اسلامی نصاب  اور معیاری اداروں کی ضرورت

محمد صابر حسین ندوی

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی پہلی کرن علم کے لبادہ میں ظاہر ہوئی اور اسی کی روشنی تلے اسلامی تہذیب و ثقافت اور حضارت نے جنم لیا، اس کے ماننے والوں نے اسی آب حیات سے سینچ کر پورے عالم کو گل گلزار اور امن وامان کا گہوارہ بنادیا، دنیا وآخرت کی فلاح و بہبودی میسر ہوئی، تخت و تاج، جاہ وحشم نے ان کے قدم چومے، ؛لیکن زہے افسوس کامیابی و کامرانی کا یہ تیز گام سیلاب علم کی تقسیم (عصری ودنیاوی) کی زد میں آگیا، اور رفتہ رفتہ کارواں ٹوٹ، پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوتا گیا، حتی کہ آج غیروں کی غلامی، ذلت و رسوائی، اور مغربی نظام تعلیم کو اپنانے اور ان کے ہاتھوں نوخیز مسلم نسلوں کی قربانی پر مجبور ہوگئے، حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ؛اسلامی زندگی کا مقصد ہر میدان میں حسن عمل ہے ’’لیبلوکم ایکم احسن عملاً‘‘(ہود:۷)جس کا تعلق اطاعت احکام کے ساتھ ساتھ انتظام و انصرام سے بھی ہے، خلافت، ثقافت اور صلا حیت سے بھی ؛لیکن اس کے لئے علم صلب کی حیثیت رکھتا ہے، اسی لئے حضرت آدمؑ کو سب سے پہلے علم سے مزین کیا گیا، اس سلسلہ میں قابل غور امر یہ ہیکہ ؛حضرت آدمؑ کو بلا کسی دنیوی اور دینی تفریق کے صرف اور صرف اشیاء کے خواص کاعلم سکھایا گیا ’’علم الاآدم الاسماء کلھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(بقرۃ:۳۱)جو کہ عین سائنس ہے، اللہ نے حضرت داؤدؑ کو زرہ سازی کا علم عطاکیا’’وعلمناہ صنعۃ لبوس لکم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (أنبیاء:۸۰)اس دور کی انفارمیشن ٹکنالا جی، ٹیلی کمیونیکیشن اور انجینئرنگ بھی دائرہ عمل میں داخل ہے۔

دراصل کائناتی علوم اور تشریعی علوم دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں، اسی لئے قرآن و سنت میں جہاں جہاں حصول علم کی تلقین ہے ؛وہاں علم سے مراد بس علم ہے، البتہ سورہ حدید کی ایک آیت ترتیب تعلیم کی بنیادہوسکتی ہے، اس آیت میں جو باتیں پیش کی گئی ہیں وہ یہ ہیں :۱۔ ہم نے بھیجا اپنے رسولولوں کو نشانیاں لے کر اور ہم نے اتارا ان کے ساتھ کتاب۔ اس فقرہ میں اشارہ ہیکہ ہم کتاب وسنت کو اپنے نظام تعلیم میں اولین بنیاد بنائیں۔ ۲:۔ اور میزان تاکہ لوگ قائم رہیں عدل پر۔ میزان سے مراد عادلانہ قوانین ہیں، اور پوری شریعت کاملہ بھی مراد ہے، قوانین کیلئے قوت نافذہ بھی ضروری ہے، اس لئے قوت نافذہ کے حصول کی کوشش بھی مشروع ہے۔ ۳:۔ اور ہم نے نازل کیا لوہا اس میں بڑی طاقت ہے اور نبے شمار فائدے ہیں انسانوں کیلئے۔ یہاں لوہا سائنس ٹکنالاجی اور انجینیرنگ کیلئے استعارہ ہے، لوہے کے ذریعہ ہی نہ صرف تلوار بلکہ تمام جدید اسلحہ تیار ہوتے ہیں، چنانچہ ضرورت ہے کہ اس تفریق سے صرف نظر بنیادی ایمانیت کی تعلیم کے بعد حسب استطاعت دیگر علوم پر عبور پیدا کیا جائے، اور امت و انسانیت کیلئے باعث رشک کارنامہ انجام دیاجائے۔ (دیکھئے:معاصر دینی تعلیم، مشکلات اور حل )

