اسلام کے سائے میں

ترتیب: وحیدحسن

گزشتہ چند سالوں میں اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1990ء سے 2000ء کے دوران ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد افراد اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرچکے ہیں جبکہ 2001ء میں نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد دگنی ہوچکی ہے اور قرآن پاک دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔
9/11 کے بعد مذہب اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے جس کی ایک وجہ 9/11 کے بعد غیر مسلموں میں یہ تجسس پیدا ہوا ہے کہ اسلام کیسا مذہب ہے کہ جس کے ماننے والے اس پر اپنی جان تک نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ غیر مسلموں کا یہی تجسس اُنہیں قرآن پاک کے مطالعے کی طرف لے جارہا ہے جس سے اُنہیں نہ صرف قلبی سکون حاصل ہورہا ہے بلکہ اسلام کو قریب سے سمجھنے اور جاننے کاموقع بھی مل رہا ہے جبکہ اُن کے ذہنوں سے اسلام کے بارے میں مغربی میڈیا کی پھیلائی گئی غلط فہمیاں بھی دور ہورہی ہیں۔

اس وقت مسلمانوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے یعنی اوسطاً ہر خاتون 3عشاریہ ایک بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ عیسائیوں میں ہر خاتون اوسطاً 2عشاریہ 7 بچوں کو جنم دے رہی ہے اور ہندوؤں میں بچے پیدا کرنے کی اوسط شرح 2 عشاریہ چار ہے۔۔آئندہ 20 سال میں اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب ہوگا اور مساجد کی تعداد گرجا گھروں سے تجاوز کرجائے گی۔
بھارت کے ایک ہندو پنڈت ساکشی مہاراج نے، جو بعد میں سیاست میں آ گئے ہیں , اس سال کے اوائل میں یہ کہہ کر ایک بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا کہ:

٫ ہر ہندو خاتون کو چار بچوں کو جنم دینا چاہیے تاکہ ہندو مت کی بقاء کو یقینی بنایا جا سکے؛

جرمن شہر آخن کے مسلمان کارکن منیر عزاؤئی جرمنوں کے اسلام قبول کرنے کے تقریباً تین سو واقعات کے شاہد ہیں اور بتاتے ہیں کہ :

٫جرمنی میں لوگ اسلام کا قائل ہونے کے بعد ہی اسے اپنے مذہب کے طور پر اپناتے ہیں ؛۔
جرمنی میں 1980ء سے اب تک تقریباً 25 ہزار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔ نکول نامی 28 سالہ ایک جرمن نو مسلم

خاتون کہتی ہیں کہ:

٫ اسلام میں ہر بات کا واضح جواب موجود ہے،۔نکول اسلام کے بارے میں کئی کتابیں پڑھ چکی ہیں اور اِس بات سے متاثر ہیں کہ ’اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے‘۔ ایک اور نو مسلم 35 سالہ ٹُولیا  کہتی ہیں کہ ’اسلام میں وہی بھائی چارہ، خلوص، خوش اخلاقی اور انسان کے اندر اچھائی دیکھنے کا وہی تصور ہے، جو مجھے بچپن میں والدین کی تربیت سے ملا تھا‘۔

عالمی اردو خبررساں ادارے‘‘ نیوزنور’’ کی 5ستمبر2013 کی حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق لاطینی امریکہ کی 50 ملین آبادی میں سے 23 لاکھ کے قریب افراد نے اسلام قبول کیا۔ اس سروے کے مطابق لاطینی امریکہ کی 50 ملین آبادی ہی سے 2 لاکھ کے قریب افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔

ہیٹی میں عیسائیت کے ماننے والے سب سے زیادہ ہیں ، لیکن 2010ء میں آنے والے زلزلے کے بعد اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جِس میں تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک جب کہ 10 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے تھے۔تاہم، اسلام اختیار کرنے والی کِشنر بِلی، جو رات کو نشر ہونے والے ٹیلی ویژن پروگرام کی ہوسٹ ہیں ، کہتی ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے کیے جانے والے امدادی کام نے لوگوں کو متاثر کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ زلزلے کے بعد ہر جگہ سے مسلمان یہاں پہنچے، جن میں برطانیہ، امریکہ، فرانس، بیلجیئم جیسے ممالک شامل ہیں ، تاکہ آفت زدہ لوگوں کی مدد کی جاسکے۔ ’ہاں ، زلزلے کے بعد ہم نے ہیٹی کے بہت سے افراد کو اسلام قبول کرتے دیکھا‘۔بِلی نے کہا کہ زلزلے کے بعد مسلمانوں نے ہیٹی کے لوگوں کی زندگیوں میں نئی سمت کے تعین میں مدد دی۔

برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایک لاکھ کے قریب افراد اپنے مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئے ہیں۔ ان میں سفید فام خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔فیتھ میئرز آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق 2001ء تک 60 ہزار برطانوی باشندوں نے اسلام قبول کیا تھا جبکہ اب یہ تعداد 90 ہزار سے ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔122 نومسلموں سے کئے گئے سروے کے مطابق گزشتہ سال مسلمان ہونے والوں میں سے 56 فیصد سفید فام برطانوی باشندے ہیں اور ان میں 62 فیصد سفید فام خواتین بھی شامل ہیں۔ مسلمان ہونے والوں کی اوسط عمر 27 سال ہے۔

رپورٹ کے مطابق نومسلم افراد کی بڑی تعداد نے شکوہ کیا ہے کہ انہیں مسلمان بننے کے فوراً بعد اپنے خاندانوں کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کا رویہ بتدریج درست ہوتا گیا۔

نومسلموں کی ایک بڑی تعداد خود کو برٹش اور مسلمان تصور کرتی ہے اور اسے برطانوی معاشرے اور کلچر میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ یہ نومسلم سمجھتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل ان کی زندگی بے مقصد تھی۔

اب یہاں صرف انگریزی طرز زندگی ہی نہیں دکھائی دیتی بلکہ اسلامی تمدن کی روشنی بھی دکھائی دینے لگی ہے۔یہاں مسلمانوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ بات صرف لندن ہی کی نہیں بلکہ پورے انگلینڈ کی ہے۔

برطانوی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار اور مختلف تحقیقات کے نتیجے ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں اسلام پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے اور عیسائیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ مسجدیں آباد ہورہی ہیں اور چرچ ویران ہورہے ہیں۔ نئی نئی مسجدیں خوب تعمیر ہورہی ہیں یا پرانی عمارتوں کو خرید کر مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف عیسائیوں کی عدم توجہی کے سبب گرجا گھروں کو بند کیا جا رہا ہے۔ کئی جگہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گرجا گھروں کے مالکان نے انھیں مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت کردیا کہ وہ اسے مسجد بنا لیں۔  نیٹسین کے برطانوی سوشل ایڈٹس یوٹس سروے کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں چرچ آف انگلینڈ کے 20 لاکھ پیروکار کم ہوئے ہیں تو دین اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں 10 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔نیٹسین کی ناومی جونز نے ’’ ٹائمز آف انڈیا‘‘ سے بات چیت میں کہا، ‘1983 میں اسلام کو ماننے والوں کی تعداد کل آبادی کی محض 0.6 فیصد تھی جو 2014 میں بڑھ کر تقریبا 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

برطانیہ میں اشاعتِ اسلام مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا ایک اہم سبب ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں ہر سال 5000 افراد اسلام قبول کرتے ہیں جن میں 70فیصد خواتین ہوتی ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہر مہینے سینکڑوں افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔ ان کی تعداد اب لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ان اعدادوشمار پر نظر رکھنے والے مانتے ہیں کہ عنقریب اسلام قبول کرنے والوں کی سالانہ تعداد 14000سے 250000 کے بیچ ہوجائیگی۔ ایک سروے کے مطابق اسلام قبول کرنے والوں میں 70فیصد سیاہ فام اور جوان ہوتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کی اوسط عمر 27سال ہوتی ہے۔

سوانسی یونیورسیٹی کی کیون برک نے ایک سروے کیا جس میں پایا کہ اسلام قبول کرنے والوں میں بیشتر وہ لوگ تھے جو برطانوی سماج کے منفی رخ سے نالاں تھے۔وہ شراب نوشی اور نشہ خوری کو ناپسند کرتے تھے اور جنسی بے راہ روی کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ اسلام قبول کرنے والے یہاں کے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی ناپسندکرتے تھے اور انھیں ان تمام مسائل کا حل اسلام میں نظر آیا۔ سروے کے مطابق جن خواتین نے اسلام قبول کیا ، ان میں سے نصف نے حجاب پہننا شروع کردیا اور پانچ فیصد نے تو برقع کے ذریعے اپنے چہرے کو بھی ڈھک لیا۔اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد قیدیوں کی بھی پائی گئی۔ جیلوں میں بند لوگ یکسوئی کے ساتھ اسلام کے مطالعے کا موقع پاتے ہیں اور اسے اپنا لیتے ہیں۔

