"اسلام میں طلاق کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ”

محمد فراز احمد

آئے دن اسلام کے متعلق شر پسند افراد کی جانب سے کچھ نہ کچھ بیان بازیاں کی جاتی ہیں اور آج کل ‘طلاق’ کے مسئلہ کو لیکر اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے کی پرزورکوشش کی جا رہی ہے جس کے لئے حل پیش کرنا لازم و ملزوم ہے.
اسلام وه پہلا مذہب ہے جس نے عورت اور مرد کے درمیان نکاح اور طلاق کے طریقوں کی وضاحت کی.  قرآن کے مطابق ایک مرد اور عورت نکاح کے ﺫریعہ ایک بندهن میں بندھتے ہیں جو محض سماجی بندهن یا Social contract ہے.  مرد اور عورت چند لوگوں کے روبرو اس عہد نامہ پر اتفاق کرتے ہیں دونوں جانب سےایک ایک فرد اس معاملہ میں تجویز رکهتا ہے اور دو افراد اس عہد نامہ کی گواہی دیتے ہیں اور قاضی اس عہد نامہ کی تفصیلات لکهتا ہے اور قرآن کی چند آیات کی تلاوت اور قبول و اقرار کے بعد اس عہد نامہ پر دستخط کئے جاتے ہیں اور دونوں افراد شوہر بیوی قرار دئیے جاتے ہیں.
مگر اسلام نے جہاں اس رشتے کے اصول وضع کئے ہیں وہیں انسانی مزاج کا لحاظ کرتے ہو ئے دونوں فریقین کو اس بندهن کو تحلیل کرنے کے اصول بهی دئے.  ایسا کرتے وقت اسلام نے اس بات کو مکمل طور پر تسلیم کرلیا ہیکہ اگر دونوں فریقین یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے مزاج باہم میل نہیں کهاتے ہوں اور مزاجوں کی ناہمواری اس بندھن کو تلخ بنا رہی ہو تو وه باہمی اتفاق کے ساتھ اس بندھن سے آزاد ہو سکتے ہیں .
اب یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ ایک مسلم مرد اپنی بیوی کو محض تین بار طلاق کہہ کر اپنی زوجیت سے علیحده کر سکتا ہے، مزید چند فتوؤں کی وجہ سے یہ نظریہ بهی پرورش پانے لگا ہے کہ یہ طلاقیں فون پر ،SMS کے ﺫریعہ ،ای میل کے ﺫریعہ بهی دی جاسکتی ہیں.  چند رپورٹوں میں یہ بهی کہا گیا ہے کہ مرد اگر نشہ کی حالت میں یا خواب میں بهی طلاق دے دیں تو فریقین زوجیت کے بندهن سے علیحده ہو جائین گے. ان فتوؤں نے بالی ووڈ کو اپنی فلموں کے لئے کافی کچھ مواد فراہم کیا ہے کہ وه ان اسلامی اصولوں کا مذاق اُڑائیں، جو چند کم پڑھے مولویوں کی پیدا شده فصلوں کا نتیجہ ہے.
یه بات قابل غور ہے کہ اسلام نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کو کیسے جائز قراردے سکتا ہے جب قرآن مسلمانوں کو نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کی تنبیہ کرتا ہے.  اس معاملہ میں میڈیا کا کردار بھی شرانگیز لگتا ہے .کچھ شر پسند عناصر ایسی چند طلاقیں اسٹیج کرواتے ہیں جن کا میڈیا کوریج کرایا جاتا ہے جو میڈیا کو خصوصاً اپنی TRP بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے. ممکن ہے یہ ٹی وی چینل چند کم پڑھے مولویوں کو رشوت دےکر ایسے احمقانہ فتوے حاصل کرلیتے ہوں، جو اسلام کی تضحیک کا باعث ہوتے ہیں.
اگرچہ قرآن طلاق کی اجازت دیتا هے مگر اس کے ساتھ حضوراکرم (صلعم) کی یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہیکہ "تمام جائز و حلال چیزوں میں خدائے تعالیٰ کو طلاق سے ﺫیاده نا پسندیده کوئی چیز نہیں. ”
قرآن کہتا ہے کہ ” طلاق دوبار ہے.  پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بَھلے طریقے سے اُس کو رخصت کردیا جائے.  اور رخصت کرتے ہو ئے ایسا کرنا تمہارے لئے جائز نهیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو.  البتہ یہ صورت مستشنیٰ ہے کہ زوجین کو اللّه کے حدود پر قائم نہ ره سکنے کا اندیشه ہو.  ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہوکہ وه دونوں حُدودِ الٰهی پر قائم نہ رہیں گے،تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضه دےکر علیحدگی حاصل کرلے یہ اللّه کی مقرر کرده حُدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدودِ الٰهی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں .  (سوره البقره: ۲۲۹)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کے لئے مرحلہ مقرر کئے گئے ہیں مگر کسی طرح یہ قرآنی احکام آج ہمارے بعض مفتیوں اور قاضیوں کے ﺫہنوں سے محو ہو چکے ہیں اور انھوں نے ایک هی نشست میں کہی گئی تین طلاقوں کو ازدواجی بندھن کے تحلیل ہونے کےلئے جائز قراردے دیا ہے جسکی وجہ سے اسلام دشمن ،طلاق کا مزاق اڑا رہے ہیں. ہمارے نبی(صلعم) نے ان لوگوں کو ،جو اس قسم کی طلاقوں کا استعمال کرتے ہیں سخت وعید سناتے ہو ئے کها تھا کہ یہ لوگ خدا کے احکام سے کھیلتے ہیں.

تبصرے بند ہیں۔