اردوغان پر اٹھنے والے اعتراضات کی حقیقت

ڈاکٹر صلاح الدین ایوب
خلافت راشدہ سے محبت اور جذباتی لگاو ہر مسلمان کے لیے ایک فطری کیفیت ہے۔ البتہ یہ بات ابھی تک زیر تحقیق ہی رہ گئی کہ خلافت کا سلسلہ ٹوٹ جانے کے بعد اب دوبارہ اس کا قیام کیسے ممکن ہوگا۔ راستے بہرحال دو ہی نظر آتے ہیں ؛ ایک اخوان کا راستہ جو پرامن انداز میں حکومت تک پہنچتے ہیں اور ایک داعش جیسی متشدد تنظیموں کا راستہ جو قتل و خون کے ذریعے خلافت قائم کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ایسے میں ہماری امت کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو نہ تو پرامن طریقے سے جمہوریت کا حصہ بن کر جدوجہد کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی داعش جیسی تنظیموں سے مل کر قتل و غارت گری کا حصہ بن سکتا ہے۔ اب ان کا کام صرف پرامن عوام کے بیچ جمہوریت اور امن پسندی کے خلاف بدعنوانی پھیلانا بن کر رہ گیا ہے۔ اسی کوشش کی ایک کڑی وہ مضمون بھی لگتا ہے جو چند روز قبل ‘رجب طیب اردوغان: ایک جمہوری حکمراں یا مرد مجاہد’ کے عنوان سے مضامین ڈاٹ کام پر شائع ہوا جس کا مقصد سوائے جمہوریت اور اردوغان کی کردار کشی کے اور کچھ بھی نہیں۔ ذیل میں ترتیب کے ساتھ مضمون میں اٹھائے گئے اعتراضات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
1- دہشت گردی کے خلاف اس وقت دنیا کا ہر ملک کھڑا ہے اور کیوں نہ کھڑا ہو؟ خود کش حملے، عوام پر فائرنگ، اسکولوں میں بم دھماکے، عورتوں کا اغوا، باندی اور غلام بنانے کا طرز عمل جیسے جرائم کون سا ملک برداشت کرسکتا ہے؟؟؟ ترکی نے اسرائیل کو ووٹ نہیں کیا بلکہ دھشت گردی کے خلاف جنگ کو سپورٹ کیا۔ اب اگر اس جنگ میں اسرائیل بڑھ کر حصہ لیتا ہے تو اسے کیوں اور کیسے روکا جاسکتا ہے؟؟؟؟ خود ترکی میں آئے دن بم دھماکے ہورہے ہیں، آج بھی ترکی کے ایرپورٹ پر خودکش دھماکوں سے چالیس سے زیادہ شہری ہلاک ہوگئے۔ ترکی کیونکر اس دھشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد نہ کرے؟؟؟
2۔ اگر ترکی طیارہ گرا دیتا ہے تو پائلٹ کا کمال اور روس بم گرا دیتا ہے تو پوٹین کا عمل؟؟؟ اردوغان نے ہلاک ہونے والے روسی پائلٹ کی فیملی سے سوری کہا ہے اور یہ بالکل مناسب بات ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اردوغان کا یہ ‘سوری’ اس کے ملک کو نقصان نہیں بلکہ صرف فائدہ پہنچائے گا۔ اسرائیل نے معافی مانگی اور معاوضہ دیا تو اس پر ردعمل کچھ اور اردوغان نے ہلاک ہونے والے فوجی کی فیملی سے سوری کہا تو ردعمل کچھ؟؟؟
3۔ ترکی سے یہ امید رکھنا کہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی اکیلے جنگ لڑے گا عقل مندی کی بات نہیں لگتی۔ ترکی اپنی استطاعت کے بقدر ہی مدد کرسکتا ہے۔ افغانستان میں ترکی کی فوج نے رفاہی کام کیئے ہیں، ترکی کے کسی فوجی نے افغانیوں پر ایک گولی نہیں چلائی یہ بات رکارڈ میں محفوظ ہے۔ البتہ شام و عراق میں مجاہدین کے لیے اس کی انتھک کوششیں اور امداد دنیا سے پوشیدہ نہیں۔ شام کی آدھی عوام اس وقت ترکی میں پناہ لے کر محفوظ ہے۔ اور مجاہدین میں اتحاد پر ترکی نے زبردست کام کیا ہے۔ روس کی مداخلت نہ ہوئی ہوتی تو اب تک شام آزاد ہوتا۔ شام سے لے کر غزہ تک زخمی مجاہدین کا علاج ترکی کے اسپتالوں میں ہوتا ہے اور ایک بڑی تعداد میں مجاہدین کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اسلحے فراہم کیے جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر ان کی آواز پہنچائی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ امید کسی اکیلے ملک سے کرنا انصاف نہیں لگتا۔
