اسلامی دہشت گردی کورس کا شوشہ: آر ایس ایس کی ایک اور شر انگیزی

مولانا سید احمد ومیض ندوی

مودی حکومت کے چار سال مکمل ہونے جارہے ہیں، حکمراں جماعت عنقریب چار سالہ دورِ اقتدار کا جشن بہت جلد منانے والی ہے، ہماری سیاسی پارٹیوں کو کارگردگی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، وہ صرف پروپگنڈہ پر یقین رکھتی ہے، سب کا ساتھ اور سب کا وِکاس کا نعرہ دے کر اقتدار پر آنے والی بی جے پی نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں ملکی عوام کو مہنگائی، نفرت، اقلیت دشمنی، ظلم و تشدد اور انارکی کے علاوہ کچھ نہیں دیا، آج مسلسل دسویں دن پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اصافہ کی وجہ سے عوام سکتہ میں ہے، بیزورگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ملکی معیشت ہر گذر نے والے دن کے ساتھ انحطاط کی طرف رواں دواں ہے، ان سارے مسائل کو نظر انداز کرکے حکومت اس فکر میں ہے کہ بقیہ ایک سالہ عرصے میں مسلم اقلیت کے لئے مشکلات کیسے پیدا کی جائیں ؟، اسلام اور مسلمانو ں کوزک پہونچانے کے لئے نت نئے حربے تلاش کئے جارہے ہیں، ہر دن ایک نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لئے حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ حکمراں جماعت کو اسکی سرپرست آرایس ایس نے پابند کردیا ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سرگرمی دکھائے، ملک کے عام باشندوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں فوری حل طلب مسائل برف دان کی نذر کرکے ایسے موضوعات کو اٹھایا جارہا ہے جن کا ملکی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قارئین کو پتہ ہے کہ مودی حکومت کے اشارے پر اب ملک کی یونیورسٹیوں میں نام نہاد اسلامی دہشت گردی سے متعلق باقاعدہ کورس شروع کیا جارہا ہے، گذشتہ دنوں ملک کی مشہور ’’جواہر لال نہرو یونیورسٹی‘‘ میں اس طرح کے کورس کو شاملِ نصاب کئے جانے سے متعلق اطلاعات ا خبارات میں شائع ہوئیں، جس پر فوری ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکڑ ظفرالاسلام خان نے JNU کے رجسٹرار کو نوٹس جاری کیا، جسمیں یونیورسٹی کے انتظامیہ سے استفسار کیاگیا کہ آخر کس بنیاد پر اسلامی دہشت گردی کا کورس شروع کیا جارہا ہے؟ اخباری اطلاعات کے مطابق JNUکی اکیڈمک کونسل کے کئی ممبران نے اس فیصلہ کی مخالفت کی ہے، مگر انکی مخالفت کے باوجود یہ فیصلہ لیا گیا، دہلی اقلیتی کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی نوٹس میں یونیورسٹی کے انتظامیہ سے مختلف استفسارات کئے گئے ہیں، اقلیتی کمیشن نے پوچھا ہے کہ کیا اسلامی دہشت گردی کے بارے میں کورس شروع کرنے سے پہلے کوئی تصوراتی ورقہ تیار کیا گیا ہے ؟ اگر کیا گیا ہے تو اسکی کاپی مہیا کی جائے، اسی طرح اقلیتی کمیشن نے یہ بھی سوال کیا ہیکہ کیا اسلامی دہشت گردی کا موضوع کسی دوسری ہندوستانی یا غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جارہا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اسکی تفصیلات دی جائیں، نیز اس کورس کے تحت کس علاقہ پر فوکس کیا جائیگا ؟اس کورس کے مصادر کیا ہونگے ؟کونسی میتھولوجی اپنائی جائیگی ؟ کونسی ریفرنس کتابیں استعمال کی جائیں گی ؟ اور وہ کونسے ممتاز اکسپرٹ ہیں کہ جو اس موضوع پر ریسرچ کریں گے اور اسکو پڑھائیں گے ؟کیاJNU کی موجودہ انتظامیہ نے کورس شروع کرنے سے قبل کیمپس میں طلباء اور باہر کی سوسائٹی پر اس سے مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں غور کیا ہے ؟ دہلی اقلیتی کمیشن نے اکیڈمک کونسل کے ممبران کی پوری لسٹ بھی طلب کی ہے اور اسکی بھی وضاحت چاہی ہے کہ کون کون سے ممبران اس میٹنگ میں شریک تھے جس میں یہ فیصلہ لیا گیا، اخباری اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ بہت سے ممبران نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے، کیا اس تجویز پر ووٹنگ ہوئی تھی اور اگر ہوئی تھی تو اس کا کیا نتیجہ تھا ؟دہلی اقلیتی کمیشن نے یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات کے جوابات یونیورسٹی انتظامیہ سے طلب کئے ہیں۔

