اسلام کا سیاسی کردار

منیر احمد خلیلی

 مسلم ممالک سے ہوں یا یورپ اور امریکہ کے، اپنے لبرل خیالات کو اسلام کا تڑکا لگانے کے عادی ہوں یا کھلے لبرل اورسیکولر،کالم نگار ہوں یا مضمون نویس اور مقرر، پولیٹیکل اسلام کی بحث کو دم نہیں لینے دیتے۔ مدتیں گزر گئی ہیں عالمِ اسلام میں کہیں اسلام کی مکمل کارفرمائی نہیں ہے۔ کوئی ایک ملک ایسا نہیں جس کا اجتماعی نظام اسلام کی روشنی میں وضع ہوا ہو۔اب تو اسلام کا نام لینے والی جماعتیں اور سیاسی شخصیات، غلبۂ اسلام، نفاذِ شریعت اور اسلامی انقلاب کے سارے نعروں کی نمی روایتی سیاست کے صحرانے چوس لی ہے۔ دینی جماعتوں نے سسٹم کے ساتھ جینے کا قرینہ سیکھ لیا ہے۔ مروج نظام میں انہیں جتناحصہ مل جائے وہ اس پر قانع اور خوش ہیں۔ بایں ہمہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی سطور میں جن طبقات کا ذکر ہوا ہے ان کے اعصاب پر سیاسی اسلام یا اسلامی سیاست کا خوف سوار ہے۔ وہ اس کے رد میں اپنے فکری گھوڑوں کو مسلسل دوڑا رہے ہیں۔ مذہب اور مذہبیت سے وابستہ ان کی نفسیاتی الجھن کم نہیں ہوتی۔ اگرچہ اصطلاحاًلفظ مذہب محدود طور پر کسی فقہی مکتبِ فکر یامسلکی نقطۂ نظر کے لیے بولا جاتا ہے۔

زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور انبیاء و رُسُل کی تعلیمات کی صورت میں ہدایت کا جو سرمایہ دیا وہ ’دِین ‘ کے نام پر دیاہے۔سیکولر اور لبرل ہوں یا لبرل اسلامسٹ حضرات ’مذہبی لوگ‘ اور ’مذہبی طبقہ‘  اور ’مذہب وسیاست‘ جیسے الفاظ ’دِین ‘ کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ سیاست یا عملی زندگی کے دیگر شعبوں میں جس چیز کی مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوایہی دِینِ حق ہے۔ دین و مذہب کے مخالف عناصر کی فکر سے قطعِ نظر ہم اپنے طور پر اس موضوع کا جائزہ لیں تو پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ آدم ؑ و اولادِ آدمؑ کو پیدا کر کے ان کے معاملات سے بے تعلق ہو گیا تھا یا ان کی زندگی میں بحیثیت خالق اس نے اپنا کوئی کردار برقرار رکھا؟ اگر تو تخلیقِ آدمؑ محض بے مقصد کھیل ہوتا تومٹی کے اس پتلے کو گوشت پوست کا جیتا جاگتا انسان بنا کر اور اس میں روح پھونک کر جہاں اور جیسا تھا وہیں پھینک دیا جاتا۔ پیدا کرنے والے نے تو اس کارخانہ ٔ ِ قدرت کی کسی بھی چھوٹی بڑی تخلیق کو کھیل تماشے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ جنّ و انس جیسی ذمہ دار اور صاحبِ ارادہ و اختیار مخلوقوں کے بارے میں تواس نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ یہ تخلیق کوئی فضول مشق نہیں ہے۔ فرمایا:وَ مَا خَلَقْتُ  الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا  لِیَعْبُدُوْنَ (الذٰریٰت:56 ) ’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں ‘۔یعنی جنوں اور انسانوں کو میں نے اس لیے پیدا کیا کہ ان کی زندگی کی ساری عمارت ہدایت کے اس نقشے پر کھڑی ہو جو میں نے اپنے انبیاء و رُسُل اور اپنی کتابوں میں دیاہے۔ گویا یہ امر طے ہو گیا کہ آدمؑ و بنی آدمؑ کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی زندگی سے خالِق کو نکال باہر کر دیں اور اپنی زندگی من مانی پر استوار کریں۔

  انسان زمین پر بطورِ خلیفہ یا نائب پیدا کیا گیا۔اسے مادّی اور دنیاوی زندگی سے تعلق رکھنے والی چیزوں کا عِلم عطا کیا گیا۔ ا بلیس کو انسان کے اسی منصبِ خلافت و نیابت سے چڑ پیدا ہوئی اور اس نے انسان کے مستقل حریف کا کردار سنبھال لیا۔ شیطان آدمؑ کو جنّت سے نکوانے میں کامیاب ہو گیا لیکن ہبوطِ آدم ؑ کا مرحلہ آیا تو پھر ایسانہیں ہوا کہ آدم ؑ و اولادِ آدمؑ کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ یہ بتا دیا گیا کہ انسان کے دیے گئے اختیار و آزادی ِ عمل کے باوجود اسے یہ بتانے کا سلسلہ جاری رہے گا کہ اللہ کا قانون اور زندگی گزارنے کا اصل طریقہ کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا : قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا ج  فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ  ھُدًی  فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ  فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ  وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ٭  وَالَّذِ یْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا  بِاٰیَاتِنَآ  اُولٰٓئِکَ  اَصْحٰبُ النَّارِ ج  ھُمْ  فِیھَا  خٰلِدُوْنَ٭ (البقرۃہ َ38)  ’ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جائو۔ پھر میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا، اور جو لوگ قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ‘یہاں پھریہ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ پیدا کرنے والے کو یہ منظور نہیں کہ انسان کے معاملاتِ زندگی سے وہ خودبے تعلق ہو جائے یا انسان اسے بے دخل کر دے۔چنانچہ بتا دیا گیااب آدمؑ اور ان کی آنے والی نسلوں کا رہنا بسنا توزمین پر ہو گا لیکن اللہ کی ہدایت کا چشمہ جاری رہے گا۔ حلال و حرام، جائز و ناجائز اور صحیح اور غلط کے تعین میں انسانوں کو ان کے نفس اور اس ابلیس کے سپرد نہیں کردیا جائے گا جس نے ورغلا کرآدمؑ جنّت میں میری ہدایت کی پاسداری سے منحرف کیا اور جنّت سے نکلوایا۔

