اسلام کا فکری انقلاب اور دور حاضر کے تقاضے!

مولانا سید جلال الدین عمری

علم کی اہمیت بالکل واضح ہے۔ علم انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتاہے، اس سے اس پر ترقی کی راہیں کھلتی ہیں ، وہ ماضی اور حال سے نکل کر مستقبل کو دیکھنے کے قابل ہوتاہے اور سماج کی بہتر خدمت انجام دے سکتاہے۔ قوموں کی ترقی بھی علم ہی کی راہ سے ہوتی ہے۔ جو قومیں علم کے میدان میں پیش قدمی کرتی ہیں ان ہی کو قیادت کا مقام حاصل ہوتاہے اور دنیا میں ان کا اعتبار قائم ہوتاہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام نے زبردست فکری انقلاب برپاکیا۔ دنیا نے اس کے نتائج بھی دیکھے۔ اس پس منظر میں موجودہ دور کے تقاضوں پر بعض باتیں یہاں عرض کی جارہی ہیں ۔ امید ہے، قابل توجہ قرار پائیں گی۔

اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے۔ اس کی اساس انسان کی صحیح فطرت اور اس کی عقل سلیم ہے۔ وہ دینِ حق ہے اور دلیل اور حجت سے اپنی حقانیت ثابت کرتاہے۔انسان کی عقل اور فطرت پر بسا اوقات بے اصل عقائد،مزعوماتِ باطلہ اور غلط روایات کے پردے پڑجاتے ہیں۔ اسلام ان پردوں کو چاک کرتا اور راہ ِحق واضح کرتاہے۔ یہ اسلام کا احسان ہے کہ وہ انسان کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر  علم کی تابانی عطاکرتاہے۔ وہ انسان کو فکری جمود اور نظری تعصبات کو ختم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے وجود،اس کی پیداکردہ اس وسیع کائنات، انسان سے اس کے تعلق اور زندگی پر اس کے اثرات پر غور و فکر کی دعوت دیتاہے۔

کِتٰبٌ أَنزَلْنٰہُ إِلَیْْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْد(ابراہیم:1)

(یہ کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے، تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظلمتوں سے نکال کر روشنی میں لائیں ،اس اللہ کے راستہ کی طرف جو ہر طرح غالب اور ستودہ صفات ہے۔)

وہ اللہ کی کتاب پر غور و فکر کی دعوت دیتاہے، تاکہ آدمی دن کی روشنی میں اس کی صداقت کا فیصلہ کرسکے۔

کِتٰبٌ أَنزَلْنٰہُ إِلَیْْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیٰتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَاب(ص:29)

(یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے، تاکہ وہ اس کی آیات پر غورکریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔)

قرآن مجید کے اولین مخاطب عرب تھے۔ وہ بار بار انہیں عقل و فہم سے کام لینے اور اس کی تعلیمات پر غور و فکر کی طرف متوجہ کرتاہے۔(ملاحظہ ہو یوسف:27۔الزخرف:2،3۔الانبیاء:10)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا:

قُلْ ہَـذِہِ سَبِیْلِٓیْ أَدْعُوا إِلَی اللّہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحٰنَ اللّہِ وَمَآ أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْن (یوسف:108)

(کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتاہوں ۔میں خود بھی بصیرت کے ساتھ اس پر عمل کررہاہوں اور میری اتباع کرنے والے بھی اسی بصیرت کے حامل ہیں ۔ اللہ کی ذات شرک سے پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔)

بصارت سے آدمی ان چیزوں کو دیکھتاہے جو آنکھوں کی گرفت میں آتی ہیں ۔ بصیرت کے ذریعہ وہ غیر مرئی اور غیر محسوس حقائق کے بارے میں حق و باطل اور درست و نادرست کا فیصلہ کرتاہے۔ مطلب یہ کہ میں اور میرے ساتھی جس راستہ کی طرف بلارہے ہیں وہ کوئی اندھا عقیدہ نہیں ہے، جس کے پیچھے ہم دوڑے چلے جارہے ہیں ، بلکہ وہ دلیل و برہان کے ذریعہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس کی حقانیت پر ہمیں پوری طرح شرح صدر اور اطمینان حاصل ہے۔ یہ راستہ توحید کا ہے، شرک کا نہیں ہے۔

دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے رسول آئے وہ دلیل ہی سے اپنی بات پیش کرتے اور اپنی صداقت کا ثبوت فراہم کرتے تھے۔وہ اپنے عقیدے کو مخاطب پر مسلط نہیں کرتے تھے، بلکہ کھلی فضا میں اس پر غور و فکر کی دعوت دیتے تھے۔ حضرت نوحؑ، جو حضرت آدمؑ کے بعد سب سے پہلے صاحب شریعت پیغمبر تھے، فرماتے ہیں :

 یٰقَوْمِ أَرَأَیْْتُمْ إِن کُنتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّیَ وَاٰتَنِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِہِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْْکُمْ أَنُلْزِمُکُمُوہَا وَأَنتُمْ لَہَا کٰرِہُون (ھود:28)

(اے میری قوم کے لوگو!تم خود بتائو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر قائم ہوں اور اللہ نے مجھے اپنے پاس سے رحمتِ خاص(نبوت)عطا کی ہے اور وہ نبوت اور دلیلِ نبوت تمہاری آنکھیں نہیں دیکھ رہی ہیں تو کیاہم اسے زبردستی تم پر چپکاسکتے ہیں ، جب کہ تم اسے ناپسند کررہے ہو۔)

جو قوم دلیل کے مقابلہ میں غیر عقلی روش اختیار کرتی، ضد، ہٹ دھرمی اور مکابرت کا مظاہرہ کرتی اور اللہ کے رسولوں کے درپے آزار ہوجاتی وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاتی۔ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا ذکر ایک جگہ ان الفاظ میں ہوا ہے:

جَاء تْہُمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَکَیْْفَ کَانَ نَکِیْرِ (فاطر:25۔26)

(ان کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے۔ پھر جن لوگوں نے انکار کیا انہیں میں نے پکڑ لیا۔ دیکھو کہ میری گرفت کیسی تھی؟)

  اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن مجید میں متعدد مواقع پر تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ مثال کے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم، آیات: 9۔14

اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی وحدانیت اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ جو قومیں شرک میں مبتلا تھیں ان کا سرمایۂ علم تقلیدِ آباء تھا۔ وہ باپ دادا کی روایت کو حجت مانتی تھیں ، اس کے پیچھے فہم و بصیرت نہیں تھی۔ حالاں کہ بے دلیل کسی روایت سے چپکے رہنا، جب کہ دلائل سے اس کی کم زوری بھی واضح ہوچکی ہو، انتہائی بے دانشی ہے:

وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوا مَآ أَنزَلَ اللّہُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْْنَا عَلَیْْہِ آبَآء نَا أَوَلَوْ کَانَ آبَآؤُہُمْ لاَ یَعْقِلُونَ شَیْْئاً وَلاَ یَہْتَدُون(البقرۃ:170)

(جب ان سے کہاجاتاہے کہ اللہ نے جو دین نازل کیاہے اس کی اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس طریقہ پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا وہ اس صورت میں بھی ان کی اتباع کریں گے، جب کہ وہ  نہ توکچھ سمجھتے رہے ہوں اور نہ ان کو راہِ ہدایت ملی ہو۔)

روایت پرستی کبھی مذہبی تقدس کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اسے خدائی ہدایت تصور کیاجانے لگتاہے۔قرآن نے کہا کہ اس کے لیے سند چاہیے۔ بغیر سند کے اسے قبول نہیں کیاجاسکتا۔کسی عمل کی خدا کی طرف نسبت بغیر ثبوت کے جرم عظیم ہے۔ اس کی سزا مل کر رہے گی:

سَیَقُولُ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ لَوْ شَآء  اللّہُ مَآ أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَیْْء ٍ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِم حَتَّی ذَاقُواْ بَأْسَنَا قُلْ ہَلْ عِندَکُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوہُ لَنَا إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُون(الانعام:148)

(جنہوں نے شرک کیا وہ کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا توہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام قراردیتے۔ اسی طرح ان

 سے پہلے کے لوگوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔ بالآخر انہوں نے ہمارے عذاب کا مزا چکھا۔ ان سے پوچھوکہ کیاتمہارے پاس کوئی علم ہے کہ اسے ہمارے سامنے پیش کرسکو۔ تم تومحض گمان کے پیچھے چل رہے ہو اور اٹکل سے تیر چلارہے ہو۔)

