استدراک – اردوغان پر اٹھنے والے اعتراضات کی حقیقت

آفتاب عالم فلاحی
ہماری سادہ لوحی ہی ہے کہ ہم ذرا ذرا سی بات پر بلا سوچے سمجھے کسی کو بھی اسلام کا بڑا سے بڑا مقام دے دیتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس کے کیا دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔اس بات کا ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ ہمارے اس طرز عمل سے اسلام کی کن کن بنیادوں پر ضرب پڑے گی اور کن کن اصولوں پر تیشے چلیں گے۔ اسی مقصد کے پیش نظر چند روز قبل میں نے ایک مضمون بعنوان : رجب طیب اردوگان ۔ ایک جمہوری حکمراں یا مرد مجاہد‘ تحریر کیا۔ اپنے مضمون میں میرا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ طیب اردگان کی کردار کشی ہو اور نہ ہی یہ مقصد تھا کہ ان کے رفاہی کاموں کی تردید کی جائے‘ بلکہ میں ان کی پالیسیوں کے دوسرے پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو عام طور سے نظروں سے اوجھل ہیں‘ تاکہ ہم اندھے اور بہرے بن کر ان کی حمایت نہ کرنے لگیں اور ان کی پالیسیوں کے دوسرے پہلؤوں کی جانچ پڑتال کے بعد ہی ان کے اسلامی ہیرو ہونے کا فیصلہ کریں نیز جو بات کہیں علی بصیرہ اور علی بینہ ہو ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم کسی کی اندھی تقلید کرتے ہیں تو حقائق سے نقاب کشائی بھی جرم نظر آتی ہے اور صلاح الدین صاحب اسی کا شکار لگتے ہیں۔ انھوں نے میرے اس مضمون کا جائزہ لیا ہے اور بوکھلاہٹ کی وجہ سے جواب دینے میں انھوں نے اتنی عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے کہ انھیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ جنوں میں کیا کیا بول گئے ۔ ذیل میں اس کا استدراک کیا گیا ہے۔
۱۔ انھوں نے میرے مضمون کا مقصد جمہوریت اور اردوگان دونوں کی کردار کشی بتایا ہے۔ گویا وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ رجب طیب اردوگان ایک جمہوری حکمراں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ جمہوریت کے حامی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے والد مولانا عنایت اللہ سبحانی جو کہ خود برصغیر ہند کے ایک ممتاز عالم دین ہیں‘ جمہوریت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
"جو لوگ اسلامی نظام اور ا س کی برکتوں سے ناواقف ہیں وہ لوگ تو جمہوریت کے جھوٹے وعدوں اور پر فریب نعروں سے دھوکہ کھا سکتے ہیں اور کھاتے ہیں ۔ مگر جو لوگ اسلامی نظام کی برکتوں سے واقف ہیں ان کے لئے جمہوریت یا ڈیموکریسی میں کیا کشش ہو سکتی ہے۔”
ڈاکٹرصلاح صاحب خود بھی اسلامی خلافت کے تئیں بہت کچے لگ رہے ہیں ‘ ورنہ وہ کبھی نہیں کہتے کہ خلافت قائم کرنے کا طریقہء کار صرف دو ہی ہے۔ ایک داعش کا جابرانہ طریقہ اور دوسرا اخوان کا پر امن طریقہ۔
۲۔ اپنا موقف منوانے کے لئے خلافت اور دہشت گردی کو باربار ایک دوسرے سے جوڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنے مطالعہ کا دائرہ اور وسیع کرتے تو ان کو یہ معلوم ہوتا کہ خلافت کی تحریک داعش کی پیداوار نہیں ہے بلکہ60 سال قبل سے یہ تحریک چل رہی ہے اور ایک ملین سے زائد داعی فی الحال اس کے لئے فکری جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی نے داعش کے کوکھ سے جنم نہیں لیا ہے بلکہ اس کی بھی تاریخ تین دہائی قدیم ہے۔ بہت سارے مبصرین یہ ثابت کر چکے ہیں کہ دنیا کے بیشتر بم دھماکوں میں سی آئی اے ‘ امریکی و برطانوی ایمبسیز کا کردار رہا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت نواز اسلامی خلافت کے علم بردار امریکہ اور اسرائیل سے موالات کر چکے ہیں لہذا دہشت گردی کی حقیقت بیان کرنے کے بجائے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر اس کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں ۔
۳۔ ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کہتے ہیں کہ خلافت کے قیام کا طریقہ ء کار ابھی زیرتحقیق ہے۔ ان یہ بات بھی خلافت اور اس کے قیام کے طریقہء کار سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ خلافت کے قیام کا طریقہء کار تو تحقیق شدہ ہے اور اس پرکئی دہائیوں سے مسلسل بغیر کسی تبدیلی کے عمل ہو رہا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جماعت اسلامی کا نصب العین حکومت الہیہ کے قیام سے لے کر اقامت دین اور دعوت دین تک خود خلافت کے قیام کی تحقیق ہے ۔ یہ بات الگ ہے کہ کچھ مصلحت پسندوں کی وجہ سے طریقہء کار کی کوئی واضح تصویر سامنے نہ آ سکی جس کی وجہ سے خود جماعت کے اندر دو طرح کا طبقہ پایا جاتا ہے ایک جو جمہوریت کا حامی ہے اور دوسرا جو جمہوریت کو اب بھی شجر ہ ممنوعہ سمجھتا ہے۔