مفسرین کے نزدیک ھُدًیَ سے مرادآسمانی کتابیں اور انبیاء و رُسُل ہیں اور فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ کا مطلب مَنْ اٰمَنَ بِی و عمل لِطَاعَطِی یعنی’ جو مجھ پر ایمان لائے گا اوراس کے اعمال میری اطاعت میں ہوں گے۔‘ انسان کو پیدا کرنے والے نے جب اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قُرآن و حدیث میں عبد، عبدیت اور عبادت جیسی اصطلاحات کتنے وسیع معنوں میں آئی ہیں۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ عبادت کی قولی، فعلی اور مالی صورتیں ہیں جو ایک طرف روحِ بندگی کی ظاہری صورتیں ہیں اور دوسری طرف باطن میں رَب ِ کائنات کی غیر مشروط اطاعت، مکمل بندگی، ہمہ وقتی غلامی اور رضاکارانہ خود سپردگی کے شعورا ور احساس کو توانائی بخشنے کا کام بھی کرتی ہیں۔ یہ احساس و شعور جب قلب و روح کی گہرائی میں راسخ ہو جاتا ہے تو پھرزندگی کے اجتماعی، اخلاقی، عائلی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور عدالتی دائروں کو اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات کا پابندبنانے کا مرحلہ آتا ہے۔

   یہ سوال کہ روس اور امریکہ، یورپ اور افریقہ، بھارت، چین ا ور جاپان اور آسٹریلیا نے اپنے سیاسی نظام میں مذہب یا خدا کے لیے کوئی جگہ رکھی ہے یا نہیں ہماری بحث سے تعلق نہیں رکھتا۔ ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ مسلمان ملک اور مسلمان سماج کے اندر فرد کی ذاتی زندگی اور دیگرتمام شعبہ ہائے حیات میں اللہ تعالیٰ کو دخل دینے کا حق ہے یا نہیں ؟ اگرچہ بے دِین سیاست کی پچھلی دو تین صدیوں میں اپنے ملکوں کے جھنڈے اور سیاسی نظام لے کر دنیا کو استعماری تسلط میں لینے والے مغربی ممالک نے محکوم قوموں کے ساتھ جو برتائو روا رکھا وہ خود ایک بڑی شہادت تھی لیکن صرف گزشتہ صدی کے 1914 اور1945کے درمیان قومیت و وطنیت کی بالادستی کے نام پر نام نہاد مہذب قوموں نے اپنے اندر انسانیت کی کھیتی کو جس طرح پامال کیا اس سے اقبالؒ کی بتائی ہوئی حقیقت کہ۔۔۔جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔ ۔ کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ان اقوام نے سیاست، اقتصادیات، عسکری اقدامات اور دیگر اقوام کے ساتھ تعلقات و معاملات میں خدا کے عمل دخل کے آگے سیکولرزم کی دیوار کھڑی کر دی۔ کیا ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں ؟مذہبی تکثیریت کے ضمن میں ایک حقیقت سے ہم آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ قُرآن پاک میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ کا اپنے سارے پیغمبروں کو  یٰٓاَ یُّھَا الرُُسُلُ کے الفاظ میں خطاب کر کے پاک چیزیں کھانے اور صالح عمل کی تلقین کی اور پھر ارشاد فرمایا:  وَ اَنَّ  ھٰذِہٖٓ  اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً  وَّاحِدَۃً وَّ  اَنَا  رَبُّکُمْ  فَاتَّقُوْنِ٭’اور تمہاری اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمہارا رَب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو۔‘قُرآن حکیم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی بھیجا۔جب اللہ تعالیٰ نے اپنے سارے رسولوں کو اجتماعی طور پر ’تمہاری اُمت ایک ہی اُمت ہے ‘ کی حقیقت یاد دلائی تو محض منطق کے زور پر نہیں بلکہ وحی کے بیان سے مترشّخ ہے کہ ساری قوموں کا دِین ایک ہی تھا۔تو پھر یہ بھانت بھانت کے مذہب اور طرح طرح کی مذہبی رسوم کیسے ایجاد ہو گئیں ؟ اگلی آیت میں اس سوال کا جواب بھی دے دیا گیا۔ فَتَقَطَّعُوْٓا  اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ زُبُرًا ط’ مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دِین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔‘ان ٹکڑوں میں سے جس قوم اور قبیلے اور جس انسانی گروہ نے اپنے لیے جو ٹکڑا پسند کر لیا اسی میں