اہل کتاب میں نسلی غرور تھا۔ وہ خود کو ابناء اللہ کہتے اور اللہ کے محبوب و مقرب تصور کرتے تھے۔ ان کے نزدیک صرف وہی اللہ کی رحمت اور جنت کے مستحق تھے۔ قرآن نے ان کے اس خیال ِ خام کی تردید کی اور کہا کہ اللہ تعالی سب کا ہے۔ اس کا کسی سے نسبی تعلق نہیں ہے:

وَقَالُواْ لَن یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلاَّ مَن کَانَ ہُوداً أَوْ نَصٰرَی تِلْکَ أَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُواْ بُرْہَانَکُمْ إِن کُنتُمْ صٰدِقِیْن  َ(البقرۃ:111)

(وہ کہتے ہیں کہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوگا مگر وہ جو یہودی ہے یا نصرانی ۔یہ ان کی خواہشات ہیں ۔ ان سے کہو کہ تم اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو۔)

یہود و نصاریٰ کے درمیان بہت سے اختلافات تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی تکفیر کرتے اور ان میں سے ہر ایک خود کو جنت کا مستحق قراردیتا۔قرآن نے کہا کہ یہ تمہاری خواہش اور تمنا تو ہوسکتی ہے، اس کی کوئی دلیل تم نہیں پیش کرسکتے ۔ ا س کے بعد اللہ کا قانون ان الفاظ میں بیان ہواہے:

بَلَی مَنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلّہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہُ أَجْرُہُ عِندَ رَبِّہِ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون َ(البقرۃ:112)

(ہاں !جس کسی نے اپنا رخ پوری طرح اللہ کی طرف کیا اور نیک روش اختیار کی تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے نہ خوف ہے اور وہ غم گیں ہوں گے۔)

یہ دراصل مذہبی مزعومات اور بے دلیل دعووں کا مسکت جواب ہے۔

دور حاضر میں عقیدہ اور مذہب کی آزادی کو انسان کا ایک بنیادی حق تسلیم کیاجاتاہے۔قرآن مجید نے بہت پہلے اسے یہ حق دیا ۔ اس نے صراحت کے ساتھ کہا: لا اکراہ فی الدین۔(البقرہ:256) یہ اس بات کا اعلان ہے کہ عقیدے کے معاملہ میں جبر و اکراہ ناروا ہے۔ اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جاسکتی۔کسی مذہب یا عقیدے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے اس نے گفتگو، تبادلۂ خیال اور بحث و مباحثہ کی راہ دکھائی ہے۔ ارشاد ہے:

ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْن (النحل:125)

مطلب یہ کہ تم اس راستہ کی طرف بلائو جو تمہارے رب کا بتایا ہوا ہے، جو اس کی رضا اور خوش نودی کا باعث ہے اور جس پر گام زن ہوکر انسان دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح سے ہم کنار ہوسکتاہے، لیکن اس کے لیے حکمت، موعظہ حسنہ اور جدالِ حسن کا طریقہ اختیار کیاجائے۔حکمت، دین کی معنویت کو واضح کرنے کا نام ہے۔ موعظہ حسنہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت سے خطاب ہو اور اس کے پاکیزہ جذبات سے اپیل کی جائے۔جدالِ حسن یہ ہے کہ آدمی دوسرے کی بات سنے اور اپنا نقطہ نظر سنجیدگی سے پیش کرے اور اسے دلائل سے ثابت کرے۔اس کے آداب بھی قرآن نے بتائے ہیں ۔ یہ علمی اور فکری دنیا میں ایک انقلاب تھا کہ عقیدے کو جبر سے آزاد ہونا چاہیے، اور دلائل سے اس پر گفتگو ہونی چاہیے۔

