اسلام میں احتیاط کا مسئلہ

قمر فلاحی

دین اسلام میں احتیاط کوئی چیز نہیں ہے حدیث ہے:
عن العرباض بن سارية قال:وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم موعظة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقلنا يا رسول الله إن هذه لموعظة مودع فماذا تعهد إلينا؟ قال: ” قد تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك، من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا، فعليكم بما عرفتم من سنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ، وعليكم بالطاعة وإن عبدا حبشيا، فإنما المؤمن كالجمل الأنف حيثما قيد انقاد.” رواه ابن ماجه قال الشيخ الألباني : صحيح.
"میں نےتمہیں ایسی شاہراہ پہ چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے اس سے ہٹنے والا ہلاک ہوکر رہےگا تم میں سے جو لوگ باقی رہیں گے وہ بہت زیادہ اختلافات کا سامنا کریں گے اس وقت تمہارے لئے میری جانی ہوئی سنت کی پیروی لازم ہے اسی طرح خلفاء راشدین کی سنت اور تم انہیں جبڑوں سے تھامے رہنا،………”لہذا کسی بھی مسئلہ میں یہ کہنا کہ احتیاطا ایسا کر لینا چاہیے درست نہیں ہے، اسے سنت رسول یا خلفاء راشدین میں تلاش کرنا ہوگا.
پرہیز ان جگہوں پہ جائز ہے جہاں مسئلہ مشتبہ ہو حدیث میں ہے:

عن أبي عبد الله النعـمان بن بشير رضي الله عـنهما قـال: سمعـت رسـول الله صلي الله عـليه وسلم يقول: (إن الحلال بين وإن الحـرام بين وبينهما أمور مشتبهات لا يعـلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات فـقـد استبرأ لديـنه وعـرضه ومن وقع في الشبهات وقـع في الحرام كـالراعي يـرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه
حلال اور حرام واضح ہےلیکن اس کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں (آیا وہ حلال ہیں یا حرام )تو جو شخص مشتبہ چیزوں سے خود کو بچا لیا اس نے گویا اپنے ایمان اور اپنی عزت کو بچا لیا. قرآن مجید میں ہے:

هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَـٰبَ مِنۡهُ ءَايَـٰتٌ مُّحۡكَمَـٰتٌ هُنَّ أُمُّ ٱلۡكِتَـٰبِ وَأُخَرُ مُتَشَـٰبِهَـٰتٌ‌ ۖ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَـٰبَهَ مِنۡهُ ٱبۡتِغَآءَ ٱلۡفِتۡنَةِ وَٱبۡتِغَآءَ تَأۡوِيلِهِۦ ۗ وَمَا يَعۡلَمُ تَأۡوِيلَهُ ۥۤ إِلَّا ٱللَّهُ ۗ وَٱلرَّٲسِخُونَ فِى ٱلۡعِلۡمِ يَقُولُونَ ءَامَنَّا بِهِۦ كُلٌّ مِّنۡ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُوْلُواْ ٱلۡأَلۡبَـٰبِ (ال عمران 7)

وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے وہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں گمراہی چاہنے اور اس کا پہلو ڈھونڈنے کو اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔
فرض کیجئے کسی کو تین اور چار رکعت میں التباس ہوجائے تو یہاں شک کو چھوڑ کر یقین پہ عمل کرنا ہے اور یقین تین پہ ہے، اسی طرح کسی کو شک ہوجائے کہ ریاح خارج ہوئی یا نہیں تو اسے شک میں نہیں پڑنا بلکہ دو یقینی چیزوں میں سے ایک کو دیکھنا ہے کہ اس نے آواز سنی یا بد بو محسوس کیا اگر نہیں تو نماز منقطع نہ کرے.اگر ابر آلود ہو اور چاند نہ دکھے تو تیس کے روزے مکمل کرنا ہے شک میں مبتلا نہیں ہونا ہے.

تبصرے بند ہیں۔