 مگن ہے اور اسی پر پھولا نہیں سما رہا ہے۔خُدا کے دِین کو شیطان کے نقشے اور اپنی خواہشات اور قوم قبیلے کے رنگ میں رنگ لینے والوں کے بارے میں رسولوں کو بطورِ تسلی کہا گیا کہ : فَذَ رْ ھُمْ  فِیْ  غَمْرَتِھِمْ  حَتّٰی  حِیْنٍ ٭’اچھا تو چھوڑو انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقتِ خاص تک۔‘کسی قوم کی مادی ترقی کا انحصار قدرتی وسائل، تخلیقی و اِبداعی جذبوں، تعمیری صلاحیتوں اورمناسب رہنمائی کی مرہونِ منّت ہوتی ہے۔جدید قوموں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمالات دکھائے اورمادّی ترقی کے بامِ عروج پر پہنچ گئیں۔ وہ قومیں ضروریاتِ زندگی سے آگے سہولیات اور اس بھی آگے تعیّشات تک پہنچ چکی ہیں۔ خواہشات خُدا بن گئیں اورامادّہ پرستی کو مذہب بنا لیاگیا۔ ماضی میں جب سترھویں صدی میں پھیلنے والی روشن خیالی نہیں تھی تو دنیا کی ترقی کو دیوی دیوتائوں کے کرم سے جوڑ اجاتا تھا۔ تصورِ مذہب کچھ بھی ہو دنیوی طاقت و اقتدار اور ترقی نے ان کوخُدا کے دیے ہوئے دِینِ حقیقی سے بغاوت پرپختہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا پرستانہ ذہنیت پر متنبّہ کرتے ہوئے فرمایا:  اَ  یَحْسَبُوْنَ  اَنَّمَا  نُمِدُّ ھُمْ  بِہٖ  مِنْ  مَّالٍ  وَّ  بَنِیْنَ٭  نُسَارِعُ  لَھُمْ  فِیْ  الْخَیْرٰتِ ج   بَلْ  لَّا  یَشْعُرُوْنَ٭ (المؤ منون: 51-56)  ’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں تو گویا اِنہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں ؟نہیں، اصل معاملے کا اِنہیں شعور نہیں۔ ‘

  جب دِین سے رشتہ ٹوٹاتو دِین سے اس بیگانگی نے اللہ کی زمین پر عجیب گل کھلائے۔ سچے رَب سے تو کٹ گئے مگر انسان کی فطرت اور پیشانی کی اس پکارکو دبایا نہیں جا سکا۔ کسی بالادست ہستی کے آگے جھکنا اوراس کے سامنے پیشانی ٹیکناافطرت کی پکارہے۔حقیقی معبود کو بھول کر فطرت اور پیشانی کی تسکین کے لیے خوگرِ پیکرِ محسوس نے ہرہزار ہا پیکر تراش لیے۔ آگ اور پانی، مناظر و مظاہرِ فطرت اور اجرامِ فلکی سے گزر کر ایسی ایسی شرم ناک چیزوں کو بتوں اورتصاویر اور تماثیل میں ڈھالا، دیوی دیوتائوں کا درجہ دے کر معبود بنایا۔ ہر قبیلے، ہر قوم اور ہر بستی کے اوہام او ررواج و رسوم سے آسمانی تعلیمات کا خلا پر کرنے کی کوشش کی گئی۔ انسان کے اپنے بنائے اور ٹھہرائے ہوئے خُدائوں سے اس کی عقیدت اور وفا دیکھ کر وقت کے بڑے بڑے فراعنہ اور نماردہ نے اپنی خُدائی کا ڈنکا بجا یا اور لوگوں کو اپنے سامنے گردنیں جھکانے اورپیشانیاں ٹیکنے پر مجبور کیا۔جہاں مصر اور عراق و ایران جیسی بڑی سلطنتیں نہیں تھیں وہاں قبائلی سردار حق کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔عقیدہ و اخلاق اور فطرت کے لحاظ سے حد درجہ بگڑی ہوئی قومیں ہی تھیں جن کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ، حضرت ہُودؑ، حضرت صالحؑ،حضرت ابراہیمؑ، حضرت شعیبؑ اور حضرت مُوسیٰ ؑو ہارونؑ جیسے جلیل القدر پیغمبربھیجے۔ ان اولوالعزم رسولوں میں سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور جناب موسیٰ و ہارون علیہما السّلام کی دعوت کے مقابل کھڑی قوتوں میں اپنی خُدائی کا دعویٰ رکھنے والے ہمہ مقتدر بادشاہ اور ان کے مقرّب اعیانِ سلطنت تھے۔ دیگر انبیاء کی کشمکش ملاْ یعنی اپنی قوم میں بااثر، دولت مند اور مُترَفِین (عیش و تنعم کی زندگی کے دلدادہ) سرداروں سے برپا رہی۔ یہ ہمارے ہاں کے سردار، وڈیروں، جاگیرداروں، گدّی نشینوں اور باثروت سیاست دانوں کی طرح کے قبائلی عمائدین اور قومی لیڈر تھے جو اگر آج موجودہ دور میں ہوتے تو مختلف سیاسی پارٹیوں میں electables کی حیثیت سے اگلی صفوں میں ہوتے۔ وہ اپنی قوم میں طاغوت بن کر بیٹھے ہوئے تھے اور اجتماعی نظام کو انہوں نے اپنے اثرورسوخ کا یرغمال بنا رکھا تھا۔ ان مقدّس ہستیوں کوجو اس وقت کی دِینی قیادت تھیں، سیاسی قیادت اور اس دور کے ’دانشور‘ یہی کچھ سمجھارہے تھے جو ہمارے لبرل، سیکولر اور لبرل اسلامسٹ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ سیاست اہلِ مذہب کا کام نہیں۔ مذہبی لوگوں کو اپنی سرگرمیاں پند و نصیحت اور وعظ مواعظ تک رکھنی چاہئیں۔ النّاسُ علیٰ دِینِ ملُوکِھِم میں جو حکمت بیان ہوئی ہے اسے یہ لبرل، سیکولر اور لبرل اسلامسٹ خوب جانتے ہیں۔ اوپر جن انبیاء و رُسُل کا ذکر ہے انہوں نے تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی لیکن ان پاکیزہ کیش اور صالح فطرت ہستیوں کے مقابلے میں قوم کے طاقتور ’سیاسی‘ شخصیات اور مالدار قوتوں کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ وہ ہدایت کے چراغ جلانے والے نیک نہاد پیغمبروں کی جدوجہدکے آگے سنگی چٹانیں بن کر کھڑے ہو گئے۔ آخر عذابِ اِلٰہی نے ان چٹانوں کو ریزہ ریزہ کیا۔

