراشے جا سکتے ہیں  یا تراشے جا رہے ہیں جن سے ایک بار پھر قوم کشمیر کو دھوکہ مل سکتا ہے ۔

کہیں سے اندرونی ملاقاتوں (ٹریک ٹو ڈپلومیسی)کی خبریں سنائی دے رہی ہیں ، تو کہیں سے ’’شارٹ کٹ‘‘ کے راستوں پر چلنے کا بہانہ تراشا جا رہا ہے اور کہیں سے اپنوں کے بھیس میں مفاد پرست لوگ، پُر خلوص عمل رکھنے والے لیڈروں اور مذہبی راہنمائوں کا سودا کرتے دیکھے جا رہے ہیں ۔ اس صورت حال کا اندازہ کرنا اگرچہ مشکل ہے کہ اپنے ہی گھرمیں کتنے ایسے افراد ہیں جن کے بارے میں شک وشبہات ہی نہیں بلکہ کسی حد تک وضاحت بھی ہو چکی ہے۔ لیکن سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات کافی ہے کہ کوئی ’’میری برسہا برس کی زندگی پر داغ لگا کر اپنا الو سیدھا کرنے لگ جائے تو ان جیسے لوگوں کا نام ’’اپنوں ‘‘ یا ’’تحریک پسند‘‘ کہنے کے بجائے کسی ہمدردی اور مصلحت کے بغیر کھل کر اعلان کرنا چاہیے کہ ہمیں ان سے کوئی واسطہ نہیں ۔

اگر لفظ ’’اپنائیت‘‘ قوم کے مفاد پر غالب آجائے تو داغ نہ صرف شخصِ مخصوص کو نصیب ہو گا بلکہ اس طبقہ کو بھی بہت حد تک اس داغ کا شکار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس صورت حال کا سامنا مجموعی طور پر اگرچہ قوم ِ کشمیر کو نہیں ہے لیکن وقت وقت پر چند مفاد پرست لوگ ایسی حرکتیں کرتے آئے ہیں جن سے سیدھے سادھے اور پُرخلوص لیڈران اور راہنمائوں پر بھی داغ لگانے کی کوششیں کی گئیں ۔ بہر حال اس سب پر ایک ذی حس قوم کی نگاہیں رہنی چاہیں کیوں کہ آج تک قوم نے مجموعی طور پر ایسی قربانیاں دی ہیں جن پر آج کی دنیا میں سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیاسی ومذہبی راہنمائوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ’’اپنوں ‘‘ کو ہی رکھیں ، جو لوگ اپنوں کا لباس اتار چکے ہوں ان کو ذلت سے بچانے کے بجائے انہیں ’’اپنوں ‘‘ کی لسٹ سے ہی باہر نکال دینا بہتر ہے تاکہ قوم مجموعی طور پر کسی مفاد پرستی کا شکار نہ ہو جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