علم کا اصل مقصود خشیت الہی ہے ’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘(فاطر:۲۸)خواہ وہ علم دنیاوی ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی ایک گونا معرفت الہی کا سبب ہوسکتے ہیں، کیونکہ خلقت خداوندی میں غور و خوض اور اس کا علم نہ صرف دنیاوی ترقی کی ضامن بلکہ اخروی راستہ کی مشعل بھی ہے، اسی لئے قرآن نے بھی خوب اس کی طرف دعوت دی ہے؛لیکن عصر حاضر میں اسے تخریب کاری، انسان بیزاری اور خدابیزاری کا وسیلہ بنا لیا گیا ہے، صحیح بات تو یہ ہیکہ آج اسلام دشمنی کی افزائش کا یہی مرکز و منبع بھی ہے، جس میں بہت حد تک مسلمانوں کی پستی، زبوں حالی اور لا ابالی بھی شامل ہے، حالانکہ فقہ اسلامی کے تناظر میں دیکھا جائے تو مطلوبہ معیار تعلیم اسلامی ماحول میں پڑھائے جانے کیلئے ایسے اداروں کا انتظام کر نا مسلمانوں پر واجب ہے، اصولیین کے نزدیک یہ قاعدہ مسلم ہے کہ؛’’مالا یتم الواجب الا بہ فھو واجب‘‘(الاشباہ والنظائر للسبکی:۱,۱۱، وللسیوطی:۱۵۸)، ظاہر ہے کہ آج مسلمان عصری تعلیم سے دور رہنے کی وجہ سے جدید معاشرہ، ایجادات اور ٹکنالاجی سے دور ہیں، ہر چیز میں مغرب کے دست نگر بنے ہوئے ہیں، اور ان کی تقلید کرنے اور بادل نخواستہ اسرائیل جیسے ملکوں کے پروڈکٹ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، نتیجتاً ’’الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ‘‘کی تصویر گرد ہوتی جارہی ہے، ایسے میں ان جدید ذرائع اور نظام تعلیم بالخصوص اسلامی ماحول میں بنیادی اسلامی معلومت کے بعد قائم کرنا واجب کی حد تک ضروری معلوم ہوتا ہے، ’’الامر بالشئی امر بلوازمہ والنھی عن الشئی نھی عن لوازمہ‘‘۔

یہ واضح رہے کہ وجوب کا ثبوت تب ہی ہوگا جبکہ مسلم باشندگان اقتصادی اعتبار اس معیار کے ہوں ؛کہ اگر وہ چاہیں تو اس کا انتظام کر سکتے ہیں، لیکن اگر ایسا نہ ہو، جیسا کہ ہندوستان میں اکثر مقامات پر ہے تو پھر یہ حکم مستحب اور مباح کے درجہ میں ہوگا، کیونکہ خود قرآن کا اعلان ہے ’’لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا‘‘ (بقرۃ: ۶ ۸ ۲) اور ’’فاتقوا مااستطعتم‘‘(التغابن:۱۶)نیز بعض دفعہ اس کا قیام مکروہ و ناپسندیدہ بھی ہوسکتا ہے، جبکہ اس کا مقصد محض تشہیر و تعریف اور خدمت خلق سے پرے زرغلامی رہ جائے، اصول فقہ کا یہ قاعدہ مشہور ہے، ’’الامو ر مقاصدھا‘‘(الاشباہ للسیوطی:۸، للمصری:۵۳، القاعد الفقھیۃ:۱۳۶، الوجیز:۵۹)اور’’الوسائل لھا حکم المقاصد‘‘(الفروق:۱۱۱، ۱۱۲)۔ واللہ اعلم

اسی طرح نصاب تعلیم کا مسئلہ ہے، جنگوں میں قومیں فتح کی جاتی ہیں ؛لیکن نصاب تعلیم کے ذریعہ نسلیں فتح کی جاتی ہیں، جس کا بین ثبوت مغربی افکار وخیال کے تحت مروجہ نصاب تعلیم ہے، جس کے ذریعہ وہ مسلم قوم جو صلیبی جنگوں کی ہولناکیوں میں پسپا نہ ہو سکی؛وہ بھی مفتوح ہوگئی، اور متعدد غیر شرعی خیالات مسلط کر دئے گئے، تاہم اب بھی اٹھ کھڑے ہونے اور کم ازکم اپنے ماتحت اداروں کیلئے درست نصاب تعلیم تیار کرنے کی سخت ضرورت ہے، ، جس کا خاکہ خود سورہ حدید میں مذکور ہے:۔

۱۔ کتاب و سنت کو معیار تعلیم بنایا جائے، ایمانیات کے ساتھ ساتھ تمام تر تحقیقات ونشریات کا دائرہ عمل نصین ہی ہوں، کیونکہ ان کے بغیر انسانوں کی رہبری، کا میابی، اور ترقی ممکن نہیں، حضور اکرم ؐ نے فرمایا :’’ترکت فیکم امرین لن تضلوا ماتمسکتم بھما:کتاب اللہ وسنۃ رسولہؐ‘‘(مسلم:۳۰۰۹)۔