 اب ذرا اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں کہ کیا اسلام واحد دِین ہے جو امورِ دنیا اور سیاست پر اپنا رنگ دیکھنا چاہتا ہے ؟دنیا کے زندہ اور بڑے مذہبوں کے بارے میں یہ دیکھنا ہے کہ کون سے مذاہب اپنے پیروکاروں سے صرف پوجا پاٹ کا مطالبہ کرتے ہیں اور کن کی تعلیمات ساری زندگی کو شامل ہیں۔ آسمانی مذاہب میں یہودیت سب سے پہلے زیرِ بحث آتی ہے۔یہودی صاحبِ کتاب قوم ہیں۔ وہ بلا شبہ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے مصر میں ایوانِ اقتدار پر پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنے سارے خاندان کو وہاں بلا لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد فراعنہ مصر نے بنی اسرائیل کو اجنبی قوم قرار دے کراپنا غلام بنا لیا اور ان کے ساتھ بدترین برتائو کیا۔حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ہاتھوں اللہ کے حکم سے وہاں سے نجات ملی۔حضرت داودؑ اور حضرت سلیمان ؑکا عہدِ پیغمبری ان کی دنیوی طاقت و اقتدار کا شانداردور تھا۔دونوں کی بادشاہت خدافراموش حکمرانی نہیں تھی بلکہ اللہ کے دِین کی دعوت، اس کی اِقامت، قیامِ عدل اور تحفظِ حقوقِ انسانی ان کا ایجنڈا تھا۔لیکن جب یہودی عزت و اقتدار سے محروم ہوئے اور فلسطین میں ان کی دو ریاستیں زوال و انحطاط کا شکار ہوئیں توان کی بڑی تعدادکو بابل لے جا کر غلامی کے شکنجوں میں کس دیا گیا۔ لیکن ہزار اعتقادی بگاڑ کے باوجود ایک طبقہ ’شریعت‘ سے وابستہ رہا۔ تاریخ کے اکثر ادوار میں ذلّت و مسکنت ان کا مقدر رہی۔ اس کے باوجود وہ جہاں گئے انہوں نے اپنی ’شریعت ‘کے ضابطوں کو سینے سے لگائے رکھا۔اسرائیلی ریاست کے قیام کے خوابوں کے پیچھے دیگر مقاصد کے علاوہ اصل مقصد تلمودی شریعت کا نفاذ ہے۔ یہودی اپنی تاریخ میں شاید ہی کبھی غیر سیاسی رہے ہوں۔ انہوں نے مختلف سلطنتوں میں جو بار بار سازشیں اور بغاوتیں کیں اورمعاہدے توڑے وہ ان کے سیاسی مزاج ہی کا شاخسانہ تھا۔ ان کے شرعی قوانین کے مجموعے کا نام ہلخاہ (Halakhah) ہے۔ہلخاہ 613قوانین، روایات و اقدار، دینی مواعظ، ہدایات اور اصولوں کا ایسامجموعہ ہے جو ان کے پورے طریقِ زندگی کا تعیّن کرتا ہے۔عبرانی میں اس ضابطے کو ’ہالُوخ‘ کے تلفّظ سے ادا کیا جاتا ہے۔ہلخاہ کے 248نکتے ایجابی ہیں، یعنی وہ احکام ہیں جب کہ 365 سلبی انداز کی تعلیمات یعنی نواہی ہیں۔ احکام و نواہی کا یہی ذخیرہ ہے جسے تلمودی شریعت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ہلخاہ میں تورات کے اوامر و نواہی اور یہودی ربیوں کے اجتہادات اس طرح گڈ مڈ ہیں کہ دوں کی پہچان مشکل ہے لیکن یہ ایک جامع طریق ِزندگی اور تفصیلی ضابطۂ ِ حیات کا بھرپور خاکہ ہیں۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں ہلخاہ میں کوئی اصول نہ ہو۔سونا جاگنا، کھانا پینا، اوڑھنا پہننا، کام کاروبار، کمانا اور خرچ کرنا، شادی بیاہ اور عائلی زندگی، دوسروں سے معاملات و تعلقات، یہاں تک کہ جانوروں سے سلوک اور سبت کے آداب و قواعد ہیں۔ اس کے لیے عبرانی میں ایک اصطلاح ٹھیک قُرانِ پاک کی اصطلاح  صراطٌ مُّسقتَقِیْم کی ہم معنی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن سمیت اسرائیل کی ساری نئی اور پرانی قیادت برملا یہ اظہار کرنے میں کبھی نہیں ہچکچائی کہ اس ریاست کا قیام یہودی روایات کا احیاء ہی کے لیے ہے۔

