اروناچل پردیش میں مثالی ٹیکہ کاری

ڈاکٹرمظفرحسین غزالی

خسرہ روبیلا کا ٹیکہ9 ماہ سے 15 سال تک کے سبھی بچوں کو مرحلہ وار دیا جانا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت تیرہ ریاستوں کے بچے خسرہ روبیلا جیسی مہلک بیماری سے محفوظ ہو چکے ہیں۔ خسرہ روبیلا ٹیکہ کاری مہم کو فروری 2018 میں اڑیسہ اور اروناچل پردیش میں لانچ کیا گیا۔ اڑیسہ میں 112 لاکھ جبکہ اروناچل میں پانچ لاکھ بچوں تک پہنچنے کا تخمینہ تھا۔ سو فیصد ٹارگیٹ حاصل کیسے کیا جائے ؟یہ بڑا سوال کے پیش نظر منصوبہ سازی کی گئی۔ اروناچل میں یکم فروری سے شروع ہوئی ٹیکا کاری مہم کے تحت سبھی بچوں کو فروری کے آخر تک ٹیکا دیا جانا تھا۔ ایک ہفتہ قبل ہی اروناچل پردیش نے اپنا مقررہ ہدف پورا کر لیا۔ اتنے کم وقت میں ملی کامیابی نے اروناچل جیسے پسماندہ صوبہ کو عوامی صحت کے لحاظ سے مٹالی ریاست بنا دیا ہے۔

مشرقی سیانگ ضلع کے مرکز پاسی گھاٹ جسے وزیر اعظم نریندرمودی نے اسمارٹ سٹی بنانے کا اعلان کیا ہے، کے ضلع میڈیکل آفیسر ڈاکٹر مندیپ پرمے نے خسرہ روبیلا ٹیکہ کاری مہم کی کامیابی کے بارے میں بتایا کہ ہر بچے تک ٹیکا پہنچانے کیلئے کئی سطح کی پلانگ کی گئی تھی۔ شعبہ تعلیم، سماجی فلاح وبہبود اور دوسرے شعبوں نے اس مہم میں شعبہ صحت کے ساتھ مل کر کام کیا۔ کمیونٹی لیڈر، سماجی رضاکار اور مذہبی رہنماؤں کو اس مہم کے ساتھ جوڑا گیا۔ ایک بھی بچہ نہ چھوٹے اس کیلئے مائکرو پلان تیار کیاگیا۔ پہلے مرحلے میں اسکولوں کے بچوں کو ٹیکا لگایا گیا، دوسرے میں ان بچوں کو کور کیا گیا جو اسکول سے باہر ہیں اور تیسرے میں ان بچوں تک ٹیکے پہنچائے گئے جو ٹیکا لگاتے وقت اسکول یا گاؤں میں نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکہ لگا نے کیلئے اے این ایم، آشا اور آنگن واڑی کارکنوں کو ٹرینڈ کیا گیا تھا۔ مہم کو کامیاب بنانے کیلئے بلاک لیول تک مائکرو پلاننگ کی گئی تھی۔ اے ای ایف آئی کے بارے میں معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ٹیکہ لگنے سے کسی بچے کوئی پریشانی ہوئی ہو ضلع بھر میں ایسا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔

دشواریوں کا ذکر کرتے ہوئے ضلع ایمونائزیشن آفیسر تتوک گاو نے کہا کہ یہاں ہر سال کھیتی ہر مزدور آتے ہیں ۔ جو چاول کی فصل تیار ہونے تک یہاں رہتے ہیں ۔ ان کے بچوں کو کور کرنے میں دشواری ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک جگہ نہیں رہتے اور ان کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع کے ڈی سی تمیو تتک نے مہم کو کامیاب بنانے میں خاص دلچسپی لی۔ ڈی سی صاحب سے بات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ ہمیں کہیں سے بھی ٹیکوں کے نہ لگوانے یا مخالفت کرنے کی خبر ملی تو اپنی ٹیم کے ساتھ ذاتی طور جا کر لوگوں کی غلط فہمی کو دور کیا۔ بیداری لانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے انہوں نے مذہبی رہنماؤں کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں صحت کو لے کر لوگ حساس ہیں اس لئے کسی بھی بیماری کا جلدی پتا لگ جاتا ہے۔ یہی بیداری خسرہ روبیلا ٹیکہ کاری مہم کو کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوئی۔ سرکار کی جانب سے اس مہم کیلئے جو فنڈ ملا ،ہم نے اس سے زیادہ کام کیا ہے۔ ضلع میں ایک بھی بچہ ٹیکہ لگنے سے نہیں چھوٹے گا اگر پھر بھی کسی بچے کو خسرہ جیسی بیماری ہوتی ہے تو ہم مانیں گے کہ ابھی کام پورا نہیں ہوا ویسے اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ منصوبہ سازی اگر اچھی ہوگی تو کامیابی ضرور ملے گی۔