علم و فکر کے جس راستہ کی اسلام نے راہ نمائی کی، اس کے ماننے والے اس پر گام زن رہے اور جس وقت جو علمی تقاضے ابھرے ان کی تکمیل کی۔رسول اکرم ﷺ کی رحلت کی بعد حضرت ابوبکرؓ نے صحابۂ کرام کے مشورے سے جمع و ترتیب قرآن کی خدمت انجام دی اور مصحف مرتب فرمادیا۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں اس کے نسخے اسلامی سلطنت کے اطراف و اکناف میں پہنچادیے اور اسی کے مطابق کتابت و تلاوت کا حکم نافذ کردیا۔ آج یہی مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔اسے اسلامی علوم کی ترویج کا آغاز کہنا چاہیے، جس نے بعد میں ہمہ جہت رخ اختیار کیا۔ یہیں سے متعلقاتِ قرآن، تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث، اصولِ حدیث، سیرت، تاریخ، اسماء الرجال، فقہ اور اصولِ فقہ جیسے علوم وجود میں آئے۔ جنہیں اصطلاح میں دینی یا شرعی علوم کہاجاتاہے۔ ان علوم میں بڑے بڑے اساطینِ علم، فقہاء، محدثین اور مورخین کو دنیا نے دیکھا۔اسی میں ادب، لغت،، نقد ادب کی وہ خدمت انجام پائی جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی ادب شاید نہیں کرسکتا۔

ایک مرحلہ میں ، خاص طور پر عباسی دور میں یونانی علوم منتقل ہوئے۔ ان میں طب، ریاضی، صنعت و حرفت اور فلکیات جیسے طبیعی اور سائنسی علوم کے ساتھ فلسفہ اور الٰہیات بھی شامل تھے۔ ان کی اشاعت سے اسلام کے مبادی اور اساسات پر عقلی بحثیں شروع ہوئیں اور امت میں بہت سے گم راہ فرقے وجود میں آئے۔فارابی، ابن سینا، رازی، غزالی، ابن رشد اور ابن تیمیہ جیسے محققین نے یونانی علوم کا گہرائی سے جائزہ لیا، اس کی کم زوریاں واضح کیں اور مخالفین و معاندین کے علاوہ امت میں جو فتنے ابھر رہے تھے، ان کا جواب دیا۔ اس سے علم کلام وجود میں آیا۔

یہ ایک زبردست علمی تحریک تھی جو چار صدیوں تک پوری قوت کے ساتھ جاری رہی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی تابانی ماند پڑنے لگی۔قدیم تحقیقات و مباحث توباقی ر ہے، لیکن تحقیق کے نئے گوشے تلاش نہیں کیے جاسکے۔ اجتہادی فکر اور آزادانہ نقد و نظر کی جگہ علمی جمود نے لے لی۔ اس میں شک نہیں ، اس کے بعد بھی ایسے ماہرینِ علم اور ائمہ دین پیدا ہوتے رہے جن کی صلاحیت اور قابلیت اور دینی فہم پر امت کو اعتماد رہا ہے اور جن کی خدمات سے اسلامی تاریخ کے ابواب روشن ہیں ، لیکن پورے عالم ِ اسلام میں جو علمی فضا تھی وہ دوبارہ بحال نہ ہوسکی۔

اس صورتِ حال پر صدیاں گزر گئیں ۔ اس کے وجوہ و اسباب پر بحث کی اس وقت ضرورت نہیں ہے۔ دور ِجدید نے حالات بدل دیے ہیں ۔ اب ہمارا سابقہ نئے حالات اور مسائل سے ہے۔پوری دنیا ایک عالمی بستی (GLOBAL VILLAGE) کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس میں نئے علمی چیلنجز کا سامنا ہے۔اس کے لیے دورِ حاضر میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے فکری و عملی سوالات کا بے لاگ تجزیہ کرنااور ان کے سلسلہ میں اسلام کا موقف پیش کرنا ہوگا۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ موجودہ مسائل اور ان کی پیچیدگیوں سے بھرپور آگہی کے ساتھ قرآن و حدیث کے نصوص، ان کے مفہوم ومنشا، ان کے اشارات اور مقتضیات سے بخوبی واقفیت ہو۔اس سلسلہ میں ہمارے اسلاف کی جو قابلِ قدر اور ناقابلِ فراموش خدمات ہیں ، ان سے لازماً استفادہ کرنا ہوگا اور جہاں اجتہاد کی ضرورت ہو، اجتہاد بھی کرنا ہوگا اور نئی راہیں تلاش کرنی ہوں گی۔

موجودہ دور میں اسلامی نقطۂ نظر سے جن مسائل نے نمایاں اہمیت اختیار کرلی ہے ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے:

