اسلام آباد کا فرض شناس سپاہی

مئی 2016ء کی ایک روشن اور سہانی صبح تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر طرف میرٹ اور عدل وانصاف کا دور دورہ تھا۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ ماضی بعید میں پروٹوکول کے قافلوں کے جلو میں سڑکوں پر پھنکارنے والے حکام عوام الناس کے ساتھ اومنی بسوں اور ریل گاڑیوں میں سفر کرتے نظر آتے تھے۔ آئے روز لاری اڈوں اور ریلوے سٹیشنوں پر بڑے بڑے جج، جرنیل، بیوروکریٹ، وزیر اور مشیرقطار بنائے ٹکٹیں خریدتے دکھائی دیتے۔ سرکاری کارندے انسانی مساوات کے قیام کیلئے شب وروز مصروفِ عمل تھے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں چند گھنٹے پہلے ہونے والی بارش اور بونداباندی سے گرمی کی شدت دم توڑ چکی تھی اور موسم بہارجیسا خوشگوار ہو چلاتھا۔ ضلع کچہری کے گیٹ پر مادرِ وطن کی بانکی سجیلی پولیس کا بہادر سپاہی اپنی ڈیوٹی پر مستعد کھڑاتھا۔ آپ کا تعلق شاہی پولیس کی سپیشل برانچ المعروف خفیہ پولیس سے تھاجسے وطن دشمن شرپسند عناصر پرنگاہ رکھنے کا حکم ملا تھا۔ بلاشبہ ایک زمانے میں ہیر رانجھا فلم میں کچھ ایسا ہی حکم فلمسٹار رنگیلا کو بھی ملا تھا۔ انھیں کہا گیا تھا کہ رانجھے پر”اکھ” رکھیں جوہیر کے عشق میں کامے کا بھیس بدلے ہوئے تھا۔ رنگیلا صاحب ہیر پر تو بچپن سے ہی”اکھ” رکھتے تھے۔ چنانچہ اس نے اِدھر کی اُدھر کرتے ہوئے وہی "اکھ” ہیر سے اٹھا کر کامے پر رکھ لی۔

خیر ہم اسلام آباد کے ایمان افروز واقعہ کی طرف واپس آتے ہیں جس نے انصاف کا بول بالا اور شریف آدمی کا منہ کالا کردیا۔ کچہری میں پھیلے وکلاء اور سائلین کی بھیڑ میں فرض شناس سپاہی کو سفید بالوں اور سفید مونچھوں والا لگ بھگ چونسٹھ برس کاایک خوش لباس مشکوک آدمی، ایک دیگر مشتبہ کے ہمراہ اپنی طرف بڑھتا دکھائی دیا۔ صورتحال خاصی گھمبیر تھی۔ پیشہ ور سپاہی کی عقابی نگاہوں نے بوڑھے کے سفید بالوں سے د ھوکہ نہ کھایا۔ کیا معلوم، چاق وچوبند بوڑھا اندر سے کوئی سترہ سالہ خودکش بمبار ہو جس نے نقلی سفید بال لگا رکھے ہوں؟ بہادر سپاہی نے لمحہ بھر کو سوچا اور پھر جان ہتھیلی پر رکھ کر مشکوک بوڑھے کی جسمانی تلاشی لینے کا اصولی فیصلہ کرلیا۔

"میں سابق چیئرمین سینیٹ آف پاکستان سید نیر حسین بخاری ایڈووکیٹ ہوں جو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 49سے مسلسل چھ بار ایم این اے منتخب ہواتھا ۔ میرے قبضے میں کوئی بم یا بارود ہے نہ ہی خودکش دھماکہ کرنے کا کوئی ارادہ”، بوڑھے نے سپاہی کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ "یہ چیئرمین سینیٹ کیا ہوتا ہے اور وہ بھی سابق؟” سپاہی کی ٹٹولتی ہوئی نظروں نے سوال کیا۔ "وہ جمہوری بندوبست میں ایک اہم عہدیدار ہوتا ہے۔ صدر مملکت فوت ہوجائے تو اس کی جگہ ملک کے آئینی سربراہ کا منصب سنبھالتا ہے۔ تمہیں یاد نہیں جنرل ضیاالحق کی ناگہانی وفات پر 17اگست 1988ء کو چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان نے صدر کا عہدہ سنبھالا تھا؟” بوڑھے کے الفاظ گلے میں اٹک کر رہ گئے۔ "اہم آدمی؟ ارے میں کسی سابق ہو جانے والے وی آئی پی کو نہیں پہچانتا۔” سپاہی نے انسانی مساوات کا علم بلند کرتے ہوئے کہا۔ اصولی طور پر محض تین سال کے مختصر عرصے یعنی 2012ء سے 2015ء تک اسلام آباد میں کسی طرح کا چیئرمین وغیرہ رہنے والے گمنام شخص کو خفیہ پولیس والا پہچان بھی کیونکر سکتا تھا۔ وہ کوئی آنسہ ایان علی جیسا مشہور اور ماڈل پاکستانی تھوڑا ہی تھا جس کے ساتھ سیلفیاں بنواکر سپاہی کے جوڑی دار فخر سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ پھر خفیہ پولیس کا کام تو سیدھا سادہ ہوتا ہے۔ کسی بھی وقوعے کے بعد حکامِ بالا کوتحریری اطلاع بصورتِ سورس رپورٹ "بروقت "بھجوانا تاکہ آئندہ ایسے وقوعوں سے بچا جاسکے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ شرپسند اگلے وقوعے کا طریقۂ واردات بدل لیں ۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں اگلی سورس رپورٹ بمطابق وقوعہ بدلنی ہوتی ہے ۔

