اردو صحافت: ابتداء اور آج 

عبدالکریم ندوی گنگولی

 صحافت سماج کا آئینہ دارا ور عوام کا ترجمان ہوتا ہے، سماجی، سیاسی، علمی ودینی میدان کا شہسوار اور واقعات وحالات کا پتہ دینے والا گھڑ سوار ہوتا ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اس نے ملک کے لئے جو عظیم کارنامہ انجام دیا، اس کی نظیر تاریخ میں ملنی مشکل ہے، اردو صحافت نے آزادی سے قبل غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہندوستانی عوام کو زنجیروں سے نکال کر، انگریزوں کی ستم ظریفیوں اور حیلہ سازیوں سے واقف کرایا، جس کو تاریخ بھلا نہیں سکتی، اور یہ اردو صحافت ہی تھی جس نے مسٹر جناح کو قائدِ اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خاں کو قائدِ ملت بنایا، ۱۸۳۵ ؁ء میں مولوی محمد باقر نے دہلی سے ’’دہلی اردو اخبار‘‘نکال کر غفلت میں سوئے ہوئے انسانوں کو بیدار کیا تھا، ان کے فرزند ارجمند مولانا محمد حسین آزاد کا کہنا ہے کہ یہ اردو کا پہلا اخبار ہے، لیکن سب کا اتفاق کلکتہ کا ’’جامِ جہاں نما‘‘اخبار پر ہے، اور ’’دہلی اردو اخبار ‘‘یہی واحد اخبار تھا جس نے اس عہد کی سیاسی، علمی اور ادبی سرگرمیوں سے اپنے قارئین کو واقف کرایا، یہ اخبار ہفت روزہ تھا جس کی ماہانہ قیمت دو روپئے تھی، لیکن پھر بھی عوام کا سب سے مقبول ومحترم اخبار تھا۔

ہندوستان کے سارے اردو اخبار روزِ اول ہی سے معتبر اور حق کی صداقت کی تبلیغ کا اہم ذریعہ تھے، اور’’دہلی اردو اخبار‘‘کے علاوہ دہلی، آگرہ، لکھنؤ، اور لاہور سے بھی کئی اخبار نکلنے کے ثبوت ملتے ہیں، لیکن علم کی کمی، عوام کی تنگدستی، اور بے سروسامانی کی وجہ سے ان کی اشاعت بہت ہی محدود تھی، آگرہ سے ڈاکٹر مکند لال رسالہ ’’بغاوتِ ہند‘‘جاری کرتے تھے، جس کی طباعت منشی شیونرائن کے مطبع ’’مفیدالخلائق‘‘میں ہوتی تھی، اسی طرح اردو صحافت تدریج بتدریج ترقی کے راستے پر گامزن تھی، اور جس کو وجود میں آئے کئی سال ہوچکے تھے، تو ایک دور ایسا بھی آیاکہ جس میں ایک طرف مولانا ابوالکلام آزاد ’’الہلال‘‘اور’’ البلاغ‘‘نکال کر انگریزوں کی حکومت کے چھکے چھڑارہے تھے، اور ان کی تدبیروں پر پانی ڈال رہے تھے، تو دوسری طرف لاہور سے’’ زمیندار‘‘آزادی کی آگ بھڑکا رہا تھا، اور جتنے لوگ ان کی مکر فریبیوں سے نابلد اور اپنے ملک کے حالات سے بے خبر تھے، سب کو حالات سے آشنائی انہیں اخبارات نے کروائی، اردو صحافت کی ابتداء میں علم کی نوعیت یہ تھی کہ پڑھنے والے خال خال ہوتے تھے، اور سننے والوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی، لیکن ۱۸۷۵ ؁ء کے آس پاس دارالعلوم دیوبند کے قیام اورسر سید احمدؒ کی کوشش سے مسلم یونیورسٹی کی بنا ء کی وجہ سے تعلیم میں وسعت پیدا ہوئی، اور کافی حد تک پھیلتی چلی گئی، پھر اخبارات خرید کر اور مانگ کر پڑھے جانے لگے، اس لئے کہ وہ اخبارات صداقت وسچائی کانمونہ اور ملک کی صحیح حالات سے واقف کرانے کا ذریعہ تھے۔