نام نہاد اسلامی دہشت گردی کورس کے خلاف مسلم تنظیموں کا ردِ عمل بھی سامنے آیا ہے، مختلف تنظیموں کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کی مخالفت کی گئی ہے، جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکرٹری مولانا محمود مدنی نے وزارتِ تعلیم اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایم جے کمار اور چانسلر وجئے کمار سراسوت کو خط لکھ کر آگاہ کیا ہے کہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا ایک گھناؤنی سازش اور مذہبِ اسلام کی توہین ہے، جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا ہے، یہ دراصل اسلام فوبیا کاملعون پروپیگنڈہ ہے، جس سے اکیڈمک فرقہ پرستی کو فروغ ملے گا، مولانا محمود مدنی نے اپنے خط میں JNU کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا توجمعیت علمائے ہند عدالتی چارہ جوئی پر مجبور ہوگی، یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ سیکولر کردار کی حامل یونیورسٹی اتنا نیچے اتر کر فرقہ پرست عناصر کے مقاصد کی تکمیل کررہی ہے، جو ملک کے تانے بانے درہم برہم کرنے پر آمادہ ہیں، مولانا مدنی نے بجا کہا کہ کسی بھی مذہب کو دہشت گردی سے جوڑنا بنیادی طور سے غلط ہے، یہ بات انتہائی عصبیت کی مظہر ہے کہ اسلام جیسے پرامن مذہب کو جس کی نگاہ میں ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، دہشت گردی جیسے ناپاک عمل کے ساتھ نتھی کرکے پیش کیا جائے، انہوں نے استدلال کیا کہ د ہشت گردی کے نام پر پوری دنیا میں جنگ کرنے والی بڑی طاقتیں بھی اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح اختیار کرنے کی ہمت نہیں کرتی ہیں، یہاں تک کہ امریکہ کے سابق صدور جارج بُش اور براک اوباما اور روس کے صدر پوٹین نے واضح طور پر اسلامی دہشت گردی جیسی اصطلاح کو غلط قرار دیاہے، اور انکے دلائل تھے کہ یہ طرز کلام دہشت گردوں کے اس پروپیگنڈہ کو جائز ٹہرانے کے مترادف ہے جواپنے عمل کو مذہبی جنگ بتلارہے ہیں۔

ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں میں مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے بھی اسلامی دہشت گردی کورس شروع کرنے کو واپس لینے کا حکومت سے مطالبہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ حکومت اعلی تعلیم کو مسلسل فرقہ وارانہ رنگ دینے کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں پر حملے کررہی ہے، ہندوستانی تاریخ کو ہندو مذہبی کتابوں کے طور پڑھانے کا کام کرکے اس کا بھگوا کرن کر رہی ہے اور اب وہ مرکزی یونیورسٹیوں کے نصاب کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے میں لگی ہوئی ہے اسی لئے اس نے اسلامی دہشت گردی کورس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سے ملک کے اتحاد اور سالمیت کو سنگین نقصان پہونچے گا، کمیونسٹ پارٹی نے سوال کیا ہے کہ آخر JNU میں اسلامی دہشت گردی کی پڑھائی شروع کرنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی، اگر دہشت گردی کا مطالعہ کرنے کے بارے میں کوئی نصاب شروع کرنا ہی تھا تو مذہبی انتہا پسندی سے متعلق کورس شروع کیا جانا چاہئے، نہ کہ کسی ایک مذہب کو نشانہ بنایا جائے۔