   عیسائیت کو اگر ہم اس پہلو سے دیکھیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ایک یہودی گھرانے کی ہستی تھے، بنی اسرائیل کی اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے تھے۔ان کی پیدائش سے عمر کے تاریخی طور پر معلوم عرصے تک وہ رومی سلطنت کا ایک یہودی باشندہ شمار ہوتے تھے۔وہ غیر سیاسی طبع کی شخصیت تھے۔انہوں نے کئی پیرائیوں میں اپنی غیر سیاسی حیثیت کا اظہار کیا۔انہوں نے اپنی بعثت کا ایک مقصد یہ بتایا کہ وہ بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش کے لیے آئے ہیں۔ فقیہوں اور سردار کاہنوں نے اپنی چالبازیوں سے ان کو سیاسی معاملات میں الجھانے کی کوششیں کیں تا کہ یا تو ان کی کوئی بات پکڑ کر انہیں رومی سلطنت کا باغی ثابت کر دیں، بصورتِ دیگر عوام کو یہ باور کرادیں کہ حضرت عیسیٰؑ نا انصافیوں اور ظلم و جبر کے حامی ہیں۔ پوچھنے لگے کہ ہم قیصر کو خراج دیں یا اس سے انکار کر دیں ؟ حضرت عیسیٰ  ان کی مکّاری سمجھ گئے۔ انہوں نے جواب دیا’جو قیصر کا حصہ ہے قیصر کو دو اورجو خُدا کا حصہ ہے وہ خُدا کودو۔‘ (لُوقا:20:19-26 )ایک بار انہیں علم ہوا کہ انہیں پکڑ کر بادشاہ بنانے کی سکیم تیار کی گئی ہے۔ یہ گویا قیصر کے خلاف کھلی بغاوت کی بات تھی۔ اس چال سے بچنے کے لیے وہ بستی سے نکل گئے اورتنہا پہاڑیوں میں جا کر روپوش ہو گئے۔ (یُوحنّا6::15)عیسائیت کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ان کے شاگرد بھی سیاسی سرگرمیوں سے الگ تھلگ رہتے تھے۔وہ رومن سلطنت میں کوئی فوجی یا سول عہدہ لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

 قیصر روم قسطنطین اعظم نے 313 عیسوی میں عیسائیت کو قبول کیا اور 380عیسوی میں یہ رومی سلطنت کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا۔اس وقت تک سینٹ پال کاتیار کردہ ایک بالکل نیا ایڈیشن عوام میں عیسائیت کے طور پر قبولیت پا چکا تھا جس کے معتقدات کا غالب حصہ حقیقی عیسوی تعلیمات کے بجائے سینٹ پال کی ذہنی اختراع تھا۔اس ایڈیشن کی رو سے عیسائیت کا بنیادی عقیدہ ’نجات‘ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے صلیب پر جان دے کر آدمؑ سے لے کر قیامت تک ساری انسانیت کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ رومی سلطنت کے مشرف بہ عیسائیت ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ قیصریت، عسکری اشرافیہ (knighthood) اور جاگیرداروں کا پاپائیت سے گٹھ جوڑ ہواگیا۔ ان طبقوں نے حضرت عیسیٰؑ کی انسانی ہمدردی سمیت ساری تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ انسانیت آزار، استحصال پسند اور ستم شعار بن گئے۔ انہی طبقوں نے عیسائیت کی غیر سیاسی روح کو سلب کیا۔ ان کی قائم کی ہوئی روش نے مزید بھیانک انداز میں ترقی کی تو قوموں اور ملکوں کی لوٹ مار اور استعماری قبضوں کی صورت میں عیسائیت کو متعارف کرایا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ادھر یورپ کی قابض عیسائی قوتیں کسی محکوم قوم کے لوگوں پر بدترین مظالم ڈھا رہی ہوتی تھیں تو انہی ستم پرور قوتوں کے زیرِ سایہ عیسائی مشنری عیسائیت کی تبلیغ اور دوسرے مذاہب اور مذہبی پیشوائوں کی توہین کی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے تھے۔سیکولر فلسفے کے پرچار کے باوجودبرطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی اقوام کے نوآبادیاتی دور سے لے کر موجودہ جمہوری غلغلہ تک عیسائی قوموں کے قاہرانہ مزاج میں کوئی فرق نہیں آیا۔کوئی استعماری ملک کیتھولک ہو، پروٹسٹنٹ یا آرتھاڈکس یا عیسائیت کے ذیلی فرقوں میں سے Presbyterian  یا Evangelical Protestant رہا ہولیکن یورپ اور امریکہ کا سیاسی، اقتصادی، عسکری اور تہذیبی تسلط مذہبی تفاخر سے خالی کبھی نہیں رہاہے۔