4۔ اسرائیل ترکی کا غلام نہیں ہے کہ اس کے اشاروں پر غزہ کے ساتھ معاملات کرے گا۔ ترکی اپنے اثر رسوخ اور دباو کی بنیاد پر جتنا کام کرسکتا ہے غزہ کے لیے کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حماس اسے اپنا سرپرست مانتی ہے۔ غزہ پر حملہ کرنے اور اسے تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کو تجارت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسرائیل کی دفاعی قوت کو کون نہیں جانتا؟؟؟ اگر آج غزہ اپنی جگہ محفوظ ہے تو وہ عالمی دباو کی وجہ سے ہے جس میں ترکی کا اہم کردار رہا ہے۔ تجارت دوطرفہ ہوتی ہے اور دونوں ممالک کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا آپ کو اس بات کا علم ہے کہ غزہ کی عوام وہی کھاتی اوڑھتی اور پہنتی ہے جو اسے اسرائیل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے؟؟؟ اپنی پوزیشن کے مطابق ہی عمل اور ردعمل کیا جاتا ہے۔
5۔ کسی ملک کا اپنی غلطی تسلیم کرنا اور معاوضہ دینا معمولی بات نہیں ہوتی۔ پوری دنیا میں ایسے حادثات کے بعد یہی ہوتا ہے۔ ترکی نے بھی جہاز گرایا تو صرف سوری ہی بولا، نہ تو غلطی تسلیم کی اور نہ معاوضہ دینے کی بات کہی۔
6۔ اسلام غیر مسلموں سے اچھے تعلقات بنانے کی تلقین کرتا ہے تاکہ دعوت کے راستے کھلے رہیں اور اگر کسی اسلام دشمن ملک سے تعلقات مضبوط کرکے مسلمانوں کی جان بچائی جاسکتی ہے تو یہ مسلمانوں کے لیے بڑی خدمت ہے۔ حماس ہمیشہ سے اسرائیل سے پرامن مذاکرات کی تجویز پیش کرتی آئی ہے لیکن اسرائیل کبھی مذاکرات کے کیے تیار نہیں ہوتا۔ جب آپ کو معلوم ہے کہ دشمن طاقت ور ہے اور جنگ ہمارے لیے نقصاندہ ثابت ہوگی تو فطری طور پر آپ امن و مصالحت کی راہ اپنائیں گے اور یہ اسلام کے خلاف بالکل نہیں ہے۔
ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئیے کہ جمہوریت کی مخالفت میں ہم کہیں اشخاص و ممالک پر بہتان تو نہیں لگا رہے ہیں۔ صرف ایک بات پر غور کرلیں تو ترکی کا رول ذہن میں بالکل واضح ہوجائے گا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حماس ترکی کو اپنا سرپرست مانتی ہے اور سب سے زیادہ اعتماد کرتی ہے؟؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ترکی میں اس وقت سب سے زیادہ مہاجرین پناہ گزیں ہیں؟؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ شام و غزہ کے مجاہدین اپنا علاج ترکی میں کرواتے ہیں؟؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مجاہدین کی ٹولیوں کے آپسی اختلافات ترکی میں جاکر ختم ہوتے ہیں؟؟؟ بلاشبہ ترکی میں خلافت راشدہ قائم نہیں ہے البتہ اسلام پسند مسلمانوں کیلئے اس وقت دنیا کی سب سے محفوظ و مامون جگہ ضرور ہے۔ الله اردوغان اور اس کی حکومت کو مزید تقویت دے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس کے ذریعہ طاقت پہنچائے۔

تبصرے بند ہیں۔