۲۔ جدید آلات، ٹکنالاجی اور ذرائع کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے مختلف شعبہائے جات میں تخصصات کو اہمیت دی جائے ؛اور ’’من تشبہ بقوم فھو منہ‘‘ (ابوداود:۴۰۳۱)کی بے جاتاویل کرتے ہوئے اور پس پشت انسانیت کو انسانی ترقی سے دوررکھنے کی اور تیسرے نمبر کا شہری بننے کا سبب نہ بنایا جائے، جب کہ خود حضور اکرم ؐ نے قابل لحاظ طور طریقوں کو اپنایا ہے، غزوۂ خندق کی ہلاکت سے ابرنے کیلئے خندق کھودنے کا مشورہ حضرت سلمان فارسی ؓ نے یہ کہتے ہوئے دیا تھا ؛کہ فارس کے لوگ ایسے موقعوں پر یہ تدبیر اختیارکرتے ہیں، تب بھی آپؐ نے اسے قبول فرمایاتھا، (غزوۃ الخندق، ویکیبیدیا)، ایک غزوہ میں آپؐ نے منجنیق یعنی اس زمانے کی توپ کا استعمال فرمایا جو دوسری قوم نے تیار کیا تھا، (غزوہ الطائف، ویکیبیدیا)، ضرورت پڑنے پر آپؐ نے اپنے اصحاب کو دوسری زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی (ترمذی:۲۷۱۵)البتہ ان چیزوں میں مشابہت قطعاً قبول نہ ہو گی جو اسلامی شعائر اور عقائد پر حملہ آور ہوں، مذکورہ آیت اور فرمان نبویؐ ’’ان الیھود والنصاری لا یصبغون فخالفوھم‘‘(بخاری:۳۴۶۲، مسلم:۲۱۰۳) جیسی روایتوں سے دراصل یہی مراد ہے۔

۳۔ تاریخ اسلامی کو نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جائے۔ واقعہ یہ ہیکہ تاریخ قوموں کا نسب نامہ ہے، جس طرح اگر ایک انسان اپنے آباء و اجداد کے نام سے محروم ہوجائے تو وہ عوام الناس میں بے معنی اور بے حیثیت قرار پاتا ہے، طعن و تشنیع اور گوشہ چشم کا شکار ہوجاتا ہے، ٹھیک اسی طرح قومیں اپنی تاریخ کی ناواقفیت کی بنا پر یتیمی اور ظالم و جابر کیلئے لقمۂ تر بن جاتی ہیں، بالخصوص مسلمان ؛کہ جن کی اصل اور بنیاد اسلاف ہیں، یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں کو اولیں سرچشموں سے محروم کرنے اور انہیں ان کے متعلق شک و شبہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

۴۔ حقیقت یہ ہیکہ مطلوبہ معیار تعلیم کے مطابق عصری تعلیم کانظام ؛اسلامی ماحول میں ہو جانا ایک گونا کسی خواب کا شرمندہ تعبیر ہوجانا ہے، ایسے میں نصاب تعلیم میں طلبہ کو صحیح نہج و فکر حیات بخشنے اور انسانوں کا رشتہ خالق انسان سے جوڑنے کی بھی فکر ہونی چاہئے، عمدہ ماحول وتربیت اور پرداخت پر خصوصی نظر ہو، جس کے لئے معاون و مناسب محفلیں، اور خصوصی نشست و لکچرز کا بھی انتظام ہو، جو تعمیر انسانیت کے موضوع پر مکمل رہنمائی کے ساتھ خدا اعتمادی اور خود اعتمادی کا سبق دیں۔

۵۔ عصر حاضر میں جدید موضوعات اور فکریات کا انبار ہے، لیکن ان سے دوری بھی مناسب نہیں، کیونکہ معرفت الہی میں معرفت شیطان کا بھی بہت بڑا دخل ہے، اسی لئے مشہور اور دیگر افکار خیالات اور تاریخ کا تقابلی مطالعہ بھی نصاب تعلیم میں اور تعمیر شخصیت میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتی ہیں، خیال رہے محض پڑھا دینا یا نصاب میں شامل کردینا مناسب نہیں ؛ بلکہ اسلام سے اس کا تقابلی جائزہ اور مطالعہ پر توجہ مرکوز ہو نی چاہئے، جس سے یقیناً خاطر خواہ نتائج بپا ہونگے، نیز چونکہ بعض مضامین حکومت کی جانب سے پڑھانا لازم ہوتے ہیں اور مخالفت کی صورت میں اسکول کے وجود پر خطرہ ہوتا ہے؛ ایسے میں یہ قدم حکومت کی طرف سے آسانی کا باعث ہونگے۔

تبصرے بند ہیں۔