مختلف مغربی ملکوں میں اسلام قبول کرنے والے افراد میں ، بعض رپورٹوں کے مطابق عورتوں کا تناسب مردوں سے چار گنا تک ہے۔ مثلاً چارجنوری۲۰۱۱ء کو برطانوی روزنامہ انڈی پنڈنٹ میں ’’برطانیہ کی اسلامی صورت گری:غیرمعمولی تعداد کا قبول اسلام‘‘The Islamification of Britain: record numbers embrace Muslim faith کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ’’پچھلے دس سال میں برطانیہ میں مسلمان ہونے والے انگریزوں کی تعداد تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔‘‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس کے باوجود کہ اسلام کو اکثر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، ہزاروں برطانوی ہر سال اسلام قبول کررہے ہیں۔ ‘‘ رپورٹ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں بھاری اکثریت عورتوں کی ہے۔

نائن الیون کے تقریباً ڈھائی سال بعد بائیس فروری 2002ء کو سنڈے ٹائمز نے ’’اسلامی برطانیہ ممتاز افراد کو متاثر کررہا ہے‘‘ (Islamic Britain lures top people) کے عنوان سے شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ’’مغربی اقدار سے غیرمطمئن اور مایوس ہونے کے بعد چودہ ہزارگورے برطانویوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اوربرطانیہ کے کئی چوٹی کے لینڈ لارڈز، سیلی بریٹیز اورحکومت کی ممتاز شخصیتوں کی اولادیں مسلم عقیدے کے سخت اصول اپنا چکی ہیں۔ ‘‘

برطانیہ ہی کی طرح امریکہ میں بھی قبول اسلام کا رجحان حیرت انگیز ہے اور تین امریکی اسکالروں کی ایک مشترکہ تحقیقی تصنیف میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں عورتوں کا تناسب مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے جبکہ نائن الیون کے بعد ہر سال اوسطاً بیس ہزار امریکی مسلمان ہورہے ہیں۔ قبول اسلام کے رجحان میں یہ نمایاں اضافہ نائن الیون واقعات کے فوراً بعد رونما ہوا، جب اسلام کے بارے میں عمومی دلچسپی بڑھی۔ یہ عین اس وقت ہوا جب اس کے بالکل متضاد صورت حال زیادہ متوقع تھی۔ ان محققین کے مطابق، امریکیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد اسلام قبول کررہی ہے،جن میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا تناسب تقریباً ایک نسبت چار کا ہے۔

گزشتہ 25 سالوں کے دوران فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دوگنا ہو گئی ہے۔خبررساں ایجنسی شبستان کی رپورٹ کے مطابق فرانس کی وزارت داخلہ میں مذہبی امور کے سربراہ برنارڈ گوڈار نے کہا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ فرانس میں موجود ساٹھ لاکھ مسلمانوں میں سے تقریبا ایک لاکھ تعداد ان مسلمانوں کی ہے کہ جنہوں نے اس سال اسلام قبول کیا ہے جبکہ 1987ء میں یہ تعداد 50 ہزار افراد تھی۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق گوڈار نے کہا ہے کہ 2000ء میں اسلام قبول کرنے والے افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور دین تبدیل کرنے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آپ کسی بھی غیرمسلم ملک کے بارے میں معلومات کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہاں کے لوگوں میں مسلمانوں سے شادیاں کرنے کارجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے جس کی واضح مثال امریکہ اور بھارت ہیں جہاں اسلام قبول کرنے کا رجحان سب سے زیادہ ہے ،امریکہ کی سڑکوں اور بازاروں میں اب آپ کو برقع پوش خواتین کی بڑی تعداد نظر آئے گی جن میں مسلمان گھرانوں کی خواتین کے ہمراہ وہ غیرمسلم خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنا مذہب چھوڑ کراسلام قبول کیا ہے ،آج کل امریکہ میں غیرمسلم خواتین بہت تیزی کے ساتھ اسلام قبول کررہی ہیں اور مسلمان مردوں سے شادی کرنا ان کی اولین ترجیح ہوتی جارہی ہے۔