 جہاں تک ہندو دھرم کا تعلق ہے تو کسی ’عقیدہ ‘کا نام نہیں ہے۔آریوں کی ہندوستان میں آمد کے بعد سماجی طبقات میں تعصبات، تحقیر اور درجہ بندی کی جو دائمی لکیریں کھینچیں گئیں ان میں پوجا پاٹ کی کچھ رسمیں شامل کر کے اس کو مذہب کا نام دے دیا گیا۔ یہ مذہب ناقابلِ فہم اوہام و رسوم اور تاریخی کتھوں سے عبارت تصورات پرمشتمل ہے۔انسانی فطرت میں کسی عظیم اور بلند و بالا ہستی کے سامنے جھکنے اور اس کے آگے بندگی کے احساس کے ساتھ دامن پھیلانے کی کی ایک حِس موجود ہے۔ہندو مذہب نے واحد و احد ربُّ العالمین سے تجاوز کر کے پہلے تین خُدابنائے۔ وہ کم لگے تو خُدا سازی کی گویا فیکٹری لگ گئی۔ اس مذہب والوں نے ہزاروں نہیں بلکہ  33 کروڑ خُدا بنا لیے۔ انسانی خواہشات بہت پھیلیں تو ’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔۔ ۔ـ‘ تک بات پہنچتی ہے لیکن 33کروڑ ہو کر بھی ہندو دھرم کے خدا والوں کی آشائوں اور آتمائوں کی تسکین و تکمیل نہیں کر سکتے۔ یہ ایک گنجلک مذہب ہے۔اس کے بارے میں مذہبیات کے عالِموں اور خود اس مذہب کو ماننے والوں میں کئی بڑے رہنمائوں کی رائے ہے کہ مذہب کی کسی بھی تعریف کی رو سے ہندو دھرم کو مذہب تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک بدھ اور سکھ دھرم کا تعلق ہے توہند ان کو ہندو مت کی شاخیں ہی قرار دیتے ہیں۔ گوتم بدھ راج پاٹ چھوڑ کر گیان دھیان کے لیے نکلنے تک ایک برہمن ہندو تھا۔اسے جو ’روشنی‘ ملی اس کا تعلق انسان کے قلبی سکون سے ہے۔ بدھ مذہب ہندو دھرتی سے نکلا تو چین و جاپان اور مشرقِ بعید کے کچھ ملکوں میں جا کر پھیلا۔بدھ مت میں خُدا کا وجود نہیں ہے۔ناقدین مذہبیات نے اسے تسکینِ ذات یا باطنی سرور یا قلبی لذّت اور خوشی کے حصول کی مشقوں کی روشنی میں ترکی کے شہر ’قونیہ‘ میں مولانا روم کے مزار پر رقصا ں درویشوں کے عمل سے تشبیہ دی ہے۔ اسی کو وہ’ تزکیہ ٔ ِ نفس‘ سمجھتے ہیں اور اسی کو سرورِ ذات کا نام دیتے ہیں۔ گائکی اور موسیقی کو روح کی غذا باور کرانے والے گویا یہاں ایک لحاظ سے بدھ مت کے باطنی تصورات سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اپنے بنیادی تصور کے لحاظ سے یہ مذہب انسانی خدمت اور ہمدردی کا مذہب ہے۔ اس میں زمین کے اوپر رہنے کا یہی مقصد ہے تا کہ زمین کے اندر جا کر نجات ملے۔ حیوانوں کو تکلیف پہنچانے کو بھی برائی شمار کیا جاتا ہے۔ اسی لیے روایتی بدھ بھکشو زمین پر چلتے ہوئے اتنے محتاط ہوتے ہیں کہ کوئی چیونٹی بھی ان کے پائوں تلے کچلی نہ جائے۔زندگی کے مؤثر شعبوں سے یہ نہ بحث کرتا ہے اور نہ ان میں دخل دیتا ہے۔

 مذکورہ بالا تمام مذاہب کے برعکساسلام واحد ایسا مذہب ہے جو بجا طور پر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے بنیادی ماخذ قُرآن مجید اور سیدُ الابرار محمد مصطفیٰ ﷺ کی سنت و سیرت بلا کسی ردو بدل اور اشتباہ  اپنی اصل صورت میں موجود ہیں۔ ان ہی کی رو سے اسلام ایک کامل نظامِ حیات ہے۔ اصلاح وتزکیہ ٔ ِ نفوس، اخلاق حمیدہ کی تعمیر کے ساتھ اس میں نکاح و طلاق، حقوقِ زوجَین، اولاد اور والدین کے حقوق کے  ٹھوس احکام ہیں۔ یہ اپنے پیروکاروں کو پڑوسیوں اور غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیوائوں کی نگہداشت کا پابند بناتا ہے۔ اس میں حلال راستوں سے کمائی اور حلال راہ میں خرچ کے اصول ہیں۔ اس نے سُود کی حرمت اور ایک حد کے اندر تجارتی منافع کو حلّت کا حتمی فیصلہ دیا ہے۔ عدل کا قیام اور ظلم کا استیصال محض بطورِ ثواب ہی نہیں بلکہ بطورِ فریضہ اس نظام کا اہم پہلو ہے۔ اس نے حاکم اور رعایا کے تعلق اور ایک دوسرے کے بارے طرزِعمل کا تعین کر دیا ہے۔زندگی کے سارے دائروں کی تعلیمات فرد کا اختیاری معاملہ کہہ کر نہیں چھوڑ دیا گیابلکہ ان کا نفاذ اصحابِ امر کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اسلام کے صدرِ اول میں رسول اکرم ﷺ نے اس نظام کو قائم کر کے ایک مثالی معاشرت، ریاست اور تہذیب و تمدّن کا عملی نقشہ دنیا کے سامنے رکھ دیاتھا۔ چند سال قبل معروف امریکی تھنک ٹینک Pewنے ایک رپورٹ شائع کی۔ اس کے مطابق اکثر مسلمان ممالک کے 88فیصد سے زیادہ عوام اسلام کو بطورِ نظام زندگی بروئے عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیکولر، لبرل اور لبرل اسلامسٹ عناصر جب اسلام کے ایک ہمہ گیر ضابطہ ِ حیات اور نظامِ زندگی ہونے اور سیاست و ریاست کے امورکو دِین سے جدا چیز ہونے پر اصرار کرتے ہیں تو در حقیقت وہ اپنی ساری روشن خیالی اور ترقی پسندی کے باوجود سٹیٹس کو کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلامی نظام سے ان کو وہی خدشات لاحق ہیں جوحضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کی تحریک کے بارے میں فرعون اور اس کی قوم کے بڑوں کو لاحق ہو گئے تھے۔یعنی ھٰذَانِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِ ھِمَا وَ یَذْ ھَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی ٭ (طٰہٰ:63)  ’آخر کچھ لوگوں نے کہاکہ ’یہ دونوں تو محض جادوگر ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کر دیں۔ ‘