فی الحال اسلامی ریاست کے قیام کے لئے عالم اسلام میں تین طرح کے کلیدی طریقہء کار پائے جاتے ہیں ۔ پہلا وہ طریقہء کار ہے جس میں بعض اسلامی گروپ اسلحہ اور مادی وسائل کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اسلامی ریاست کے قیام میں جو بھی رکاوٹ بنے اس کو راستے سے ہٹا دیا جائے ۔ چوں کہ یہ طریقہء کار اسلامی احکامات سے معارض ہے‘ اس لئے عالم اسلام کا سنجیدہ طبقہ اس کو مسترد کر چکا ہے۔ دوسرا طریقہء کار فکری جدوجہد کے ذریعہ اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ اس زمرے میں ہم اخوان ‘ النہضہ‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام وغیرہ کو شامل کرسکتے ہیں ۔ فکری جدوجہد کا یہ طریقہء کار صحیح ہے۔مگر بات تب بگڑ جاتی ہے جب ہم فکری جدوجہد کے نام پر غیر شرعی طریقہء کار اختیار کرنے لگتے ہیں۔ مثلا جماعت اسلامی ‘ جمہوریت کو شرک گردانتی تھی اور انتخابات سے خود کو الگ تھلگ رکھتی تھی مگر بعد میں انتخابات میں شریک ہونے لگی۔ اور ان کا وجہ جواز یہ ہے کہ اسلامی سیاست مسلمانوں اور اسلام کے مفادات کے حصول کا نام ہے‘ لہذا اگر مفادات عظیم ہوں تو اسلام کے چند احکام کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے۔ یعنی جتنا بڑا مفا د اتنا زیادہ کمپرومائز جائز ہے۔ اس لئے اسلام پسندوں کی اکثریت نے سترہویں ترمیم پر دستخط نہیں کیا۔ کیوں کہ اس سے کوئی خاص بڑا مفاد وابستہ نہیں تھا۔ لیکن فاطمہ جناح کی حمایت درست سمجھی گئی کیوں کہ ان کی نظر میں عورت کی حکمرانی پرکمپرومائز چھوٹی چیز تھی اور ایوب خان کو ہٹانا بڑا مفاد۔ اسے یہ لوگ حکمت سے تعبیر کرتے ہیں۔ در حقیقت اسلامی سیاست‘ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے حصول کا نام ہے لیکن حلال وحرام کے دائرے سے نکلنا غیر شرعی ہے۔ ہم عظیم مقاصد کے لئے کوئی ایک حرام کا بھی ارتکارب نہیں کرسکتے ۔ دوسرا مسئلہ مجبوری میں خنزیر کا گوشت کھانے اور انتہائی حالت اضطرار میں کلمہء کفر کے اجازت کے احکام سے انھوں نے مجموعی ذہنی تصور قائم کیا کہ ہم مشکل اورمجبو ری میں جائز طور پر کمپرومائز کرسکتے ہیں۔ جہاں تک شدید بھوک میں خنزیر کے گوشت کا تعلق ہے یا اضطراری کیفیت میں کلمہء کفر کہنے کی اجازت ہے تو یہ وہیں تک محدود ہے جب جان جانے یا عضو کٹنے کا خطرہ ہو تو وہ مخصوص شخص یہ مخصوص عمل بقدر ضرورت کر سکتا ہے۔ یہ کسی اورحرام کام کا وجہ جواز نہیں ہے اور یہ کوئی اصول نہیں ہے کہ مجبوریو ں میں حرام کام کیا جائے۔ لہذ ا آج نعوذ باللہ کفار کو اڈے دینا ہو‘ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام ہویا ترکی ۔اسرائیل معاہدے پر دستخط کرنا ہوتو یہ سب کیوں کر جائز ہو سکتے ۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ آج حکمت اور مصلحت کے نام پر اسلام کے معاشی ‘ سیاسی ‘ تعلیمی ‘ سماجی اور خارجہ پالیسی میں غیر شرعی طریقہء کار کو اپنایا جا رہا ہے۔
تیسرا طریقہء کار وہ ہے جس پر تحریک خلافت ساٹھ سالوں سے عمل پیرا ہے اور جو مانتے ہیں کہ یہ طریقہء کار نبوی طریقہء کار ہے۔ اس میں ریاست کے قیام کے لئے نہ تو عسکری ذرائع کا استعمال جائز ہے اور نہ ہی حکمت اور مصلحت کا جواز پیش کرکے جمہوریت کے باطل نظام میں شمولیت جائز ہے۔ بلکہ اس میں اہل علم ‘ سیاست داں اور اہل قوت حضرات کو فکری جدوجہد کے ذریعہ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اس طریقہء کار کو جو چیز منفرد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کے قیام سے پہلے مادی ذرائع کا استعمال جائز نہیں ہے اور نہ ہی آج کے باطل نظام میں شمولیت بلکہ مکمل شرعی اصولوں کے مطابق ریاست کے قیام کا حل بتایا گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ خلافت کی تحریک کو یہ حدیث مزید تقویت بخشتی ہے: ثم تکون خلافہ علی منہاج النبوۃ ۔

ڈاکٹر صلاح صاحب کو میری صلاح ہے کہ  وہ خلافت کے کسی بھی موضوع پر پر تبصر ہ کرنے سے پہلے مطالعہ وسیع کرکے خلافت کے موضوع پر گہری بصیرت پیدا کریں اور اپنے ہمہ گیر مطالعہ کی روشنی میں عالم اسلام کے تئیں کوئی مستقل رائے قائم کریں۔ ورنہ خلافت وجمہوریت کے درمیان خلط ملط کرکے قارئین کو گمراہ کریں گے اور خلافت کو اسلامی جمہوریت سے تعبیر کریں گے ۔ ظاہر ہے یہ مغرب سے مرعوبیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے ملی واسلامی دانشواران اسلامائزیشن کی گردان گردانتے ہیں اورمغرب کے پیش کردہ ہر نظام کے ساتھ اسلامی کا سابقہ و لاحقہ لگا دیتے ہیں۔ اس طرز فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