حال میں سعودی عرب میں متعین برطانوی سفیر سائمن کولینز کے قبول اسلام نے مغرب میں تہلکہ مچادیا ہے۔ عراق اور شام سمیت کئی اسلامی ممالک میں سفارتی خدمات انجام دینے والے سائمن کولینز وہ پہلے برطانوی سفارتکار ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں اسلام قبول کرکے اپنی شامی نژاد اہلیہ ہدیٰ مجارکیش کے ساتھ حج ادا کیا اور اس طرح وہ اسلام قبول کرنے والی مقبول شخصیت بن گئے۔ اِن سے قبل سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی سالی لورین بوتھ نے اسلام قبول کرکے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔

دنیا میں جن سربراہان مملکت نے اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا، اُن میں قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف اور گبون کے صدر عمر بونگو شامل ہیں۔ نذر بائیوف سوویت دور میں لادین رہے تاہم اسلام قبول کرنے کے بعد وہ راسخ العقیدہ مسلمان ثابت ہوئے اور انہوں نے حج بھی ادا کیا۔ تقریباً 42 سال (1967ء سے 2009ء) تک گبون کے صدر رہنے والے البرٹ برنارڈ بونگو نے 1973ء میں دورہ لیبیا کے موقع پر اسلام قبول کرکے اپنا نام عمر رکھا، اُن کے اسلام قبول کرنے سے گبون میں مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اسی طرح یوگینڈا کے سابق صدر عیدی امین نے کیتھولک عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کیا۔ اس کے علاوہ اسلام قبول کرنے والی دیگر عالمی شخصیات میں 3 بار عالمی ہیوی ویٹ باکسنگ چمپئن رہنے والے محمد علی کلے بھی شامل ہیں جنہوں نے 1964ء میں اسلام قبول کیا۔ اس سے قبل اُن کے بھائی روڈی کلے نے 1961ء میں اسلام قبول کیا تھا جو محمد علی کے اسلام قبول کرنے کا سبب بنے۔

حال ہی میں محمد علی کی وفات کے بعد اُن کی اسلامی طریقے سے تدفین کی گئی جس میں دنیا کے کئی سربراہان مملکت اور نامور شخصیات نے شرکت کی۔ محمد علی کے علاوہ عالمی ہیوی ویٹ باکسنگ چمپئن مائیک ٹائی سن (ملک عبدالعزیز) بھی دوران قید اسلام قبول کرچکے ہیں جنہوں نے بعد ازاں فریضہ حج بھی ادا کیا۔ اسی طرح اگر ماضی میں دیکھا جائے تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی دوسری اہلیہ رتن بائی نے پارسی مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا عالمی شہرت یافتہ برطانوی خاتون صحافی یوون ریڈلے نے افغانستان میں طالبان کی قید سے رہائی کے بعد 2003ء میں اسلام قبول کیا۔ بھارتی اداکارہ دیویا بھارتی (ثناء) نے معروف بھارتی پروڈیوسر ساجد ناڈیاڈ والا سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا تاہم ہندو انتہا پسندوں کی دھمکیوں کے باعث انہوں نے 1993ء میں صرف 19 سال کی عمر میں خود کشی کرلی۔ مشہور بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور (عائشہ سلطانہ) نے سابق بھارتی کرکٹر نواب منصور علی خان سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا۔ گلوکار کشور کمار نے 1960ء میں مدھوبالا سے شادی کے بعد اسلام قبول کرکے اپنا اسلامی نام عبدالکریم رکھا۔ آسکر ایوارڈ یافتہ بھارتی موسیقار اے آر رحمن (اللہ رکھا رحمن) نے ہندو مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا جنہیں ’’ٹائم میگزین‘‘ 2009ء میں دنیا کی 100 اثر و رسوخ رکھنے والی بااثر ترین شخصیات میں شامل کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ سابق معروف امریکی باسکٹ بال کھلاڑی لیو الیسٹڈر( کریم عبدالجبار)، مشہور پاپ گلوکار مائیکل جیکسن کے بھائی جرمین جیکسن (محمد عبدالعزیز) اور بہن جینٹ جیکسن، معروف بھارتی اداکار اے ایس دلیپ کمار (یوسف خان)، اردن کی ملکہ نور بھی اسلام قبول کرنے والی دنیا کی معروف شخصیات میں شامل ہیں۔