1۔اسلام اور امن عالم: اس وقت اسلام کو امن مخالف مذہب کی حیثیت سے پیش کیاجارہاہے اور اسے دہشت گردی کا محرک قرار دیاجارہاہے۔ دہشت گردی کے ہر واقعہ کو اسلام سے جوڑنے کی سعی کی جارہی ہے۔ اس کی ایک وجہ بعض وہ تحریکات بھی ہیں جو اسلام کے نام پر دہشت گردی پھیلارہی ہیں ۔

2۔ دور حاضر میں اسلام کی معنویت اور اس کا قابل عمل ہونا۔

3۔انسان کے ذرائع علم کی محدودیت، ان کا نقص، وحی ورسالت کی ضرورت اور اس کا اثبات۔

4۔ احکام شریعت کی حکمت اور معنویت۔ اس میں عبادات اور اخلاق سے لے کر معاشرت و سیاست تک سب ہی احکام آتے ہیں ۔

5۔مقاصدِ شریعت اور ان کی تکمیل کس طرح ہوسکتی ہے؟

6۔ترجیحاتِ دین:احکام شریعت میں بعض کو بعض پر ترجیح حاصل ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کی بنیادی تعلیمات کی روشنی میں حالات کے لحاظ سے ان ترجیحات میں کیا تبدیلی ہوسکتی ہے؟

7۔امت کا چالیس فی صد(%40)حصہ دنیا کے مختلف ممالک میں اقلیت میں ہے۔ ان کے بعض مسائل مسلم ممالک سے الگ نوعیت کے ہیں ۔ اس سلسلے میں فقہ الاقلیات ایک مستقل موضوع ہے۔

8۔اسی ذیل میں رخصت اور عزیمت، ضرورت اور اضطرار کے پہلو بھی زیر بحث آتے رہے ہیں ۔

9۔جہاد اور اس کے احکام:اسلام کی جن تعلیمات کو خاص ہدف تنقید بنایاجاتاہے ان میں جہاد بھی ہے۔ اسے امن عالم کے لیے سنگین خطرہ بتایاجاتاہے۔ اس کے احکام کی وضاحت ضروری ہے۔

10۔اسلامی ریاست کے غیر اسلامی ریاست سے تعلقات۔

بعض اور موضوعات کا بھی اس میں اضافہ ہوسکتاہے۔ اس میں شک نہیں کہ عالمِ اسلام کے بعض معتبر اہلِ علم نے ان موضوعات پر اور ان جیسے دیگر موضوعات پر عمدہ خدمات انجام دی ہیں ۔ ان کا تعلق عرب اور عجم دونوں سے ہے،لیکن ان کے درمیان ربط اور تبادلۂ خیال کی کوئی ٹھوس شکل نہیں نکل سکی ہے۔ کبھی کبھی سمپوزیم اور سمینارہوجاتے ہیں ، لیکن اس سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا،حالاں کہ آج کے دور میں انٹر نیٹ کی وجہ سے باہم ربط کے امکانات ہیں ۔ اس کی کوئی صورت ضرور نکلنی چاہیے۔

دور حاضر میں مختلف جہات سے جو علمی خدمات انجام پارہی ہیں ،کھلے دل سے ان کے اعتراف کے ساتھ بعض باتیں ان احباب سے عرض کی جارہی ہیں جواپنے اندر یہی پاک جذبہ رکھتے ہیں ۔ہوسکتاہے کہ اس کے دو ایک پہلو ان اصحاب کے لیے بھی قابل توجہ ہوں جو عملاََ اس میدان میں سعی بلیغ کررہے ہیں ۔

1۔عربی زبان کی اہمیت بہت واضح ہے۔ قرآن و حدیث دین کے اصل مآخذ ہیں ۔ ان سے استفادہ براہِ راست عربی زبان ہی کے ذریعہ ہوسکتاہے۔ ثانوی مآخذاور تراجم کی مدد سے دینی موضوعات پر تحقیق کا حق کبھی ادانہیں ہوسکتا۔اسی طرح اسلامی علوم کا بڑا ذخیرہ عربی زبان میں ہے۔ کسی موضوع پر تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے ماضی کے سرمایہ سے واقفیت لازمی ہے۔ عربی زبان کی اہمیت کے اور بھی پہلو ہیں ۔