یہاں یہ حقیقت ذہنوں سے اوجھل نہ ہو کہ JNU کا حالیہ اقدام ؛دراصل آرایس ایس کی کارستانی ہے یہ آرایس ایس کے ان اسلام دشمن اقدامات کا حصہ ہے جن پر وہ روزِ اول سے کاربند ہے، مسلم بادشاہوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کا کام آرایس ایس کی نگرانی میں کافی عرصے سے جاری ہے، ملک کے تعلیمی نظام کو بھگوا رنگ دینا اور ملک بھر میں ایسے نصاب کی تیاری جسے پڑھ کر ہندوستانی بچوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے ؛آر ایس ایس کا دیرینہ خواب ہے، مودی حکومت میں یہ کام انتہائی سرعت کی ساتھ ہورہا ہے، ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولناچاہئے کہ ملک کا تعلیمی نظام آر ایس ایس کا اولین نشانہ ہے، سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل تاریخی مواد کو بہت کچھ تبدیل کیا جاچکا ہے، اقتدار کے نشہ میں چور سنگھ پریوار اس بات کا خواہاں ہے کہ ملک کے عام باشندے اسلام اور مسلمانوں سے متنفر ہوجائیں، یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ ملک میں کھلے عام دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ٹولہ جس نے مختلف فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کیا؛آج اسلام پر انگلی اٹھارہا ہے، وہ اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتا ؟کیا گاندھی جی کا قتل کرنے والا اسی ٹولہ کا ایک فرد نہیں تھا، اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملک میں جہاں کہیں فسادات ہوتے ہیں اور بدترین دہشت گردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کیا اسمیں اسی ٹولہ کے لوگ پیش پیش نہیں رہتے ہیں ؟گجرات فسادات میں دو ہزار سے زائد بے قصور مسلمانوں کو ہلاک کرنے والے آخر کونسے دہشت گرد تھے ؟سنگھ پریوار کے دہشت گرد ٹولہ کی ہزاروں دہشت گردانہ کاروائیوں سے کون واقف نہیں ہے ؟دہشت گردی کی سیاہ تاریخ رکھنے والا یہ سنگھی ٹولہ آج اسلام کی طرف دہشت گردی کو منسوب کررہا ہے، JNU میں اسلامی دہشت گردی کورس کا آغاز دراصل سنگھ پریوار کا ایک شر انگیز شوشہ ہے، جسے مسلمان ہی نہیں ملک کا ہر انصاف پسند باشندہ برداشت نہیں کرسکتا، مسلم قیادت کو چاہئے کہ وہ دیگر برادرانِ وطن کو ساتھ لیکر سختی کے ساتھ اس نام نہاد کورس کی مخالفت کرے، یہ اکیڈمک طبقہ میں اسلام کی تشبیہ کو بگارنے کی گہناؤنی سازش ہے، حکومت سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وہ ملک میں سارے تعلیمی مسائل سے فراغت پا گئی ؟ اس وقت ملکی عوام کا ایک بڑا طبقہ بنیادی تعلیم سے محروم ہے، سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی ناقابلِ بیان ہے، دیہی باشندے اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں، بیشتر اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے، حکومت کو چاہئے کہ تعلیم کے حوالہ سے پہلے ان حل طلب مسائل پر توجہ دے۔

جہاں تک اسلام اور دہشت گردی کا سوال ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام کا دہشت گردی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، اسلام اور دہشت گردی کے درمیان بُعد المشرقین ہے، اپنے تو اپنے غیروں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اسلام ؛انسانیت و رواداری کاعلمبردار ایک پرامن مذہب ہے دین اسلام کی بنیادی کتاب قرآن مجید میں امنِ عالم سے متعلق ایسی زریں ہدایات ہیں کہ جن کا دوسرے مذاہب میں فقدان ہے، قرآن مجید کی ہر سورت سے پہلے تسمیہ کی شکل میں جو آیتِ شریفہ ہے اسمیں خدائے بزرگ و برتر کو رحمن و رحیم کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، قرآن مجید اللہ تعالی کو رب العالمین کے طور پر پیش کرتا ہے، اسلام میں انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ تک حسن سلوک کی تاکید ہے،  پیغمبر اسلام ﷺ نے ایک ایسے وقت انسانیت کی آواز بلند فرمائی جب ہر طرف دہشت گردی کا بول بالا تھا اور انسانی معاشرہ خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