میں نے اوپر چند بڑے مذاہب کا جائزہ لیا ہے۔ اسلام اوریہودیت کے سوا کسی اور مذہب کے پاس زندگی کے تمام شعبوں کے لیے کوئی سکیم ہے ہی نہیں۔ یہودیوں نے اسرائیلی ریاست کے اندر اپنی زبان سے لے کر مذہبی روایات و اقدار کے ایک بڑے حصے کو نئی زندگی بخش دی ہے۔ کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ اسلام اگرزندگی کے تمام دیگر دائروں سمیت ریاست و سیاست پر اپنا رنگ قائم کرنا چاہتا ہے تومذکورہ عناصر کو جدید تہذیب اور آزادیاں خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔حالانکہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسلام زندگی کے نفاذ سے جدید نقوش کو مٹاڈالے گا۔ اسلام ترقی و تعمیر کاوہ دِین ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص گاڑنے کے لیے کھجور کا ایک پودا لے کر نکلا ہو اور اس دوران میں قیامت برپا ہو جائے تو پھر بھی وہ کھجور کا وہ پودا گاڑ کر چھوڑے۔

2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسلام اپنی اصل میں مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام نے ہر شعبہ زندگی کیلئے رہنمااصول متعین کر دئیے ہیں ، افتاد زمانہ و تغیر احوال و طبائع کے مطابق ترک و اخذ میں سہولت جو حدود متعینہ سے متصادم نہ ہو ۔۔ ویسے بھی اسلام میں فرائض سے مستحبات تک اور حرام سے مکروہات تک بہت سے درجات ہیں تبدیلیاں حرام حلال میں نہیں مکروہ و مستحب کے درجات میں حسب احوال واقعی و اضطراری میں ہو سکتی ہیں