2۔دور حاضر میں تحقیق کا معیارکافی بلند ہے۔ اس کے مخصوص تقاضے ہیں ۔ اس کے لیے وسائل کی فراوانی بھی ہے۔اب معلومات کے حصول کے لیے لائبریریوں میں جانے اور متعلقہ مواد کو جمع کرنے کے لیے کتابوں کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں ۔ اب لائبریریاں خود آدمی کے لیپ ٹاپ میں موجود ہیں ۔ جو کام ہفتوں میں ہوتاتھا وہ اب لمحوں میں ہوتاہے۔کسی بھی موضوع پر اعداد و شمار، جو برسوں کی محنت سے جمع کیے جاتے ہیں اور جن سے دنیا متاثر ہوتی ہے، وہ بغیر محنت کے دست یاب ہیں ۔ اس سے فائدہ اٹھاکر بہت سے مزعومات کو’ تحقیق‘ کی شکل میں پیش کیاجاتا ہے۔ جو اصحاب، اسلام کی علمی مساعی میں حصہ لینا چاہتے ہیں ، ان کے لیے ضروی ہے کہ وہ ان تمام سہولتوں سے بھر پور استفادہ کریں ۔ان سے خام مواد حاصل کریں اور اسلام کی روشنی میں ان کی خامیاں اور کم زوریاں واضح کریں اور ان کی تحقیق آج کے معیار سے ہم آہنگ ہی نہیں ، بلکہ اس سے بلند ہو۔ اسی وقت یہ دوسروں کو متوجہ کرسکے گی۔

3۔اسلام نے اساسی عقائد کے ساتھ ایک نظام شریعت بھی دیاہے جو پوری زندگی کا احاطہ کرتاہے۔یہ ایک ابدی قانون ہے۔ ہردور میں اس پر عمل ہوسکتاہے۔ یہ کسی بھی دور میں ناقابل عمل نہیں ہے۔ اس میں انسان کی ضروریات، مجبوریوں اور حالات زمانہ کے رعایت پائی جاتی ہے ۔ دین کے آسان اور قابل عمل ہونے کی قرآن میں بار بار صراحت کی گئی ہے۔ جیسے لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعٰھا۔البقرۃ:286۔ (اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا)۔وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَج ۔ الحج:78۔ (اللہ تعالیٰ نے دین میں تمہارے لیے تنگی نہیں رکھی ہے)۔ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر۔البقرۃ:185۔(اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتاہے، سختی اسے منظور نہیں ہے۔یا اس نے سماج کے معروفات کو اہمیت دی ہے ۔ معاشرتی احکام کے سلسلے میں فرمایا: وعاشروھن بالمعروف(النساء:99) عورتوں کے ساتھ معروف کے مطابق سلوک کرو۔یا والدین کے متعلق کہا ۔وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفا۔ لقمان:15۔(دنیا میں والدین کے ساتھ اس طرح برتائو کرو، جو معروف ہے)۔

 فقہاء کرام نے ان قرآنی تعلیمات کی روشنی میں رفع حرج کے اصول وضع کیے ہیں ۔جن سے ان کی مزید وضاحت ہوتی ہے ۔اس پر غور کرتے وقت یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ ان اصول کا انطباق کہاں فرد پر ہوگا اور کہاں جماعت پر؟ اور ان حالات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا جن میں ان پر عمل ہوسکتاہے۔بنو اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات، ان کی ناسپاسی، نفسانی اغراض کے لیے دین میں اختلاف اور اس سے انحراف کے تذکرہ کے بعد فرمایا:ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلَی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاء  الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون۔الجاثیۃ:18۔(پھر ہم نے آپ کو دین کے معاملہ میں ایک شریعت پر کردیا۔ آپ اس کی اتباع کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو علم نہیں رکھتے) اس لیے ان اصول کی ایسی تعبیر و تشریح نہیں ہونی چاہیے جس سے شریعت کی اہمیت کم ہو، اس پر عمل کا جذبہ کم زور پڑنے لگے۔ اور حالات کی سختی اور سہولت کے نام پر احکام شریعت سے فرار کا ذہن نہ بننے پائے۔

