اتر پردیش کا الیکشن 2019ء کے الیکشن پر اثرانداز ہوگا

ملک بھر کی نظر اس کے نتیجے پر ابھی سے لگی ہوئی ہے

عبدالعزیز

اتر پردیش ہندستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے، جہاں سے 80ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں۔ اور 18 فیصد ممبران راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوکر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے الیکشن پر سارے ملک کی نظر ہوتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ لکھنؤ ہوکر جاتا ہے جو بالکل صحیح ہے کیونکہ یہاں جس کی جیت ہوتی ہے اسے دہلی کی کرسی آسانی سے مل جاتی ہے۔ 14وزیر اعظموں میں سے 8وزیر اعظم اتر پردیش نے دیئے ہیں۔ نہرو-گاندھی کا خاندان اتر پردیش کے الہ آباد سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں دلتوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ مسلمان بھی 20 فیصد ہیں جو انتخاب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتر پردیش کی اہمیت اور اثر کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اسے ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ ملک کی سیاست میں زبردست کردار ادا کرتا ہے۔ تبدیلی اور انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ اس ریاست میں کانگریس اور بی جے پی کئی سال تک اپنا اثر و رسوخ ڈالنے میں ناکام رہیں جس کی وجہ سے مرکز میں مخلوط حکومت کا دور شروع ہوا لیکن 2014ء میں بی جے پی نے اپنے حلیفوں کے ساتھ زبردست اثر ڈالا۔ 80میں سے 73ممبران لوک سبھا کے اتر پردیش سے منتخب ہوئے۔
منڈل مہم کے بعد سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے اس ریاست میں اپنے قدم جمانے میں کامیابی حاصل کی۔ سماج وادی پارٹی پسماندہ طبقات او بی سی (OBC) کی نمائندگی کرتی رہی جبکہ بہوجن سماج پارٹی دلتوں کی آواز بن گئی؛ مگر دونوں پارٹیاں کئی بار اقتدار میں آنے کے بعد یہاں کی سماجی اور اقتصادی حالت کو بدلنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ اتر پردیش میں مظفر نگر کے فسادات کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہندو ووٹوں کو بٹورنے یا اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئی اور ایک نعرہ بھی ترقی اور اچھے طرز کی حکمرانی کا تھا، اس سے بھی کچھ لوگ متاثر ہوئے۔ خاص طور پر نوجوانوں پر اس نعرہ کا بہت کچھ اثر پڑا جس کی وجہ سے بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔ مسٹر نریندر مودی کا نعرہ بے اثر ہوگیا ہے۔ فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں بھی انتہائی جدوجہد کے باوجود بی جے پی فی الحال ناکام و نامراد ہے۔
اس وقت عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تین طرفہ مقابلہ ہوگا مگر راہل گاندھی کی جدوجہد اور کوششوں کو بھی جولوگ اہمیت دیتے ہیں اور اس کا اثر مانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ چہار طرفہ مقابلہ کا بھی امکان ہے۔ اگر چہار طرفہ مقابلہ ہوا تو پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ پرستی کی سیاست بے اثر ہوجائے گی اور اسے بہار جیسی کراری شکست کا سامنا ہوسکتا ہے۔ پہلے تو ریاست کا حال یہ تھا کہ کچھ دنوں تک ملائم اور مایاوتی کو کم و بیش برابر برابر سیٹیں ملتی تھیں جس سے مخلوط حکومت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔ مایا وتی نے بی جے پی کی مدد سے بھی مخلوط حکومت کی تشکیل کی ہے۔ ملائم سنگھ نے بھی دیگر پارٹیوں کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ دور لیکن بہت جلد ختم ہوا، پھر کبھی مایاوتی اور کبھی ملائم بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔اس بار منظر نامہ بالکل مختلف ہے۔ ملائم سنگھ یا ان کے لڑکے اکھلیش یادو کی حکومت انتہائی بدنام ہوچکی ہے۔ امن و امان کی حالت انتہائی خراب ہے۔ قانون کی حکمرانی نام کی چیز نہیں۔ 225 سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں۔ مظفر نگر کے مسلمانوں کے تیس بتیس گاؤں فسادات کی وجہ سے بے نام و نشان ہوگئے۔ آج تک 75 ہزار فساد زدگان مارے مارے پھر رہے ہیں۔ جن کو کہیں جائے پناہ ٹھیک سے میسر نہیں ہے۔ دو ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود حکومت ظالموں اور فسادیوں کو بھی سزا دینے میں ناکام ثابت ہوئی اور فساد زدگان کو بھی پناہ یا گھر دینے یا بسانے میں بھی لاپرواہی سے کام لیتی رہی۔ ایس پی سمجھ رہی ہے کہ مسلمان بی جے پی کے خوف کی وجہ سے جائیں گے کہاں، وہ مجبوراً سماج وادی پارٹی کی چھتر چھایا میں پناہ لیں گے مگر مسلمانوں میں ملائم سنگھ کے خلاف زبردست غم و غصہ ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ الیکشن کے موقع پر اس کا کاکتنا اثر ہوگا کیونکہ بہت سے ظالم ایسے میں جو مظلوموں کی آہوں اور انسانوں کی لاشوں پر اپنا گھروندا بناتے ہیں، اپنی دنیا آباد کرتے ہیں۔ عیش و عشرت کی محفلیں سجاتے ہیں۔ ایسے جانوروں اور درندوں کی نہ مسلمانوں میں کمی ہے اور نہ ہی ہندوؤں میں۔ مسلمانوں کے اندر سے بہت سے بکاؤ مال سامنے آئیں گے جو ایم ایل اے یا وزیر بننے کیلئے مسلمانوں کو رجھانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
سماج وادی پارٹی کی غنڈہ گردی سے بھی لوگ بیحد ناراض ہیں۔ میں اس لئے ہندوؤں کا ووٹ بھی خاص طور سے OBC کے علاوہ شاید ہی سماج وادی پارٹی کی جھولی میں جائے، اس لئے ملائم سنگھ اس بار تیسرے نمبر پر ہوسکتے ہیں۔ مایاوتی کی پارٹی میں بدعنوانی اور کرپشن ہے۔ حکومت جب ہوتی ہے تو یہ چیز ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ دوسری چیز ہریجن ایکٹ کا جو قانون مایاوتی نے اپنی حکومت میں بنایا، اس کا استعمال غلط انداز سے ہوتا ہے۔ یہ دو چیزیں مایا وتی کے خلاف جاتی ہیں۔ اس کا ڈر اتر پردیش کے عوام میں اب بھی پایا جاتا ہے۔ مایا وتی کو اس ڈر کو عوام سے دور کرنا ہوگا۔
مایا وتی کے حق میں جو بات جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ فرقہ پرست نہیں ہے اور غنڈوں اور بدمعاشوں کے سخت خلاف ہے۔ انھیں قابو کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ امن و امان، نظم و نسق کی حالت بھی سدھر جاتی ہے۔ اس کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات بھی نہیں ہوتے۔ اگر چھوٹے فساد یا جھڑپ ہوتی بھی ہے تو اسے جلد قابو میں کرلیتی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو جس سے سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے جس سے وہ اجڑتے اور برباد ہوتے ہیں وہ فساد ہی ہے۔ اس لئے ایسی پارٹی یا حکومت کے حق میں ہونا بھی چاہئے جو فسادات نہ ہونے دے اور قانون کی حکمرانی میں ذرا بھی لاپرواہی نہ دکھائے۔ مایا وتی کے بعد مسلمانوں کا رجحان کانگریس کی طرف بھی ہے کیونکہ کانگریس ہی بی جے پی کو ملک بھر میں چیلنج یا چنوتی دے سکتی ہے۔ اگر مسلمان یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ وہ اپنا ووٹ ملائم اور مودی کو نہیں دیں گے، کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کو دیں گے تو یہ ایک اچھا فیصلہ ہوگا، کیونکہ ملائم نے مودی کی حکومت کا خیال اس قدر کیا ہے کہ ان تمام مجرموں اور قاتلوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے جو مسلمانوں کی زندگی کے درپے رہے، جس کی وجہ سے اتر پردیش میں چار ساڑھے چار سال میں 225 سے زائد فسادات ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس قدر فسادات کسی حکومت کے دور میں نہیں ہوئے۔
اگر ملائم اور مودی کے خلاف سیاسی پارٹیوں کا اتحاد عمل میں آتا ہے تو اتحاد کی جیت آسانی سے ہوسکتی ہے لیکن اب تک ایسی کوئی بات اتر پردیش میں فی الحال نظر نہیں آرہی ہے۔ مسلم پارٹیوں کا اتحاد ہورہا ہے ، یہ اچھی بات ہے مگر اس سے اگر ملائم اور مودی کو فائدہ ہوتا ہے تو بدقسمتی کی بات ہوگی۔ اتحاد اس انداز کا ہو کہ ملائم اور مودی کو فائدہ نہ پہنچے جب ہی مسلمانوں کو اور اتر پردیش کے عوام کو راحت ملے گی اور 2019ء کے لوک سبھا الیکشن کی جیت کی تمہید ثابت ہوگی۔ مسلم جماعتوں کو اپنی پارٹی کی جیت سے زیادہ دشمن کی شکست کی فکر ضروری ہے کیونکہ مسلم جماعتیں اتحاد کے باوجود دشمن سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں ابھی نہیں ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