  2. آصف علی کہتے ہیں

    "اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔” ہم میں سے ہر فرد نے یہ فقرہ اپنی زندگی میں بے شمار مرتبہ سنا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دورمیں فکر اسلامی کو منجمد کرنے کی ذمہ داری بہت حد تک اسی فقرے میں موجود تصور پرعائد ہوتی ہے۔ مکمل ضابطہ حیات سے عموماً یہ مراد لی جاتی ہے کہ ہمارے تمام معاشی، سیاسی، عمرانی، تہذیبی اور نفسیاتی مسائل کا حل اسلام میں موجود ہے۔ یہ غلط تصور ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہمیشہ کے لئے انسانی زندگی کے ہرشعبے کو جزیات سمیت متعین کیا جا سکے۔ انسانی سماج ایک دریا کی صورت آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جو نظام اپنے اندر اس تاریخی حقیقت کے لئے گنجائش نہیں رکھے گا وہ فرسودہ ہو کر پیچھے رہ جائے گا۔
    اسلام چونکہ ہمیشہ قائم رہنے کے لئے آیا ہے اس لئے اس میں ابدی اورعارضی پہلوؤں کا ایک خوب صورت امتزاج ملتا ہے۔ ابدی معاملات میں عقائد، عبادات اورانفرادی اخلاقیات شامل ہیں۔ اللہ کے واحد لا شریک ہونے پر ایمان ہمیشہ اسلام کا حصہ رہے گا۔ اسی طرح نماز، روضہ، حج وغیرہ بھی اسلام کے ابدی معاملات میں شامل ہیں۔ انفرادی اخلاقیات کی ایک طویل فہرست ہے جس میں سچ بولنا، نگاہ نیچی رکھنا، دیانت داری کو اپنا شعار بنانا وغیرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔ بنیادی طور پر اسلام کے یہی تین پہلو ایسے ہیں جن میں کسی بھی دور میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ یہ تینوں شعبے اسلام کی اصل بنیادیں ہیں۔
    اس کے بعد سماج سے متعلق معاملات آتے ہیں ۔ یہاں اسلام ایک وسیع دائرہ کھینچ دیتا ہے، جس کے اندرروح عصر کے مطابق اجتماعی زندگی کو ڈھالنے کی مکمل آزادی میسر ہے۔ جب بر صغیر میں مسلمانوں نے قدم رکھا تو یہاں کی تہذیب میں فرد کے روحانی اور باطنی پہلواہم تھے۔ اس لئے اسلام تصوف کی صورت میں سامنے آیا جس کی وجہ سے یہ مقامی باشندوں کے لئے اجنبی تصور نہ رہا۔ یہ اسلام میں موجود لچک کی ایک مثال ہے۔
    عصر حاضر کو دیکھا جائے تو اس کی پنچ لائن فرد کی آزادی ہے جس کا آغاز یورپ میں نشاۃ ثانیہ سے ہوا تھا۔ لبرل ازم اسی آزادی کی ایک فلسفیانہ شکل کا نام ہے۔ پچھلی کئی صدیوں سے مسلمانوں کو سب سے بڑا چیلنج ہی یہی درپیش ہے کہ فرد کی اس آزادی کو اپنے اجتماعی وجود کا حصہ کس طرح بنایا جائے۔ اس معاملے میں مسلمان ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں۔ اسلام کے آغاز اورعروج کا دور وہ ہے جب سماج کو فرد پر فوقیت حاصل تھی۔ اس عہد کی تمام اسلامی فکر اسی صورتحال کی عکاس ہے۔ چونکہ اب وہ دور نہیں رہا اس لئے فقہ سمیت تمام فکر کی ایسی تشکیل نو کرنا لازم ہے جس میں فرد کی آزادی ایک بنیادی جزو ہو۔
    چونکہ ابھی تک انفرادی آزادی کا تصور مسلمانوں کے لئے اجنبی ہے، اس لئے ان کی آنکھوں کو اسلامی نظام قائم کرنے کا خواب بہت مرغوب رہتا ہے کیونکہ اس کا حقیقی مقصد ریاست کی قوت کے ذریعے فرد کی آزادی کو کچلنا ہے۔ ہمارے جتنے بھی مذہبی رہنما سامنے آئے ہیں انہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اسلامی نظام کی بات کی ہے۔ وہ اس وقت کو حسرت سے دیکھتے رہے جب فرد کی آزادی کا غلغلہ بلند نہیں ہوا تھا۔ وہ وقت کی نبض کو پرکھ نہیں سکے، زمانے کی سرگوشیاں نہیں سمجھ پائے، اور مڑ مڑ کر ماضی کی کتابوں سے حال کے مسائل کا حل پوچھتے رہے۔ اگر وہ تاریخ کے ساز سے ابھرتے نغموں پر کان دھرتے تو ایسے تخلیقی رستے تلاش کر سکتے تھے جن کے ذریعے مذہب کی مبادیات پر سمجھوتہ کئے بغیر فرد کی آزادی کو معاشرت کی بناوٹ کا حصہ بنا یا جا سکتا تھا۔
    یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخی قوتوں کا دھارا کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ عملاً ہر انسان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ زندہ معاشرے وقت سے پہلے ہی فکری سطح پر ضروری ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں جبکہ مردہ معاشرے مسلسل مزاحمت کر کے فکری انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔
    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں روح عصر خود کو منوا رہی ہے۔سیاسیات میں فرد کی آزادی جمہوریت کی شکل میں سامنے آئی ہے جسے مسلمانوں نے بہت عرصہ مزاحمت کرنے کے بعد آخرکار قبول کر لیا ہے۔ اسی طرح اب کلین شیو نوجوانوں کو مسجد وں میں اجنبیت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ جینز میں ملبوس لوگ اگلی صفوں میں بے جھجک کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کو عملاً تسلیم کر لیا گیا ہے۔ شادی کے معاملے میں ولی کی اجازت فرد پر سماج کی فوقیت کا مظہر تھی۔ اب یہ شرط بھی ختم ہوتی جارہی ہے جس کا ثبوت عدالتوں کے سامنے ہونے والی شادیاں ہیں۔ خواتین بڑے شہروں میں اپنی پسند کے لباس میں ملبوس نظر آتی ہیں۔ یہ تمام مثالیں انفرادی آزادی کے شجر سے پھوٹنے والے شگوفے ہیں جن کی خوشبو ہر سو پھیلتی جا رہی ہے۔ ہم اپنی ناک کب تک بند رکھیں گے، یہ سوال خود سے ضرورکرنا چاہئے۔
    اگر ہم مسلمانوں کی پچھلی دو صدیوں کی تاریخ ہی پڑھ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ اس دوران عملی طور پر کس طرح مسلمان معاشروں میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ موجودہ تبدیلیاں اگر اسلام کا حصہ ہیں تو پھر پچھلے ایک ہزار سال کے سارے معاشرے غیر اسلامی قرار پاتے ہیں کیونکہ ان میں فرد کو وہ آزادی میسر نہیں تھی جو آج کے دور کا خاصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے اسلام خاموش رہتا ہے۔ وہ ان معاملات کو ہر دور میں پیدا ہونے والے مصلحین کی صوابدید پر چھوڑ دیتا ہے اوراسی میں اسلام کی آفاقیت کا راز پوشیدہ ہے۔
    تاہم یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام سماجی دائرے کو لامتناہی طور پر وسیع نہیں سمجھتا۔ اس پر بہت سی حد بندیاں ابدی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پرعورت اور مرد بغیر نکاح کے اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح ایک مسلمان معاشرے میں ڈیٹنگ کا تصور کبھی قبول نہیں کیا جا سکے گا۔ جمہوریت میں ایسا کوئی قانون نہیں بن سکے گا جو مرد کی مرد سے شادی کو جائز قرار دے سکے۔ مسلمان معاشرے میں نائٹ کلب کبھی نہیں کھل سکیں گے۔ اسی طرح لبرل ازم کی جو صورت مغرب میں موجود ہے، وہ ہمارے ہاں کبھی نہیں پنپ سکتی۔ اس کے اچھے اجزا ضرور ہم اپنی فکر میں پرو سکتے ہیں تاہم اسے مکمل طور پر قبول کرنا ممکن نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