آزادۂند سے پہلے ۱۹۴۰ ؁ء ۲۳ مارچ کو ہونے والے قراردادوں کی وجہ سے ملک کی پوری آبادی دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی، ایک کانگریس اور اس کی تائید کرنے والی مختلف جماعتیں اور دوسری مسلم لیگ تھی، جس کی حمایت میں مسلم اکثریت جنون کی حد تک اس کے ساتھ ہوگئی تھی، اور یہ دور اردو صحافت کی تاریخ کا سب سے زیادہ جذباتی اور غیر سنجیدہ دور تھا، قرارداد پاس کرنے کے بعد مسلم لیگ ہر مسلمان کے دل میں متحدہ ہندوستان میں ان کا مذہب، ان کی ثقافت، ان کی عبادت گاہیں اور ان کی عورتوں کی عزت محفوظ نہ ہونے کا شعلہ بھڑکایا، تو اس کا اثر اردو صحافت پر ایسا پڑا کہ تقسیم کی مخالفت کرنے والے اخبارات کی تعداد مسلم لیگ اخبارات کے مقابلہ میں ۲۰ فیصد بھی نہیں تھے، آزادۂند کے بعد مسلم لیگ کے مطابق تقسیم عمل میں آیااور اس وقت ان کے اخبارات کی تعداد پچاس ہزارتھی، جب کہ اس زمانے میں سیکڑوں اخبارات چھپا کرتے تھے، اور اس تقسیم کا اردو صحافت پربہت گہرا اثر پڑا، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی اکثریت پاکستان چلی گئی جو رہ بھی گئے تھے وہ اپنی اور کاروبار کی فکرمیں ایسے مصروف ہوئے کہ انہیں نہ اخبار کی سر پرستی کی فکر رہی اور نہ ہی اس کا مطالعہ کا ذوق وشوق، تقریباً۲۵ سال بعد حکومت کو اس بات کا احساس پیدا ہوا کہ جس اردو صحافت نے آزادئ ملک کے لئے غیر معمولی قربانیاں دی تھی، وہ اب ختم ہوتی جارہی ہے، تو حکومت نے اشتہارات کے بجٹ میں سے دس فیصدی اردو اخبارات کو دینے کا فیصلہ کیا، تاکہ یہ زبان زندہ وتابندہ رہے، اور آج اردو صحافت جس مقام پر آکر کھڑی ہے اس میں اردو والوں کا حصہ دس فیصد ہے جب کہ ۹۰ فیصدی حکومت کی سرپرستی کا جس کیلئے ایسے ہتھ کنڈے استعمال کئے جارہے ہیں جس سے ہر اردو کے مجاہد کی روح تڑپ رہی ہوگی، جو اردو کا سائل تھا نہ کہ اردو کے نام پر سیاست وتجارت کا۔

اردو صحافت نے کئی سالوں تک قارئین کی ہر توقع کو تکمیل تک پہنچانے میں انتھک کوشش کرڈالی، اور کتنے صحافی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے قلمِ گہر بار سے حق کی سربلندی کا نعرہ اٹھایا، تو ان کو شہید کردیا گیا، اور کتنوں کو جیل خانوں کی اندھیری کوٹھریوں میں ڈال کر اذیتوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن واپس آکر بھی وہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ انجام دیتے رہے، لیکن کسی جابروظالم حکومت کے سامنے گھٹنہ نہیں ٹیکا، لیکن اب اردو صحافت کو بازیچۂ اطفال اور سیاست کی گرم بازاری کا تماشہ بنادیاگیا، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج صحافت کے اکثر ایڈیٹر ایسے ہیں جو خود پڑھتے ہی نہیں، اور اداریہ کس نام سے، کس عنوان سے، اور کس موضوع پر چھپاہے جانتے ہی نہیں، گویا روزِاول سے صحافت کے جو کلیدی مقاصد اور اس کی تحریکات وعوامل تھے سب ناپید ہوچکے ہیں۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو اردو اخبارات حقیقی معنوں میں مسلمانوں کی رہنمائی ورہبری کررہے ہیں، حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دے رہے ہیں، سرزمینِ ہند میں ہونے والے واقعات کی صحیح معلومات فراہم کر ارہے ہیں، مسلمانوں کے قلوب کی اسلامی تعلیمات اور دینی شعور کے ذریعہ آبیاری کر رہے ہیں، اور شریعتِ اسلامی کی صحیح ترجمانی اور اسلامی فکر کی طرف صحیح رہنمائی کر رہے ہیں، ان اخبارات میں ہندوستان کا ہر مسلمان ہر اعتبار سے حصہ لے، جن کو اللہ نے تحریر کی صلاحیت دی وہ اپنی دینی تعلیمات واحکامات سے لبریز تحریروں کے ذریعہ، خاص کر علماء کرام ان میں حصہ لیں اور جو لے رہے ہیں ان کی تحریروں میں اللہ تعالیٰ ایسی تأثیر پیدا فرمائے کہ امت مسلمہ کے سیاہ بار قلوب ضیاء بار کرنوں سے منورہوجائیں اورجن کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کی نعمت سے مالا مال فرمایا ہے وہ اپنے اس نعمتِ خداندی کو ان اخبارات میں بھی لگائے تاکہ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کے مردہ دل بندوں میں دین کی محبت اور رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ پیدا ہوسکے، اللہ سے دعا ہے کہ دورِ حاضر میں نکلنے والے اردو اخبارات کو صحیح اسلامی فکر پیش کرنے اور امت مسلمہ کے ہر فرد بشر کودینی، مالی اور علمی اعتبار سے تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