اسرائیل – ترکی معاہدہ

اسرائیل اور ترکی کے حالیہ معاہدے پر حماس نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور کیوں نہ کرتے، پچھلے کئی سالوں سے جس ناکہ بندی کا سامنا ان کی عوام کو کرنا پڑ رہا ہے اس کا تصور ہم آزاد رہ کر کبھی کر بھی نہیں سکتے۔ جن کے گھر اسرائیل مخالف جنگوں میں مسمار ہوئے وہ آج بھی خانہ بدوش ہیں اور اپنے ہی ملک میں مہاجروں کی سی زندگی بسر کررہے ہیں۔ حماس اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے کہ ان کے لیے گھروں کا انتظام کرے اور اپنے شہریوں کی زندگیاں بحال کرے۔ دراصل یہ معاہدہ ترکی اور اسرائیل کے بیچ نہیں بلکہ غزہ اور اسرائیل کے بیچ سمجھا جانا چاہئیے۔ جب مسلم اکثریت ملک مصر غزہ کے لیے اپنی سرحدیں پوری طرح بند کرچکا ہے اور دوائیں تک اپنی سرحدوں سے غزہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے تو غزہ کے لیے اسرائیل کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں بچتا۔ غزہ کے مجاہدوں نے نہ تو ہتھیار پھینکے ہیں اور نہ ہی اپنے موقف میں کہیں کمزور پڑے ہیں، آج بھی اسرائیل کا کوئی فوجی غزہ کی سرحدوں میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرسکتا۔
ترکی کی حکومت جنگ سے متاثر ہونے والی عوام کے لیے غزہ میں کالونیاں تعمیر کروا رہا ہے جس کے لیے سامان اسرائیل کے راستے سے ہی غزہ میں داخل ہوسکتا ہے۔ ترکی کی مجبوری ہے کہ اگر وہ غزہ کو مدد کرنا چاہتا ہے تو اسرائیل سے بدل ناخواستہ بھی تعلقات بحال کرنے ہوں گے۔ ترکی نے یہ قدم غزہ کی عوام کے لیے ہی اٹھایا ہے اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ مدد کے لیے تیار رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی حماس کا بین الاقوامی آفس ترکی میں ہی ہے۔ وہ ترکی ہی تھا جس کے بحری جہاز پر ۲۰۱۰ میں اس وقت اسرائیل نے حملہ کردیا تھا جب وہ غزہ کے لیے مدد لے کر ان کے ساحل پر پہنچ گیا تھا۔ ترکی کے تقریبا دس کارکن اس حملے میں شہید ہوئے تھے اور اس وقت سے ترکی اور اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔ آج جبکہ اسرائیل نے نہ صرف اپنی غلطی تسلیم کی بلکہ جھک کر اس حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا معاوضہ دینے کو تیار ہوا اور مزید یہ کہ غزہ میں ترکی کو کالونیاں بنانے کے لیئے تعمیرات کے سامان لے جانے کی اجازت دی تو ترکی نے حماس کی خوشی کے ساتھ اسرائیل سے تعلقات بحال کیئے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کیوں جھکا اور ترکی کے مطالبات کیوں قبول کیئے؟
ترکی اپنے ملک کے لیے گیس اب تک روس سے خریدتا آیا تھا لیکن شام کے مجاہدین کی مدد کے نتیجے میں روس سے اس نے کھلی دشمنی مول لی اور روس کا جنگی جہاز مار گرایا نتیجے میں روس سے ترکی میں گیس آنا بند ہوگئی اور یہ ملک کی معیشت اور عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ میڈیٹرینین سمندر میں اسرائیل کا گیس کا ایک پلانٹ ہے جو ترکی کو گیس مہیا کرسکتا ہے۔ لہذا اسرائیل کو ترکی کی مارکٹ کی ضرورت ہے اور ترکی کو اسرائیل کی گیس کی ضرورت۔ ایسے میں اسرائیل کا ترکی کے مطالبات کو قبول کرنا اس کی بھی سمجھداری ہے۔
کیا وجہ ہے کہ اسرائیل جب اپنی عوام اور معیشت کے حق میں کوئی چال چلتا ہے تو ہم اسے ہوشیار سمجھتے ہیں اور جب کوئی مسلم ملک اپنی عوام اور معیشت کے لیے کوئی چال چلتا ہے تو ہم اسے بزدلی شمار کرنے لگتے ہیں۔
یہ ڈپلومیسی کا دور ہے اور بہت سی جنگیں میز پر جیت لی جاتی ہیں۔ سینہ تان کر کھڑے ہونا بہت آسان کام ہے لیکن ایسے میں ملک پیچھے جاتا رہے گا اور معیشت کی بدحالی کے نتیجے میں اپنی ہی عوام اسلام پسندوں کی حکومت کو اکھاڑ پھیکنے کے لیے کھڑی ہوجائے گی۔
اخوان پر بھی مصر میں ایک طرف تو یہ الزام لگائے جاتے رہے کہ مصر کی معیشت کو سنبھال نہیں پائے اور دوسری طرف کسی بھی معاشی معاہدہ کی مذمت کی جاتی رہی کہ فلاں سے معاہدہ کرلیا فلاں سے معاملہ کرلیا۔
ملک گرم خون سے نہیں بلکہ نرم اور سمجھدار چالوں سے چلائے جاتے ہیں۔
ترکی اور اسرائیل کے اس معاہدے سے ایک طرف تو حماس کو راحت نصیب ہوئی اور ان کے نمائندوں نے میڈیا میں کھل کر اس معاہدے پر خوشی کا اظہار کیا تو دوسری طرف روس کا یہ گمان کہ ہماری گیس ترکی کے لیے مجبوری ہے ایک پل میں چور چور ہوگیا۔
جذباتیت بہت اچھی چیز ہے لیکن اسی وقت تک جب تک کہ یہ خود کو نقصان نہ پہنچائے۔ ترکی اور اسرائیل کی آپسی دشمنی اگر غزہ کو تکلیف پہنچاتی ہے تو یہ دشمنی دراصل ترکی اور غزہ کی کہلائے گی۔
اردوغان کو اس کی ہوشیار چالوں پر سراہا جانا چاہئیے اور حماس کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھنا چاہئیے۔ الله ہمارے مسلم بھائیوں کو مضبوطی عطا کرے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہ رہے ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