ٹیکہ کاری سیشن کے دوران سینٹرل اسکول پاسی گھاٹ میں بچوں کو ٹیکے لگتے دیکھنا اچھا لگا۔ اسکول کے پرنسپل راجیش کمار نے بتایا کہ ہم خسرہ روبیلا کمپین میں پوری مدد کر رہے ہیں۔ صبح کی اسمبلی میں بچوں کو ایم آر ٹیکہ کے فائدے سمجھائے گئے۔ جن بچوں کو ٹیکہ لگنا ہوتا ہے، ایک استاد انہیں ٹیکا لگوانے کیلئے تیار کر تا ہے۔ اے این ایم توئی بین نے بتایا کہ جس بچے کو ٹیکا دیا جاتا ہے ،اسے 30 منٹ نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔ ڈر کی وجہ سے گھبراہٹ ہو سکتی ہے یا چکر آسکتا ہے ، کبھی الٹی بھی ہو سکتی ہے۔ نگرانی میں رہتے کوئی بھی پریشانی ہونے پر انہیں فوراً طبی مدد دی جاتی ہے۔ ویسے ابھی تک ٹیکہ لگنے کے بعد ایسا ایک بھی معاملہ سامنے نہیں آیا۔ ٹیکا لگوانے والے کئی بچوں سے ٹیکہ لگنے کے بعد انہیں کیسا لگا ،یہ جاننے کی کوشش کی۔ سیما پال نے بتایا کہ ٹیکا لگنے کا ڈر تھا لیکن انجکشن لگنے کے بعد کو ئی درد نہیں ہوا۔ توڈک بان، تورک بان، منیتا اسلاری، انور علی، نندیتا بیجو شوریہ دویدی وغیرہ بچوں سے بات ہوئی، سب نے اپنے طریقہ سے کہا کہ ٹیکہ لگنے کا ڈر تھا لیکن سوئی لگوانے کے بعد ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ یہ پوچھنے پر کہ آپ نے ٹیکہ کیوں لگوایا شوریہ نے کہا کہ بیماری سے بچنے کیلئے ٹیکہ لگوایا ہے۔ بیمار پڑنے سے ہماری پڑھائی کا نقصان ہوگا اس سے بچنے کیلئے ہم نے ٹیکہ لیا ہے۔

اروناچل پردیش میں دشوار گزار علاقے بڑی تعداد میں ہیں۔ ان میں سے اپر سیانگ کے پونگنگ گاؤں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ پاسی گھاٹ سے قریب ساٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ سیانگ ندی پار کرکے ہمارا گروپ ایسی جگہ پہنچا جہاں سے گاؤں پہنچنے کی جدوجہد شروع ہوئی۔ سڑک سے دو سو سیڑھیاں نیچے اتر کر یمنی ندی پر بنا رسی کا پل آیا۔ کوئی ایک کلو میٹر لمبا روپ پل پار کرنا دلچسپ ہونے کے باوجود بہت ڈراونا تھا۔ ڈیڑھ دو سو فٹ نیچے یمنی ندی تیز بہاؤ کے ساتھ بہہ رہی تھی۔ کچھ ہی دوری پر یمنی اور سینگ ندی کا سنگم تھا ، جو پل سے دکھائی دے رہا تھا۔ خدا خدا کرکے پل پار ہوا مگر منزل ابھی دور تھی۔ پہاڑی پگڈنڈی پر چلنا شروع کیا۔ نیچے دونوں ندیوں کے پانی کا شور اچھا لگنے کے باوجود بہت ڈراؤنا تھا۔ ہمارے ساتھ اے این ایم اور ضلع ایمونائزیشن افسر بھی تھے۔ انہیں اس سفر میں کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ وہ اس طرح کے علاقوں میں برابر جاتے رہتے ہیں۔ آشا اوسا پینینگ پہلے سے ہی وہاں موجود تھیں۔ گاؤں کے لوگوں نے ہمارا زبردست استقبال کیا۔ انہوں نے اپنی زبان میں گیت گایا کہ’آپ آئے ہمیں اچھا لگا ہم آپ کو اپنا سلام پیش کر تے ہیں‘۔ اروناچل میں گاؤں کے ذمہ دار کو گاؤں بوڑھا کہتے ہیں اور اس کی سب عزت کرتے ہیں۔ پونگنگ کے گاؤں بوڑھا اورام تیینگ نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں سبھی بچوں کو ٹیکے لگے ہیں۔ وہاں جن بچوں کو ٹیکے لگے، ان کی ماؤں سے ٹیکا لگوانے کے بارے میں پوچھا تو اپنگ ککر، رتھ تارک، ننگ اجے، اونی پادن وغیرہ نے بتایا کہ ہم نے اپنے بچے کو اس لئے ٹیکہ دلوایا کہ اس سے بیماری نہیں آئے گی، بیماری سے ان کا بچہ بچا رہے گا اور بیماری سے پہلے اس کا بچاؤ کرنا چاہئے۔