"مگر تم بذاتِ خود میرے ساتھ اس زمانے میں ڈیوٹی کر چکے ہوجب میں ابھی سابق نہیں ہوا تھا”، بوڑھے نے کہنا چاہا۔ تاہم اس کی شریفانہ وضع قطع کا بھیس دیکھ کر سپاہی کو اس کے مشتبہ ہونے کا یقین سا ہوچلا تھا ۔ سابق وی آئی پی تلاشی دینے سے انکاری ہوکر اور یوں کارِ سرکار میں مداخلت کرکے سپاہی کو آناََ فاناََ قومی ہیرو کے رتبے پر فائز کروا سکتا تھا ۔ چنانچہ اس کے لبوں پرسفاک مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی اور اس کاجذبۂ تلاشی فزوں تر ہوگیا۔ اس نے بوڑھے کی تلاشی لینے کیلئے کسی مجاہد کی طرح قدم آگے بڑھایا ۔ اسی اثنا میں بوڑھے کے مشتبہ ساتھی نے بہادر سپاہی کو تھپڑ رسید کردیا۔ تھپڑ کا لگنا تھا کہ غیور پاکستانی قوم کا آزاد میڈیاجاگ اٹھا۔ ہر سکرین پر شوروغل اور بینڈباجوں کے ساتھ بہادر سپاہی کی تحسین اور تھپڑ مارنے والے کی تذلیل کا آغاز ہو گیا۔ لگتا یوں تھا جیسے میڈیائی عدالتیں وطنِ عزیز کے بہادر فرزند کو سول ایوارڈ اور ڈائریکٹ تھانیدار کے عہدے پر ترقی دلوا کرہی رہیں گی۔

قارئینِ کرام! اسلام آباد کے سپاہی کی فرض شناسی پاکستان کی روشن تاریخ کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ وطنِ عزیز میں اس طرح کے ہیروز آسمان پر ستاروں کی مثل بکھرے پڑے ہیں۔ اپنے قومی شاعر تو 85سال پہلے بھی اپنی کشتِ ویراں سے ناامید نہیں تھے ۔ آخر کو کچھ سُن گُن لے کر ہی انھوں نے اپنی مٹی کی زرخیزی کی گواہی دی تھی۔ یہ جو آئے روز آپ موٹر وے اور نیشنل ہائی وے پر وفاقی وزیرو ں اور منتخب نمائندوں کے چالان کئے جانے اور پھر بعد میں نجی ٹیلیویژن چینلز پر بہادری کی ان داستانوں کی حسبِ ضابطہ تشہیر ملاحظہ فرماتے رہتے ہیں اسی آناََ فاناََ ہیرو ٹیکنالوجی ہی کا تو شاہکار ہیں ۔ عمر اکمل نامی ایک نوجوان کرکٹر کو بھی ایک خاص ٹریفک وارڈن آئے روز ٹریفک قوانین سکھاتا رہتا ہے۔ قانون کی اس تعلیم کے دوران عمر اکمل کو تھانے لے جاکر پھینٹی لگانے اور ایک آدھ رات حوالات میں بند رکھنے کا پریکٹیکل بالکل مفت کروایا جاتا ہے۔

اس قدر فرض شناس کاروائیوں کے باوجود کسی شکی مزاج کے پیٹ میں خواہ مخواہ مروڑ اٹھتے رہیں کہ ججوں ، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور خود پولیس والوں کا چالان ہوتا ہے نہ تلاشی اور عام طور پر صرف حاضر اور سابق منتخب نمائندوں ہی کو مشقِ ستم بنایا جاتا ہے تو ایسے مشتبہ عناصر کے خلاف کومبنگ آپریشن کر کے تصدیق کرنا ضروری ہے کہ ان کا تعلق موساد سے ہے یا وہ دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ ہیں۔ ان احمقوں کومعلوم ہی نہیں کہ پاکستانی لغت کے مطابق احتساب کا مطلب ہی سیاستدانوں کا محاسبہ ہے۔ باقیوں کے خلاف تو انتظامی کاروائیوں کی کاروائی ڈالی جاتی ہے۔ میرے عزیزہم وطنو ، اندریں حالات حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اگر اربابِ اختیار اسلام آباد کے فرض شناس سپاہی کو قومی ایوارڈ دینے میں پس وپیش کرتے نظر آئیں تو انھیں سبق سکھانے کیلئے کسی اے، بی، سی ، ڈی ، ای یا ایف چوک میں دھرنا دینے کیلئے نکل کھڑے ہوں اور تب تک وہاں سےہلنے کا نام نہ لیں جب تک کہ حروفِ تہجی کی ترتیب سے آگے جی، ایچ اورکیو وغیرہ نہ آ جائیں ۔پاک سرزمین شاد باد!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