برطانیہ اور فرانس میں گزشتہ دس سالوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ فرانس میں مسلمان آبادی کی تیز گروتھ کے پیش نظر ایک اندازے کے مطابق 2027ء تک فرانس کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہوگا۔ اسی طرح برطانیہ میں گزشتہ 30 سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں 30 گنا اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر 25 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اگر برطانیہ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو 2020ء تک اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا جس کا واضح ثبوت پاکستانی نژاد مسلمان صادق خان کا لندن کا میئر منتخب ہونا ہے۔ یورپی یونین کے ملک بلجیم کی آبادی کا 25 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ جرمنی میں گزشتہ ایک سال میں 4 ہزار سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں اور جرمن حکومت نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو 2050ء تک جرمنی مسلم اکثریتی ملک بن جائے گا۔ان اعداد و شمار سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یورپی یونین کے 27 ممبر ممالک کی اوسط شرح پیدائش صرف 1.38 فیصد ہے مگر مختلف ممالک سے یورپی ممالک میں رہائش اختیار کرنے والے مسلمانوں نے یورپ کی گرتی ہوئی شرح پیدائش کو سہارا دے رکھا ہے۔

برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک اور امریکہ میں اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کئی سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کے اسلام کی طرف مائل ہونے کی بڑی وجہ مغربی معاشرے میں مسلسل پھیلتی ہوئی بے راہ روی اور فحاشی ہے جس سے وہ تنگ آچکے ہیں۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ دشمن طاقتوں کی آلہ کار بننے کے بجائے باہمی اختلافات بھول کر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔

یہ تمام تفصیل ظاہر کر رہی ہے کہ ملحدین کے اعتراض کے برعکس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ صرف زیادہ بچے پیدا کرنے کا نتیجہ نہیں بلکہ قرآن سے غیر مسلم لوگوں کے تیزی سے متاثر ہونے، مسلمانوں کے عیاشی اور زنا کی بجائے طاقتور خاندانی نظام جس میں اپنی نسل برقرار رکھنے کے لیے اولاد کی پیدائش،اسلام کی شاندار تعلیمات، مسلمانوں کا حسن سلوک اور خواتین کے بارے میں اعلی تعلیمات شامل ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا خصوصا یورپ اور امریکہ میں بےشمار تعداد میں لوگ الحاد اور دیگر مذاہب چھوڑ کر تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔

اسلام عروج حاصل کر رہا ہے اور الحاد زوال کے گڑھے میں گر رہا ہے۔جدید سائنسی تحقیقات تیزی سے الحادی سائنس کی تردید اور مذہب کی تائید کررہی ہیں اور دنیا کے کئ نامور سائنسدان مذہب کو حقیقت تسلیم کرنے لگے ہیں۔ الحمد للہ

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    یورپ میں اسلام کا فروغ

    ماہرین کا خیال ہے کہ 2070 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے زائد ہوگی۔
    تاریخ میں اسپین میں مسلمانوں نے ساڑھے چھ سو سال حکومت کی اور پورے یورپ کو علم اور تہزیب دی اور عیسائیت کو قائم رہنے دیا اور جبری طور پر لوگوں کو مسلمان نہیں کیا۔۔
    پھر مسلمانوں کی شکست کے بعد اسپین والوں نے مسلمانوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنے کے لئے تین آپشن رکھے، ملک چھوڑ دیں، عیسائی بن جائیں، یا قتل کردیئے جائیں ۔
    ملکہ ازابیل نے لاکھوں نہتے مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا۔
    اسپین کو مکمّل طورپر مسلمانوں سے خالی کرایا گیا لیکن آج پھر یورپ کا مستقبل اسلام ہے۔
    جن لوگوں نے حق کی لزت نہیں چکھی۔ وہ یہ جان لیں کہ
    حق پر قائم رہنے کے لئے ہی ہجرت کی جاتی ہے۔
    یورپ میں اسلام مسلمانوں کی نقل مکانی اور مقامی لوگوں کے قبول اسلام کی وجہ سے پھیل رہا ہے اور 2070 تک یورپ کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی کے مسلمان ہونے کا امکان ہے۔
    عیسائیت سے اسلام کی طرف آنے والوں کے لئے اگر موت کی سزا بھی رکھی جائے گی تو لوگ ہجرت کرکے بھی اسلام قبول کریں گے ۔
    اس لئے کہ اسلام دینِ حق ہے۔

تبصرے بند ہیں۔