ڈاکٹر تپسیا راگھو (آئی اے ایس) مشن ڈائرکٹر نیشنل ہیلتھ مشن اروناچل پردیش جو خود پیشہ ور ڈاکٹر رہی ہیں ، نے ایٹا نگر میں اپنی بات چیت کے دوران کہا کہ یہ کامیابی صرف شعبہ صحت کی نہیں ہے۔ اس میں شعبہ تعلیم، سوشل ویلفیئر، امیو نائزیش، یونیسیف، عالمی ادارہ صحت اور کچھ علاقوں میں شعبہ ہوابازی ریاست اروناچل پردیش کا بھی حصہ ہے کیونکہ اس مہم میں ان سب کی مدد شامل رہی ہے۔ ڈاکٹر تپسیا نے بتایا کہ ہم نے خسرہ روبیلا ٹیکہ کاری تین مراحل میں کی۔ پہلے وہ بچے جن کو اسکولوں یا بستیوں میں ٹیکے دیئے جا سکتے تھے، دوسرے وہ جو سیشن کے وقت موجود نہیں تھے یا نقل مکانی کرکے آنے والے بچے اور تیسرے وہ بچے جو ہارڈ ریچ ایریوں میں رہتے ہیں۔ ہارڈ ریچ ایریا کو بھی تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک وہ جہاں گاڑی سے پہنچنے میں وقت لگتا ہے، دوسرے وہ جہاں پیدل چل کر ہی جانا پڑتا ہے اور تیسرے وہ جہاں راشن بھی چاپر سے پہنچا یا جاتا ہے۔ ہم نے ان کی مدد لی اور ٹیکے راشن کے ساتھ پہنچا نے کا انتظام کیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کام میں 3826 آشا ، کئی ہزار آنگن واڑی اور ہیلتھ ورکرز کی کوششیں شامل رہی ہیں۔ ٹارگیٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ شروع میں ہمارا اندازہ پانچ لاکھ بچوں کا تھا لیکن کئی بار سروے کرانے پر پوری ریاست میں 9 ماہ سے پندرہ سال تک کے بچوں کی تعداد چار لاکھ پینتیس ہزار سامنے آئی۔ مہم کو کامیاب بنانے کیلئے مائکرو لیول کی منصوبہ سازی کی گئی تھی۔ اس میں تمام اضلاع کے ڈی سی، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، ضلاع امیونائزیش آفیسر، تعلیمی افسران، سوشل ڈپارٹمنٹ کے علاوہ میڈیا کو ساتھ لیا گیا۔

رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر تپسیا نے کہا کہ یہاں بارش جلدی شروع ہو جاتی ہے اس لئے ہم نے اس کام کو تیزی سے پورا کرنے کی کوشش کی۔ غلط فہمیاں اور افواہیں پھیلانے کی کوشش بھی ہوئی جن پر وقت رہتے قابو پا لیا گیا۔ اس معاملے میں مذہبی رہنماؤں نے بہت ساتھ دیا۔ انہوں نے امام جمعہ مسجد نہارلہو مولانا محمد علاؤالدین صابری کا خاص طور پر ذکر کیا جنہوں نے جمعہ کے خطبے میں ٹیکہ لگوانے کی تاکید کی اور مسلم بستیوں میں جا کر لوگوں کو بیدار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سبھی مذاہب کے ذمہ داروں نے مہم کو کامیاب بنانے میں بھر پور تعاون کیا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مہم کیلئے جتنا پیسہ ملا تھا ہم نے اس سے زیادہ خرچ کیا۔ دیش کی دوسری ریاستیں اروناچل پردیش کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ انہوں نے ملک سے اروناچل کی طرف توجہ دینے کی بات کہتے ہوئے بچوں کو صحت مند رکھنے کیلئے صوبہ کے سبھی لوگوں سے اپنے بچوں کو خسرہ روبیلا کا ٹیکہ لگوانے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب یہ صوبہ صحت کے لحاظ سے اسمارٹ ریاست بن جائے گا۔ دوسری ریاستیں اروناچل پردیش کی راہ پر چل کر مثالی بن سکتی ہیں بس مضبوط ارادے کے ساتھ پہل کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