4۔ آدمی اپنے ماحول کی پیداوار ہوتاہے۔ بڑے سے بڑا مفکر بھی ماحول کے اثرات سے پوری طرح آزاد نہیں ہوپاتا۔اسلامی مفکرین بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔ ہر اسلامی مفکرنے اپنے دور کے علمی تقاضوں کی تکمیل اور فکری خامیوں کو رفع کرنے کی سعی کی۔ اس سلسلہ میں یہ سوال ابھرتاہے کہ یہ مفکرین خود اپنے دور کے افکار اور رجحانات سے کہیں متاثر تو نہیں ہیں ؟اور کیا انہوں نے قرآن و حدیث کا  آزادانہ مطالعہ کیاہے؟ اسی طرح یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ ان پر ماحول کا رد عمل تو نہیں تھا؟اس لیے کہ رد عمل میں اعتدال و توازن باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد ان فکری کوششوں کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔اسی بنیاد پر ہم اپنی علمی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور جن ائمہ دین اور محققین کی خدمات اپنے لیے باعثِ فخر تسلیم کرتے ہیں ، ان کے بارے میں ہمارا یہ یقین ہے کہ ان کی کوششیں گوایک خاص دور میں اور خاص ماحول میں تھیں ، لیکن اس کے اثرات سے ممکنہ حدتک آزاد رہی ہیں ۔

موجودہ دور کی اساس الحاد پر ہے۔ اس کی اخلاقیات، تہذیب، معاشرت، قانون اور سیاست سب اس کے تابع ہیں ۔ اس کے حق میں اس نے پوری فضا قائم کی ہے اور علمی بنیادوں پراسے استوار کرنے کی غیر معمولی سعی کی ہے۔ پوری دنیا اس سے متاثر ہی نہیں ، مرعوب بھی ہے۔

امت مسلمہ پر بھی اس کے اثرات ہیں ۔ ہماری موجودہ نسل کی تعلیم و تربیت ان ہی کے اداروں میں ہورہی ہے اور وہی ان کی ذہن سازی کررہے ہیں ۔ مغرب میں جو مسلمان آبادہیں وہ اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں ۔ ان کا دینی پس منظر بھی بہت مضبوط نہیں ہے۔ہمارا مطالعہ اور تحقیق کا اس فضا سے متاثر ہونا تعجب خیزہر گز نہ ہوگا۔اس لیے اس بات کی شعوری کوشش کرنی ہوگی کہ اس کے اثرات سے ممکنہ حد تک آزاد ہوکر اسلام کا مطالعہ کیاجائے۔ اس کے لیے باہم مشورہ اور ایک دوسرے کے کام کا جائزہ لینا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کس حد تک اسلامی تعلیمات کی ترجمانی ہورہی ہے اور کہاں لغزشیں ہورہی ہیں۔ اس سے امید ہے، اسلامی ریسرچ اور تحقیق کا عمل صحیح رخ پر آگے بڑھ سکے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. سید عبد الرحیم قریشی فلاحی کہتے ہیں

    السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ امیر جماعت اسلامی ہند نے قابل قدر اور قابل عمل پوسٹ کی ھے اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے آمین قریشی عبدالرحیم بھساول کیا اسلام کی تعلیمات اور اس کی حقانیت اور حفاظت نیز اس کی ترویج و اشاعت کے لئے جماعت اسلامی الحمد للہ برسوں سے کام کر رہی ہے علم جدید کے چیلینج کا مقابلہ کیوں کر کیا جائے؟ تحقیقات اسلامی سہماہی کسی قدر خدمات انجام دے رہا ہے لیکن دنیا کی وسعت اور پھیلاو کے مقابلے میں یہ کوششیں جاری رکھیں جماعت اسلامی کا نیٹ ورک ھے بحمدہ ھے جماعت اسلامی کے متوسلین وارکان میں سے جو اس کام کے اہل ہوں انہیں اس کام کے لیے تیار کیا جائے اور انہیں ایسے مواقع فراہم کئے جائیں کہ وہ دلجمعی کے ساتھ اس اہم ترین ضرورت کی تکمیل کے لیے جت جائیں اللہ تعالٰی آسانی پیدا فرمائے آمین بیدہ الخیر وھو علی کل شیئ قدیر خاکسار قریشی عبد الرحیم فلاحی ریاست مہاراشٹر

تبصرے بند ہیں۔